رجب طیب ایردوان
ترکی کی معیشت اور اس معاملے میں صدر طیب ایردوان کی شخصیت اور نظریہ اس وقت عالمی سطح پر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ یہ وہی ایردوان تھے جنہوں نے ۲۰۰۲ء کے بعد یورپ کے مردِ بیمار کو دنیا کی ۲۰ بڑی معاشی طاقتوں میں لاکھڑا کیا، لیکن اب یہ کہا جا رہا ہے کہ انہی کے نظریات کی وجہ سے آج ترکش کرنسی دنیا کی کمزور ترین کرنسی بن چکی ہے۔ ترک صدر دراصل مابعد کورونا معاشی صورتحال میں ایک بار پھر پُرعزم ہوگئے ہیں کہ وہ شرح سود کو کم سے کم درجے پر لائیں گے۔ نظریاتی طور پر یہ ان کا فارمولا ہے کہ سود وجہ ہے اور مہنگائی حاصل ہے۔ گزشتہ ۲ ماہ میں انہوں نے اپنا یہ فارمولا بار بار[مزید پڑھیے]
گزشتہ جولائی سے ترک بحری افواج کا ایک تیل بردار بحری جہاز جو یونان کے ایک چھوٹے سے جزیرے ’’کاستیلوریزو‘‘ میں ہائیڈرو کاربن کی تلاش کررہا تھا، بارہا اس کا یونان کے بحری ادارے کے حکام سے تنازع ہوا۔ یاد رہے یونان اور ترکی کی آپس میں دیرینہ مخاصمت ہے اور دونوں کے درمیان بحیرۂ روم کی بحری سرحدوں پر کشیدگی رہتی ہے۔ جب کبھی یونان اور ترکی اس مسئلے پرتنازع کا شکار ہوتے ہیں، اس کی شدت کو کو کم کرنے کے لیے ثالثی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ درحقیت ’’کیستیلوریزو تنازع‘‘ ترکی کے جارحانہ عزائم، غلبے کی جنگ اور برسوں پر محیط چپقلش کا شاخسانہ ہے۔ اس دیرینہ لڑائی میں شدت آنے کی بنیادی وجہ ترکی کا اپنی محتاط اور محاذ آرائی سے [مزید پڑھیے]
اگر سیاست ممکنات کا کھیل ہے تو رجب طیب ایردوان اس کے سب سے نمایاں کھلاڑی ہیں۔گزشتہ سال ستمبر میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے فیصلے سے ترک صدر مشتعل ہوگئے۔ تاہم دسمبر کے اوائل تک خود کو عثمانیوں سے منسوب کرنے والے صدر نے اسرائیل میں ایک عبرانی بولنے والا سفیر بھیج دیا، دوسال بعد ترکی اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات بحال ہوگئے۔شام اور عراق میں ترکی کی فوجی مداخلت، اخوان المسلمون کی حمایت اور خاشقجی کے قتل کے واقعات سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات پر طویل اثرات ڈالیں گے۔ تاہم ریاض میں جی۔۲۰ سربراہی اجلاس سے قبل شاہ سلمان کے ترک صدر کو فون سے دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہونے کی قیاس [مزید پڑھیے]
پچھلی ایک دہائی سے نیٹو کا ایک اہم رکن اور یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کا خواہش مند ترکی ابھرتی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے، جو فرانس اور امریکا جیسے طاقتور ملکوں کو کھلے عام چیلنج کررہا ہے۔ نیٹو میں امریکا کے بعد دوسری بڑی فوج رکھنے والے ترکی نے کئی خطرات مول لیے ہیں۔ شام، عراق، جنوبی قفقاز، لیبیا اور مشرقی بحیرۂ روم کے علاقوں میں ترکی صورتحال کو اپنے حق میں کرنا چاہتا ہے۔ یہ طرزِ عمل ترکی کی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے، ماضی میں ترکی نے بیرونی مہم جوئی کو مکمل طور پر ترک کردیا تھا۔ جدید ترکی کی قیادت کرنے والے رجب طیب ایردوان ۲۰۰۳ء میں وزیراعظم بنے، وہ اس منصب پر ۲۰۱۴ء [مزید پڑھیے]
زیر نظر مضمون عربی زبان کی معروف ویب گاہ www.noonpost.com سے لیا گیا ہے،اسے تیونس کی صحافی اور نامہ نگار سمیہ الغنوشی نے تحریر کیا ہے، مشرق وسطی ان کا خاص موضوع ہے۔ادارہ سلطان محمد فاتح نے ۲۹ مئی ۱۴۵۳ء کو فتح قسطنطنیہ کے بعد مسجد آیا صوفیہ کو بیزنطینوں کے قبضے سے چھڑایا اور اناطولیہ کے قلب سے اسلام مخالف طاقتوں کو یہ واضح پیغام دیا کہ اسلام اب پوری قوت اور شان و شوکت سے اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرے گا۔ اس سے قبل دمشق اور بغداد کئی صدیوں تک اسلامی خلافت کے مراکز تھے۔ یکم فروری ۱۹۲۵ء کو ایک اسلام بیزار، لبرل، آمر نے اس عظیم مسجد کو عجائب گھر میں تبدیل کرنے کا اعلان کر دیا۔ مسجد کی صفوں اور [مزید پڑھیے]
بہت سی دوسری معیشتوں کی طرح ترک معیشت بھی خرابی سے دوچار ہے اور مکمل یا بہت بڑے پیمانے کی ناکامی کی طرف بڑھنے کی راہ دیکھ رہی ہے۔ تین سال کے دوران ترک کرنسی لیرا امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کم و بیش ۹۰ فیصد تک کھوچکی ہے۔ لیرا کو بچانے کے لیے ترک قیادت نے گزشتہ ماہ اپنے بین الاقوامی کرنسی ریزروز کا ایک بڑا حصہ داؤ پر لگادیا۔ ترکی کی بہت سی کمپنیوں پر غیر معمولی مالیاتی دباؤ ہے۔ زر مبادلہ کی شکل میں ان کے واجبات کم و بیش ۳۰۰؍ ارب ڈالر کے ہیں۔ یہ کمپنیاں معیشتی خرابی کی غیر معمولی قیمت ادا کر رہی ہیں۔ ترک رہنما رجب طیب ایردوان اب بھی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے غیر [مزید پڑھیے]
زیر نظر مضمون کا بنیادی مقصد خوارج اور ترکی کی گولن تحریک کے طریق ہائے فکر و کار میں مماثلت تلاش کرنا ہے۔ یہ مضمون فتح اللہ گولن کی تحریک کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ مضمون ترکی سے باہر ان مسلم نوجوانوں کے لیے ضبطِ تحریر میں لایا گیا ہے، جو گولن تحریک کے بارے میں تمام بنیادی باتیں اُس طور نہیں جاتے جس طور ترکی کے لوگ جانتے ہیں۔ خوارج کی نفسیات … حقیقت پسندانہ سوچ لوگوں کو قتل کرنے، اداروں کو تباہ کرنے اور کسی بھی ریاست یا خطے میں ترقی کے پورے عمل کو بنیاد سے محروم کرنے کے بہت سے طریقے رائج رہے ہیں۔ کچھ طریقے یکسر تباہ کن ہوتے ہیں اور کچھ ذرا کم۔ مسلم دنیا میں [مزید پڑھیے]
ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں آق پارٹی کے صدر دفتر کے باہر لوگوں کا ہجوم جمع تھا۔ہزاروں لوگ آق پارٹی کی جیت کا جشن منارہے تھے، جن میں خواتین بھی شامل تھیں ۔ایک شخص جس نے اپنے ہاتھ میں رجب طیب ایردوان کی تصویر اور سلطنت ِ عثمانیہ کے نشان والا جھنڈا تھاما ہوا تھا وہ پکار رہا تھا کہ ’’یہ ترکی کی نئی آزادی ہے‘‘ لیکن اُس شور میں اس کی آواز کم ہی سنائی دے رہی تھی۔ایک اور شخص جو کہ اسکول کے استاد تھے ان کا کہنا تھا کہ’’ مغرب اب ہمارے ساتھ حاکمانہ رویہ اختیار نہیں کر سکتا‘‘۔ یہ ۲۴ جولائی کی شام کا منظر تھا ۔ یہ دن کمال اتا ترک کے قائم کردہ ترکی کا ممکنہ طور پر آخری [مزید پڑھیے]
ترکی میں انتخابات شفاف نہیں ہوئے۔ صدر رجب طیب ایردوان، جو اس وقت نئی مدت صدارت کا جشن منا رہے ہیں، کو میڈیا کی جانب سے ان کی حمایت میں کئی گھنٹوں تک کوریج ملی جبکہ اس دوران ان کے مخالفین کو ٹیلی ویژن اسکرین پر آنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔ اس کے علاوہ یہ رائے شماری ملک میں نافذ ایمرجنسی کے زیر تحت ہوئی جس کے تحت ۵۰ ہزار کے قریب افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے جس میں ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ بھی شامل ہیں۔ لیکن ایسے نتائج جس میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ ۸۷ فیصد پر موقوف کرنا اہم چیز کو نظرانداز کرنے جیسا ہے، ۳ کروڑ سے زائد لوگوں کو یہ دکھائی دے رہا تھا کہ جناب [مزید پڑھیے]
ترکی کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ختم ہوئے اور جیسا کہ اندازہ تھا یا یہ کہہ لیں پاکستان میں بعض حلقوں کے خدشے کے عین مطابق طیب ایردوان ترکی کے صدر منتخب ہوگئے، ان کی جماعت نے اپنی اتحادی جماعت کے ساتھ مل کر پارلیمان میں اکثریت (۶۰۰ میں سے ۳۴۴ نشستیں) حاصل کر لی ہیں۔ طیب ایردوان نے کرشمہ کر دکھایا ہے، اپنے مخالفوں کی سرتوڑ کوشش، مغربی ذرائع ابلاغ کی واضح متعصبانہ پروپیگنڈا مہم اور امریکی و برطانوی حکومتوں کی ناپسندیدگی کے باوجود وہ جیت گئے۔ ایردوان جدید ترک تاریخ کے مقبول ترین اور سب سے طاقتور رہنما بن کر ابھرے۔ جدید ترکی بانی مصطفی کمال اتاترک کے بعد پہلی بار کسی حکمران کو اتنی آئینی قوت، اختیار اور عوامی مقبولیت حاصل ہوئی [مزید پڑھیے]
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اب تک پوری ریاست کو اُس طرح مٹھی میں نہیں لیا ہے جس طرح ترکی کے صدر ایردوان نے لے رکھا ہے پھر بھی دونوں کے درمیان چند ایک معاملے میں موازنہ تو کیا جاسکتا ہے۔ ایک حقیقت تو یہ ہے کہ رجب طیب ایردوان کم و بیش پندرہ سال سے اقتدار میں ہیں۔ اس اعتبار سے مودی اُن سے گیارہ سال پیچھے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کے درمیان موازنہ عام طور پر متوازن نہیں ہوتا۔ اس کا بنیادی سبب ہے کہ ان کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ ترک رہنما ایردوان بھارتی وزیر اعظم سے گیارہ سال پہلے ایوان اقتدار میں داخل ہوئے۔ دونوں کے حالات میں بہت فرق ہے مگر پھر بھی چند امور ایسے ہیں کہ ان کے [مزید پڑھیے]
آئیے! آج آپ کو ایک مزے دار کہانی سناتا ہوں۔ ایک رات کی کہانی۔ اور جو کہانی حقیقت بن کر گزر چکی ہو، اس کے مزیدار ہونے میں کیا شک ہے۔ اس وقت جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں، یہ اس سے پورے ایک سال پہلے کا ذکر ہے۔ ترکی کے ساحلی تفریحی شہر ’’مارمریز‘‘ (Marmaris) پر ۱۵ جولائی ۲۰۱۶ء کا دن ختم ہونے کو تھا اور ۱۶ جولائی کے آغاز میں کچھ دیر تھی۔ نیم خنک ہوا کی رفاقت میں ایک پرسکون رات اتر رہی تھی۔ ’’بحیرہ ایجین‘‘ (Aegean) کے گہرے نیلے پانی پہلے شفق کے سرخ اور نارنجی رنگوں میں رنگے گئے، پھر سرمئی چادر نے انہیں ڈھانپا اور بالآخر رات کا سیاہ رنگ ہر دوسرے رنگ کو بے دخل کرکے ان [مزید پڑھیے]
اصلاً امریکی جریدے ’’دی اٹلانٹک‘‘ میں شائع ہونے والے اس مضمون میں شادی حامد نے اس نکتے پر بحث کی ہے کہ تاریخ اور روایات کے اعتبار سے اہم سمجھے جانے والے کسی بھی ملک کی ہیئت تبدیل کرنے میں طاقتور شخصیات کا کیا کردار ہوا کرتا ہے اور کیا ایسا کردار ادا کرنا اب بھی ممکن ہے۔ سیاست دانوں، اور خاص طور پر نظریاتی سیاست دانوں، کو جلد یا بدیر ’’اب آگے کیا؟‘‘ کے سوال کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ اپریل میں منعقدہ ایک ریفرنڈم میں ترک صدر رجب طیب ایردوان کو غیر معمولی اختیارات حاصل ہوچکے ہیں۔ اپوزیشن نے ان پر دھاندلی کا الزام بھی عائد کیا ہے تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اب صدر ایردوان ترک سیاست پر ۲۰۲۹ء تک [مزید پڑھیے]
ترکی کے ریفرنڈم کے روایتی تجزیے سے دور اگر کوئی چیز توجہ طلب ہے تو وہ ایردوان کے پر عزم اور بہادرہونے کی تصدیق ہے، جو ایک غیر یقینی اور خطرناک لڑائی لڑنے سے بھی نہیں گھبراتے، یہ بات فوجی بغاوت کے دن واضح ہو چکی تھی اور ان کے ریفرنڈم کے انعقاد کے اس فیصلے کو ثابت بھی کر دیا۔ ہر ایک ریفرنڈم کے فیصلے کو خطرے کے طور پر دیکھ رہا تھا، مگر آخر میں کم مارجن سے ہی سہی، لیکن یہ جنگ ایردوان نے جیت لی۔ ایردوان نے گزشتہ ۱۵برسوں کے دوران ۱۰؍انتخابات اور ۳ ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کرکے ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ریفرنڈم کے نتیجے کے اعداد و شمار سوسائٹی میں تقسیم کو ظاہر کرتے [مزید پڑھیے]
گزشتہ برس دنیا نے بہت تیزی سے کروٹ بدلی ہے بریگزٹ اور ٹرمپ کے علاوہ بھی دنیا کو حیرت کا ایک اور جھٹکا تب لگا جب ولادیمیر پیوٹن اور رجب طیب ایردوان ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس کے بارے میں یہ قیاس آرائیاں کی جا ری تھیں کہ روس مغربی ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا، اس وقت مغربی ممالک کے پاس نئی تہذیب نئے خیالات، حوصلہ مند افراد اور جدید ذرائع موجود تھے اور مغربی دنیا کے ساتھ روس ایک اچھے سفر کا آغاز کرسکتا تھا، لیکن ۹۰ کی تباہ کن دہائی کے اختتام پر یہ بات واضح ہوگئی کہ روس ایک نیا راستہ اختیارکرے گا۔ پیوٹن نے اقتدار کے آغاز ہی [مزید پڑھیے]
1
2
3
4
»