را اور بنگلا دیش
سرحد پر تاروں کی باڑ بنگلا دیش سے در اندازی روکنے کا بہانہ گھڑ کر بھارتی فوج بنگلا دیش سے ملحق سرحد پر خاردار تاروں کی باڑ لگانے کا منصوبہ تیار کر رہی ہے۔ یہ بات بہت حیرت انگیز ہے کیونکہ دنیا بھر میں جغرافیائی سرحدوں کو زیادہ اہمیت نہ دینے اور انسانیت کے نام پر ایک ہونے کا ماحول پیدا ہو رہا ہے۔ دیوارِ برلن کا گرنا اس کی سب سے بڑی علامت ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت باڑ کیوں لگا رہا ہے؟ دیواریں کیوں کھڑی کی جاتی ہیں، باڑیں کیوں لگائی جاتی ہیں؟ بیرونی حملے سے تحفظ کے لیے۔ بھارت کو بنگلا دیش سے ایسا کون سا خطرہ لاحق ہے کہ اُسے خاردار تاروں کی باڑ لگانے پر [مزید پڑھیے]
بھارت نے بنگلادیش کے خلاف جانے میں کبھی کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ بھارت کی پروپیگنڈا مشینری ایک طرف تو بنگلادیش سے دوستی کا راگ الاپتی ہے اور دوسری طرف اس کی پیٹھ میں چُھرا، بلکہ چُھرے گھونپنے سے بھی باز نہیں آتی۔ بھارتی قیادت کی ایما پر پروپیگنڈا مشینری نے بنگلادیش کو پوری دنیا میں بدنام کیا ہے مگر اس معاملے میں امریکا اور یورپ کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ بنگلادیش کے خلاف یورپ اور امریکا میں خاص طور پر زیادہ اور منظم پروپیگنڈا کیا گیا ہے تاکہ مجموعی طور پر پورے مغرب میں بنگلادیش کے خلاف منفی تاثر قائم ہو اور ان کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہی نہ ہوسکیں اور یہ نوزائیدہ ریاست اپنے پیروں پر کھڑی ہوکر کسی بھی خطے [مزید پڑھیے]
بنگلادیش کو ہر اعتبار سے زیادہ سے زیادہ دبوچ کر رکھنے کے لیے بھارتی قیادت نے ہمیشہ اس بات کو اہمیت دی ہے کہ بنگلادیش کے اعلیٰ طبقے میں بھارت نواز لابی موجود رہے۔ بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے عشروں کی محنت سے بنگلادیش میں اپنے ہم خیال لوگ پیدا کیے ہیں۔ بنگلادیش میں جو لوگ بھارت کے حق میں بات کرتے ہیں اُنہیں انعامات، نقدی اور دیگر طریقوں سے نوازا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ کسی لالچ کے بغیر محض نظریاتی طور پر بھارت کے ہم نوا ہوجاتے ہیں۔ اگر بنگلادیش کے اعلیٰ طبقے میں بھارتی اثرات کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو قومی مفادات داؤ پر لگتے ہی رہیں گے۔ ڈھاکا سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ’’بکرم‘‘ نے ۲۹ [مزید پڑھیے]
بھارتی قیادت ایک زمانے سے یہ مطالبہ کرتی آئی ہے کہ اس کی سات شمال مشرقی ریاستوں کو ضروری اشیا و خدمات کی فراہمی کے لیے بنگلادیش راہداری کی سہولت فراہم کرے۔ بھارت کی طرف سے بنیادی تجویز یہ ہے کہ بنگلادیش ڈھاکا کے ذریعے کولکتہ، گوہاٹی، شیلونگ اور اگرتلا کے درمیان سڑک اور ریل کی راہداری فراہم کرے۔ معاملہ صرف سڑک اور ریل تک محدود نہیں۔ بھارت چاہتا ہے کہ اسے بنگلادیشی سرزمین پر بہتے دریاؤں میں جہاز رانی کا حق بھی دیا جائے۔ تری پورہ اور منی پور کی ریاستوں تک ضروری اشیا کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے بھارتی قیادت بنگلادیشی بندر گاہ چٹا گانگ تک بھی رسائی چاہتی ہے۔ بھارت راہداری کی سہولتوں کے عوض بنگلا دیش کو ادائیگی کرنے کے [مزید پڑھیے]
اس حقیقت سے تو اب کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے بنگلادیش کے قیام میں مرکزی کردار ادا کیا اور یہ کہ بنگلادیش کے حکمراں طبقے میں اُس کے اثرات غیر معمولی حد تک زیادہ ہیں۔ بنگلادیش کی پالیسیوں پر بھی یہ ادارہ بری طرح اثر انداز ہوتا رہا ہے۔ بنگلادیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن پر ’’را‘‘ کا ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ بہت سے لوگ اس الزام کو درست نہیں مانتے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شیخ مجیب الرحمن نے بنگلادیش کے قیام کی تحریک میں بھارت سے مدد مانگی اور بھارت نے یقینی طور پر اس خیال سے اس تحریک میں مرکزی کردار ادا کیا کہ جب ایک [مزید پڑھیے]
بنگلادیش میں صرف ایک قوت ایسی ہے جو علاقائی بالادستی کے بھارتی عزائم کی راہ میں مزاحم ہوسکتی ہے اور وہ ہے کہ نئی نسل۔ بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ بنگلادیش کو مکمل طور پر اپنی مٹھی میں لینے کا خواب اس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکتا جب تک بنگلادیش کی نئی نسل کو اپنا نہ بنالیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ بنگلادیش کی نئی نسل اور بالخصوص طلبہ و طالبات کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے بھارتی قیادت اچھی خاصی فنڈنگ کرتی ہے۔ ایک طرف تو بنگلادیشی جامعات میں ہنگامہ آرائی اور تشدد کے ذریعے تدریس کا ماحول مکدّر کیا جارہا ہے اور دوسری طرف بنگلادیشی نئی نسل کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ ان [مزید پڑھیے]
اب اس بات کو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان کو دولخت کرنے کی جو کوشش کی تھی، وہ دراصل ۱۹۴۷ء سے پہلے کے بھارت کو دوبارہ یقینی بنانے کی سازش تھی۔ بھارتی قیادت کو اکھنڈ بھارت کا خواب ایک بار پھر شرمندۂ تعبیر کرنا ہے۔ پہلا مرحلہ پاکستان کو توڑنے کا تھا اور دوسرا مرحلہ بنگلادیش کو بھارت میں ضم کرنے کا ہے۔ ابتدا ہی سے بھارت کی یہ بھرپور کوشش رہی ہے کہ بنگلادیش کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہو، اس کی معیشت مستحکم نہ ہو اور سیاسی عدم استحکام بھی جاری رہے۔ اسی صورت بنگلادیش بھوٹان کی طرح برائے نام ملک کی حیثیت سے جی سکتا ہے جو بھارت کے لیے خطرہ نہ بنے۔[مزید پڑھیے]
بھارت کی پہلے دن ہی سے یہ کوشش رہی ہے کہ بنگلادیش اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہو اور ہر معاملے میں بھارت کی طرف دیکھتا رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھارت کے مرکزی خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے بہت سے ہتھکنڈے اپنائے ہیں۔ اس کی کوشش رہی ہے کہ بنگلادیشی سرزمین پر اس کے ایجنٹس ہمیشہ فعال رہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر ان سے بھرپور کام لیا جاسکے۔ بنگلا دیش میں بہت سی ہندو تنظیمیں مذہب کے نام پر قائم ہیں اور بظاہر بنگلا دیشی ہندوؤں کی ضرورت پوری کرتی ہیں مگر درحقیقت ان تنظیموں کے ذریعے بھارت اپنے مقاصد کی تکمیل آسان بناتا ہے۔ بنگلا دیش کی بیشتر ہندو تنظیمیں دراصل ’’را‘‘ کی مدد سے قائم ہوئی ہیں اور اسی کی مدد [مزید پڑھیے]
بنگلا دیش کو زیادہ سے زیادہ کمزور کرنے کے لیے بھارت نے ہزاروں شہریوں کو بنگلا دیش کی سرزمین پر آباد کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اس طور بنگلا دیش میں اپنے لیے مضبوط ایجنٹس تیار کرنا بھارت کے لیے کبھی دشوار نہیں رہا۔ بھارتی شہریوں کو بنگلا دیش کی سرزمین پر آباد کرنے کا عمل عرفِ عام میں Push Back کہلاتا ہے۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ بنگلا دیش کے ہزاروں شہری غیر قانونی طور پر بھارت میں داخل ہوکر مختلف علاقوں میں آباد ہوگئے تھے اور اب بنگلا دیش کو چاہیے کہ اپنے شہریوں کو واپس لے۔ بنگلا دیش کو اپنے شہری واپس لینے پر مجبور کرتے ہوئے بھارت اپنی مرضی کے لوگ بنگلا دیش میں داخل کردیتا ہے۔ متعدد مواقع پر [مزید پڑھیے]
بنگلا دیش کے خلاف ’’را‘‘ نے کبھی سکون سے بیٹھنا، چین کا سانس لینا گوارا نہیں کیا۔ بنگلا دیش کو غیر مستحکم کرنے کے حوالے سے ’’را‘‘ کی سرگرمیاں ہر دور میں جاری رہی ہیں۔ بھارتی قیادت کا وتیرہ رہا ہے کہ بنگلا دیش کو ہر ایشو پر زیادہ سے زیادہ ڈرایا، دھمکایا جائے اور خوفزدہ کرکے دباؤ میں رکھا جائے۔ بنگلا دیش کو مطیع و فرماں بردار بناکر رکھنا بھارتی قیادت کا بنیادی مقصد رہا ہے اور اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے ’’را‘‘ کو پوری قوت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ ’’را‘‘ کے ماہرین بنگلا دیش کے خلاف سازشیں تیار کرتے ہی رہتے ہیں۔ بھارتی خفیہ ادارہ بنگلا دیش کی سرزمین پر پیدا ہونے اور پنپنے والی بہت سی تنظیموں [مزید پڑھیے]
بھارت کے خفیہ ادارے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بنگلا دیش کو کسی نہ کسی طور منتشر کردیا جائے، اس کے حصے بخرے کر دیے جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسے ہر وقت کسی نہ کسی سُلگتے ہوئے مسئلہ کی تلاش رہتی ہے۔ بنگلا دیش کے عوام کو زبان، ثقافت اور نسل کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا جاسکتا، اس لیے مذہب اور مسلک کے اختلافات کو بنیاد بناکر آگ لگانے کی کوشش کئی بار کی گئی ہے۔ بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے مشرقی بنگال سے نقل مکانی کرکے بھارت میں بسنے والے بنگالی ہندوؤں کے لیے ’’بنگہ بھومی‘‘ کا تصور دیا۔ مقصد یہ کہ بھارت میں بسے ہوئے مشرقی بنگال کے ہندوؤں کے لیے ایک الگ وطن کے قیام کی راہ [مزید پڑھیے]
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت نے بنگلا دیش کو سیاسی اور معاشی اعتبار سے ہمیشہ دباؤ میں رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے، اور اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی رہا ہے مگر اِتنا کرنے کو کافی نہ سمجھتے ہوئے بھارتی قیادت نے بنگلا دیش کے حصے بخرے کرنے کی کوشش سے بھی دریغ نہیں کیا۔ بھارتی قیادت کی ایما پر اس کے مرکزی خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے بنگلا دیش میں علیحدگی پسند تحریکوں کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بنگلا دیش میں نراجیت پھیلانے کی غرض سے ’’را‘‘ نے علیحدگی پسند عناصر کو تربیت بھی دی ہے اور مالیاتی وسائل بھی فراہم کیے ہیں۔ بھارتی قیادت کی ایما پر بنگلا دیش میں ایک الگ وطن کے قیام [مزید پڑھیے]
روزنامہ ’’انقلاب‘‘ نے ۷ نومبر ۱۹۹۴ء کو ایک رپورٹ میں بتایا کہ راج شاہی یونیورسٹی میں منعقد کیے جانے والے ایک سیمینار میں ماہرین نے انکشاف کیا تھا کہ بنگلا دیش کو بھارت کے ہاتھوں پانی کی بندش کے باعث ہر سال ماہی گیری کی مد میں کم و بیش چار کروڑ ٹاکا کے نقصان کا سامنا ہے۔ قدرتی وسائل پر کسی بھی ایک ملک یا خطے کا مکمل اختیار تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ فطرت سب کے لیے ہوتی ہے۔ بہت سے دریا کئی ممالک یا خطوں کے درمیان بہتے ہیں۔ ان پر کسی ایک خطے یا ریاست کے حق کو تسلیم کرکے یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ جب جی میں آئے، اُس کے بہاؤ پر قدغن لگائے۔ دریائے گنگا کا بھی کچھ ایسا [مزید پڑھیے]
سُندر بن میں سمندری پانی کے داخل ہونے کے اثرات پودوں، پھولوں اور پھلوں پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ سُندر بن کے مختلف حصوں سے شہد کی غیر معمولی مقدار حاصل ہوا کرتی تھی مگر اب یہ معاملہ بھی بحران کی نذر ہوچلا ہے۔ ہفت روزہ ’’چترا بنگلا‘‘ نے ۵ مئی ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتایا کہ ۹۱۔۱۹۹۰ء میں سُندر بن سے ۲۱۱ ٹن شہد حاصل ہوا تھا مگر محض دو سال بعد یہ مقدار ۲۷ ٹن رہ گئی۔ سمندری پانی سے پہنچنے والے نقصان کے باعث اب سُندر بن میں مگرمچھوں کی پیداوار خطرناک حد تک متاثر ہوچکی ہے۔ پانی میں نمکیات کی مقدار بڑھنے سے مگرمچھوں کے انڈے ٹوٹ جاتے ہیں۔ انڈے دینے کے موسم میں مگرمچھ محفوظ علاقوں کی طرف کوچ کرجاتے [مزید پڑھیے]
جب سے بنگلادیش قائم ہوا ہے، بھارت نے اس کی معیشت کو تباہ کرنے میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھارت کی طرف سے منصوبے تیار کیے جاتے رہے ہیں۔ بنگلادیش کی معیشت کو مفلوج کرنے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ دریائے گنگا کا جو پانی بنگلا دیش کے حصے کا ہے اس کی راہ میں دیواریں کھڑی کی جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھارت نے سرحد سے محض ۱۷؍کلومیٹر دور فرخا بیراج بنانے کا منصوبہ بنایا۔ مشترکہ دریاؤں کے پانی کی مساوی یا منصفانہ تقسیم دونوں ممالک کا حق ہے۔ بلندی پر واقع ملک کی طرف سے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنا غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے۔ فرخا ڈیم کے [مزید پڑھیے]
1
2
3
»