ترکی
ترکی کے شہر استنبول میں پچھلے ہفتے ترک زبان بولنے والے ممالک کی تنظیم ترک کونسل کے سربراہان کے اجلاس کے دوران اس تنظیم کو عرب لیگ کی طرز پر باضابطہ ایک سیاسی فورم کی شکل دی گئی۔ اجلاس کے اختتام پر بتایا گیا کہ ترک کونسل کا نام تبدیل کرکے ترک ریاستوں کی تنظیم رکھ کر اس کو مزیدفعال بناکر تعلقات کو مزید مضبوط اور نئی راہداریاں قائم کرکے اشتراک کی نئی راہیں ڈھونڈی جائیں گی۔ ترک وزیر خارجہ حیولت چاوش اوغلو نے کہا کہ کونسل ایک تبدیلی کے منصوبے سے گزر رہی ہے اور عالمی سیاست میں ایشیا کے عروج کے تناظر میں یہ تنظیم، جس میں ترکی کے علاوہ آذربائیجان، قزاقستان، کرغزستان، ازبکستان باضابطہ رُکن ہیں، ایک اہم کردار ادا کریں گے۔[مزید پڑھیے]
’’مصر واپس آگیا ہے‘‘، یہ وہ پیغام ہے جو مصری خارجہ پالیسی کے حکام دنیا بھر میں اپنے ہم منصبوں کو دیناچاہتے ہیں۔ علاقائی حرکیات کی تبدیلی نے مصر کو زیادہ فعال خارجہ پالیسی اپنانے پر اکسایا ہے۔ اس کی حکومت داخلی طورپر زیادہ پراعتماد محسوس کرنے لگی ہے، نئے کردار اور ذمہ داریاں سنبھال رہی ہے، اور علاقائی صف بندی کی نئی شکلوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ ماضی میں، مصر مشرق وسطیٰ میں خارجہ پالیسی کا ایک اہم کھلاڑی تھا۔مصر کی خوش قسمتی ہے کہ وہ اپنے جغرافیے، مقام، استحکام، اور اپنی اہمیت کے حوالے سے موجود خود اعتمادی کی بدولت، خطے میں ہونے والی متعددپیش رفتوں میں اہم کردار ادا کرنے میں کامیاب رہا۔ اور اس نے کامیابی کے ساتھ امریکا[مزید پڑھیے]
اگر مصر کی فوجی بغاوت نے ترکی امارات تعلقات کو نقصان پہنچایا تو ۲۰۱۶ء میں ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت کے نتیجے میں تو دونوں ممالک کے تعلقات بالکل ہی ختم ہو گئے۔ناکام فوجی بغاوت کے دو ہفتے بعد ہی ترک خفیہ ایجنسی کے سینئر حکام نے دعویٰ کیا کہ بغاوت کی منصوبہ بندی کے پیچھے اماراتی حکومت کا بھی ہاتھ ہے[مزید پڑھیے]
ترکی اور متحدہ عرب امارات کا آبادی، رقبے اور فوجی طاقت کے حوالے سے آپس میں کوئی جوڑ نہیں، تاہم دونوں ممالک ایک طویل عرصے سے آپس کے تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔ اور ان کے آپس کے یہ جھگڑے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں جغرافیائی و سیاسی تبدیلیوں کا باعث بن رہے ہیں۔ ان کی محاذ آرائی سے نہ صرف وہ علاقے عدم استحکام کا شکار ہو رہے ہیں جہاں سے یورپ کے مفادات وابستہ ہیں جیسا کہ لیبیا،بلکہ اب تو ان کی محاذآرائی سے مشرقی بحیرہ روم یعنی خودیورپ بھی متاثر ہونے لگا ہے۔ ان دو ممالک کی رقابت یورپ کی تفریق کو گہرا کرتی جا رہی ہے۔ یورپی یونین کے ممالک کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ وہ خطۂ [مزید پڑھیے]
گزشتہ جولائی سے ترک بحری افواج کا ایک تیل بردار بحری جہاز جو یونان کے ایک چھوٹے سے جزیرے ’’کاستیلوریزو‘‘ میں ہائیڈرو کاربن کی تلاش کررہا تھا، بارہا اس کا یونان کے بحری ادارے کے حکام سے تنازع ہوا۔ یاد رہے یونان اور ترکی کی آپس میں دیرینہ مخاصمت ہے اور دونوں کے درمیان بحیرۂ روم کی بحری سرحدوں پر کشیدگی رہتی ہے۔ جب کبھی یونان اور ترکی اس مسئلے پرتنازع کا شکار ہوتے ہیں، اس کی شدت کو کو کم کرنے کے لیے ثالثی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ درحقیت ’’کیستیلوریزو تنازع‘‘ ترکی کے جارحانہ عزائم، غلبے کی جنگ اور برسوں پر محیط چپقلش کا شاخسانہ ہے۔ اس دیرینہ لڑائی میں شدت آنے کی بنیادی وجہ ترکی کا اپنی محتاط اور محاذ آرائی سے [مزید پڑھیے]
حال ہی میں نگورنو کاراباخ تنازع پر آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ہونے والی جنگ میں ترکی کی حمایت آذربائیجان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل تھی اور اس سے خطے میں ترکی کے منصوبے بھی عیاں ہوئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی نخچیوان راہداری تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے، تا کہ سویت یونین کے ختم ہو جانے کے بعد اُن ممالک پر اپنا اثر بڑھا سکے جہاں ترکی زبان سے ملتی جلتی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ترکی اور آذربائیجان نے طے کیا ہے کہ وہ آذربائیجان کے خود مختار نخچیوان خطے میں ایک راہداری قائم کریں، جس کی سرحد ترکی کے ساتھ ملتی ہے۔ آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے ۳۱ دسمبر کو اپنے ایک بیان [مزید پڑھیے]
اگر سیاست ممکنات کا کھیل ہے تو رجب طیب ایردوان اس کے سب سے نمایاں کھلاڑی ہیں۔گزشتہ سال ستمبر میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے فیصلے سے ترک صدر مشتعل ہوگئے۔ تاہم دسمبر کے اوائل تک خود کو عثمانیوں سے منسوب کرنے والے صدر نے اسرائیل میں ایک عبرانی بولنے والا سفیر بھیج دیا، دوسال بعد ترکی اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات بحال ہوگئے۔شام اور عراق میں ترکی کی فوجی مداخلت، اخوان المسلمون کی حمایت اور خاشقجی کے قتل کے واقعات سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات پر طویل اثرات ڈالیں گے۔ تاہم ریاض میں جی۔۲۰ سربراہی اجلاس سے قبل شاہ سلمان کے ترک صدر کو فون سے دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہونے کی قیاس [مزید پڑھیے]
برطانیہ جہاں نئے سال کے آغاز پر یورپی یونین کا اقتصادی مدار چھوڑنے کی تیاری کر رہا ہے، وہیں اس نے ترکی کے ساتھ ایک آزادانہ تجارت کے معاہدے پر دستخط کردیے ہیں۔ یہ معاہدہ جو یکم جنوری سے نافذ العمل ہوگا، اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا فروغ ہے، جو ۲۰۱۹ء میں ۲۵؍ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کی رہی تھی۔ بریگزٹ کے بعد کا یہ معاہدہ ان معاہدوں میں شامل ہے جو برطانوی حکومت دنیا بھر کے ممالک سے کرنا چاہتی ہے، معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اس حکومت نے یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دے دی ہے۔ برطانیہ نے رواں سال ۳۱ جنوری کو یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرلی تھی، تاہم ۳۱ [مزید پڑھیے]
’’جب مذہب ابدی حقائق کی ارفع اقلیم کو ترک کر دیتا ہے، اور نیچے اتر کے دنیاوی جھمیلوں میں دخل اندازی شروع کر دیتا ہے، تو وہ اپنی اور دنیا و مافیہا کی ہر شے کی ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے‘‘۔ (عثمانی سیاست دان، مصطفی فاضل پاشا، ۱۸۶۷ء) ۱۰؍اپریل ۲۰۱۸ء کو قومی قانون ساز مجلس (پارلیمان) سے اپنے ہفتہ وار خطاب کے دوران ترکی کے طاقتور صدر طیب ایردوان اور ان کے وزیر تعلیم عصمت یلماز کے مابین ایک مختصر گفتگو ہوئی،جس کے کچھ حصے غلطی سے ٹیلی ویژن پر نشر ہو گئے حالانکہ مائیکرو فون کو بند رکھنے کا اہتمام تھا۔ یہ ایک دلچسپ منظر تھا۔ اپنے خطاب کے درمیان میں، ایردوان نے یلماز کو اسٹیج (پوڈیم) پر بلایا، اور ’’الحادی الہٰیات (Deism) [مزید پڑھیے]
پچھلی ایک دہائی سے نیٹو کا ایک اہم رکن اور یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کا خواہش مند ترکی ابھرتی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے، جو فرانس اور امریکا جیسے طاقتور ملکوں کو کھلے عام چیلنج کررہا ہے۔ نیٹو میں امریکا کے بعد دوسری بڑی فوج رکھنے والے ترکی نے کئی خطرات مول لیے ہیں۔ شام، عراق، جنوبی قفقاز، لیبیا اور مشرقی بحیرۂ روم کے علاقوں میں ترکی صورتحال کو اپنے حق میں کرنا چاہتا ہے۔ یہ طرزِ عمل ترکی کی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے، ماضی میں ترکی نے بیرونی مہم جوئی کو مکمل طور پر ترک کردیا تھا۔ جدید ترکی کی قیادت کرنے والے رجب طیب ایردوان ۲۰۰۳ء میں وزیراعظم بنے، وہ اس منصب پر ۲۰۱۴ء [مزید پڑھیے]
آج نیٹو کو سب سے بڑا چیلنج روس سے نہیں بلکہ اپنے اراکین کی جانب سے درپیش ہے۔ ترکی اور متعدد یورپی اتحادیوں کے درمیان تنازعات ایک بار پھر عروج پر ہیں، جس کی وجہ سے تنظیم کی اجتماعی فیصلہ سازی کی صلاحیت بُری طرح متاثر ہو رہی ہے، اگر ان مسائل کو بروقت حل نہیں کیا گیا تو دنیا کے طاقتور اتحاد کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تازہ ترین واقعہ ترکی کی جانب سے آذربائیجان کی جانب سے نگورنو کاراباخ پر قبضے کے لیے جنگ کی کھلی حمایت کرنا ہے۔ یہ جنگ روس کے زیر سرپرست ایک معاہدے کے بعد ختم ہوئی۔ اس جنگ میں ترکی کی جانب سے فوجی امداد اور شامی جنگجو بھیجے گئے، اور اپنے نیٹو اتحادیوں کو صرف دکھانے [مزید پڑھیے]
مشرقی بحیرۂ روم میں انقرہ پر غیر معمولی دباؤ ہے اور اسے مستقبلِ قریب میں الگ تھلگ پڑ جانے کے خدشے کا بھی سامنا ہے، تاہم اگر اس کی حکمتِ عملی کامیاب رہی تو یونان کی حکمتِ عملی بیک فائر بھی کرسکتی ہے۔ یونان کے وزیراعظم کاریاکوز مٹسوٹاکس (Kyriakos Mitsotakis) نے حال ہی میں جرمن اخبار ’’فرینکفرٹر الگنامائن زائٹنگ‘‘ میں مہمان لکھاری کی حیثیت سے ایک مضمون لکھا، جس میں انہوں نے ترکی کو مشرقی بحیرۂ روم کے خطے میں معاملات کو خراب کرنے والا ملک بتاتے ہوئے یورپی یونین کے لیے ایک بڑا خطرہ بھی قرار دیا۔ یونانی وزیراعظم نے اس مضمون میں ترک صدر رجب طیب ایردوان کو ایک ایسی شخصیت کے روپ میں پیش کیا جو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے [مزید پڑھیے]
بحیرۂ روم کا محلِ وقوع بھی خوب ہے۔ یہ ایشیا، یورپ اور افریقا کا سنگم ہے۔ ان میں سے ہر براعظم بحیرۂ روم سے اس طور جڑا ہوا ہے کہ اُس سے ہٹ کر اہمیت گھٹ سی جاتی ہے۔ قدیم زمانوں ہی سے یہ سمندر دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان زور آزمائی کا مرکز رہا ہے۔ طاقت میں اضافے کے لیے بڑی ریاستیں اس خطے کو اپنے حق میں بروئے کار لاتی رہی ہیں۔ غیر معمولی اہمیت کے حامل محلِ وقوع نے بحیرۂ روم کو ایشیا اور یورپ کے متعدد ممالک کے لیے سیاسی اور جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہم بنادیا ہے۔ اور اس حوالے سے لیبیا بھی ایک اہم ریاست ہے۔ سرد جنگ کے شروع ہوتے ہی امریکا نے ٹرومین ڈاکٹرائن کے تحت [مزید پڑھیے]
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کا پہلا تاثر یہ ہے کہ اسرائیل ایک عرب ملک کے ساتھ تعلقات قائم کرکے ایک علامتی رکاوٹ کو توڑنے میں کامیاب ہوگیا، عرب امارات کے ساتھ اسرائیل کی کو ئی سرحد موجود نہیں۔حال ہی میں بحرین بھی اس معاہدے کا حصہ بن گیا ہے۔بظاہر متحدہ عرب امارات نے اس معاہدے سے وہ حاصل کرلیا جو دوسرا کوئی ملک حاصل نہیں کرسکا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا مغربی کنارے پر قبضے کا منصوبہ وقتی طور پررک گیا اورانتہائی جدید ترین امریکی اسلحے تک رسائی حاصل ہوگئی، جس میں ایف۔۳۵ لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔ ابوظہبی نے امریکاکے ساتھ بھی اپنے تعلقات مضبوط بنالیے، قطع نظر اس کے کہ اگلے امریکی انتخابات کون جیتتا ہے۔ لیکن اس معاہدے [مزید پڑھیے]
زیر نظر مضمون عربی زبان کی معروف ویب گاہ www.noonpost.com سے لیا گیا ہے،اسے تیونس کی صحافی اور نامہ نگار سمیہ الغنوشی نے تحریر کیا ہے، مشرق وسطی ان کا خاص موضوع ہے۔ادارہ سلطان محمد فاتح نے ۲۹ مئی ۱۴۵۳ء کو فتح قسطنطنیہ کے بعد مسجد آیا صوفیہ کو بیزنطینوں کے قبضے سے چھڑایا اور اناطولیہ کے قلب سے اسلام مخالف طاقتوں کو یہ واضح پیغام دیا کہ اسلام اب پوری قوت اور شان و شوکت سے اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرے گا۔ اس سے قبل دمشق اور بغداد کئی صدیوں تک اسلامی خلافت کے مراکز تھے۔ یکم فروری ۱۹۲۵ء کو ایک اسلام بیزار، لبرل، آمر نے اس عظیم مسجد کو عجائب گھر میں تبدیل کرنے کا اعلان کر دیا۔ مسجد کی صفوں اور [مزید پڑھیے]
1
2
3
…
9
»