امریکی فوجی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بات کئی بار برملا کہی ہے کہ امریکا کو دُور افتادہ خطوں میں لاحاصل جنگوں میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔ امریکی حکام افغانستان سے فوجیوں کو خاموشی سے نکال رہے ہیں۔ ایک امریکی عہدیدار نے بتایا ہے کہ امریکا نے ایک سال کے دوران افغانستان سے دو ہزار فوجیوں کو چپ چاپ نکال لیا ہے۔ یہ خاموش انخلا کابل حکومت کے علم میں ہے اور اس حوالے سے باضابطہ دستاویزی کارروائی بھی کی گئی ہے۔ یہ انخلا اس اعتبار سے حیرت انگیز ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹ چکا ہے اور ان سے کسی باضابطہ معاہدے کی منزل بہت دور دکھائی دیتی ہے۔ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کے ٹاپ کمانڈر جنرل آسٹن ایس ملر نے ایک [مزید پڑھیے]
ویت نام پر لشکر کشی کی بھاری قیمت خود امریکا کو بھی ادا کرنا پڑی۔ ویت نام پر مُسلّط کی جانے والی اِس جنگ میں ۶۰ہزار سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور زخمی ہونے والے امریکی فوجی ۳ لاکھ سے زائد تھے۔ غیر جانب دار ماہرین اور مبصرین کے تجزیوں سے پتا چلتا ہے کہ امریکی لڑاکا طیاروں نے ویت نام میں جو بم برسائے اُن کے بارود کا مجموعی وزن ۷۰ لاکھ ٹن تھا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ویت نامی باشندے پر اوسطاً ۳۵۰ پاؤنڈ بارود برسایا۔ اِس چھوٹے سے ملک پر امریکیوں نے چار لاکھ ٹن نیپام بم بھی برسائے۔ ایجنٹ اورنج اور دیگر انتہائی خطرناک کیمیکلز کی بارش سے ویت نام میں کروڑوں ایکڑ زرخیز اراضی اور جنگلات [مزید پڑھیے]
فلپائن سے نمٹنے کے بعد لازم ہوگیا تھا کہ امریکا اپنے پَر مزید پھیلائے تاکہ سامراجی عزائم کی پرواز مزید وسعت اختیار کرے۔ اُسی زمانے میں امریکا نے بحرالکاہل میں جزائر کے مجموعے ہوائی کی ملکہ للیووکالانی کا تختہ اُلٹا اور وہاں اپنا فوجی اڈّا قائم کیا۔ ہوائی میں بظاہر ایسا کچھ نہیں تھا جس کے ختم کرنے کے لیے امریکا کو مداخلت کرنا پڑتی۔ اِس ملک سے امریکا کو کسی بھی طرح کا خطرہ بھی لاحق نہ تھا۔ پھر بھی اُسے بخشا نہیں گیا اور امریکی افواج نے ہوائی میں سب کچھ درہم برہم کردیا۔ بحرالکاہل میں چوہدراہٹ قائم کرنے کے لیے ہوائی میں امریکی اقتدار کا پرچم لہرانا لازم ہوگیا تھا۔ اِس اقدام سے خطے کی دیگر قوتوں کو پیغام مل گیا کہ [مزید پڑھیے]
زیر نظر کتاب کا بنیادی خیال امریکی صحافی اور تجزیہ کار Joel Andreas کی تصویری کتاب Addicted to War سے ماخوذ ہے۔
[مزید پڑھیے]
پندرہ برس سے مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کے تجربات خاصے تکلیف دہ ثابت ہوئے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عراق، شام، لیبیا اور افغانستان میں امریکی پالیسی کی ناکامی سے پیدا ہونے والے مسائل کی نشاندہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور یوں غیر معمولی سیاسی فائدہ اٹھایا ہے۔ ٹرمپ نے ایک ریلی سے خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ جن حکومتوں کو امریکا نہیں جانتا ان کا تختہ الٹنے سے گریز کیا جائے گا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ مداخلت کرنے کا تباہ کن چکر اب ختم کیا جانا چاہیے کیونکہ اس کے نتیجے میں صرف افرا تفری پھیلتی ہے، اور کچھ نہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگجویانہ طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے اپنی کابینہ میں ایسے افراد کو [مزید پڑھیے]
امریکی فوج نے جولائی کے اختتام پر اوکی ناوامیں ۴۰ مربع کلو میٹر کا علاقہ جاپانی حکومت کے قبضہ میں واپس دینے کا اعلان کیا۔جاپان میں اس وقت تیس ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔۱۹۷۲ء میں جاپان پر امریکا کا قبضہ ختم ہونے کے بعد سے اب تک واپس کی جانے والی زمین میں یہ سب سے بڑا رقبہ ہے۔یہ فیصلہ جون میں مقامی خاتون کی عصمت دری اور قتل کے بعد ہونے والے امریکا مخالف احتجاج کے نتیجے میں سامنے آیا۔ حالیہ دنوں میں ترکی میں بھی امریکی اڈوں کی مخالفت دیکھنے میں آئی ہے۔جولائی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے بہت سے ترک یہ الزام لگاتے ہیں کہ انکریلک ائر بیس پر تعینات امریکی فوجی بھی منصوبہ سازو ں میں شامل [مزید پڑھیے]
امریکا اور اتحادیوں کے پاس اب ۲۲ ماہ بچے ہیں، جن میں اُنہیں اپنے فوجی اور تمام ساز و سامان افغانستان سے نکالنا ہے۔ امریکا کے ۶۶ ہزار فوجی افغانستان میں ہیں۔ ان سب کا انخلا ۲۰۱۴ء کے آخر تک ہونا ہے۔ کرنل اینڈریو رالنگ امریکا کی ۱۷۳ ویں ایئر بورن بریگیڈ کے سربراہ ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ افغانستان سے فوجی اور سامان نکالنا کس قدر مصیبت کا کام ہے۔ وہ اپنے پیرا ٹروپرز کے ساتھ فارورڈ آپریٹنگ بیس شینک میں ہیں جو افغانستان میں امریکا کا تیسرا سب سے بڑا فوجی اڈا ہے۔ کرنل رالنگ کے سامنے ۶ میٹر لمبے کنٹینرز کا ایک سمندر سا تھا۔ ان کنٹینرز میں امریکی فوج کا وہ سامان تھا جو گیارہ برسوں کے دوران منگوایا گیا ہے۔ [مزید پڑھیے]
سات اکتوبر ۲۰۱۲ء کو افغانستان پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی لشکر کشی کو گیارہ سال مکمل ہوگئے۔ اب تک یہ سوال کروڑوں ذہنوں میں گردش کر رہا ہے کہ کیا امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر لشکر کشی سے کچھ پایا ہے؟ کیا واقعی افغانستان پر حملہ امریکا اور یورپ کے مفاد میں تھا؟ ۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیو یارک کے ٹوئن ٹاورز پر حملے میں ۲۹۷۷ افراد ہلاک ہوئے۔ صرف ایک فرم Cantor Fitzgerald کے ۷۰۰ ملازمین ہلاک ہوئے۔ ۳۴۳ فائر فائٹرز مارے گئے۔ ۶۰ پولیس افسران بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ صرف ۲۹۱ لاشیں شناخت کیے جانے کے قابل تھیں۔ جن خاندانوں نے اپنے پیاروں کو کھویا، ان میں نصف ایسے تھے جنہیں دفنانے کے لیے کچھ بھی [مزید پڑھیے]
ذرا تصور کیجیے کہ ٹی پارٹی کے ارکان جنوبی کیرولائنا کے ایک قصبے پر قبضہ کرلیتے ہیں اور امریکی فوج کے دستے اُنہیں کچلنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔ یہ مفروضہ اب امریکا کے پروفیشنل عسکری حلقوں میں بحث کا موضوع ہے۔ امریکی جریدے ’’اسمال وار جرنل‘‘ نے حال ہی میں “Full Spectrum Operations in the Homeland: A ‘Vision’ of The Future” کے زیر عنوان ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں امریکا کی تیزی سے بگڑتی ہوئی معاشرتی اور معاشی صورت حال کے تناظر میں خانہ جنگی کا مفروضہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ مضمون کنساس کے شہر فورٹ لیون ورتھ کی یونیورسٹی آف فارن ملٹری اینڈ کلچرل اسٹڈیز کے ریٹائر کرنل کیون بینسن (Kevin Benson) اور یونیورسٹی آف کنساس میں خانہ جنگی کی [مزید پڑھیے]
پینٹاگون کے مطابق ۱۱؍سالہ افغان جنگ میں امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں دو ہزار سے تجاوز کر گئی ہیں۔ انڈی پینڈنٹ انٹرنیٹ سائٹ نے آپریشن (Enduring Freedom) کے آغاز سے جو اعداد و شمار جمع کیے ہیں، اس کے مطابق مرنے والے امریکیوں کی تعداد دو ہزار آٹھ ہے۔ پینٹاگون کی شمار کردہ ۲۰۰۰؍اموات میں ۱۵۷۷؍اموات مقابلے (Combat) میں ہوئیں جن میں ۳۴ خواتین فوجی بھی شامل ہیں جبکہ ۱۶۴۰۲؍فوجی زخمی بھی ہوئے۔ سال ۲۰۱۲ء کے آغاز سے ابھی تک ۱۵۰ ؍سے زائد امریکی فوجی مارے جاچکے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق سال ۲۰۱۰ء میں امریکی فوجیوں کا سب سے زیادہ نقصان ہوا جس میں ۴۹۹ فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ ۲۰۱۱ء میں ۴۱۴ فوجی مارے گئے۔ واضح رہے کہ افغانستان میں امریکی [مزید پڑھیے]
نیٹو کے سابق کمانڈر جنرل ویزلے کلارک کہتے ہیں ’’۲۰۰۱ء میں مجھے ایک بار امریکی محکمۂ دفاع میں بریفنگ میں شریک ہونا تھا۔ میں گیا تو ایک ایک افسر کے پاس مختلف امور پر بات کرنے کا خاصا وقت تھا۔ اس نے عراق پر ممکنہ حملے سے متعلق گفتگو کی مگر ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ایک عراق ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر سات ممالک کے خلاف جنگی کارروائیاں شروع کی جانی ہیں۔ عراق کے بعد شام، لبنان، لیبیا، ایران، صومالیہ اور سوڈان کا نمبر آنا تھا‘‘۔ ۷ جولائی ۲۰۱۲ء کو پیرس میں فرینڈز آف سیریا کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا کہ جو فوجی افسران اور اہلکار اب تک شامی حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں انہیں بہت جلد [مزید پڑھیے]
امریکی ریاست وسکونسِن (Wisconsin) میں سکھوں کے معبد گردوارے پر اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں ۶؍افراد کی ہلاکت نے امریکی حکام کو مزید پریشان کردیا ہے۔ اس واقعے کا ذمہ دار ایک سفید سابق فوجی ویڈ مائیکل پیج ہے۔ اس واقعے نے امریکا میں سفید فام انتہا پسندوں کی جانب سے عسکریت پسندی کے خطرے کو پھر نمایاں کردیا ہے۔ امریکا میں لاکھوں سفید فام ایسے ہیں جو ہر حال میں اپنی برتری قائم رکھنا چاہتے ہیں اور اِسے پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ اِن کی نظر میں وقعت صرف سفید رنگت کی ہے۔ باقی سب لوگوں کو یہ Colored کہتے ہیں۔ امریکی تفتیشی ادارے اب اِس بات سے خوفزدہ ہیں کہ سفید فام برتری پسند عناصر کہیں فوج کی صفوں میں داخل ہوکر تربیت [مزید پڑھیے]
امریکا بھر میں فوجی اور رضاکار خود کشی کی طرف مائل ہیں مگر کسی کو بھی معلوم نہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ ماہرین خودکشی کے رجحان میں اضافے کا سبب جاننے کے لیے بے تاب ہیں مگر اب تک معاملے کا سِرا نہیں مل سکا ہے۔ میں میلیسا (Melissa) کے پاس بیٹھا تھا۔ وہ ایمرجنسی کالز کا جواب دیتی ہے۔ اس نے کہا کہ ابھی ابھی ایک شخص نے فون پر بتایا کہ وہ زندگی سے تنگ ہے اور اب سڑک پر کسی بھی گاڑی کے سامنے آکر زندگی کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے۔ جو شخص مرنے کی خواہش کا اظہار کر رہا تھا وہ میرین تھا اور چار ماہ سے فارغ بھی تھا۔ بیروزگاری کے باعث اس کا حال برا تھا۔ وہ [مزید پڑھیے]
امریکا نے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لیے اب ڈرون حملوں کا سہارا لیا ہے۔ یہ حکمتِ عملی اس لیے زیادہ پسندیدہ سمجھی جارہی ہے کہ جنہیں نشانہ بنایا جاتا ہے وہ کوئی بھی جوابی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ امریکا کو ایسا لگتا ہے کہ ڈرون حملوں سے اُسے بظاہر کوئی بھی نقصان نہیں پہنچتا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ صرف مخالفین کے لیے نقصان دہ سمجھے جانے والے ڈرون حملوں سے امریکا اور یورپ کو بھی شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ نقصان ساکھ کے حوالے سے ہے۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریاس نے دہشت گردوں کے خلاف ایک خفیہ مہم، غیر قانونی اور ماورائے احتساب حکمت عملی اپنائی ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے دہشت [مزید پڑھیے]
افغانستان میں چھیڑی جانے والی جنگ کو دس سال مکمل ہوگئے۔ اس موقع پر امریکی ایوان صدر نے کسی تقریب کا اہتمام نہیں کیا۔ شاید ایسا کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہ تھی۔ ایک سبب تو یہ ہے کہ امریکا کے لیے یہ جنگ کوئی ایسی بات نہیں جسے یاد رکھا جائے اور دوسرا سبب یہ ہے کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۱۱ء کو نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر حملوں کے دس سال مکمل ہونے پر صدر براک اوباما نے خاصی جامع تقریر کی تھی اور انہوں نے واضح کردیا تھا کہ وہ اب جنگ سے زیادہ امریکی معیشت کی بحالی پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکا بیروزگاری اور مہنگائی کے چنگل میں ہے۔ عوام میں اشتعال بڑھتا جارہا ہے۔ صدر اوباما [مزید پڑھیے]
1
2
3
»