برطانیہ
برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ چین اور روس برطانیہ کے لیے خطرہ ہیں اور کابل پر طالبان کا قبضہ ’انٹیلی جنس ناکامی‘ نہیں تھا۔ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے سربراہ رچرڈمور جنہیں ’سی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ’بی بی سی ریڈیو فور‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین کے قرض اور ڈیٹا کے جال سے ملک کی خودمختاری و قومی سلامتی کو ممکنہ خطرہ ہے اور اس سلسلے میں دفاعی اقدامات کیے گئے ہیں۔ گذشتہ برس اکتوبر میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ انٹرنیشنل انسٹیٹوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) میں منگل کو اپنے پہلے خطاب میں برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کو ڈیجیٹل دور میں پیش آنے[مزید پڑھیے]
برطانیہ جہاں نئے سال کے آغاز پر یورپی یونین کا اقتصادی مدار چھوڑنے کی تیاری کر رہا ہے، وہیں اس نے ترکی کے ساتھ ایک آزادانہ تجارت کے معاہدے پر دستخط کردیے ہیں۔ یہ معاہدہ جو یکم جنوری سے نافذ العمل ہوگا، اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا فروغ ہے، جو ۲۰۱۹ء میں ۲۵؍ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کی رہی تھی۔ بریگزٹ کے بعد کا یہ معاہدہ ان معاہدوں میں شامل ہے جو برطانوی حکومت دنیا بھر کے ممالک سے کرنا چاہتی ہے، معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اس حکومت نے یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دے دی ہے۔ برطانیہ نے رواں سال ۳۱ جنوری کو یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرلی تھی، تاہم ۳۱ [مزید پڑھیے]
برطانیہ انتخابات کے بعد سب سے اہم کام بریگزٹ کا اپنے انجام تک پہنچنا ہے۔ بریگزٹ کے لیے ریفرنڈم سے اب تک یعنی تین ساڑھے تین برس کے دوران غیر یقینی کی صورتحال رہی ہے جہاں ہر نتیجہ ممکن تھا،ہم یہ جانتے ہیں کہ ۳۱ جنوری کے بعد بریگزٹ کے عمل کو پیچھے کی طرف لے جانا ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک بڑا کام ہے کیوں کہ بریگزٹ نے برطانیہ اور یورپ دونوں طرف سیاست پر ایک گہرا نفسیاتی اثر ڈالا ہے۔یورپ ایک غیریقینی شراکت دار کے ساتھ کام کررہا ہے، جس کی کوئی سمت متعین نہیں ہے۔کچھ کو ابھی تک امید تھی کہ شاید بریگزٹ کی واپسی کی کوئی راہ نکل آئے لیکن اب سب کچھ با لکل واضح ہے۔ یہ ایک لازمی امر [مزید پڑھیے]
چھبیس جون ۲۰۱۶ء کو برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈال کر بریگزٹ (BREXIT) کو تو کامیابی بخش دی، لیکن اب حال یہ ہے کہ یورپی یونین سے کس طرح نکلنا ہے اس پر تقسیم اس قدر بڑھ گئی ہے کہ بغیر معاہدے یونین کو چھوڑنے کا ڈر ستانے لگا ہے، کیونکہ یہ برطانیہ کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب نہ صرف برطانیہ کی معیشت یورپی یونین کے دیگر ملکوں کی نسبت بہتر تھی بلکہ بیروزگاری کی شرح بھی کم تھی، لیکن مزید طلب کی خواہش نے جنم لیا اور برطانوی عوام نے ملازمتیں غیرملکیوں کو ملنے اور معاشی مشکلات کے ڈر سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن اس فیصلے کے بعد لینے کے [مزید پڑھیے]
برطانیہ میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق فرانس اور جرمنی کے مقابلے میں برطانیہ کے لوگ اسلام کے حوالے سے زیادہ متحمل ہیں تاہم برطانوی شہریوں کی ایک تہائی تعداد ملکی اقدار اور اسلام کو ایک دوسرے سے متصادم سمجھتے ہیں۔[مزید پڑھیے]
حقیقی زندگی کسی بھی داستانِ ہوشربا سے بڑھ کر دلچسپ و حیرت انگیز ہے۔ ’’جیمز بانڈ‘‘ کسی خیالی دنیا کا نمائندہ نہیں۔ سازشی تھیوریاں محض تھیوریاں نہیں ہوتیں، یہ وہ سوچے سمجھے منصوبے ہوتے ہیں، جو ابھی تکمیل کو نہیں پہنچے۔ جب مکمل ہو چکیں تو یہ سفارتی لغت میں ’’حکمت عملی‘‘ کے نام سے جگہ پاتے ہیں۔ یہ سب وہ تاثرات ہیں جو گزشتہ ہفتہ عشرہ کے دوران عالمی سطح پر وقوع پذیر ہونے والے چند واقعات اور ان کے گرد اسرار کے دبیز سائے دیکھ کر ذہن میں آتے ہیں۔ ۱۴؍ مارچ، بروز بدھ برطانوی وزیراعظم نے دارالعوام میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کی حکومت روسی ’’جارحیت‘‘ کے جواب میں فوری طور پر ۲۳ روسی سفارت کاروں کو ناپسندیدہ قرار [مزید پڑھیے]
جمعہ کے دن یورپی یونین میں سناٹا اور گھمبیر خاموشی کی کیفیت طاری تھی، ا س وقت یہ جاننا تقریباً ناممکن تھا کہ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج یورپ کے حق میں ہوں گے یا خلاف، لیکن برطانوی سفارتکاروں کی یورپ کے خلاف تائید نے مستقبل کے خدو خال کو کسی حد تک واضح کردیا تھا ۔ برطانوی ریفرنڈم کے نتائج سے برطانیہ سمیت عالمی معیشت بری طرح متاثر ہوگی، یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد برطانیہ کے سامنے یورپ سے ۴۳ سال بعد باضابطہ علیحدگی، نئی حکومت کا قیام، آزاد ریاست میں نسل پرستوں کے غیر برطانوی شہریوں پر حملے سے نمٹنے کے لیے اسکاٹ لینڈ یارڈ سے مدد لینے سمیت کئی مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ یہ سب برطانیہ کے اندرونی مسائل [مزید پڑھیے]
برطانیہ کے لوگوں نے کبھی یہ بات اپنے ذہن سے نہیں نکالی کہ وہ کبھی ایک عظیم سلطنت تھے۔ جب براک اوباما نے وائٹ ہاؤس کے اوول آفس سے سابق برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل کا کاندھوں تک کا مجسمہ نکال باہر کیا تب برطانیہ کے لوگ بھڑک گئے تھے اور ایک چھوٹا موٹا سفارتی بحران نمودار ہوگیا تھا۔ لندن کے سابق میئر اور وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کا خواب دیکھنے والے بورس جانسن نے اس عمل کو غداری کے مترادف قرار دیا تھا۔ وہ یہ کہنے سے بھی نہیں چوکے تھے کہ ممکن ہے براک اوباما نے اپنے بزرگوں سے کوئی ایسی ویسی بات سن رکھی ہو اور برطانیہ کے لیے اپنی شدید ناپسندیدگی کا مظاہرہ کرنے اور برطانوی باشندوں [مزید پڑھیے]
جیسا کہ چین اب یورپ کی تجارتی منڈیوں میں اپنی جگہ بنانا چاہتا ہے، اس لیے اس نے اپنا ہدف لندن کو بنایا ہے جو کہ یورپ کا تجارتی مرکز ہے۔ اکتوبر ۲۰۱۵ء میں چینی صدر شی جن پنگ نے لندن کا دورہ کیا، اس دوران ’’پیپلز بینک آف چائنا‘‘ نے برطانیہ کو قرضوں کی پیشکش کی۔ چین کی حدود سے باہر کسی بھی ملک کے لیے ’’پیپلز بینک‘‘ کی یہ پہلی پیشکش ہے۔ ایک طویل عرصے بعدبرطانیہ اور چین کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری میں پیش رفت ایک حیران کن مرحلہ ہے۔ اٹھارہویں صدی میں ہونے والی ’’افیونی جنگوں‘‘ کے بعد یہ پہلی تجارتی پیشکش ہے۔ چین کے تاجروں کے لیے برطانیہ ایک پُرکشش تجارتی منڈی ہے۔ چین نے برطانیہ میں ۱۰؍ملین سے [مزید پڑھیے]
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ۱۷؍دسمبر ۲۰۱۵ء کو پارلیمان کو اخوان المسلمون کے ایک جائزے کا خلاصہ پیش کیا جس کا حکم انہوں نے اپریل ۲۰۱۴ء میں خود دیا تھا۔ اس کام کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی نے سعودی عرب میں سابق برطانوی سفیر سر جان جینکنز کی سربراہی میں کام کیا جبکہ اس میں سفارتکاروں کے علاوہ سکیورٹی اور انٹیلی جنس حکام بھی شامل تھے۔ غالباً کمیٹی نے اپنا کام کئی ماہ قبل ہی مکمل کرلیا تھا مگر برطانوی حکومت اور اس کی اتحادی عرب ریاستوں کے دباؤ کے باعث اس کی اشاعت مؤخر ہوتی رہی۔ اس جائزے کی خبروں کو ابتدا سے ہی جگہ دینے والے برطانوی اخبار گارجین نے اخذ کیے گئے نتائج کو توقعات سے زیادہ سخت قرار دیا۔ اس [مزید پڑھیے]
گزشتہ سال میں کم و بیش ۳۹ ہزار مہاجرین نے، جن میں زیادہ تر کا تعلق شمالی افریقا سے تھا، فرانس کی بندرگاہ کیلس سے ٹرکوں اور ٹرینوں کے ذریعے انگلش راہداری کو پار کرتے ہوئے برطانیہ کی طرف جانے کی کوشش کی۔ جواباً، کیلس کی ٹنل میں داخلے کو محفوظ بنانے کے لیے برطانوی حکومت نے ڈھائی میل کا حفاظتی جنگلا استعمال کیا، جو اس سے قبل ۲۰۱۲ء کے اولمپک مقابلوں اور ۲۰۱۴ء میں نیٹو سربراہی اجلاس کے موقع پر استعمال کیا گیا تھا۔ برطانیہ کا تارکینِ وطن کے بحران پر ایک مربوط پالیسی کے بجائے استعمال شدہ جنگلوں کو استعمال کرکے وقتی طور پر مسئلے سے نمٹنے کی پالیسی غماز ہے کہ اپنے ساحلوں سے دور دنیا کے بارے میں برطانیہ کی سوچ [مزید پڑھیے]
اطلاعات کے مطابق ایک امریکی شہری نے ملکۂ برطانیہ اور برطانوی وزیراعظم کے نام ایک مراسلہ لکھا ہے۔ مراسلہ ایک ہی ہے البتہ خطاب دونوں سے ہے۔ اس کی خبر ایک ویب سائٹ ریڈٹ کو زیر استعمال رکھنے والے ایک شخص نے دی ہے۔ اس کا کہیں نام نہیں آیا ہے اور نہ مراسلہ نگار کا نام ظاہر کیا گیا ہے۔ البتہ بکنگھم پیلس (برطانوی شاہی محل) نے اس کی تصدیق کر دی ہے کہ ملکہ کے نام اس طر ح کا ایک مراسلہ موصول ہوا ہے۔ یہی نہیں ملکہ کی طرف سے اس کا جواب بھی ارسال کر دیا گیا ہے۔ برطانوی ذرائع ابلاغ نے ان دونوں واقعات کی نہ صرف تصدیق کر دی ہے بلکہ ملکہ کی جانب سے ارسال کردہ جواب کا [مزید پڑھیے]
اب جبکہ عام انتخابات میں محض ایک مہینہ رہ گیا ہے، دنیا کی نظریں برطانیہ پر ہیں۔ مگر یہ نگاہیں پیداواری ریاست اور تیزی سے بہتر ہوتی معیشت پر نہیں، جس کی بابت وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بڑھ چڑھ کر بات کررہے ہیں، اور نہ ہی برابری سے متعلق اُس اہم بحث پر ہیں جو لیبر پارٹی کے رہنما ایڈ ملی بینڈ چھیڑنا چاہتے ہیں۔ اس کے بجائے توجہات بین الاقوامی تعلقات کے ریڈار پر موجود اس خلا کی جانب ہیں جسے برطانیہ کو پُر کرنا چاہیے تھا۔ روسی جارحیت صرف یوکرین تک محدود نہیں ہے۔ روس کے بمبار اب برطانیہ کی فضائی دفاع کا امتحان لے رہے ہیں، جیسا کہ انہوں نے سرد جنگ کے عروج میں لیا تھا۔ سیکڑوں شدت پسند برطانوی نوجوان شام [مزید پڑھیے]
اس بات کو زیادہ سے زیادہ پچاس سال بھی نہیں ہوئے کہ اردو دیکھتے ہی دیکھتے براعظموں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ یہ عمل خاص طور پر برطانیہ میں ظہور پذیر ہوا۔ لندن کو اردو کا تیسرا چوتھا مرکز کہا جانے لگا۔ خوش فہمی کی حد نہیں ہوتی۔ ایسا حقیقت میں جھانکے بغیر یا کوئی سروے کیے بغیر مشہور ہو گیا تھا۔ اس بات کو اس امر سے بھی تقویت پہنچی کہ یورپین مارکیٹ میں شرکت کے بعد اردو برطانیہ کے کئی شہروں کے اسکولوں میں باقاعدہ اردو لٹریچر کے تقرر کے بعد جماعت میں مادری زبان کے طور پر پڑھائی جانے لگی تھی۔ اس میں بھی شک نہیں کہ کسی دور افتادہ جگہ پر ایک اردو بولنے والا ملا تو دوسری [مزید پڑھیے]
اسکاٹ لینڈ کے حالیہ ریفرنڈم کے نتائج سے برطانیہ کی مشکلات اِس لیے بڑھیں گی کہ اب اسکاٹ لینڈ میں رائے عامہ واضح طور پر دو تقریباً برابر کے حصوں میں بٹی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ ویسٹر منسٹر میں براجمان برطانیہ کے اعلیٰ ترین اذہان کو یہ خیال کیوں نہ سُوجھا کہ اسکاٹ لینڈ میں رائے عامہ دولخت بھی ہوسکتی ہے۔
1
2
3
»