
ذریعۂ تعلیم پر قومی مشاورت
نظام تعلیم کی یکسانیت ان دنوں حکومتی جماعت کے منشور اور وزیراعظم اور وزیر تعلیم کے بیانات کی روشنی میں بجا طور پر علمی حلقوں […]
نظام تعلیم کی یکسانیت ان دنوں حکومتی جماعت کے منشور اور وزیراعظم اور وزیر تعلیم کے بیانات کی روشنی میں بجا طور پر علمی حلقوں […]
میں جب لمز یونیورسٹی میں جسٹس صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو کچھ طلبہ و طالبات بیٹھے تھے اور باہمی گفتگو جاری تھی۔ کمرے […]
اردو کا مسئلہ ہمارے لیے محض زبان کا مسئلہ نہیں، نہ یہ محض کاروباری سوال ہے، اس کی اصل اہمیت اس کے علاوہ بھی ہے […]
کرۂ ارض کی پانچ ہزار سالہ مرقومہ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی کسی بھی قوم نے اس وقت تک ترقی نہیں کی جب تک […]
دشمنی نہ آکسفورڈ اور کیمبرج کے تحت لیے جانے والے او لیول اور اے لیول سے ہے اور نہ ہی انگریزی ذریعہ تعلیم سے۔ ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تو وہ قومی زبان اردو ہے۔ اس قومی زبان اردو سے اس قدر دشمنی کیوں ہے۔ یہ سوال اس قدر مضحکہ خیز بن جاتا ہے جب اردو کے خلاف بولنے والے تقریریں بھی اردو میں کر رہے ہوتے ہیں۔ […]
اس بات کو زیادہ سے زیادہ پچاس سال بھی نہیں ہوئے کہ اردو دیکھتے ہی دیکھتے براعظموں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ […]
زبان کا تلفظ زَبان ہے یا زُبان، دونوں طرح سے درست ہے، مختلف فیہ مسئلہ بنا لیا گیا ہے۔ بعض لوگ تخصیص کرتے ہیں کہ […]
جو تفہیم اور سہولت انسان کو اپنی مادری یا قومی زبان میں ہو سکتی ہے کسی بدیسی زبان میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا بھلے ساری عمر ہی کیوں نہ سیکھی جائے؟ پھر انسان کی تخلیقی صلاحیتیں جس طرح اپنی زبان میں بروئے کار آتی ہیں کسی اور زبان میں کیسے آسکتی ہیں؟ وجہ سادہ سی ہے کہ اپنی زبان انسان کی سرشت میں ہوتی ہے، اس کے خمیر میں ہوتی ہے۔
آرتھو گرافی، قواعد اور صَرف و نحو کا حسن ہوتا ہے مگر الفاظ کے تلفظ اور ان کے املاء میں اغلاط اس کے حسن کو گہنا دیتے ہیں۔ کتب کی اشاعت اور ان کی تصحیح ایک بنیادی فریضہ اور ذمہ داری ہے مگر گرامر کی تدریس میں شین قاف درست کرنا تو بہت دور کی بات ہے، اس میں اغلاط درجہ بدرجہ ہر سال اسی طرح کی جارہی ہیں
قومی اسمبلی میں ہماری قومی زبان کو بطور دفتری، سرکاری اور تدریسی زبان اپنانے سے انکار کا سوال ایک مرتبہ پھر ہنگامہ خیز بحث کا سبب بن گیا ہے۔ متحدہ قومی تحریک کے ایم این اے شیخ صلاح الدین نے جب یہ سوال اٹھایا کہ قومی زبان کو دفتری، سرکاری اور درس و تدریس کے شعبوں میں کب اپنایا جائے گا
موجودہ دور میں دیونا گری رسم الخط میں لکھی جانے والی زبان کو ہندی اور فارسی رسم الخط والی زبان کو اردو کہا جاتا ہے۔ کم و بیش پچاسی فی صد الفاظ کے اشتراک کے باوجود دو مختلف رسم الخط ہونے کی وجہ سے یہ دو زبانیں قرار پائی ہیں۔ اب نہ جانے ایک ہی زبان (اردو) کو بیک وقت اردو اور انگریزی حروف میں لکھ کر اسے کس قسم کی ترقی کی راہ پر ڈالا جا رہا ہے۔
نہایت مہارت کے ساتھ ملک میں نظامِ تعلیم ایسا نافذ کیاگیا ہے جس میں اردو پڑھنے کا نئی نسل کو موقع ہی نہیں ملتا، جس ’’سہ لسانی‘‘ فارمولے کا اعلان کیا گیا تھا اس میں اردو کی جگہ سنسکرت کو ملی اور اس طرح اردو پڑھنے والوں کے لیے طرح طرح کی دیواریں کھڑی کردی گئی ہیں اور نفسیاتی طور پر بھی وہ اپنی زبان کو بے وقعت سمجھنے لگے ہیں جس کے پڑھنے میں انہیں کوئی اقتصادی فائدہ نظر نہیں آتا
چند برسوں سے ملک میں اردو زبان، رومن / انگریزی رسم الخط (Alphabet) میں لکھی جارہی ہے۔ اشتہاری بورڈز ہوں یا دکانوں کے نام، شاپنگ بیگز ہوں یا مصنوعات کے اشتہارات، اب سب لوگ اردو رسم الخط کے بجائے، رومن / انگریزی رسم الخط میں اردو لکھ رہے ہیں۔
یہی حال ٹیلی ویژن کے ڈراموں اور پروگراموں سے پہلے یا بعد لکھے ہوئے ناموں کا بھی ہے۔ ڈرامہ یا پروگرام اردو میں ہوتا ہے، مگر رسم الخط رومن۔ موبائل فونز نے مزید بربادی کا سامان کر دیا ہے۔ انگریزی آتی نہیں، اس لیے لکھتے اردو ہی میں ہیں۔ مگر رسم الخط رومن / انگریزی ہوتا ہے۔ ان سب باتوں کا نتیجہ بہت جلد یہ نکلے گا کہ نئی پود کی انگریزی تو اچھی نہیں ہو سکے گی، مگر وہ اردو لکھنے پڑھنے سے بھی محروم ہو جائے گی۔
الفاظ فکرِ انسانی کے ترجمان ہوتے ہیں، الفاظ کے درمیان متکلم اس طرح موجود ہوتا ہے کہ اس کی نفسیات، اخلاق اور کردار پر کوئی […]
کوئی چھ ماہ قبل، ایک دوست سے ، ’’فصل نامۂ چلیپا‘‘ کے نام سے ایک فارسی رسالہ مطالعہ کے لیے ملا۔ یہ رسالہ بنیادی طو […]
Copyright © 2023 | WordPress Theme by MH Themes