امریکی انخلا
سی آئی اے سے متعلق خبریں رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایجنسی نے امریکی انخلا سے چند دن قبل ہی اپنے تمام ایجنٹس اور سہولت کاروں کو افغانستان سے نکال لیا تھا۔ اگرچہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے دو ہفتے قبل بیان دیا تھا کہ امریکا کے مختلف شعبوں کے لیے کام کرنے والے افغانوں کی اکثریت ابھی تک افغانستان میں موجود ہے۔ کانگریس کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ’’فارن پالیسی میگزین‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تقریباً تمام افراد کا انخلا کر لیا ہے، جن کی تعداد ہزاروں میں تھی، ان میں امریکا کے لیے کام کرنے والے جاسوس اور ان کے اہل خانہ بھی شامل ہیں، کیوں کہ اس بات کا قوی امکان تھا [مزید پڑھیے]
امریکا نے دو عشروں تک افغان سرزمین پر موجود رہتے ہوئے وہاں شدید نوعیت کی خرابیوں کا بازار گرم رکھا۔ امریکا اپنی افواج کو وہاں سے نکال رہا ہے، اپنی پالیسی کو تبدیل نہیں کر رہا۔ اس کا انخلا افغانستان کی بنیاد پر خطے میں بڑی خرابیوں کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ نئی دہلی کے بزرجمہر اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں کہ امریکا جو کچھ کر رہا ہے اس کے نتیجے میں خطے میں محض کشیدگی نہیں بڑھے گی بلکہ بہت کچھ الٹ پلٹ جائے گا۔ افغانستان کی کوکھ سے بحران جنم لیتے رہے ہیں اور ابھی تک ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ دانش مندی سے کام لیتے ہوئے بیرونی قوتوں کو خطے کے معاملات سے [مزید پڑھیے]
۸ مئی کو کابل میں ایک اسکول کے باہر بم دھماکے میں کم از کم ۶۸؍ افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ ۱۶۰ سے زائد زخمی ہوئے۔ اگرچہ کسی نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، لیکن اس دھماکے نے افغانستان کے مستقبل پر گہرے سائے ڈال دیے ہیں، کیوں کہ رواں برس گیارہ ستمبر تک امریکی فوج افغانستان سے نکل جائے گی۔ اگلے ہی دن چینی وزارتِ خارجہ نے حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی جانب سے افغانستان سے مکمل انخلا کے اچانک اعلان کے نتیجے میں اس طرح کے حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس طرح کے تبصرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی انخلا کے حوالے سے چین کس طرح سوچ رہا ہے۔ بیجنگ افغانستان میں [مزید پڑھیے]
افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کا انخلا طے شدہ شیڈول سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہے۔ ساتھ ہی افغانستان میں دہشت گرد کارروائیاں بھی تیز ہوچکی ہیں۔ اگرچہ طالبان تازہ کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں اور افغان شہروں اور قصبوں پر کابل انتظامیہ کا کنٹرول ابھی برقرار ہے لیکن دیہی علاقوں میں طالبان کی گرفت بدستور مضبوط ہے۔ فوجی انخلا کے بعد کی منصوبہ بندی سابق صدر بش جونیئر، سابق وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن، کونڈالیزا رائس، سابق ڈائریکٹر سی آئی اے ڈیوڈ پٹریاس سمیت امریکا کے اہم سیاستدان فوجی انخلا کے فیصلے اور اس کے بعد افغان فورسز کی صلاحیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ افغانستان میں ایک بار پھر خانہ جنگی اور ہمسایہ ملکوں [مزید پڑھیے]
آج کی افغان فوج سابق سوویت یونین کی شکست و ریخت کے وقت کی افغان فوج کے مقابلے میں خاصی کمزور ہے۔ مگر خیر، مزاحمت کرنے والے جنگجو بھی کچھ زیادہ طاقتور نہیں۔ افغانستان سے امریکا کے حتمی انخلا کا مرحلہ شروع ہوئے ایک ماہ ہوچکا ہے اور اب یہ عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔ امریکی صدر جوزف بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان سے تمام امریکی فوجی ستمبر تک نکال لیے جائیں گے۔ ایسے میں یہ بات بعید از قیاس لگتی ہے کہ وہ جولائی تک جاچکے ہوں گے۔ امریکی جرنیلوں نے پیکنگ کرلی ہے اور معاملات افغان حکومت اور فوج کے حوالے کرنے کا عمل نصف کی حد تک مکمل ہوچکا ہے۔ طالبان کی قیادت میں برپا کی جانے والی شورش کے [مزید پڑھیے]
ماسکو میں ہونے والے مذاکرات کے بعد طالبان نے یہ بیان دیا ہے کہ انہیں امید ہے کہ امریکا بھی معاہدے کا احترام کرتے ہوئے مئی میں افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لے گا۔ طالبان وفد نے شیر محمد عباس استنکزئی کی سربراہی میں روسی سفارت کاروں سے ملاقات کی۔ بات چیت کا یہ دور دو روز تک جاری رہا۔ اس موقع پر طالبان وفد کے سربراہ کا کہنا تھا کہ طالبان نے گزشتہ سال قطر میں ہونے معاہدے میں شامل ان تمام شقوں پر عمل کیا ہے جن کا تعلق طالبان سے تھا۔ وائٹ ہاؤس اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ گزشتہ سال صدر ٹرمپ کی جانب سے کیے گئے دوحہ معاہدے پر نظر ثانی کر رہی [مزید پڑھیے]
امریکی افواج افغان سرزمین تیزی سے چھوڑ رہی ہیں۔ امریکا رخصت تو ہو رہا ہے مگر افغانستان کے مستقبل پر پہلے سے بھی بڑا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے کیونکہ کسی ایک معاملے میں بھی پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ فائزہ ابراہیمی کو کچھ زیادہ یاد نہیں۔ تب وہ بہت چھوٹی تھی، جب افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی۔ فائزہ کے والدین جب اُسے بتاتے ہیں کہ افغانستان پر کئی سال تک طالبان کی حکومت رہی جو شریعت کے طے کردہ قوانین کے مطابق تھی تو اُسے یقین ہی نہیں آتا۔ فائزہ مغربی شہر ہرات میں ریڈیوپریزنٹر ہے۔ فائزہ کو یقین ہی نہیں آتا جب اسے بتایا جاتا ہے کہ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے اور مدارس میں تعلیم پانے والے نوجوان کسی [مزید پڑھیے]
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بات کئی بار برملا کہی ہے کہ امریکا کو دُور افتادہ خطوں میں لاحاصل جنگوں میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔ امریکی حکام افغانستان سے فوجیوں کو خاموشی سے نکال رہے ہیں۔ ایک امریکی عہدیدار نے بتایا ہے کہ امریکا نے ایک سال کے دوران افغانستان سے دو ہزار فوجیوں کو چپ چاپ نکال لیا ہے۔ یہ خاموش انخلا کابل حکومت کے علم میں ہے اور اس حوالے سے باضابطہ دستاویزی کارروائی بھی کی گئی ہے۔ یہ انخلا اس اعتبار سے حیرت انگیز ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹ چکا ہے اور ان سے کسی باضابطہ معاہدے کی منزل بہت دور دکھائی دیتی ہے۔ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کے ٹاپ کمانڈر جنرل آسٹن ایس ملر نے ایک [مزید پڑھیے]
افغان امن مذاکرات کے حوالے سے امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زادنے ۱۶؍اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قومی سلامتی کی ٹیم کو افغان امن مذاکرات اور طالبان کی طرف سے ایک ایسی پیشکش کے بارے میں بریف کیا، جس کی مدد سے امریکا بیرون ملک طویل ترین جنگ میں اپنے کردار کو باعزت طریقے سے ختم کرسکتا ہے۔ ابھی تک کوئی باضابطہ ڈیل ہوئی نہیں ہے اور تفصیلات طے کی جارہی ہیں، امریکا فوری طور پر ۸۶۰۰ فوجیوں کو اور اکتوبر ۲۰۲۰ء تک تمام فوجیوں کو نکالنے سے متعلق امور پر غور کر رہا ہے۔ طالبان نے القاعدہ سے تعلقات کم کیے ہیں اور افغان حکومت سے بات چیت سے انکاری رہے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ پہلے واشنگٹن اُن سے [مزید پڑھیے]
افغانستان میں کھیل اب آخری مرحلے کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ وہاں امریکا کی طویل المدت فوجی مہم کے خاتمے کی توقعات نے چند ایسے منظرناموں کو جنم دیا ہے، جو ملکی مستقبل کا تعین کرسکتے ہیں۔ موجودہ سفارت کاری سے یا تو ایک ایسے سیاسی حل کی راہ ہموار ہوسکتی ہے، جس سے افغانستان اور خطے کے اندر ظاہری حیثیت میں امن قائم ہو یا پھر یکطرفہ امریکا نیٹو کے نظم و ضبط سے عاری انخلا کی راہ ہموار ہوسکتی ہے، جو افغانستان کی ۴۰ سالہ خانہ جنگی کے باب کو ایک بار پھر دہرانے کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم دیگر منظرناموں کا بھی امکان ہے، کیونکہ کئی قوتیں کھیل کے آخری مرحلے میں ٹکراتی ہیں یا پھر اتحاد کرتی ہیں۔ [مزید پڑھیے]
امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد افغان طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ افغانستان سے جلد ازجلد امریکی افواج کا انخلا چاہتے ہیں اور امن مذاکرات اس کام کے لیے اچھا بہانہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ زلمے خلیل زاد کی کوششیں کسی حد تک کامیاب بھی رہیں۔ ان کی کاوشوں سے امریکی حکام اور طالبان کے درمیان کچھ ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ٹولو نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ ’’اُن (طالبان) کا کہنا تھا کہ ہم آپ کو شکست نہیں دے سکتے‘‘۔ طالبان نے انھیں بتایا کہ وہ معاملات کو سیاسی طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں، وہ پہلے امریکا اور پھر افغانستان کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔ طالبان کے وفد میں [مزید پڑھیے]
امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے انخلا کی تیاری کر رہے ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں انخلا مکمل ہونے کی صورت میں معاملات کیا رخ اختیار کریں گے، سب جانتے ہیں۔ طالبان کی پوزیشن مستحکم ہے اور اس کا زیادہ امکان ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آ جائیں گے۔ افغانستان میں چالیس سال سے حالات انتہائی سنگین ہیں۔ لڑائیاں ہوتی رہی ہیں۔ سوویت یونین کی لشکر کشی کے بعد مغربی طاقتوں نے پاکستان اور دیگر ممالک سے جہادیوں کو فنڈنگ کے ذریعے افغانستان میں متحرک کیا اور بالآخر سوویت افواج کو نکلنے پر مجبور کیا۔ ان چالیس برسوں میں افغان عوام مستقل بنیاد پر غیر یقینی صورت حال کا شکار رہے ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور ان کے ہم خیال ممالک افغانستان سے نکلنے کی تیاری [مزید پڑھیے]
عالمی برادری نے افغانستان کے لیے مزید امداد کا اعلان کیا ہے۔ مگر کیا امداد سے افغانستان کے تمام مسائل عمدگی سے حل ہو جائیں گے؟ یقینا نہیں۔ ۸ جولائی کو ٹوکیو میں افغانستان پر کانفرنس منعقد ہوئی جس میں عالمی برادری نے عہد کیا کہ وہ جنگ سے تباہ حال اس ملک کو چار برسوں میں مزید ۱۶؍ ارب ڈالر دے گی۔ افغان فوج اور پولیس کو سیکورٹی کی ذمہ داری مکمل طور پر سنبھالنے کے قابل بنانے کے لیے جو کچھ دیا اور کیا جائے گا وہ اس کے علاوہ ہے۔ امریکا میں یہ صدارتی انتخاب کا سال ہے۔ چند ایک اعلانات خاصے مبہم ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ امریکا نے جو رقم دینے کا اعلان کیا ہے وہ ساری کی ساری نئی نہ [مزید پڑھیے]
افغانستان کے سیکولر عناصر بھارت نواز رہے ہیں۔ سوویت لشکر کشی سے پہلے کے افغانستان میں حکمران یعنی بادشاہ ہر معاملے میں بھارت کی طرف دیکھنے کے عادی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی بھی مشکل گھڑی میں بھارت ان کے ساتھ ہو۔ گزشتہ دس بارہ برسوں کے دوران بھارت نے افغانستان سے دوستی اور تعاون بڑھانے میں غیر معمولی دلچسپی لی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ اتحادیوں کے انخلا کے بعد کے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ غیرمعمولی حد تک بڑھانا چاہتا ہے تاکہ وہاں قدم جماکر پاکستان پر اسٹریٹجک حوالے سے دباؤ بڑھایا جاسکے۔ افغان فوج کو بھارت میں تربیت بھی دی جارہی ہے۔ مگر اب معلوم ہوا ہے کہ بھارت میں زیرتربیت افغان فوجی کیڈٹس نے مذہب [مزید پڑھیے]
صدر آصف علی زرداری کو شکاگو میں نیٹو کانفرنس میں شریک ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ امریکا نے سلالہ چیک پوسٹ کے سانحے پر نہ تو معافی مانگی، نہ ڈرون حملے روکے اور نہ ہی عسکری امداد کی روکی ہوئی رقوم جاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ نہ صرف یہ، بلکہ یہ امریکا ہی تھا جس نے نیٹو سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان پر نیٹو رسد بحال کرنے کی شرط عائد کی۔ عجلت میں طلب کیے جانے والے ایک اجلاس میں کابینہ نے اعلان کیا کہ نیٹو رسد کھولنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور صدر شکاگو جاکر نیٹو سربراہ کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ شکاگو میں ایک حیرت انگیز اعلان پاکستانی صدر کا منتظر تھا۔ صدر براک اوباما نے اعلان کیا کہ [مزید پڑھیے]
1
2
3
4
»