امریکا
۲۰۲۱ء وداع ہونے کو ہے، تاریخ میں اس سال کو خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں بڑی سیاسی، سفارتی اور جیوپولیٹیکل تبدیلیوں کی وجہ سے یاد کیا جائے گا۔ ہر مسئلے کے لیے باہر سے مدد لینے کے عادی خلیجی ممالک اب ایک دوسرے سے بات چیت پر آمادہ ہیں، اس بڑی تبدیلی کی وجہ درحقیقت عراق اور افغانستان سے امریکی فوجی انخلا بنا۔ ۲۰۱۱ء کی عرب بہار کے کھنڈروں سے شام کے صدر بشارالاسد اور لیبیا کے سابق مردِ آہن معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام قذافی ایک بار پھر ابھر کر سیاسی منظرنامے پر آچکے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کا سوئٹزرلینڈ کہلوانے والا لبنان معاشی تباہی کی المناک داستان بن چکا ہے، ایران اپنے سخت گیر صدر ابراہیم رئیسی کی قیادت میں جوہری پروگرام[مزید پڑھیے]
عالمی منظر نا مے میں یہ وہ وقت ہے جب امر یکا اور چین کے درمیان کشمکش کی جھیل و سیع تر ہو تی جا رہی ہے۔ہو ا کچھ یوں ہے کہ امریکا بہا در عالمی جمہو ری ورچو ئل کا نفر نس منعقد کر نے کے درپے ہے۔ اس سلسلے میں اس نے چین کو تو مد عو نہیں کیا اور تا ئیوان کو مد عو کر رہا ہے۔ پاکستان کے لیے اس امر میں تشو یش یو ں اور زیا دہ بڑھ گئی کہ اس نے پا کستان کو بھی مد عو کر لیاہے۔ امریکا کے لیے پاکستان کے چین سے برادرانہ تعلقات ڈھکے چھپے نہیں۔ پاکستان میں کسی بھی سیاسی پارٹی کی حکومت ہو، وہ امر یکا اور چین کے ایک دوسرے[مزید پڑھیے]
امریکا اور چین کو ایک ایسے مسئلے کا سامنا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان مشترک ہے۔ یہ مسئلہ ہے اپنے اپنے معاشرے میں شدید نوعیت کی روز افزوں عدم مساوات کا۔ ویسے تو خیر دنیا بھر میں عدم مساوات پائی جاتی ہے اور بڑھ رہی ہے مگر دونوں بڑی طاقتیں اس معاملے میں زیادہ الجھنوں کا شکار ہیں۔ ایسا کسی نے سوچا نہیں تھا کہ یہ سب کچھ اس طور واقع ہوگا۔ دونوں بڑی طاقتوں کی دو عشروں کی معاشی نمو سے توقع تھی کہ تمام ہی کشتیاں رواں رکھنے کی راہ ہموار ہوگی۔ امریکا اور چین میں تیزی سے پنپتے ہوئے متوسط طبقے کی بہبود یقینی بنانا جو بائیڈن اور شی جن پنگ کا ترجیحی ایجنڈا رہاہے۔ دونوں کو اچھی طرح اندازہ ہے[مزید پڑھیے]
صدر جو بائیڈن کا افغانستان میں امریکی فوجی مشن ختم کرنے کا فیصلہ د رست تھا۔ یہ بات بالکل واضح تھی کہ کابل حکومت اپنے آپ کو برقرار رکھنے سے قاصر ہے، اگر مزید اربوں ڈالر بھی اس حکومت پر لگائے جاتے تو ان کے جانے میں تاخیر تو ہو سکتی تھی تاہم اپنے اقتدار کو قائم رکھنا اس حکومت کے بس کی بات نہیں تھی۔ درحقیقت افغان معاشرے کی تاریخ پراگر نظرڈالی جائے تو اس با ت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افغان عوام نے کبھی بیرونی طاقتوں کے فوجی قبضوں کو اپنا تسلط قائم نہیں کرنے دیا، ایسے میں اس تنازع کا فوجی حل کسی صورت بھی امریکا کے حق میں نہیں جا سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب[مزید پڑھیے]
ممکنہ طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اب امریکا وسطیٰ ایشیا میں عسکری مداخلت ختم کردے گا۔تاہم،خطے میں انتشار اور عدم استحکام برقرار رہے گا۔یکم اکتوبر کو تاجکستان اور طالبان حکومت کے درمیان شروع ہونے والی کشیدگی اور لفظی جنگ کے نتیجے میں روس نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔اگر چہ ان دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان باہمی تعاون کا معاہدہ موجود ہے۔ افغانستان میں جاری غیر یقینی صورتحال کے باوجود روس کی قیادت میں حلیف ممالک تاجکستان،افغانستان سرحد پر جنگی مشقوں کی تیاری کررہے ہیں۔ وسطی ایشیا کے یہ ممالک اپنی سلامتی کے لیے دوسرے ممالک پر انحصار کرتے ہیں۔امریکا کے افغانستان سے انخلا کے بعد روس اور چین آپس میں مزید قریب آرہے ہیں۔ لیکن ابھی صورتحال واضح [مزید پڑھیے]
جب کبھی دنیا کی طاقتور قوتیں اپنی ناکامی کو قبول کرتی ہیں تو ایسی صورتحال میں انہیں اپنی غلطی کا خمیازہ تا دیر بھگتنا پڑتا ہے۔ امریکا کا افغانستان میں دو دہائی تک قیام کے بعد اب انخلا کا فیصلہ بھی اسی طرح خطرناک نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ افغانستان کے عوام کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اب امریکا اپنی ناکامی اور واپسی کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دراصل، وہ اپنے اصل حریف چین پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے۔امریکا کے لیے اس ذلت آمیز شکست کے دُوررس اثرات سے باہر نکلنا آسان نہیں ہوگا۔ امریکا کے انخلا سے کابل فوری طور پر طالبان کے ہاتھوں میں چلا گیا اور امریکا کی تربیت یافتہ افغان فورسزنے ہتھیار[مزید پڑھیے]
پنڈی اور اسلام آباد کو پیارے ۳ پاکستانی وزیر پچھلے ایک مہینے میں امریکا کے دورے کرچکے ہیں۔ یہ ۳ وزیر شاہ محمود قریشی، شوکت ترین اور اسد عمر تھے۔ قریشی صاحب تو اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے دوران اپنے امریکی ہم منصب سے سائڈ لائن ملاقات میں کامیاب رہے تاہم شوکت ترین آئی ایم ایف سے کوئی بریک تھرو کیے بغیر واپس ہولیے۔ اسد عمر کی وزارت برائے منصوبہ بندی اور ترقی سی پیک کو بھی دیکھتی ہے۔ اسد عمر امریکا میں سی پیک کو مارکیٹ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ۲۲ کروڑ آبادی کے ساتھ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ اپنے محل وقوع کی وجہ سے یہ دنیا کا واحد ملک ہے جو آبادی کے حساب[مزید پڑھیے]
افغانستان میں امریکا کی ذِلّت آمیز شکست کے باوجود پاکستان ہی نہیں، بلکہ دْنیا بھر میں امریکی نمک خوار یا ٹیکنالوجی پرست ’’مشرکین‘‘ اپنے خواب و خیال کی دْنیا میں امریکا کو فاتح قرار دیے بیٹھے ہیں۔ جن لوگوں نے ’’پری سکول‘‘ کے زمانے سے امریکی اور یورپی تہذیب و ثقافت کو اوڑھنا شروع کیا تھا اور عمر کے ساتھ ساتھ مغربی طرزِ زندگی کے ہر بْت کو تعریفی نگاہوں سے دیکھا تھا، ایسے لوگوں کے سامنے امریکا اور اس کی ٹیکنالوجی کا ’’بْت‘‘ دھڑام سے گر کر کرچی کرچی بھی کیوں نہ ہو جائے وہ اس میں اس کی کوئی نہ کوئی توجیہہ ضرور نکال لیتے ہیں۔ کابل میں طالبان کے فاتحانہ داخلے کے دن، میرے ملک کا یہ نمک خوار امریکی نواز طبقہ[مزید پڑھیے]
۲۰۱۷ء میں جب جاپانی وزیراعظم شانزو ایب نے بھارت، آسٹریلیا اور امریکا کے حکام کو منیلا میں ملاقات کی دعوت دی تو اس خبر میں ایسا کچھ نہیں تھا جو چین کے لیے پریشانی کا باعث بنتا۔اس وقت چینی وزیر خارجہ Wang Yi نے طنز کرتے ہوئے اس محفل کے بار ے میں کہا تھا کہ ’’QUAD (اس گروپ کو ’’کواڈ‘‘کا نام دیا گیا تھا)کا یہ اجتماع صرف ذرائع ابلاغ میں سرخیوں میں آنے کی ایک کوشش ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ بحرالکاہل یا بحرہند کی اس جھاگ کی طرح ہے جو توجہ چاہتی ہے لیکن پھر خود بخود بیٹھ جاتی ہے‘‘۔ایسا بیان دینے کے لیے بیجنگ کے پاس ٹھوس وجہ بھی تھی۔چینی ماہرین کا خیال تھا کہ ’’کواڈ‘‘کے ارکان ممالک کے مفادات[مزید پڑھیے]
اس بات کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ خلیجی ریاستیں اس پورے معاملے پر ضرور نظر رکھیں گی کہ افغانستان سے امریکی انخلا اور امریکا کی جانب سے وسط ایشیا کو چھوڑ دینے کے بعد روس اور چین سیکورٹی کے خلا اور درپیش خطرات سے کس طرح نمٹتے ہیں۔ اس عمل کے نتیجے میں ان ریاستوں کو یہ جانچنے میں مدد ملے گی کہ روس اور چین مشرق وسطیٰ میں امریکا کے کس حد تک متبادل ہوسکتے ہیں۔ اس کی ضرورت یوں پیش آئی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا اب قابل اعتبار نہیں رہا ہے۔ امریکا کی عدم دلچسپی ممکنہ طور پر خلیجی ریاستوں کو اب احساس ہوجائے گا کہ امریکا اب ان کے حوالے سے دلچسپی نہیں رکھتا۔ یہی چیز انہیں مجبور[مزید پڑھیے]
ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتر محمد کا شمار اُن سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو حکمرانی کے ساتھ ساتھ فکر و نظر کے حوالے سے بھی اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ زیر نظر صفحات اُن کی کتاب ’’اچیونگ ٹرو گلوبلائزیشن‘‘ سے اقتباسات پر مشتمل ہیں۔ ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکا اور اتحادیوں کے حملے کے بعد شائع ہونے والی یہ کتاب ڈاکٹر کوہائی ہاشی موتو نے مہاتر محمد سے دس گھنٹے کی طوالت پر مبنی گفتگو کی مدد سے ترتیب دی تھی۔[مزید پڑھیے]
نائن الیون کے بعد پاکستان کے سرکردہ رہنماؤں نے امریکی قائدین سے اپنی پہلی ملاقات میں ان پر زور دیا تھا کہ افغانستان پر حملہ نہ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے بجائے القاعدہ کے خلاف ہدفی کارروائیاں کی جائیں۔ امریکا میں پاکستان کی سفیر ہونے کے ناطے مجھے تب اعلیٰ سطح کے متعدد اجلاسوں میں شرکت کا موقع ملا تھا۔ ان اجلاسوں میں پاکستانی حکام نے انتباہ کیا تھا کہ عسکری کارروائی کارگر ثابت نہ ہوگی۔ اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ امریکا نائن الیون کے ذمہ دار گروپ القاعدہ اور طالبان میں فرق ملحوظِ خاطر رکھے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ طالبان کو قبول کرتے ہوئے انہیں ساتھ کام کرنے دیا جائے۔ نائن الیون اتنا بڑا المیہ [مزید پڑھیے]
افغانستان میں جو کچھ بھارت کے ساتھ ہوا ہے یعنی جس بُرے انداز سے وہ ایک طرف ہٹادیا گیا ہے اُس کے حوالے سے تنقید کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ انتہا پسند ہندو لیڈر نریندر مودی کی حکومت کو مطعون کرنے کا کوئی بھی اچھا موقع ضائع نہیں ہونے دیا جارہا۔ بھارت کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک کے سیاسی تجزیہ کار بھی نریندر مودی اور اُن کی ٹیم کی نا اہلی کو بڑھ چڑھ کر بیان کر رہے ہیں۔ بھارت نے افغانستان میں ’’اسٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر چند بنیادی زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں اُسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اس حقیقت کو بھی بھارت کے پالیسی سازوں نے [مزید پڑھیے]
سوال: جناب! کیا امریکا افغانستان میں جنگ ہار گیا؟ میرا خیال ہے اس کا جواب ہے ’’ہاں‘‘ کوئی اور ایسا لفظ نہیں ہے جسے بیس سالہ جنگ کی ناکامی کے سوِا نام دیاجا سکے۔امریکانے اس معنی میں تو جنگ نہیں ہاری کہ اس نے شکست کھائی اور کسی نے اس پر قبضہ کر لیا، لیکن امریکا نے اس معنی میں جنگ ہاری ہے کہ اس پر انتہائی غیر معمولی اخراجات ہوئے ہیں۔ ڈھائی ہزار امریکی مارے گئے، بیس ہزار زخمی ہوئے۔ ٹریلین ڈالر یا اس سے بھی زیادہ اخراجات ہوئے، کس کام کے لیے؟ طالبان، جیسا کہ نظر آرہا ہے، دوبارہ اقتدار میں آگئے ہیں۔[مزید پڑھیے]
افغانستان کے طول و عرض پر طالبان کے متصرف ہو جانے سے ہزاروں امریکیوں، اتحادیوں اور اتحادیوں کے لیے کام کرنے والے افغانوں کے انخلا کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ یہ لوگ ملک کے مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ان کی مدد کرکے انخلا یقینی بنانا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس سے بھی زیادہ بنیادی نوعیت کی اور انتہائی پریشان کن بات یہ ہے کہ امریکا نے اتحادیوں اور بیس برس کے دوران اتحادیوں کے ساتھ رہنے والوں سے مشاورت کیے بغیر یا انہیں اعتماد میں لیے بغیر انخلا کا فیصلہ کیوں کرلیا اور افغانستان میں درپیش چیلنج کو افغانستان پر مکمل کنٹرول یا وہاں سے انخلا کے درمیان انتخاب تک کیوں محدود کردیا گیا۔ ویتنام سے عراق تک شورش کو کچلنے [مزید پڑھیے]
1
2
3
…
17
»