
تاجکستان وسط ایشیا کا ایک خوبصورت اہم قدرتی مناظر سے مالا مال ملک ہے۔ معتدل موسم کے حامل ملک میں برف سے ڈھکے پہاڑ، وادیاں، آبشار، فروٹ اور گلیشیر سیاحوں کے لیے دلکش مناظر پیش کرتے ہیں۔ تاجکستان کے گلیشیر سے پانی بن کر دریائوں میں جاتا ہے اور یہی دریا پورے وسط ایشیا کی طرف بہتے ہیں۔ اس ملک کے قدرتی خدوخال بے نظیر ہیں، عظیم پہاڑوں کی رینج، وادیاں، کپاس کی فیلڈز یا باغات ہوں یہ سب پرکشش جگہیں اور مناظر ہیں، سکندر قتل جھیل، پرل اف فین مارٹین کی جگہیں سیاحوں کے لیے دلفریب اور پرکشش ہیں۔ بے مثال مرغزار اور جھیلیں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ تاجکستان قدرتی طور پر خوبصورت اور تاریخی ملک ہے، تاجک مشہور آرین قبائل، بیکٹیرینز اور سوگڈینز سے اس ملک میں آتے تھے۔ سکندراعظم یہاں سے گزرا اور اس نے کئی تقریبات میں شرکت بھی کی تھی۔ تاریخ دانوں کی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ تاجک باشندے چوتھی یا پانچویں صدی عیسوسی سے اس ملک میں آئے اور ایک وسیع و عریض علاقے کو اکٹھا اور متحد کیا، لوگوں نے ایک مذہب اور ایک زبان کو اپنایا، پانچویں صدی میں پہلی مرتبہ ’’دری‘‘ زبان میں اشعار لکھے اور سنائے گئے۔ اس وقت تاجک وسط ایشیائی ممالک خراسان (موجودہ ایران)، افغانستان اور قازقستان کے جنوبی علاقوں میں آباد تھے۔ وسط ایشیا کے قدیم شہر بخارا اور ثمرقند (جو آج ازبکستان میں ہیں) اس وقت کی ریاست سماند کی یادگار اور تاجک قبائل کا ایڈوانس کلچر ہے، آج بھی تاجک باشندوں کا کئی خانہ بدوش قبائل سے گہرا تعلق ملتا ہے۔ ریپبلک تاجکستان بلندی کی سطح پر اسپین، اٹلی اور جاپان کے برابر ہے۔ آبادی تقریباً ۶۰ لاکھ ہے، سرحدوں کی لمبائی ۳۰۰۰ کلومیٹر ہے، افغانستان کے ساتھ تاجکستان کی سرحد ایک ہزار ۳۰ کلومیٹر، مشرق میں واقع چین کے ساتھ ۴۳۰ کلومیٹر کی سرحدی لمبائی ہے، باقی ماندہ سرحدیں کرغیزستان اور ازبکستان سے ملتی ہیں۔ تاجکستان میں بلند و بالا پہاڑوں کا سلسلہ پامیرز اور تین شان واقع ہیں۔ یہ سلسلہ وسط ایشیائی علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ قراقرم، کوانگین اور ہندو کش پامیرزرینج میں جا کر ملتے ہیں، دنیا کا سب سے بڑا گلیشیر جو ۷۷ کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، تاجکستان میں واقع ہے، وسط ایشیامیں تاجکستان پہلا ملک ہے جہاں ہائیڈرو الیکٹرک کا وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔
وسط ایشیا کا آدھا برف پوش علاقہ تاجکستان میں واقع ہے جہاں ۸۰۰۰گلیشیر ہیں جو لمبائی چوڑائی میں ۸۵۰۰ کلومیٹر میں پائے جاتے ہیں۔ تاجکستان تیل اور کوئلے کے ذخائر کی دولت سے بھی مالا مال ہے۔ علاوہ ازیں منرل واٹر کے ذخائر بھی نمایاں ہیں۔ سینی ٹوریم اور صحت کے مقامات دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ پستہ اور چیری کے باغات کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ تاجکستان کی سب سے بڑی برآمدات خشک میوہ ہے شماریات کے مطابق تاجک آبادی کا ۱۰ فیصد پہاڑوں میں رہائش پذیر ہے۔ پہاڑوں پر رہنے والے لوگوں کا قدم عموماً لمبا اور جسمانی طور پر پتلے ہوتے ہیں۔ تاجکستان کا ۹۳ فیصد علاقہ پہاڑی سلسلے پر محیط ہے۔ زیادہ تر پہاڑوں پر خاموشی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی وادیوں میں برفانی تودے گرتے رہتے ہیں جس سے نظامِ زندگی معطل ہو جاتی ہے۔ پرانے شہروں میں جدید آرکیٹیکچر نے جگہ لے لی ہے۔ دارالحکومت دوشنبے ہے اور بڑا صنعتی شہر بھی ہے جس کی آبادی ۶ لاکھ ہے۔ کیروقم شہر قالین بافی کے لیے مشہور ہے اور پورے ملک میں ان مصنوعات کو شوق سے استعمال کیا جاتا ہے نوریک کا علاقہ جھیلوں کی خوبصورتی کی وجہ سے بہت مشہور ہے یہاں پر ہائیڈروالیکٹرک پاور اسٹیشن بھی قائم ہیں جو لوگوں کو سستی بجلی فراہم کرتا ہے۔ یہاں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہائیڈرو پاور کی ٹیکنالوجی ایک معجزہ ہے ۲۴ سالوں سے اچھی خاصی آبادی کو بجلی مہیا کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ تاجک المونیم پلانٹ اور دیگر انڈسٹری کو وافر مقدار میں انرجی فراہم کی جا رہی ہے۔ تاجکستان کا دنیا کے چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں ہائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشن ابھی زیر تعمیر ہیں۔ تاجکستان معدنیات کی دولت سے بھی مالا مال ہے۔ تیل، انرجی اور معدنیات کے کافی ذخائر موجود ہیں جو نہ صرف ملکی ضروریات کے لیے کافی ہیں بلکہ برآمد بھی کیے جا سکتے ہیں۔ اب تک تقریباً ۴۰۰ ذخائر دریافت کیے جا چکے ہیں اور مزید ۱۰۰ ذخائر کی دریافت پر کام جاری ہے۔ مختلف اقسام کی ۴۰ معدنیات پائی جاتی ہیں۔ کوئلہ، گرینائٹ اور ماربل خاص طور پر نمایاں ہیں اور ان سے بھرپور استفادہ کیا جا رہا ہے، اس کے علاوہ تانبا، چاندی، سونا، سیسہ، زنک، گیس، کوئلہ اور صحت بخش پانی بھی بڑی مقدار میں تاجکستان میں پائے جاتے ہیں۔ خوبند اور دوشنبے میں تاجک ٹیکسٹائل کے نام سے سلک ملز اور گنے کی صنعتیں قائم ہیں جب کہ کانیں اور کیمیاوی صنعتیں ملک کے شمالی علاقوں میں قائم ہیں۔ سونے کی اعلیٰ اقسام بھی تاجکستان میں پائی جاتی ہیں اور برطانیہ کے ساتھ جوائنٹ وینچر کے نتیجے میں عالمی معیار کا سونا دستیاب ہو رہا ہے جس سے روایتی زیورات نہ صرف ملکی ضروریات کے لیے بلکہ برآمد بھی کیے جاتے ہیں۔
تاجکستان میں اس وقت ۳۰ یونیورسٹیاں اور ۵۰ کے لگ بھگ ٹیکنیکل اسکول اور کالج ہیں۔ تاجک ٹیکنیکل یونیورسٹی سے ہزاروں طالب علم سول الیکٹریکل انجینئر بن کر ملک کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے کئی طالب علم مختلف ممالک میں ٹیکنالوجی کی جدید تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس وقت ملک میں ۹۰ ہزار اساتذہ ۳ لاکھ طالب علموں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ تاجکستان میں ازبک، روسی، کرغیز، یوکرینز اور کئی دوسری قومیں تاجک باشندوں کے ساتھ آباد ہیں۔ یہ سب مخلوط قومیں تاجکستان کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ دوشنبے میں روسی ڈرامہ تھیٹر بھی موجود ہے جہاں تاجک اور مغربی مصنفوں کے لکھے مختلف دلچسپ ڈرامے پیش کیے جاتے ہیں۔ یونیسکو نے تاجکستان کی مشہور کلاسیکل موسیقی ششما کو ورلڈ میوزیکل ماسٹر پیس ہیریٹج میں شامل کر لیا ہے، تاجکستان اپنی لائبریریوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ فردوس لائبریری سب سے پرانی لائبریری ہے۔ لائبریریوں میں قدیم اور جدید کتابیں، نسخے اور تاجک انسائیکلوپیڈیا لاکھوں کی تعداد میں محفوظ ہیں۔ تاجکستان میں جدید آئین کے ذریعہ صدارتی طرزِ حکومت قائم ہے۔ صدر حکومت اور مسلم افواج کا سربراہ ہوتا ہے۔ ۶ نومبر ۱۹۹۹ء کو ملک گیر جمہوری انتخابات کے ذریعہ ایمومال رحمانوف ۷ سالوں کے لیے ریپبلک آف تاجکستان کے صدر منتخب ہوئے، پارلیمنٹ سپریم اور قانون ساز ادارہ ہے۔ تاجک زبان میں پارلیمنٹ کو مجلس اولیٰ کہا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ دو چیمبرز پر مشتمل ہے۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا پارلیمنٹ کے ممبران کی مدت ۵ سال کے لیے ہوتی ہے۔ یہ ممبران براہِ راست اور خفیہ رائے دہی کے ذریعہ منتخب کیے جاتے ہیں۔ ۹ستمبر ۱۹۹۱ء کو تاجکستان ایک خود مختار ریاست کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ ۱۱ سو سال پہلے تاجک اسٹیٹ سماند قائم تھی اور خود مختار ریاست تھی آج تاجک عوام ایک مرتبہ پھر اپنی خود مختار ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن تاجکستان کی اندرونی سیاسی صورتحال خراب ہوتی چلی گئی ہے۔ نومبر ۱۹۹۲ء میں سپریم سوویت ریپبلک آف تاجکستان کے ۱۶ ویں سیشن کا انعقاد ہوا اور اس طرح تاجکستان دنیا کے نقشے پر ابھر کر سامنے آیا۔ کئی مشکلات کے باوجود تاجکستان کے صدر رحمانوف نے ملک کو آہستہ آہستہ سیاسی طور پر مضبوط کیا۔ اندرونی سیاسی خلفشار کو ختم کر کے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر دیا۔ پاکستان کے ساتھ مذہبی، ثقافتی اور سیاسی تعلقات نہایت مستحکم اور سدابہار ہیں۔ تاجکستان کی خارجہ پالیسی میں ترقی، مساوی انسانی حقوق کا فروغ دیگر ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنا عالمی سطح پر قیام امن اور سلامتی کو استحکام دینے کے لیے کوششیں کرنا بھی شامل ہے۔ تاجکستان کی خواہش ہے کہ وسط ایشیائی ممالک اور دیگر ممالک کے ساتھ معاشی تعاون کو فروغ حاصل ہو۔ تاجکستان میں تعمیر و ترقی اور معیشت کی بحالی پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ ٹیکس، نجکاری اور بینکنگ کے نظام میں اصلاحات لائی جارہی ہیں۔ تاجکستان حکومت بیرونی سرمایہ کاروں کو معدنی ذخائر میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے بھی ترغیبات دے رہی ہے تاکہ بیرونی ممالک کے ساتھ معاشی روابط و تعلقات تیزی سے مضبوط ہوں۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۷ اکتوبر ۲۰۰۹)
Leave a Reply