
صرف روس ہی وہ سابق سوویت ریاست نہیں ہے جہاں حزبِ اختلاف کے رہنمائوں کو سڑکوں پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ ۲۰۱۲ء میں تاجکستان کے صدر کے داماد کے ساتھ کاروباری ڈیل نہ ہونے کے بعداپنا ملک چھوڑنے والے ’’گروپ ۲۴‘‘ نامی تاجک تحریک کے راہنما گزشتہ دنوں استنبول میں رات کا کھاناکھاتے وقت بیمار ہوگئے۔ ترک میڈیا کے مطابق اُن کا بیمار ہونا زہر خورانی کے باعث تھا۔ ایسا تھا یا نہیں، لیکن جب وہ طبی امداد کے لیے باہر نکلے تو اُنہیں سر میں پیچھے کی جانب سے گولی مار کر قتل کردیا گیا۔ عمر علی کوواتووا کے قاتل فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ عمر علی کا قتل تاجکستان میں یکم مارچ کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے چند روز بعد ہوا۔ یورپ میں سکیورٹی اور تعاون کی بین الحکومتی تنظیم کے مبصرین کا کہنا تھا کہ انتخابات میں ڈالے گئے نصف ووٹوں، جن کی ان مبصرین نے نگرانی کی تھی، کو شمار نہیں کرنا چاہیے۔ ان مبصرین نے بیلٹ بکسوں کو جعلی ووٹوں سے بھرنے اور دھمکیوں کی بھی نشاندہی کی ہے۔ تاجکستان میں ابھی تک ایسے انتخابات نہیں ہوئے، جسے غیرجانبدار مبصرین کی جانب سے شفاف قرار دیا گیا ہو۔ تاہم ماضی میں حزبِ اختلاف کو چند نشستوں تک رسائی دی گئی ہے، لیکن اتنی نہیں کہ وہ کوئی قانونی تبدیلی لاسکے۔ یہ نشستیں تنازعات سے نمٹنے کا ایک طریقہ ہے، کیونکہ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں سابقہ سوویت نواز حکمراں، جن کی قیادت امام علی رحمان (موجودہ صدر) کے ہاتھ میں تھی، کے خلاف احیائے اسلام پارٹی( آئی آر پی ٹی) کی قیادت میں سرگرم حزبِ اختلاف کی غلطی سے خانہ جنگی بھڑک اٹھی تھی۔ ۱۹۹۷ء میں احیائے اسلام پارٹی کی قیادت میں حزبِ اختلاف اور حکومت کے درمیان امن معاہدہ ہوا، جس کی رُو سے حزبِ اختلاف کو حکومت میں تیس فیصد نمائندگی مل گئی۔ گزشتہ سالوں میں علی رحمان مسلسل معاہدے سے منکر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اس ماہ پہلی مرتبہ آئی آر پی ٹی کو پارلیمان سے باہر نکال دیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ صدر نے خانہ جنگی کے بعد کی کمزورصورتحال سے منہ موڑ لیاہے۔ اب خوف اس بات کا ہے کہ کچھ مخالفین جو اثر و رسوخ رکھنے کے باوجو د نظرانداز کیے جانے پر ناراض ہیں، شاید صدر کے اس اقدام کا تشدد سے جواب دیں گے۔
(مترجم: علی حارث)
“Tajikistan: Central Asia’s Putin”.
(“The Economist”. March 14, 2015)
Leave a Reply