وسطِ ایشیا سے آنے والی تمام خبروں کا تعلق انتخابی دھاندلی‘ مخالفین کے ٹارچر‘ شہریوں کے قتلِ عام اور اقتصادی زبوں حالی سے نہیں ہے‘ وسط ایشیا کے دور دراز کنارے پر اور پامیر کی پہاڑی چٹانوں کے درمیان تاجکستان اپنی سرحدوں کو کھولنے کے لیے کوشاں ہے تاکہ یہ شمال و جنوب کے مابین تجارت کے لیے نیا راستہ ثابت ہو۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی پارلیمنٹ میں کمیونسٹوں اور اسلام پسندوں کو بھی داخلے کی اجازت دی ہے۔ اس کے باوجود ابھی وہاں سیاسی آزادی پر کچھ پابندیاں موجود ہیں۔ لیکن اپنے وسط ایشیائی ہمسایوں کے مقابلے میں تاجکستان نے سیاسی بلوغت کا ایک نمونہ فراہم کیا ہے۔
۱۹۹۷ء میں اقوامِ متحدہ کی ثالثی سے وہ امن معاہدہ ہوا‘ جس کے بعد ۴ سالہ خانہ جنگی ختم ہوئی جس کے سبب تاجکستان کی ۶۰ لاکھ کی آبادی میں ۵۰ ہزار لوگوں کی جانیں تلف ہوئی تھیں۔ مغرب کی جانب سے ملکی اقتصاد کی بحالی کے لیے جو قابلِ لحاظ امداد کا وعدہ کیا گیا تھا‘ وہ کبھی پورا نہیں ہوا۔ بھیانک غربت اور اقتصادی زبوں حالی نے اس ملک کے ساٹھ لاکھ باشندوں کو مجبور کر دیا کہ وہ روس جاکر روزگار تلاش کریں۔ مقامی ڈرگ مافیا نے افغانستان کے طالبان کے ساتھ مل کر یہاں ہیروئن کی فروخت کی۔ لیکن اب یہ ساری باتیں ماضی کا حصہ ہیں۔ دشامبے جو اس ملک کا دارالحکومت ہے‘ ترقی کی علامات کا مظہر ہے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے پہلی مرتبہ لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ ہے۔ اس کے باوجود کہ یہاں کی سخت سردی میں بجلی کی قلت کا سامنا ہے۔ تاجکستان کی معیشت سالانہ ۸ فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی ہے۔ مزدور روس سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ مائننگ انڈسٹری میں بیرونی سرمایہ کاری روزافزوں ہے اور گیارہ ستمبر کے بعد سے مغرب سے ملنے والی امداد کا بھی یہی حال ہے۔
اگرچہ اب بھی افغان تاجک بارڈر سے سالانہ ۱۰۰ ٹن ہیروئن اسمگل ہوتی ہے‘ تاہم حکومت کی جانب سے مائوں اور نوجوانوں کے بیچ منشیات کی لعنت سے جنگ پر ابھارنے کی مہم کا چلایا جانا وسطی ایشیا کے ممالک میں ایک منفرد اقدام ہے۔ اقوامِ متحدہ کی مدد سے حکومت نے انسدادِ منشیات کی ایک یونٹ بھی قائم کر رکھی ہے‘ جہاں اس خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بدعنوانی کا عنصر بہت ہی تھوڑا ہے۔ علاوہ ازیںیورپی یونین‘ امریکا‘ روس اور چین یہاں ایک نئی تاجک فورس قائم کرنے میں مالی مدد فراہم کر رہے ہیں‘ جو افغانستان سرحد پر منشیات کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے مستعد رہے گی۔
وسط ایشیا کے دوسرے مطلق العنان حکمرانوں کی طرح صدر امام علی رحمانوف بھی غیر شفاف انتخابات کے لیے بدنام ہیں اور انہیں اس وجہ سے بھی اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا کہ یہ اُن لوگوں کو ہراساں اور پریشان کرتے رہے ہیں جو حکومتی لائن پر چلنے سے انکار کرتے ہیں۔ لیکن بہرحال انہوں نے اپوزیشن کو برداشت کیا ہے جس میں اسلامی مزاحمتی پارٹی بھی شامل ہے‘ جو اس کے خلاف خانہ جنگی میں پیش پیش تھی۔ اسلامی مزاحمتی پارٹی کو پارلیمنٹ میں دو نشستیں حاصل ہیں اور اس کے ڈپٹی چیئرمین محی الدین کبیری اسلامی معاشرہ کے قیام کے لیے انقلاب کے بجائے ارتقائی عمل کی بات کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی رحما نوف توازن کی برقراری کے لیے جو مشکلات درپیش ہیں‘ اس پر اپنی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں‘ دوسری وسط ایشیائی ریاستیں بالخصوص ازبکستان رحما نوف سے سخت ناراض ہیں کہ انہوں نے اسلام پسندوں کو پارلیمنٹ میں بیٹھنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن جو چیز حقیقتاً باقی دنیا کو (برسلز سے بیجنگ تک) حیران و متوجہ کر رہی ہے‘ وہ تاجکستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی جغرافیائی و سیاسی صورتحال ہے۔ تاجکستان‘ چین اور افغانستان کے ساتھ جنوب اور مشرق میں زمینی اعتبار سے مربوط ہے اور پھر ازبکستان اور کرغیستان کے ساتھ شمال میں مربوط ہے۔
ایک عرصے سے روس اور مغرب کو جانے والا واحد راستہ ازبکستان سے ہے۔ لیکن ازبک حکومت نے بڑی بے دردی کے ساتھ اس راستے پر بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں‘ اس بہانہ کے ساتھ کہ اسلامی انتہا پسندوں کو روکنا مقصود ہے‘ لیکن اس کا حقیقی مقصد تاجکستان کو مجبور کرنا ہے کہ وہ ازبکستان کی لائن پر چلے۔
اب چین نے ایک نئی شاہراہ تعمیر کر دی ہے جو اس کی انتہائی مغرب میں واقع صوبے زنجیانگ کو تاجکستان سے ملاتی ہے۔ چنانچہ اس کی وجہ سے تاجکستان کو ایک نئی تجارتی شاہراہ مل گئی۔ اس کے علاوہ امریکی آمو دریا پر ایک پل بنا رہے ہیں جو افغانستان اور تاجکستان کو جدا کرتا ہے۔ جب پل مکمل ہو جائے گا تو چین کی نئی سڑک کے ذریعہ چین اور تاجکستان دونوں افغانستان کے راستے پاکستان کی جنوبی بندرگاہوں تک ساز و سامان بھیج سکیں گے۔
اس نئے راستے سے وسط ایشیا میں بھی درآمدات ہو سکیں گی۔ دشامبے سے مال کرغیستان‘ قازقستان اور چین بھیجے جاسکیں گے۔ جب علاقائی تجارتیں فروغ پائیں گی تو تاجکستان بھی ا س کے فوائد سمیٹنے کے لیے موجود ہو گا۔ یورپین ڈیولپمنٹ پروگرام کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق وسطی ایشیا اس لائق ہو سکے گا کہ وہ علاقائی تجارت کی شرح کو دگنا کر سکے۔ مصنوعی رکاوٹوں کو ختم کرتے ہوئے جو خسارہ آمیز تحفظ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس طرح منشیات اور دیگر چیزوں کی اسمگلنگ میں بھی کمی آئے گی جو وسط ایشیائی معیشت کا ۴۰ فیصد ہیں۔ دریں اثنا امریکا‘ روس اور چین تاجکستان میں اپنے فوجی اڈے کے قیام کے لیے مسابقت کر رہے ہیں۔ رحما نوف اپنا کھیل بہت ہوشیاری سے کھیل رہے ہیں۔ روس کا یہاں ایئربیس ہے اور اسی طرح نیٹو کے زیرِ اہتمام فرانس کا بھی ہے۔ تاجکستان اب بھی کمزور اور غریب ہے اور اس وقت تک مزید ترقی نہیں کر سکے گا جب تک وسط ایشیا کے دوسرے رہنما اپنے سیاسی اطوار کو نہیں بدل لیتے۔ مغرب بہرحال اپنی امداد کے حوالے سے مزید لبرل ہونا چاہتا ہے۔
نوٹ: مضمون نگار کتاب “Jihad: The Rise of Militant Islam in Central Asia کے مصنف ہیں۔
(بشکریہ: انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبون)
Leave a Reply