رازداری یا سلامتی: ’ایپل‘ اور ’ایف بی آئی‘ آمنے سامنے

ہمارے خیال میں امریکی حکومت حد سے تجاوز کررہی ہے اور یہ ہمیں اس کے منہ پر بولنا چاہیے۔ دنیا کی سب سے بڑی آئی ٹی کمپنی ایپل کے سربراہ ٹِم کُک (Tim Cook) نے ۱۶؍فروری ۲۰۱۶ء کو ان الفاظ کے ساتھ یہ بتانے کی کوشش کی کہ ان کی کمپنی کو سید فاروق نامی دہشت گرد کے زیرِ استعمال رہنے والے آئی فون کے ڈیٹا تک رسائی کی ایف بی آئی کی درخواست کیوں رَد کردینی چاہیے۔ داعش کے ہمدرد فاروق اور اس کی بیوی تاشفین ملک نے دسمبر ۲۰۱۵ء میں پولیس کے ہاتھوں مارے جانے سے قبل کیلی فورنیا میں ۱۴؍افراد کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔ ٹم کک نے ایف بی آئی کی درخواست کو ’’سرد مہری‘‘ سے تعبیر کیا۔

۲۰۱۳ء میں جب ایڈورڈ اسنوڈن کے انکشافات نے پرائیویسی اور ڈیٹا کے تحفظ کا معاملہ عوام میں اجاگر کیا، اس وقت سے امریکی آئی ٹی کمپنیاں اپنی ہی حکومت سے برسرِ پیکار ہیں۔ یہ معاملہ اُتنا ہی پرانا ہے، جتنا ابلاغِ عامہ کا مضمون، یعنی: شہریوں اور کمپنیوں کی جانب سے اپنے کاروبار کو خفیہ رکھنے سے روکنے کی خاطر حکام کو کس حد تک طاقت استعمال کرنی چاہیے؟

ٹم کک کی جانب سے فاروق کے معاملے پر ڈٹ جانے نے سب کو چونکا دیا ہے۔ فاروق چونکہ سرکاری ملازم تھا، اس لیے فون حکومتی ملکیت ہے۔ اب ایف بی آئی چاہتی ہے کہ فون کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرکے پتا لگائے کہ ہلاک دہشت گرد کے عزائم کیا تھے اور وہ کن سے رابطے میں تھا۔ اس سے زیادہ معقول بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ لیکن ایپل اور اس کا دفاع کرنے والے سیکورٹی ماہرین کے نزدیک یہ ہرگز معقول نہیں ہے۔ گو کہ ایسا واقعہ پہلی بار ہوا ہے، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ایف بی آئی کے کیس کو خاص طور پر چُنا گیا ہے تاکہ حکومتی جاسوس اور پولیس بآسانی کمپیوٹرز تک رسائی لے کر ہر ایک کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیں۔

ایک بند راہداری

فاروق کے فون سمیت تمام آئی فونز کا ڈیٹا مخفی ہوتا ہے۔ جب تک فون میں درست کوڈ نہ ڈالا جائے، تب تک ڈیٹا کسی کی سمجھ میں نہیں آتا۔ کوڈ بذات خود زیادہ سکیورٹی نہیں دیتا۔ یہ تو محض چار ہندسوں پر مشتمل ہوتا ہے، جسے یاد کرنا آسان ہے اور اس جیسے دس ہزار سے زائد کوڈ نہیں بنتے۔ یعنی یہ ممکن ہے کہ آپ ہر کوڈ کو آزماتے جائیں، یہاں تک کہ صحیح کوڈ لگ جائے۔ اس عمل کو “Brute-forcing” کہا جاتا ہے۔

لیکن دیگر عوامل اس بروٹ فورسنگ کو مشکل بنادیتے ہیں۔ چھ دفعہ غلط کوڈ ڈالنے کے بعد ساتویں کے لیے ایک منٹ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بہت جلد یہ دورانیہ ایک گھنٹے تک پہنچ جاتا ہے۔ یعنی اوسطاً چار ہندسوں کے آئی فون پاس کوڈ کے لیے ۵۰۰۰ گھنٹے یعنی تقریباً سات مہینے درکار ہوں گے۔ لیکن شاید یہ رکاوٹ بھی عبور کرلی جائے، اگر آئی فون کے پاس یہ اختیار نہ ہو کہ وہ دس ناکام باریوں کے بعد خودبخود اپنا سارا ڈیٹا غائب کرسکتا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں فصیلوں کو بھی پار کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اِن کی بنیاد فون کے آپریٹنگ سسٹم، آئی او ایس پر ہے، جسے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے ایپل بار بار اپ ڈیٹس دے کر ایسے عوامل پیدا کرتا رہتا ہے جو ایسی مشکلات پر قابو پاتے رہیں۔ اور ایف بی آئی درحقیقت محض ایک ایسا اَپ ڈیٹ ہی مانگ رہی ہے تاکہ مذکورہ فون کی سلامتی کے حصار کو توڑ کر اس کے مواد تک رسائی حاصل کی جاسکے۔

ایسا اَپ ڈیٹ بنانا خود ایف بی آئی کے بس میں بھی ہے، مگر اسے ایپل کی مدد کے بغیر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ایسے حملوں کو روکنے کی خاطر آئی فونز محض وہی اَپ ڈیٹس قبول کرتے ہیں جو ایک خصوصی سند کے ساتھ ایپل نے جاری کیے ہوں۔ اس عمل کے لیے درکار طویل اور خودکار نمبر صرف ایپل کے پاس ہی ہوتا ہے۔

ایف بی آئی کا اصرار ہے کہ اس نے ایک ہی دفعہ کے لیے یہ اجازت مانگی ہے، جب کام ہوجائے تو ایپل سافٹ ویئر کو حذف کردے۔ لیکن بہت سے سکیورٹی ماہرین شبہات کا شکار ہیں۔ ان کے خیال میں فاروق کے فون میں جھانکنا ہی ایف بی آئی کا واحد مقصد نہیں۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے میں کمپیوٹر سکیورٹی کے محقق نکولس ویور کے بقول ’’انہیں فون میں دلچسپی کی کوئی چیز نہیں ملے گی‘‘۔ نکولس کے مطابق فاروق اور تاشفین نے ان حالات میں بھی فاروق کے اس سرکاری فون کو چھوڑ کر ایک لیپ ٹاپ اور دیگر دو فون تباہ کردیے تھے۔ (اور پھر حملے سے کچھ ہفتے قبل فاروق نے فون کے آن لائن بیک اَپ کو ختم کردیا تھا جس کے ذریعے ایف بی آئی ڈیٹا حاصل کرتی)۔

نکولس اور ان سے اتفاق کرنے والوں کو خیال ہے کہ ایف بی آئی نے اس کیس کو جان بوجھ کر آگے بڑھایا ہے، کیونکہ ان حالات میں ایپل کا تعاون سے انکار کرنا مشکل ہوگا۔ انہیں فکر ہے کہ اگر ایپل نے ہامی بھرلی تو مستقبل میں بھی انکار کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ اس مؤقف کو مزید تقویت یہ بات سامنے آنے کے بعد ملی کہ وزارتِ انصاف کم سے کم نو ایسے مقدمات میں ایپل سے تعاون مانگ رہی ہے جن میں سے سات میں اسے مزاحمت کا سامنا ہے۔ کچھ کو خدشہ ہے کہ ایف بی آئی یہ مطالبہ نہ کر بیٹھے کہ ایپل اَپ ڈیٹس جاری کرنے والی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے مشکوک افراد کے خفیہ کوڈ کو بھی عام کرے۔

غور سے دیکھا جائے تو یہ کوئی ایسی بری بات بھی نہیں ہے۔ ایف بی آئی نے کئی بار کہا ہے کہ یہ رازداری قانونی تفتیش کا راستہ روک سکتی ہے جس سے اہم مقدمات حل طلب رہ جائیں گے۔ لیکن سکیورٹی ماہرین کہتے ہیں کہ کسی چیز کا اچھا استعمال برے استعمال کا راستہ بھی کھول سکتا ہے۔ اگر مخفی آپریٹنگ سسٹم کو ایک بار عام کردیا گیا، تو ہر آئی فون کی رازداری داؤ پر لگ جائے گی۔ امریکی فلاحی ادارے Open Crypto Audit Project کے ڈائریکٹر کینتھ وائٹ کے بقول یہ رازداری اور سلامتی کا مقابلہ نہیں، بلکہ ہر ایک کی سلامتی اور مخصوص جرائم کی تفتیش کرنے کی پولیس کی اہلیت کا مقابلہ ہے۔ اور جتنے زیادہ لوگوں کے پاس مخصوص کوڈ جائے گا، اس کے عام ہونے کا خدشہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ وکلائے صفائی اسے دیکھنا چاہیں گے، عدالت کے مقرر کردہ ماہرین کو معائنے کا کہا جاسکتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ ایپل کے سامنے امریکا کے علاوہ دیگر حکومتیں بھی ہیں۔ وائٹ کہتے ہیں کہ اگر امریکیوں کی سلامتی کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا تو دوسرے ممالک شاید اس سے بھی زیادہ بڑے مطالبات کرنے لگیں۔ ایک بار ہار ماننے کے بعد ایپل کے لیے مزاحمت کرنا مشکل ہوگا۔ جن ملکوں میں شہری آزادی اور قانون کی حکمرانی کو زیادہ توجہ نہیں دی جاتی، وہاں تو اس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔

کلیدی فیصلے

ایپل اور ایف بی آئی جب عدالت میں آمنے سامنے ہوں گے تو یہ سارے دلائل دہرائے جائیں گے۔ لیکن فیصلہ چاہے کچھ بھی آئے، اسے حتمی نہیں سمجھا جائے گا۔ زیادہ تر مبصرین کو توقع ہے کہ نظرثانی کا عمل مقدمے کو سپریم کورٹ تک لے جائے گا اور اس دوران ایپل سمیت آئی ٹی کمپنیاں خود کو صارفین کے فون کے معاملات سے آزاد کرلیں گی تاکہ اس طرح کی درخواستوں کو پورا کرنا مشکل ہوجائے۔

آئی فونز کے نئے ماڈل میں Secure Enclave نامی فیچر شامل کیا گیا ہے، جو فون کے اندر ہی ایک علیحدہ کمپیوٹر ہے۔ جس کی ذمہ داری ہے کہ سیٹ میں جو بھی داخل ہونے کی کوشش کرے، اسے روکا جائے۔ اس دیوار کو توڑنے کے لیے ایک اور سافٹ ویئر کی ضرورت ہوگی جو پہلے اس انکلیو کو ناکارہ بناسکے۔ یہ بھی ممکن ہے، کیونکہ ایپل کے پاس اس انکلیو میں تبدیلی کا اختیار ہے تاکہ اس کے مسائل حل کیے جاسکیں۔ لیکن معاملات ایسے ہی نہیں رہیں گے۔ کمپنی انکلیو میں تبدیلی کا اختیار ختم کرنے پر غور کررہی ہے تاکہ حکومتی درخواستوں سے چھٹکارا مل سکے۔

پھر بھی پُرعزم افراد کے لیے راستے کھلے ہیں۔ مہنگے آلات اور کامل مہارت کے ذریعے ہارڈ ویئر میں موجود چِپ (Chip) کی وائرنگ اور ٹرانزسٹرز کا جائزہ لے کر خفیہ الفاظ معلوم کیے جاسکتے ہیں۔ چِپ کی حفاظتی پلاسٹک اتارنے کے عمل کو ڈی کیپنگ (Decapping) کہا جاتا ہے اور یہ کام خفیہ ایجنسیوں اور چند انتہائی جدید لیبارٹریوں کا ہی ہے۔ اس میں بھی یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کچھ ہاتھ لگے بغیر چِپ ضائع نہ ہوجائے۔ لیکن اگر ہر حال میں رسائی درکار ہو اور اس کے سِوا کوئی چارہ نہ رہے تو یہ کام کیا جاسکتا ہے۔

اگر یہ بھی یقینی بنا لیا جائے کہ فون میں اس طرح رسائی مل سکتی ہے تو بھی حکام کے سارے مسئلے حل نہیں ہوتے۔ بہت سی پیغام رساں ایپلی کیشنز میں سے کچھ امریکا سے باہر بھی تیار کی جاتی ہیں، جہاں امریکی حکومت کے پَر جلنے لگتے ہیں۔ فارورڈ سیکریسی (Forward Secrecy) نامی ٹیکنیک ایسے خفیہ کوڈ استعمال کرتی ہے جو ایک بار کے بعد کارآمد نہیں رہتے اور یہ یقینی بناتے ہیں کہ اگر مستقل خفیہ کوڈ تک کوئی پہنچ بھی جائے، تو بھی اس کوڈ کے تحت رہنے والے پیغامات محفوظ رہیں۔ ٹیلی گرام نامی ایسی ہی ایک ایپلی کیشن کے روسی خالق پاوِل دُورو (Pavel Durov) نے ۲۴ فروری کو اعلان کیا کہ ان کے صارفین کی تعداد دس کروڑ ہوگئی ہے۔

یہ سب ہتھیاروں کی دوڑ معلوم ہوتی ہے۔ اور ایسا ہے بھی۔ سلی کون ویلی کی جڑیں ۱۹۶۰ء کی دہائی کی مزاحمتی ثقافت اور شہری آزادی کے ایک مضبوط تصور میں پیوست ہیں۔ وہاں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اسنوڈن کے انکشافات نے ثابت کیا ہے کہ امریکی حکومت پر اس بارے میں اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنی خفیہ رسائی کے اختیارات کا غلط استعمال نہیں کرے گی۔ اور پھر اس کے تجارتی پہلو بھی ہیں۔ ایپل نے اپنی مصنوعات بیچنے کے لیے رازداری اور سلامتی کو بنیادی نکات بنایا تھا۔

سائبر سکیورٹی ماہرین کو افسوس ہے کہ سیاستدان اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار ان کے بنیادی نکتے کو نہیں سمجھے۔ یعنی پولیس کے فائدے کے لیے سکیورٹی کو کمزور کرنے سے ہر کوئی خطرے میں گھر جائے گا۔ وائٹ کے مطابق ’’حکام اس مسئلے کے حل کے لیے ہمیشہ کسی “Manhattan Project” کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسے مین ہٹن پراجیکٹ یہ دیکھنے کے لیے حاصل کیا جائے کہ اسے صفر پر تقسیم کیسے کیا جاسکتا ہے‘‘۔

630-apple-vs-fbi-encryption-case-timeline

اس مخصوص مقدمے میں صحیح راستہ کیا ہے، یہ تو عدالتیں ہی بتائیں گی۔ لیکن ایپل اور ایف بی آئی کی لڑائی نے بہت بڑے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ان کے جوابات کے لیے لامحالہ منتخب سیاستدانوں کو مداخلت کرنی ہوگی۔

(ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)

“Taking a bite at the Apple”. (” The Economist”. Feb. 27, 2016)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*