
طالبان کے امیر کے انتخاب کے لیے دو نام بہت واضح تھے، ایک ملا عمر کے صاحبزادے محمد یعقوب اور دوسرے حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی، لیکن طالبان کی انتخابی کمیٹی نے ان دونوں کے بجائے ایک نئے نام کا انتخاب کیا۔
امریکا کی جانب سے کیے گئے ڈرون حملے کے چار دن انتہائی خاموشی سے گزرنے کے بعد طالبان نے ایک ایسے شخص کو اپنا امیر منتخب کیا، جو لوگوں میں بہت زیادہ مقبول نہیں۔
پچاس سالہ مولوی ہبّت اللہ اخوندزادہ ایک سند یافتہ عالم دین ہیں، جنہیں ملا منصور کی شہادت کے بعد ان کا جانشین مقرر کیا گیا ہے۔ مولوی ہبّت اللہ اخوندزادہ کا شمار اچھے جنگجوؤں میں نہیں ہوتا اس کے باوجود انہیں طالبان کی شوریٰ نے اپنا امیر منتخب کرلیا ہے، مولوی ہبّت اللہ اسلامی اقدار کی پاسداری کرنے کے ساتھ ساتھ باغی گروپوں کو متحد کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
افغان فوج اور ان کا اتحادی امریکا مل کر طالبان کی جارحانہ کارروائیوں پر قابو پانے کی کوشش کررہے تھے، لیکن امریکا اور افغان فوج اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکی اورایسے میں مولوی ہبّت اللہ کا انتخاب ایک کھلی فتح کا اعلان ہے۔خاموش طبع، قوت برداشت رکھنے والے اور اچھے سامع مولوی ہبّت اللہ طالبان کے دورِ حکومت میں جج کے عہدے پر تھے اور لوگ ان کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں، اس حوالے سے مولوی ہبّت اللہ کا بطور امیر انتخاب حیران کن ہے۔ طالبان کی مجلس شوریٰ نے امارت کے دو مضبوط امیدواروں سراج الدین حقانی اور ملا محمد یعقوب (ملا عمر کے صاحب زادے) کو مولوی ہبّت اللہ کا نائب منتخب کیا ہے۔ طالبان کی جانب سے نئے امیر کا انتخاب اس خبر کی تصدیق کرتاہے کہ ملا منصور اختر امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق ملا منصور کو افغانستان میں سپرد خاک کیا گیا ہے۔ملا منصور ۲۰۰۱ء میں طالبان کے کمانڈر تھے، اس وقت طالبان کو شدید مزاحمت کی وجہ سے کابل چھوڑنا پڑا تھا۔ ملا منصو ر ان طالبان کمانڈروں سے دور رہتے تھے جو ان کے احکامات کی شرعی حیثیت پر سوالات اٹھاتے تھے۔ پچھلے سال گرمیوں میں ملا عمر کی شہادت کی تصدیق نے یہ ثابت کیا تھاکہ ملا منصور نے دو سال قبل طالبان کی امارت کا منصب سنبھالا اور احکامات ملا عمر کے نام سے جاری کرتے رہے۔ انہوں نے ان دو سالوں میں شہادت کو چھپایا اور نہایت کامیابی سے اپنے لیے امارت کی راہ ہموار کی۔
ملا منصور نے منحرف طالبا ن کمانڈروں کو طاقت کے زور سے خاموش کیا، ملا منصور کی امارت کے دور میں طالبان، گروہوں میں بٹ گئے اور تنازعات کا ایک طوفان برپا ہوا۔ ملا منصور کے خلاف خبریں پھیلیں کہ وہ مالدار آدمی ہیں اورطالبان کے پیسوں سے بیرونِ ملک سفر کرتے ہیں، اس طرح کی خبروں نے ان کی ذات کو متنازعہ بنادیا تھا۔
مولوی ہبّت اللہ اخوندزادہ کا بچپن قندھار میں گزرا،ان کے والد گاؤں میں خطیب تھے۔ انہوں نے ذاتی طور پر کبھی جنگ میں حصہ نہیں لیا۔طالبان میں ان کی حیثیت ایک اسکالر کی ہے جو طالبان کے باغی گروہوں کو متحد کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔حقانی اور محمد یعقوب کے مقابلے میں مولوی ہبّت اللہ کا انتخاب ابھی بھی طالبان کے کچھ کمانڈروں کے لیے حیران کن ہے۔مولوی ہبّت اللہ طالبان میں مقبول نہیں ہیں، صوبہ بدخشاں میں طالبان کے نامزد کمانڈر قائر فصیح الدین کے مطابق امیر منتخب ہونے کے بعد ہم ان کے احکامات کو پورا کرنے کے پابند ہیں۔ملا یعقوب ۲۵ سال کے ناتجربہ کار کمانڈر ہیں وہ طالبان کی شوریٰ کے نو منتخب رکن ہیں۔
سراج الدین حقانی طالبان کے مرکزی عسکری گروپ کے سربراہ ہیں جنہیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب تصور کیا جاتاہے،یہ ملا منصور کے نائب منتخب ہوئے۔ گزشتہ برس حقانی نے افغان فورسز اور ان کے اتحادی امریکا کے خلاف کئی کامیاب آپریشن کیے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق طالبان کی مجلس شوریٰ کے ۲۴؍ ارکان اور افغانستان کے ممتاز علماء نے مل کر مولوی ہبّت اللہ کو منتخب کیا، تجزیہ نگاروں کے مطابق مولوی ہبّت اللہ کے انتخاب سے ایسا لگتا ہے کہ طالبان اپنی سخت پالیسی تبدیل کریں گے اور پُرامن مذاکرات کی طرف آئیں گے۔
ملا عمر کے قریبی ساتھی اور طالبان مجلس شوریٰ کے سابق ممبر ملا عبدالسلام ضعیف نے بتایا کہ مولوی ہبّت اللہ طالبان کے تمام گروپس میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، عبدالسلام ضعیف کے مطابق طالبان کی پالیسی تبدیل کی جائے یا نہ کی جائے، دونوں صورتوں میں طالبان کے تمام گروہوں کا کسی ایک بات پر متفق ہونا مشکل ہے۔
بیرونی قوتو ں کی افغانستان میں موجودگی کے حوالے سے جنگ جاری رکھنے کے لیے فتویٰ موجود ہے اور کسی طالبان کا اس فتوے کے خلاف جانا خود کو افغانستان میں تنہا اور اکیلا کرنے کے مترادف ہے۔
سوویت یونین کی افغانستان آمد کے بعد مولوی ہبّت اللہ کا خاندان کوئٹہ منتقل ہوگیا تھا، مولوی ہبّت اللہ نے اپنی زندگی کے یادگار ایام پاکستان میں گزارے۔پہلے وہ افغان مہاجر کیمپ میں پناہ گزین تھے، ایک لمبا عرصہ انہوں نے وہاں مدرسے میں تعلیم حاصل کی،اب گزشتہ ۱۴؍برس سے طالبان کے ساتھ میدانِ عمل میں موجود ہیں۔ ۹۰ کی دہائی میں طالبان کے برسر اقتدار آتے ہی جج کے عہدے پر فائز کیے گئے،بے شمار مقدمات کا فیصلہ کیا، ملا عمر اُن کی رائے کو اہمیت دیتے تھے۔
ملا منصور کے نائب منتخب ہونے سے پہلے مولوی ہبّت اللہ پاکستان کے مدرسوں میں ایک عالم کی حیثیت سے معتبر شخصیت شمار کیے جاتے تھے، انہوں نے مدرسے کے طالب علموں کو افغان جنگ کی طرف راغب کرنے اور ان کی ذہن سازی کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
سابق طالبان سفیر حبیب اللہ فوزی کے مطابق مولوی ہبّت اللہ کو منتخب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ طالبان کے بکھرے گروہوں کو متحد کیا جائے اور انہیں مزید ٹکڑوں میں بٹنے سے روکا جاسکے۔
ملا منصور سے بغاوت کرنے والے اکثر طالبان کمانڈروں کا تعلق مولوی ہبّت اللہ کے قبیلے نورزئی سے ہے اور مولوی ہبّت اللہ کا انتخاب ان ناراض کمانڈروں کو واپس لانے کا سبب بنے گا۔
طالبان کے ایک باغی گروپ کے رکن ملا عبدالمنان کے مطابق ان کے لیے مولوی ہبّت اللہ کا انتخاب قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ ملا منصور کے دور میں جیلوں میں قید کیے گئے طالبان کمانڈروں سے مشاورت نہیں کی گئی۔انہوں نے مزید بتایا کہ مولوی ہبّت اللہ کا سرعت کے ساتھ انتخاب اس لیے کیا گیا کہ ملا یعقوب کو ناتجربہ کار ہونے کے باوجود مرکزی شوریٰ کا رکن بنایا جاسکے اور اصل اقتدار سراج الدین حقانی کے پاس رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مولوی ہبّت اللہ کو منتخب کرنا ٹھیک نہیں ہے اور اس سلسلے میں تمام مجاہدین کی رائے نہیں لی گئی اس لیے یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“Taliban name lesser-known cleric as their new leader”. (“nytimes.com”. May 25, 2016)
Leave a Reply