
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ایک حالیہ حملے کو ایک سال سے جاری مذاکرات کا سلسلہ ختم کرنے کے اعلان کا بنیادی سبب قرار دیا ہے، تاہم اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی راہ مسدود ہونے کا سب سے بڑا سبب طالبان کا کسی ڈیل کے لیے امریکی شرائط اور کیمپ ڈیوڈ میں سربراہ ملاقات کے حوالے سے امریکا کے قدرے عجلت پسندانہ منصوبے کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایک مرحلے پر ایسا لگتا تھا کہ مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور اب کوئی ڈیل ہوا ہی چاہتی ہے مگر پھر اچانک اس بات پر اختلافات رونما ہوئے کہ ڈیل کو حتمی شکل کس طور دی جائے۔
امریکی صدر نے طالبان سے مذاکرات میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا تھا اور شدید تنقید کے باوجود چند ایک امور طے پاگئے تھے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان کے صدر اشرف غنی اور طالبان کے قائدین کو واشنگٹن بلانے کی تیاری بھی شروع کردی تھی۔ یہ تجویز غیر معمولی حد تک جرأت مندانہ ہی نہیں، بلکہ ایک خاص حد تک ترپ کا پتا پیش کرنے جیسی تھی۔ افغان و مغربی ذرائع کے علاوہ امریکا طالبان بات چیت سے واقف حکام کا کہنا ہے کہ کیمپ ڈیوڈ میں صدور کی ملاقات ہوتی، ہر فریق کی الگ الگ ملاقاتیں ہوتیں اور جو کچھ بھی طے پاتا اس کا اعلان صدر ڈونلڈ ٹرمپ کرتے۔ اتوار کو میٹنگ سے پہلے امریکی حکام بعض حل طلب معاملات کو تیزی سے نمٹانا چاہتے تھے۔ ان میں قیدیوں کی رہائی کا معاملہ بھی شامل تھا۔
طالبان رہنماؤں نے، جو امریکا سے کسی بھی واضح ڈیل سے قبل افغان حکومت سے مذاکرات سے مکمل انکاری ہیں۔ کہا ہے کہ امریکا نے جو تجاویز پیش کی ہیں وہ طالبان کو سیاسی خود کشی پر مجبور کرنے کی امریکی چال کے سوا کچھ نہیں۔ طالبان کے ایک سینئر لیڈر کا کہنا ہے کہ ہم وعدہ کرچکے ہیں کہ امریکا سے کوئی سمجھوتہ طے پاجانے کی صورت میں بین الافغان بات چیت بھی ہوگی۔ طالبان کے سینئر لیڈر کا کہنا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کا یہ خیال ہے کہ وہ واشنگٹن کی کسی میٹنگ میں طالبان اور افغان حکومت کی محاذ آرائی ختم کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے تو ایسا ممکن نہیں، کیونکہ ہم کٹھ پتلی حکومت کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔
اتوار کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکراتی ٹیم کے ہنگامی اجلاس کے بعد طالبان نے کہا کہ ’’مذاکرات منسوخ کرنے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے بُرے نتائج اگر بھگتنا ہوں گے تو صرف امریکا کو‘‘۔ ایک بیان میں طالبان نے کہا کہ انہیں اگست کے اواخر میں امریکا کے دورے کا دعوت نامہ موصول ہوا تھا تاہم ایسے کسی بھی دورے سے متعلق فیصلے کو امریکا سے حتمی نوعیت کی ڈیل کے بعد تک موقوف رکھا گیا تھا۔ طالبان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی اور بات سے بڑھ کر یہ ہے کہ مذاکرات ختم کرنے کا نقصان صرف امریکا کو پہنچے گا۔ اس کی پوزیشن متاثر ہوگی، دنیا پر واضح ہوجائے گا کہ یہ امریکا ہے جو امن نہیں چاہتا، اور یوں انسانی جانوں اور خزانے کے حوالے سے امریکی نقصان زیادہ ہوگا۔ اور اس حوالے سے ان کے سیاسی اقدامات غیر مستحکم تصور کیے جائیں گے۔ بیان کے مطابق طالبان نے بیس سال قبل بھی بات چیت کو ترجیح دی تھی اور اب بھی ان کی پوزیشن یہی ہے۔
مذاکرات سے افغان حکومت کو دور رکھے جانے کے حوالے سے افغان صدر اشرف غنی نے شدید تحفظات کے باوجود کیمپ ڈیوڈ میں سربراہ ملاقات پر رضامندی ظاہر کردی تھی اور اس کا سبب بظاہر ان کی یہ امید تھی کہ شاید ملک کو شدید غیریقینی صورت حال سے باہر لانے کی کوئی صورت نکل آئے۔
کیمپ ڈیوڈ ملاقات کے لیے رضامندی کا اظہار کرکے افغان صدر نے بہت بڑا جوا کھیلا تھا۔ جو کچھ کیمپ ڈیوڈ میں سامنے آتا اس کے حوالے سے تو ٹرمپ کے قریب ترین مشیروں کو بھی کچھ زیادہ معلوم نہ تھا۔ سینئر حکام کا کہنا تھا کہ اشرف غنی جس مشکل صورت حال سے دوچار ہیں، اس میں ان کے پاس کھونے کے لیے زیادہ تھا نہیں۔
مذاکرات کی تنسیخ کے اعلان کے بعد افغان حکومت نے طالبان کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ تشدد نے امن عمل کو دشوار تر بنادیا ہے۔ اشرف غنی کے ترجمان صادق صدیقی نے کہا کہ خلیج کے ایک ملک کی طرف سے تحفظ اور نقل و حرکت کی آزادی یقینی بنائے جانے کے باوجود قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر نے امن کے حوالے سے بھرپور کمٹمنٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ قطر میں طالبان کا ہنی مون ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
چند ہفتوں کے دوران یہ بات بالکل واضح ہوگئی تھی کہ ایک سال کے دوران بات چیت کے نو ادوار میں امریکا اور طالبان نے بہت سے معاملات پر اختلاف رائے ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ مذاکرات کے حوالے سے امریکا کے مرکزی ایلچی زلمے خلیل زاد نے کچھ روز ہوئے اعلان کیا تھا کہ سمجھوتے کی دستاویز کو حتمی شکل دی جاچکی ہے۔ جس پر افغان حکام نے یہ کہتے ہوئے تنقید کی تھی کہ حقیقی استحکام پیدا کرنے والے اقدامات یقینی نہیں بنائے گئے، دستخط کیے جانے کے بعد ۱۳۵ دن میں ۵ ہزار امریکی فوجی افغان سرزمین سے رخصت ہوں گے جبکہ مجموعی طور پر ۱۴ ہزار امریکی فوجی ۱۶ ماہ میں مرحلہ وار افغانستان چھوڑیں گے۔ اس کے جواب میں طالبان افغان سرزمین پر انسداد دہشت گردی کی یقین دہانی کرائیں گے اور یہ بھی کہ نائن الیون کی سی نوعیت کا کوئی حملہ افغان سرزمین سے نہیں کیا جائے گا۔ نائن الیون ہی نے افغان جنگ کی راہ ہموار کی تھی۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ مذاکراتی عمل میں افغان حکومت کو بھی شامل کیا جانا چاہیے تھا مگر اس کے بجائے امریکیوں نے افغان جیلوں میں ہزاروں طالبان قیدیوں کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کیے۔ اشرف غنی کی حکومت کے لیے یہ بالکل ناقابل قبول تھا۔ کابل حکومت نے اعلان کیا ہے کہ طالبان اور امریکا کے درمیان کسی بھی ڈیل کو اس صورت قبول کیا جائے گاکہ طالبان جنگ بندی پر آمادہ ہوں۔ اس مرحلے پر طالبان جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کرنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں۔ اب تک تشدد ہی بات منوانے کے حوالے سے طالبان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
بات چیت کے آخری ادوار اور صدر ٹرمپ کی طرف سے کیمپ ڈیوڈ کی ملاقات کا دعوت نامہ بھی ایسے وقت آیا جب طالبان کی طرف سے تشدد میں شدت آئی اور امریکی فوجیوں کی ہلاکت بھی واقع ہوئی۔ طالبان کی طرف سے بڑھتے ہوئے حملوں کے باوجود امریکی مذاکرات کاروں نے واضح کردیا کہ وہ بات چیت کے بائیکاٹ کے بجائے مذاکرات کو حتمی شکل دینے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکی فوجی بھی طالبان پر میدان میں غیر معمولی دباؤ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
یہ واضح نہیں تھا کہ ڈیل کا اعلان کس طور کیا جائے گا۔ دونوں طرف سے مطالبات نے اس معاملے کو اور بھی پیچیدہ بنادیا۔ امریکی صدر کو اگلی انتخابی مہم کے لیے افغان جنگ ختم کرنے کے وعدے پر عمل کرکے دکھانا ہے۔ دوسری طرف طالبان اپنی طاقت برقرار رکھنے کے حوالے سے بہت حساس ہیں۔ افغان حکومت کو یہ دکھانا تھا کہ اسے اپنے سب سے بڑے اتحادی اور امداد دینے والے ملک کی بھرپور مدد حاصل ہے۔ ساتھ ہی ساتھ قطر کو بھی ایک ایسے وقت میں ان اہم مذاکرات کے انعقاد کا کریڈٹ لینا تھا جبکہ خطے کے ممالک نے اس کے اقتصادی محاصرے میں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔
افغانستان کے حوالے سے واشنگٹن میں قومی سلامتی کے مشیروں کے اجلاس کے بعد اور دوحہ میں مذاکرات کے نویں دور کو لپیٹنے کے مراحل میں امریکی سفیر افغان صدارتی محل میں آئے اور کیمپ ڈیوڈ میٹنگ کی تجویز پیش کی۔ اشرف غنی کے دورہ امریکا کے حوالے سے معاملات طے کیے جانے لگے۔ اس حوالے سے زلمے خیل زاد دوحہ سے کابل پہنچے اور اشرف غنی سے چار ادوار میں بات چیت کی۔ اشرف غنی کو کیمپ ڈیوڈ لے جانے کے لیے امریکا سے طیارہ آنا تھا۔
اشرف غنی کی کابینہ کے ارکان کو معلوم تھا کہ وہ امریکا میں اپنے ہم منصب سے ملاقات کریں گے اور وہاں طالبان کا وفد بھی ہوگا، تاہم انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ وہاں معاملات کیا شکل اختیار کریں گے۔ انہیں اپنی حکومت کی اولین ترجیح سمجھے جانے والے تمام معاملات کے لیے تیار رہنا تھا۔ ۲۸ ستمبر کا صدارتی انتخاب، کابل حکومت کو شریک کرنے کے حوالے سے مذاکرات کے آئندہ ادوار کی ممکنہ شکل اور افغان سیکورٹی فورسز کی استعداد میں اس طور اضافہ کرنا کہ امریکا کے لیے مالی بوجھ کم ہو۔
امریکا کے لیے مذاکرات کتنے اہم ہیں، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اشرف غنی امریکی دورے کے لیے اپنے وفد میں قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب کے لیے گرین سگنل حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، جو امن عمل کے حوالے سے غیر معمولی تنقید کے باعث امریکیوں سے مذاکرات سے دور رکھے گئے تھے۔
کئی ماہ تک امریکیوں نے اشرف غنی کی انتخابی مہم کو طالبان سے ممکنہ ڈیل کے ہاتھوں یرغمال بنایا۔ ایک مرحلے پر یہ تاثر دیا گیا کہ ڈیل بس ہونے ہی والی ہے۔ اور اب ایسا لگ رہا ہے کہ امریکی خود ہی ڈیل سے دور ہو رہے ہیں۔ اشرف غنی مجبوری کی حالت میں انتخابی مہم کو یومیہ دو تین ورچیوئل ریلیز تک محدود رکھے ہوئے تھے۔ ویڈیو چیٹ کے ذریعے انہوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں خطاب پر اکتفا کیا۔ اگر امریکا اور طالبان کے درمیان کوئی ڈیل طے پا جاتی تو انتخابی عمل کو قدرے دھچکا ہی لگتا۔
اگر اشرف غنی کیمپ ڈیوڈ اجلاس میں شرکت سے انکار کرتے تو انہیں امن خراب کرنے والا قرار دیا جاتا۔ ایک سینئر افغان عہدیدار نے بتایا کہ صدر اشرف غنی نے خطرہ مول لیا۔ کیمپ ڈیوڈ اجلاس ایک حلیف کی سرزمین پر ہونے والا تھا۔ اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا کہ کوئی امن معاہدہ ہوگا یا نہیں، اور یہ کہ انتخابات بہتر ماحول میں ممکن ہوسکیں گے یا نہیں۔ افغان عہدیدار کا کہنا ہے کہ کئی ماہ سے افغان حکومت شدید پریشانی کی حالت میں رہی ہے۔ اسے جنگ بھی لڑنی ہے، مذاکرات کی میز پر اپنے لیے جگہ بھی بنانی ہے اور انتخابات کی تیاریوں کو حتمی شکل بھی دینی ہے۔ اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ تشدد بڑھے گا اور انتخابات ہوکر رہیں گے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Taliban talks hit a wall over deeper disagreements”.(“New York Times”. Sept. 8, 2019)
Leave a Reply