کچھ لوگ انہیں ’’اسلام کا مارٹن لیوتھر کنگ‘‘ قرار دیتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ انہیں یورپ میں ’’خطرناک آدمی‘‘ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ ۲۰۰۸ء میں برطانیہ کے ’’پروسپیکٹ‘‘ اور امریکا کے ’’فارن پالیسی‘‘ جریدوں نے طارق رمضان کو عصر حاضر کے ۱۰۰؍نمایاں ترین دانش وروں کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر رکھا تھا۔ امریکی جریدے ’’ٹائم‘‘ نے طارق رمضان کو دور حاضر کے نمایاں ترین جدت پسندوں میں شمار کیا ہے۔
طارق رمضان برسلز (بلجیم) میں قائم تھنک ٹینک ’’یوروپین مسلم نیٹ ورک‘‘ کے سربراہ ہیں۔ وہ برطانیہ کی اوکسفرڈ یونیورسٹی میں جدید اسلامی تعلیمات پڑھاتے ہیں اور قطر یونیورسٹی میں فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز کے وزٹنگ پروفیسر ہیں۔ طارق رمضان، اخوان المسلمون کے بانی سربراہ حسن البنا کے نواسے اور فلسطین کی اخوانی شاخ کے بانی سعید رمضان کے صاحبزادے ہیں۔ ڈاکٹر طارق رمضان سراپا علمی شخصیت ہیں۔ وہ دنیا بھر میں لیکچر دیتے ہیں اور اسلام کو درپیش جدید چیلنجوں کے حوالے سے اپنا موقف واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے متعدد کتب بھی تصنیف کی ہیں جن میں تازہ ترین ’’اسلام اینڈ عرب اویکننگ‘‘ ہے۔
ترکی کے اخبار ’’ٹوڈیز زمان‘‘ سے انٹرویو میں ڈاکٹر طارق رمضان نے اسلامی دنیا کو درپیش چیلنج اور دوسرے بہت سے عصری مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ جدید دور کے چیلنجوں اور بحرانوں کا سامنا کر کے ہی اہل اسلام اپنے لیے بہتر راستے کا تعین کر پائیں گے۔
(روزنامہ ’’ٹوڈیز زمان‘‘ ترکی)
س: عرب دنیا میں بیداری کی لہر کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ آپ نے ’’اسلام اینڈ دی عرب اویکننگ‘‘ میں اس امر پر زیادہ توجہ دی ہے کہ یہ سب کچھ انقلاب ہے یا نہیں۔ اور یہ کہ جو کچھ مصر، تیونس، لیبیا وغیرہ میں ہو رہا ہے اس کے نتیجے میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوسکے گی یا نہیں۔
طارق رمضان: میں نے اپنی کتاب میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ جو کچھ عرب دنیا میں ہو رہا ہے وہ انقلاب سے ملتا جلتا ہے۔ انقلاب میں وہ سب کچھ نہیں ہوتا جو مصر اور تیونس میں ہو رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کوئی بڑی اور بنیادی تبدیلی آئی ہی نہیں۔ یہ سوچنا غلط ہے کہ مغرب کو کچھ معلوم ہی نہیں تھا اور نہ کسی بات کا اندازہ تھا اور پھر اچانک انقلاب رونما ہوگیا۔ فریڈم ہاؤس، البرٹ آئن اسٹائن انسٹی ٹیوٹ اور دوسرے بہت سے بین الاقوامی تھنک ٹینکس کے ساتھ ساتھ امریکی محکمۂ خارجہ بھی شام کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر کے نام پر ہمیں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے ایسا نہیں کہ ہم اسے خود بخود رونما ہونے والا کوئی واقعہ قرار دے دیں۔
امریکا اور یورپ کو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں نئے مہرے درکار ہیں۔ بات یہ ہے کہ چین، ترکی، برازیل، روس، ملائیشیا اور انڈونیشیا اس خطے میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرتے جارہے ہیں۔ چین، روس اور ترکی کی تیزی سے مستحکم ہوتی ہوئی پوزیشن امریکا اور یورپ کے سلامتی کے حوالے سے بھی خطرناک ہے۔ وہ اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ خطے کے قدرتی وسائل پر اپنا سکہ بھی جمائے رکھنا چاہتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو محض سیاسی سطح پر آنے والی تبدیلیوں کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔ اسٹریٹجک پہلو کو کسی بھی تجزیے میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مصر ہو یا تیونس۔ یا پھر لیبیا۔ کوئی بھی ملک بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے اشتراکِ عمل کیے بغیر اپنی بقا یقینی نہیں بناسکتا۔ مصر اور تیونس میں عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے ایک بار پھر خیمے لگا لیے ہیں۔
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ انقلاب ہرگز نہیں۔ کسی کو یقین نہیں تھا کہ شام میں لوگ سڑکوں پر آ جائیں گے۔ امریکی حکومت آٹھ ماہ تک بشار الاسد سے کہتی رہی کہ وہ اصلاحات نافذ کریں۔ یورپ بھی اسی راہ پر گامزن رہا۔ ترک وزیراعظم رجب طیب اردوان نے بھی شام سے اصلاحات کی اپیل کرتے رہنے پر اکتفا کیا۔ ان سب کو بعد میں اندازہ ہوا کہ امن کی اپیل کرتے رہنے سے کچھ نہ ہوگا، لوگ جان دینے کو تیار ہیں۔ خطے کے عوام اب تک اپنی بیداری کو مثبت نتائج یقینی بنانے کے لیے استعمال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ عوامی بیداری کی لہر سے کہاں فائدہ ہوا ہے؟ مصر غیر یقینی کیفیت کا شکار ہے، لیبیا کی حالت غیر ہے، شام میں خانہ جنگی ہو رہی ہے اور یمن کا حال بھی سب پر عیاں ہے۔
س: عرب خطے میں بیداری کی لہر سے خواتین کو کیا فائدہ پہنچا؟ قائدین اس تبدیلی سے خواتین کے حالات بدلنے کے معاملے میں کیا تیاریاں کر رہے ہیں؟
طارق رمضان: قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئے اور ان میں خواتین بھی شامل تھیں۔ خواتین نے حسنی مبارک کے خلاف لوگوں کو جوش دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ اہم اور خوش آئند تبدیلی تھی۔ اب ہم مصر میں خواتین کو خاصے تعمیری انداز سے مختلف شعبوں میں متحرک دیکھ سکتے ہیں۔ یہ اچھی تبدیلی ہے۔
ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ اس تبدیلی کے حوالے سے مغرب کا ردعمل کیا ہے۔ ترکی میں جب رجب طیب اردوان نے بھرپور کامیابی حاصل کی تھی تب مغرب نے اسلامائزیشن کا واویلا مچایا تھا۔ یہ کہا جارہا تھا کہ سروں پر اسکارف ہی اسکارف ہوں گے اور ہر چیز اسلامائزیشن کی عینک سے دیکھی جارہی ہوگی۔ اہل مغرب کی نظر میں اسکارف لگانا اسلامائزیشن ہے اور اسلامائزیشن کا مطلب ہے خواتین کے لیے کم حقوق۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ لباس سے انسان کی آزادی ظاہر نہیں ہوتی۔ آزادی کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع تک رسائی ہے یا نہیں اور یہ کہ کس نوعیت کی تعلیم حاصل کرنا ممکن ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں تعلیم کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔
معاشی آزادی کا سوال بھی تو بہت اہم ہے۔ جنرل مارکیٹ تک رسائی لازم ہے۔ اگر کسی معیشت کو ترقی دینا مقصود ہو تو لازم ہے کہ اس کے لیے بازار کے عمومی حالات سے ہم آہنگی یقینی بنائی جائے۔ اگر معیشت کو بہتر بنانے کے حالات ممکن نہ بنائے جاسکیں تو پھر یہ بیداری کی لہر بے معنی ہے۔ اس کا اصلاً کوئی فائدہ نہیں۔ اگر خواتین کی معاشی آزادی یقینی نہ بنائی جاسکے تو پھر تبدیلی کا کچھ خاص فائدہ معاشرے کو نہیں پہنچتا۔
س: آمرانہ حکومتوں کے خاتمے پر اب انتہا پسندوں کی حکومتیں قائم ہونے کا خطرہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے؟ کیا آپ کے خیال میں اس حوالے سے خدشات حقیقت پر مبنی ہیں؟
طارق رمضان: یہ سب مغرب اور اس کے پروردہ لوگوں کا پروپیگنڈا ہے۔ حسنی مبارک نے عشروں تک یہ بات کہی کہ اگر وہ نہیں ہوگا تو انتہا پسند حکومت کی باگ ڈور سنبھال لیں گے۔ یہ بڑھک سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ جب بھی آمروں نے شدت پسندوں اور اسلام پسندوں کی حکومت سے ڈرایا مغربی حکومتوں نے بات کو آگے بڑھایا کیونکہ یہ بات ان کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے بہت اہم تھی۔
س: عرب دنیا میں حقیقی جمہوریت کے آنے سے اسرائیل پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا اسرائیل عرب جمہوریت کے ساتھ جی سکتا ہے؟
طارق رمضان: عرب دنیا میں جمہوریت سے اسرائیل بھی لازمی طور پر متاثر ہوگا۔ اس خطے میں ۹۰ فیصد افراد اسرائیلی پالیسیوں کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ فلسطین کا بھی ایسا معاملہ ہے۔ جب حقیقی جمہوریت ہوگی تو اسرائیل بھی فلسطین کے حوالے سے پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور ہوگا۔ مگر پہلے عرب ممالک کو اپنے اندرونی معاملات درست کرنے ہوں گے۔ ہر ملک مسائل میں گھرا ہوا ہے جس کے نتیجے میں فلسطینی مسئلہ ثانوی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ مصر میں غیر معمولی تبدیلی رونما ہوئی ہے مگر قائدین اب بھی اسرائیل سے کیے جانے والے امن معاہدے کو ہاتھ لگانے کے لیے تیار نہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ پہلے اپنے معاملات درست کرنے ہوں گے۔ اس کے بعد ہی خطے میں کسی حقیقی تبدیلی کی راہ ہموار کی جاسکے گی۔ ترکی میں وزیر اعظم رجب طیب اردوان نے چند ایک امور میں سخت موقف اختیار کیا ہے جس سے یہ تاثر ملا ہے کہ اسرائیل سے معاملات میں نرمی کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی بنیادی تبدیلی رونما نہیں ہورہی۔
س: ترکی جس طرح تبدیل ہوا ہے، کیا اسے عرب دنیا میں بیداری کی لہر کے حوالے سے ماڈل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے؟ کیا مستقبل میں عرب دنیا ترکی کو اپنے لیے مثال بنانا پسند کرے گی؟
طارق رمضان: میں نے بیس برسوں کے دوران ترکی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا ہے۔ رجب طیب اردوان نے جو کچھ کیا اور اب کر رہے ہیں، اس میں بہت واضح فرق ہے۔ تین شعبوں میں اردوان (Erdogan) نے غیرمعمولی کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے فوج اور سویلین سیٹ اپ کے تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔ کرپشن پر قابو پانے کے حوالے سے رجب طیب اردوان نے بہت کچھ کیا ہے۔ اس معاملے میں ان کی بہتر کارکردگی کی داد دینی ہی پڑے گی۔ تیسرے نمبر پر معیشت ہے۔ اردوان نے معیشت کو مستحکم کرنے کے حوالے سے بہت کچھ کیا ہے۔ مصر اور تیونس میں معاشی اعتبار سے زیادہ سکت نہیں۔ وہ تیزی سے آگے بڑھنے کے قابل نہیں۔
جو کچھ ترکی میں ہوا ہے، اسے میں ہر اعتبار سے اسلامی قرار دینے سے گریز کروں گا۔ عالمی معیشت کے تقاضوں کو نبھانا بھی لازم ہے۔ ترکی نے خود کو عالمی سطح پر منوانے کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ اس معاملے میں اس کی کوششیں ملی جلی رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ترک حکومت اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے۔ مگر یہ بات بھی کہنی پڑے گی کہ اسلامی آئیڈیلز سے وہ ہنوز دور ہے۔ ملک کی سلامتی اور معاشی استحکام یقینی بنانے میں اس کی کارکردگی بہت اچھی رہی ہے۔ اس کی داد نہ دینا زیادتی کے مترادف ہوگا۔ ترکی نے فلسطین کے مسئلے پر اسرائیل کے خلاف چند سخت بیانات دیے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ٹھوس بنیاد پر کیا کیا جارہا ہے؟
س: ترکی کو رکنیت دینے سے یورپی یونین نے اب تک گریز کیا ہے۔ یہ ثقافتوں کا تصادم ہے یا محض نقطۂ نظر کا فرق؟
طارق رمضان: کئی وجوہ ہیں۔ معاشی مسئلہ بھی ہے۔ یورپی یونین کی رکنیت ملنے کی صورت میں ترکی کے لاکھوں باشندے یورپ جاکر قسمت آزمائیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ترکی مسلم معاشرہ ہے یعنی یورپ کے لیے مجموعی طور پر اجنبی۔ یورپی یونین جس بنیاد پر رکنیت دینے کی بات کرتی ہے، وہ ترکی نے مکمل طور پر اپنائی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی رکنیت کے لیے جس نوعیت کی معاشی اصلاحات نافذ کی جانی چاہئیں، وہ ترکی نے خاطر خواہ حد تک نہیں اپنائیں۔
کرد مسئلہ برقرار ہے۔ اب تک انسانی حقوق کے حوالے سے خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ اقلیتوں سے معاملات اس معیار کے مطابق نہیں جو یورپی یونین چاہتی ہے۔
س: کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ نئے آئین کے نفاذ کی صورت میں یہ تمام بنیادی مسائل حل ہو جائیں گے؟
طارق رمضان: بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ بہت سے معاملات ترک تاریخ کا حصہ ہیں۔ انہیں نزاکت کے ساتھ برتنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ جذبات کی سطح پر کار فرما نہ رہے تو اچھا ہے۔ بُردباری وقت کی ضرورت ہے۔ موجودہ ترک حکومت کو اقلیتوں سے روا رکھے جانے والے رویّے کے معاملے میں خاص احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ بیشتر معاملات میں ترک حکومت کی کارکردگی بہت اچھی ہے مگر میں اس بات پر زور دوں گا کہ ترک حکومت کو سیکھنا چاہیے کہ بہت سی چیزوں کو چھوڑا کیسے جاتا ہے۔ میں ترک عوام سے کہوں گا کہ جمہوریت اچھی چیز ہے اور حکومت اچھی طرح چلانا بھی اچھی چیز ہے مگر اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر انہیں تاریخ کے عمل پر بھی نظر رکھنا ہوگی۔ کامیابی کے سفر کی ایک اہم منزل یہ بھی ہے کہ کسی چیز کو کب تک پکڑ کر رکھنا ہے اور کب اسے چھوڑ کر آگے بڑھنا ہے۔
(“Tariq Ramadan: The Question to ask is if the West is ready for Arab Democracy”… “Today’s Zaman”. Jan. 20th, 2013)
Leave a Reply