جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) ترکی میں ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوئی ہے۔ مغرب کے سیاسی اصولوں کے تحت کام کرنے والی اس پارٹی نے اب تک اسلامی ایجنڈے کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ اس کی پالیسیوں میں اب تک اسلام کو واضح ترجیح نہیں دی گئی۔ طیب ایردوان پارٹی کے سربراہ اور وزیر اعظم ہیں اور ان کا اسلامی پس منظر ہے تاہم انہوں نے اب تک اسلامی ایجنڈے کے حوالے سے کوئی اشارہ نہیں دیا۔ اس کے باوجود مغرب میں بعض حلقے اسے اسلامی پارٹی قرار دیتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ یورپی یونین کی رکنیت کی راہ میں دیواریں کھڑی ہوئی ہیں۔
۱۹۹۷ء میں نجم الدین اربکان کی قیادت میں کام کرنے والی فضیلت پارٹی ختم کردی گئی۔ اس میں سے طیب ایردوان اور عبداللہ گل الگ ہوئے اور ملی گورس تحریک شروع کی۔ یہی تحریک بعد میں اے کے پی میں تبدیل ہوئی۔
۱۴؍ اگست ۲۰۰۱ء کو معرض وجود میں آنے والی اے کے پی نے ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی تھی۔ تب سے اب تک اسے عوام اور معاشرے کے مختلف طبقات کی حمایت حاصل رہی ہے۔ اربکان کی ملی گورس تحریک کا قدامت پسندوں، ڈیموکریٹس، صوفی ازم پر یقین رکھنے والوں، اعتدال پسند قوم پرستوں اور بائیں بازو والوں نے خیر مقدم کیا۔ پہلے چار سالہ اقتدار میں اے کے پی کی کارکردگی بہت عمدہ رہی۔ اسے انتخابات میں کاسٹ کیے جانے والے ووٹوں کا ۳۷ فیصد ملا تھا۔ ۲۰۰۷ء کے عام انتخابات میں اس کی مقبولیت بڑھ گئی اور کاسٹ کیے جانے والے ووٹوں کا ۴۷ فیصد اسے ملا۔ ۵۵۰ ارکان کے ایوان میں البتہ اس کی نشستوں کی تعداد ۳۶۳ سے گھٹ کر ۳۴۱ رہ گئی۔
اے کے پی کی مقبولیت میں اضافہ کئی عوامل نے کیا ہے۔
٭ طیب ایردوان کی شخصیت کا طلسم اے کے پی کی مقبولیت میں مرکزی کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ان کی ذہانت، اندازِ بیان، ایمانداری اور عزیمت کے علاوہ سیاسی ریکارڈ نے بھی بگڑی بات بنائی ہے۔ ۱۹۹۷ء میں ایک نظم پڑھنے پر انہیں چار ماہ کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا تھا جس سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔
٭ اے کے پی کی معاشی کارکردگی اب تک بہتر رہی ہے۔ جب اسے اقتدار ملا تھا تب ترک معیشت کا برا حال تھا۔ بیشتر شعبے دیوالیہ ہونے کی حد تک پہنچ گئے تھے۔ سیکولر اشرافیہ اور غیر ملکی کاروباری ادارے قومی خزانے پر قابض تھے اور اپنی مرضی کے مطابق اس میں سے خرچ کر رہے تھے۔ قومی دولت کی بندر بانٹ جاری تھی۔ اے کے پی نے جرأت مندانہ فیصلے کیے۔ افراطِ زر میں بتدریج کمی لائی گئی، بیروزگاری ختم کی گئی اور آزاد منڈی کی معیشت کو اس کے بنیادی اصولوں کے تحت اپنایا گیا۔ اس وقت ترک معیشت دنیا بھر میں سترہویں اور یورپ میں چھٹے نمبر پر ہے۔
٭ اے کے پی نے بنیادی حقوق کے حوالے سے صورت حال بہتر بنائی۔ شہری آزادیوں میں بھی مرحلہ وار اضافہ کیا گیا۔ ۱۹۸۰ء کے فوجی انقلاب کے بعد اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے فوج نے سخت قوانین نافذ کیے گئے تھے۔ مخالفین کو سختی سے کچل دیا جاتا تھا۔ بلا جواز گرفتاریاں، تشدد، ماورائے عدالت ہلاکتیں اور دھمکیاں دینا عام تھا۔ اے کے پی نے یہ سب کچھ بتدریج ختم کیا۔ یورپی یونین کے طے کردہ معیارات کے مطابق سیاسی آزادی دی گئی۔ اے کے پی نے کرد باغیوں کو رام کرنے میں بھی بہت حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ ایک سرکاری یونیورسٹی میں کرد زبان کا شعبہ بھی قائم کیا گیا ہے۔ جنوب مشرقی ترکی میں کردوں کی اکثریت ہے۔ اس علاقے میں کرد نواز ڈیموکریٹک سوسائٹی پارٹی سے زیادہ اے کے پی کو مقبولیت حاصل ہے۔ ۲۰۰۷ء کے انتخابات میں بھی اے کے پی کو اس علاقے میں زیادہ ووٹ ملے تھے۔
٭ اے کے پی نے آٹھ سالہ اقتدار کے دوران سیاسی اور حکومتی امور میں فوجی عمل دخل کم کرنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ فوج نے اب تک ترکی میں چار مرتبہ منتخب حکومت کا تختہ الٹا ہے۔ یورپی یونین کی مدد سے اے کے پی حکومت نے پولیس فورس کو مستحکم کیا ہے جس کے نتیجے میں فوجیوں کا عمل دخل بیشتر سیاسی اور حکومتی امور میں اس حد تک کم ہوگیا ہے کہ اب حکومت کے خلاف کچھ بھی کرنے پر فوجیوں کو بھی کارروائی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ حال ہی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش ناکام ہو جانے پر ارجنینکو گروپ کے ارکان کے علاوہ چند جرنیلوں اور دوسرے فوجی افسران کو بھی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
٭ اے کے پی نے طیب ایردوان کی قیادت میں نئی عمل پسند اور متوازن خارجہ پالیسی اپنائی۔ عالمی برادری میں ملک کا وقار بلند کرنے کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں سے بھی تعلقات بہتر بنائے گئے۔ ترکی نے ایران، آذر بائیجان اور ترکمانستان سمیت کئی پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر بناتے ہوئے ان کے ساتھ معاشی روابط بڑھانے پر بھی توجہ دی ہے۔ علاقائی تنازعات ختم کرکے ہم آہنگی کی فضا کو پروان چڑھایا گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا، افریقا اور جنوبی امریکا سے تعلقات بہتر بنانے پر بھی ترک حکومت نے خاص توجہ دی ہے۔
ترکی نے امریکی خارجہ پالیسی کے خلاف بند باندھنے کی بھی کوشش کی ہے۔ ۲۰۰۳ء میں عراق پر حملے کے لیے ترک سرزمین استعمال کرنے کی ایک امریکی تجویز کو ترک پارلیمنٹ نے سختی سے مسترد کردیا۔ ۲۰۰۶ء میں جب حماس نے فلسطینی علاقوں میں منعقدہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی تب اس کے سربراہ خالد مشعل کو ترکی کے دورے کی دعوت دی گئی۔
اسرائیل فلسطینی تنازع ترک حکومت کی پوزیشن اندرونی سطح پر مستحکم کرنے میں خاصا کارگر ثابت ہوا ہے۔ جنوری ۲۰۰۹ء میں ڈیووس (سوئٹزر لینڈ) میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم میں ترک وزیر اعظم ایردوان اور اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ اس واقعے نے اے کے پی کی مقبولیت غیر معمولی حد تک بڑھا دی۔ چند ماہ بعد بلدیاتی الیکشن میں اے کے پی کو فقید المثال کامیابی حاصل ہوئی۔
حال ہی میں غزہ کے محصور فلسطینیوں کے امدادی قافلے پر حملے میں ۹ ترک امدادی کارکنوں کی شہادت نے اے کے پی کے لیے ٹانک کا کردار ادا کیا ہے۔ اس وقت اے کے پی کی مقبولیت نقطہ عروج پر ہے۔ آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں اس کی بھرپور کامیابی کی توقع عبث نہ ہوگی۔
چند ایک معاملات میں اے کے پی کمزور ثابت ہوئی ہے۔ آئیے، اس کے کمزور پہلوؤں پر بھی ایک نظر ڈالیں۔
٭ اے کے پی اب تک سماجی انصاف کو مکمل طور پر یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ دولت کی غیر متناسب تقسیم کو فروغ دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو قبول کرکے سرمایہ داروں کو مستحکم کیا گیا ہے۔ محنت کش طبقہ اور سرکاری ملازمین اب تک معاشی مشکلات سے دوچار ہیں۔ جب ہر طرف سے دباؤ بڑھا تو مارچ میں حکومت نے اعلان کیا کہ آئی ایم ایف سے ایک اسٹینڈ بائی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اس کے باوجود آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل اب تک جاری ہے۔
٭اے کے پی نے مذہبی آزادی کے معاملے میں بھی اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ اسکولوں، جامعات، عام مقامات اور سرکاری اداروں میں اسکارف پر پابندی برقرار ہے۔ اسکارف پر پابندی ختم کرنے کے حوالے سے اے کے پی حکومت نے ۲۰۰۸ء میں ایک قانون منظور کیا جسے آئینی امور کی عدالت نے یہ کہتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا کہ اس سے آئین کے بنیادی اصولوں کی نفی ہوتی ہے۔
نیم اسلامی تربیتی اداروں کے مسلم طلبا کو اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں داخلہ آسانی سے نہیں ملتا۔ قرآن کی تعلیم کے لیے ادارے کھولنا اب بھی آسان نہیں۔ اے کے پی نے اب تک یورپی یونین کے معیارات کے مطابق انسانی حقوق یقینی بنائے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد جمہوریت کو فوجی اثرات سے بچانا اور اشرافیہ کے شر سے محفوظ رکھنا تھا۔ اس کام میں شہریوں کو ان کے تمام حقوق کا نہ ملنا کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ یورپی یونین نے اے کے پی حکومت کی جانب سے ترک مسلمانوں کے بنیادی حقوق میں کمی کرنے سے متعلق پالیسی پر زیادہ مسرت کا اظہار نہیں کیا۔ یہ سب اس کے لیے غیر متعلق تھا۔ ترک حکومت نے جو کچھ کیا وہ اندرونی کھپت کے لیے تھا۔
کرپشن ختم کرنے کے حوالے سے اے کے پی نے بعض بنیادی اقدامات کیے ہیں تاہم پارٹی میں نچلی سطح پر اب بھی کرپشن پائی جاتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا دعویٰ ہے کہ اے کے پی نے اپنے بعض عہدیداروں کو اہم ٹھیکے دے کر مالداروں کا اپنا طبقہ پیدا کیا ہے۔ پارٹی کے بہت سے عہدیدار راتوں رات دولت مند ہوگئے۔ ان کا لائف اسٹائل میڈیا کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ ناقدین اسی بنیاد پر اے کے پی کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔
اے کے پی نے کسی اسلامی ایجنڈے سے بالعموم انکار کیا ہے تاہم سچ یہ ہے کہ جب بھی موقع ملتا ہے، اس کے کارکن اور عہدیدار ترکی کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کے جذبات کو اپیل کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۷ء میں اے کے پی کی بھرپور کامیابی کا ایک بنیادی راز یہ بھی ہے کہ سیکولر اشرافیہ نے پارٹی پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ عبداللہ گل کو صدر منتخب نہ کرے کیونکہ ان کی اہلیہ اسکارف رکھتی ہیں!
ترکی میں یہ خیال عام ہے کہ اے کے پی اسلامی تصورات ضرور رکھتی ہے۔ پارٹی کے بہت سے اہم ارکان اور عہدیدار اسلامی سوچ رکھتے ہیں اور کسی نہ کسی مرحلے پر ان سے یہ تصور توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق حکومت کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔ آئینی امور کی عدالت نے اسکارف پر پابندی ختم کرنے سے متعلق قانون کو ختم کرکے اے کے پی کی مقبولیت میں اضافہ کردیا۔ یہ تنازع حکومت کے خاتمے تک بھی پہنچتا دکھائی دیا تھا۔ آئینی امور کی عدالت نے حکومت کے خلاف جاکر عوام کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کردی کہ اے کے پی بہر حال کسی نہ کسی حد تک اسلامی ایجنڈا رکھتی ہے۔ یہ حقیقت اس کی مقبولیت میں کئی گنا اضافے میںمعاون ثابت ہوئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت اے کے پی کی مقبولیت قابل رشک ہے مگر اسے اپنی کارکردگی بھی بہتر بنانی ہوگی۔ اگر اس نے ترک مسلمانوں کی توقعات کے مطابق کام نہ کیا تو نعمان کرتلموس کی قیادت میں سعادت پارٹی اس کی جگہ لینے کے لیے موجود ہے۔ یہ پارٹی اے کے پی کی غلطیوں سے خوب فائدہ اٹھا رہی ہے۔ سعادت پارٹی نے اے کے پی کے بہت سے حامیوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ ترک سیاست میں تادیر زندہ اور متحرک رہنے کے لیے اے کے پی کو بہت محنت کرنی پڑے گی۔
(بشکریہ: ’’کریسنٹ انٹرنیشنل‘‘۔ جولائی ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply