
امریکی تِھنک ٹینک ’’ادارہ برائے تعلیمِ جنگ‘‘ کی ایک رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ ایران کس طرح ’’شامی صدر بشار الاسد کو طاقت میں رکھنے کی وسیع، مہنگی اور مربوط کوشش کا حصہ تھا‘‘۔ تاہم گزشتہ ہفتہ بلومبرگ نے خبر دی کہ امریکی حکام کے مطابق شام میں ایرانی فوجوں کی تعداد اور سرگرمی میں خاطر خواہ کمی ہو رہی ہے۔ واشنگٹن اس کو شام سے ایران کی پسپائی کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ اس کے خیال میں اس پسپائی کی وجہ اسد کی حکومت کے دفاع میں اعلیٰ فوجی حکام کا جانی نقصان اور مالی وسائل کا ضیاع ہے۔ لیکن شام کی ہر لحظہ نئی صورت اختیار کرتی خانہ جنگی میں ضروری نہیں کہ ایرانی حکمتِ عملی کی تبدیلی کی واحد وجہ یہی ہو۔ دوسرے کئی منظر ناموں پر بھی غور کرنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ ایران شام کے مستقبل پر ہونے والی بحث میں اپنی شمولیت اور اپنے آپ کو ایک اہم کردار تسلیم کیے جانے پر مطمئن ہو گیا ہو اور اب اس کی نظر میں شام میں پرانی سطح کی فوجی مداخلت کی ضروروت باقی نہ رہی ہو۔
جولائی کا جوہری معاہدہ ایران کے تنہائی سے نکل کر واپس عالمی سرگرمیوں میں قدم رکھنے کا اہم موقع تھا، جس کے بعد اس اسلامی جمہوریہ کو اکتوبر میں ویانا امن بات چیت میں مدعو کیا گیا اور اس نے بات چیت کے اصولوں سے اتفاق کیا۔
تہران نے بارہا کہا ہے کہ وہ اسد کی ذات کے ساتھ منسلک نہیں ہے۔ تہران جانتا ہے کہ جو سیاسی کردار عبوری حکومت بنائیں گے، ان پر اثر و رسوخ قائم رکھنے کی کوشش کا لازمی مطلب یہی ہوگا کہ اب بشار الاسد کا مستقبل اتنا اہم نہیں رہا جتنا ماضی میں تھا۔ مزید یہ کہ ہمیں یہ فرامو ش نہیں کرنا چاہیے کہ پچھلی ایک دہائی میں مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والی سازشوں کے تانے بانے بڑی حد تک ریاض اور تہران کے درمیان وسیع علاقائی تنازع کے تحت بُنے گئے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کا اب زمیں پر ہتھیاروں کے بجائے ایک میز پر بیٹھ کر شام پر بات کرنا بہت اہم پیش رفت ہے اور ویانا بات چیت عمل کی اب تک کی کامیابی ہے، جسے ذرائع ابلاغ میں ابھی تک نظر انداز کیا گیا ہے۔
شام میں روس کے فوجی کردار میں ڈرامائی تیزی نے بہت سوں کو یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کیا ہے کہ شامی حکومت کو اب شکست کا خطرہ نہیں۔ ان بڑے سوالوں کے باوجود کہ آیا اسد شام کی کھوئی ہوئی زمین واپس لے سکتا ہے یا نہیں۔ اسد کی حکومت کا مستقبل محفوظ ہونے اور لبنان میں حزب اللہ کی راہداریوں کو لاحق خطرات ختم ہونے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایران کی شام میں مداخلت کے بڑے اہداف میں سے بعض تو حاصل ہو ہی چکے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ ایران مستقبل میں حزب اللہ طرز کی پراکسی کے ذریعے شام میں بھی موجود رہ سکتا ہے۔ ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ کے مطابق ایک وقت میں ایران کے سات ہزار انقلابی محافظین اور دوسرے فوجی رضاکار شامی حکومت کی اعانت کر رہے تھے۔
جو چیز غیر واضح ہے، وہ یہ کہ ایران نے شام کی قومی دفاعی افواج (نیشنل ڈیفنس فورسز) کے سلسلے میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ این ڈی ایف شامی فوج کا ایک جز وقتی رضا کارانہ حصہ ہے جو مبیّنہ طور پر ایران کی ایلیٹ قدس فوج کے سربراہ قاسم سلیمانی نے تشکیل دیا تھا۔ یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق این ڈی ایف کی کمانڈ اینڈ کنٹرول کے معاملے پر تہران اور ماسکو میں اختلاف ہے۔ روس اس کو باقاعدہ طور پر شامی فوج کا حصہ بنانے کا حامی ہے جبکہ ایران اسے ایک آزاد فوج کے طور پر برقرار رکھنا چاہتا ہے، بالکل اُسی طرح جیسے لبنان میں حزب اللہ ہے۔
چنانچہ ایک بار پھر ایران کی پسپائی کو اس بات سے جوڑا جاسکتا ہے کہ وہ بلاواسطہ یا بالواسطہ اپنی کمانڈ میں شامیوں کے لڑنے اور مرنے پر مطمئن ہے اور اپنے فوجیوں کی جانوں سے کھیلنے کی اسے ضرورت نہیں۔
مندرجہ بالا نقطۂ نظر امریکا کے تہران کی پسپائی کے نظریے کو رَد نہیں کرتا لیکن اسے پڑوسی عراق میں جاری تنازع کے تناظر میں رکھ کر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
شمالی عراق میں ترک فوجوں کی تعیناتی اور ان سوالوں کی جوں کی توں موجودگی کے بعد کہ داعش کے قبضے میں جانے والے موصل جیسے شہروں کو واپس کیسے حاصل کیا جائے گا، تہران شاید یہ محسوس کرتا ہے کہ اب تمام محاذوں پر لڑائی سے گریز کرنے اور اپنے عین پڑوس میں اثر و رسوخ کی جنگ پر توجہ مرکوز کرنے کا وقت ہے۔ امریکی افواج کی عراق میں تعیناتی میں تیزی آنے کی افواہوں کی وجہ سے تہران کی فوجی ترجیحات اور واضح ہو کر سامنے آسکتی ہیں۔
خلاصہ بیان یہ ہے کہ اگرچہ گزشتہ پانچ سال میں شام کے بحران میں اسد کی حمایت کرنے کی تہران نے بھاری قیمت ادا کی ہے لیکن اس کی پالیسی میں موجودہ تبدیلی کی وضاحت دوسرے اسباب سے بھی ہوتی ہے۔ خطے میں (خاص طور پر ۲۰۰۳ء میں عراق کے انہدام کے بعد سے) ایرانیوں کے اثر و رسوخ کو سامنے رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ مختلف النوع ترجیحات اور مضبوط غیر ریاستی کرداروں پر بطور اتحادی اعتماد ایران کی حالیہ پسپائی کی وجوہات ہیں۔
(ترجمہ: طاہرہ فردوس)
“Tehran’s Damascene moment?”. (“aljazeera.com”. Dec. 14, 2015)
Leave a Reply