
القاعدہ اور داعش سے تعلق رکھنے والے اکاؤنٹس کا گزشتہ ماہ اچانک telegram.com کی میسیج ایپ سے غائب ہو جانا بڑی بات تھی۔ سوشل میڈیا کا یہ پلیٹ فارم ایک طویل مدت سے انتہا پسند گروہوں کی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور ان کے لیے ریکروٹس کی بھرتی کا ذریعہ رہا ہے۔ ٹیلی گرام پر اس حوالے سے غیر معمولی دباؤ تھا۔ ادارے نے ایک بڑا قدم اٹھایا اور انتہا پسندی کو فروغ دینے والے گروہوں کو غیر موثر کرنے کی سمت پیش رفت کی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیلی گرام کی انتظامیہ انتہائی دائیں بازو کے عناصر کی ویب سائٹس کو بھی اپنے مرکزی پورٹل سے ہٹائے گی یا نہیں۔
ٹیلی گرام ۲۰۱۳ء میں پاؤل ڈروو (Pavel Drove) نے لانچ کی تھی۔ اس ویب سائٹ کو لانچ کرنے کا بنیادی مقصد پرائیویسی کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے سینسر شپ سے دور رہ کر خیالات کا بھرپور انداز سے اظہار یقینی بنانا تھا۔ اس پلیٹ فارم نے روس جیسے سخت گیر نظام والے ممالک میں غیر معمولی مقبولیت سے حاصل کی۔ ان ممالک میں ٹیلی گرام استعمال کرنے والے لاکھوں لوگ ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ مذموم عزائم رکھنے والوں نے اس پلیٹ فارم کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا بھی جاری رکھا ہے۔ فیس بک اور ٹوئٹرز کے برعکس ٹیلی گرام نے اپنی خدمات سے مستفید ہونے والے انتہا پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن سے حتی الامکان گریز کیا ہے۔
نومبر کے وسط میں بہت کچھ تبدیل ہوگیا۔ یوروپین لاانفورسمنٹ ایجنسی کے تعاون سے ٹیلی گرام نے انفرادی استعمال کرنے والوں اور ایڈمنسٹریٹرز کو ہدف بنانا شروع کیا۔ داعش کے سینٹرل میڈیا ورکرز سے اس کے ہمدردوں تک سبھی کو نشانے پر لیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹیلی گرام نے خصوصی توجہ کے ساتھ یہ کام کیا ہے کیونکہ صرف داعش کے کارکنوں اور ہمدردوں ہی کو نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ اس کمیونٹی سے وابستہ یا اس میں چھپے ہوئے صحافیوں اور دیگر افراد کے خلاف بھی کارروائی کی گئی ہے۔ بیک اپ اکاؤنٹس بھی حذف کردیے گئے اور جب آپریٹیوز اور سپورٹرز نے متبادل اکاؤنٹس کھولے تو وہ بھی حذف کیے جانے سے محفوظ نہ رہ سکے۔
ٹیلی گرام کے اقدامات سے دہشت گرد نیٹ ورک شدید انتشار کا شکار ہوئے۔ بیشتر کے پاس بیک اپ نہیں تھا، اس لیے ہزاروں رابطے ختم ہوگئے۔ داعش اور دیگر انتہا پسند گروہوں کو اپنے کارکنوں اور ہمدردوں سے رابطے بحال کرنے کے لیے کہنا پڑا۔ داعش اور دیگر اسلامی گروہوں کے خلاف ٹیلی گرام کی انتظامیہ نے جو کچھ کیا اُس پر شدید ردعمل دکھائی دیا ہے۔ ان گروہوں کی مطبوعات اور بالخصوص جرائد میں سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ جہاد ہر حال میں جاری رکھنے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
مسلم انتہا پسند گروہوں کو فی الحال نئے پلیٹ فارمز کی تلاش ہے۔ وہ Tam Tam، Riot,، Rocket Chat، Threema اور Conversation جیسی ویب سائٹس سے جُڑنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ رابطے بحال رہیں۔ انتہا پسند گروہوں کے لیے انٹرنیٹ لائف لائن کی طرح ہے۔ جب انٹرنیٹ کمزور پڑتا ہے یا اِس پر اُن کے لیے گنجائش کم رہ جاتی ہے تب اُن کی نبض ڈوبنے لگتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ٹیلی گرام نے جو اقدامات کیے ہیں اُن سے مسلم انتہا پسند گروہوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔
اب دو سوال بہت اہم ہیں۔ پہلا تو یہ کہ ٹیلی گرام نے مسلم انتہا پسند گروہوں کے خلاف کارروائی میں اس قدر تاخیر سے کام کیوں لیا۔ اور دوسرے یہ کہ کیا یہی کارروائی نیو نازی اور انتہائی دائیں بازو کے دیگر گروہوں کے خلاف بھی کی جائے گی۔
۱۵؍مارچ ۲۰۱۹ء کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر حملوں کے بعد انتہائی دائیں بازو کے گروہوں نے بہت تیزی سے ٹیلی گرام پر اپنے لیے جگہ بنائی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس پلیٹ فارم پر ان گروہوں کی سرگرمیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ انتہائی دائیں بازو کے ۳۷۴ چینل اور چیٹ گروپس کا جائزہ لینے سے معلوم ہوا کہ ان میں سے ۸۰ فیصد گزشتہ دس ماہ میں بنائے گئے ہیں۔ استعمال کرنے والوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔
نیو نازی اور انتہائی دائیں بازو کے سفید فام گروہوں کو اب ٹیلی گرام کی شکل میں انتہائی مضبوط اور محفوظ پلیٹ فارم مل گیا ہے۔ اس پلیٹ فام پر وہ، مسلم انتہا پسند گروہوں کی طرح، رابطے بھی کرسکتے ہیں اور حملوں کے شیڈول بھی ترتیب دے سکتے ہیں۔ میڈیا شیئرنگ، ون ٹو ون چیٹ اور دیگر بہت سے طریقے اختیار کرکے انتہائی دائیں بازو کے گروہ ایک مضبوط نیٹ ورک سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کے فلسفے کی دسترس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹیلی گرام پر انتہائی دائیں بازو کے گروہ مکمل آزادی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ مسلم انتہا پسند گروہ ڈھک چھپ کر کام کرتے تھے۔ ٹیلی گرام پر انتہائی دائیں بازو کے ۲۴۹ چینلوں میں سے ۹۲ کھل کر کام کر رہے ہیں۔ ۱۲۵میں سے ۶۷ فیصد چیٹ گروپس کا بھی یہی حال ہے۔ نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ کی دو مساجد اور جرمنی میں یہودیوں کے معبد پر حملے کی فوٹیج ان چینلوں اور چیٹ گروپس میں اب تک آزادانہ شیئر کی جارہی ہیں۔
دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ انتہائی دائیں بازو کے گروہ بہت تیزی سے فروغ پارہے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں آسانی سے دیکھی جاسکتی ہیں۔ ٹیلی گرام جیسے آن لائن پلیٹ فارمز نے ان گروہوں کی حوصلہ افزائی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب تک یہ واضح نہیں کہ ٹیلی گرام نے جس طور مسلم انتہا پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کی ہے اُسی طور انتہائی دائیں بازو کے اور بالخصوص نیو نازی گروہوں کے خلاف بھی فیصلہ کن انداز کی کارروائی کی جائے گی۔
Rita Katz مشہور زمانہ سائٹ انٹیلی جنس گروپ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور دہشت گردی سے متعلق امور کی تجزیہ کار ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Telegram has finally cracked down on Islamist terrorism. Will it do the same for the far-right?” (“Washington Post”. December 5, 2019)
Leave a Reply