ترقی پذیر دنیا سے دس کھرب ڈالر ، کالے دھن کا انخلا

ترقی پذیر ملکوں کو مزید پسماندہ کرنے کی چالیں بیرونی دنیا خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک تو چلتے ہی رہتے ہیں، ان ترقی پذیر ملکوں کو اندرونی دیمکیں بھی لگی ہوئی ہیں جو ان کا بچا کھچا چاٹتی رہتی ہیں۔ فراڈ، بدعنوانی اور مشکوک کاروباری سودوں کے ذریعے ان ملکوں سے تقریباً دس کھرب ڈالر مزید نکلوا لیے گئے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس رقم سے بہت کم رقم ان ترقی پذیر ملکوں کو نام نہاد بیرونی امداد کی صورت میں ملی ہے۔

’’گلوبل فنانشل انٹیگریٹی‘‘ واشنگٹن میں قائم ایک گروپ ہے جو مالی بدعنوانی کو بے نقاب کرتا ہے۔ اس گروپ نے اپنی ۲۰۱۱ء کی رپورٹ حال ہی میں شائع کی ہے جس کے مطابق ۱۵۰ ترقی پذیر ملکوں سے نکلنے والا کالا دھن تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ۲۰۱۱ء میں یہ رقم مجموعی طور پر ۴۶۷ء۹ کھرب ڈالر تک جا پہنچی جو کہ ۲۰۱۰ء کے مقابلے میں ۷ء۱۳؍فیصد زائد ہے اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کی بلند ترین رقم ہے۔ گروپ کے سربراہ ریمنڈ بیکر کے بقول ’’عالمی مالی بحران نے عالمی معیشت کو لڑکھڑا دیا ہے تاہم غیر قانونی زیر زمین معیشت پھل پھول رہی ہے، ہر سال ترقی پذیر ملکوں سے پہلے سے زیادہ رقم نکل رہی ہے‘‘۔ اس معاملے نے G-20کے رہنمائوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے، یہ رہنما اپنے اپنے ملکوں کو ۰۹۔۲۰۰۸ء کی کساد بازاری کے اثرات سے نکالنے کے لیے کوشاں ہیں کیونکہ ان ملکوں میں امیر اور غریب شہریوں کے مابین فرق بڑھتا جا رہا ہے جس پر قابو پانے کے لیے یہ رہنما اپنے ٹیکس چوروں سے نمٹ رہے ہیں اور ان کارپوریٹ اداروں کی خبر لے رہے ہیں جنہیں کالا دھن سفید کرنے، اور جرائم سے حاصل کی جانے والی دولت کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

کالے دھن میں سب سے تیز رفتار اضافہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں دیکھا گیا جسے ناجائز کاروبار، جرائم اور بدعنوانی کا پھل کہا جا سکتا ہے۔ ۲۰۰۲ء کی نسبت ۲۰۱۱ء تک اس کالے دھن میں ۵ء۳۱ فیصد اضافہ ہو چکا تھا اور یہی وہ عشرہ ہے جس کے اختتام پر ’عرب بہار‘ کی لہر ابھری اور اس لہر میں ان ملکوں میں پھیلی بدعنوانی کے خلاف عوام کا نعرہ گونجا۔ دورانِ عرصہ افریقا میں یہ اضافہ ۲ء۲۰ فیصد دیکھا گیا۔

رواں صدی کے پہلے دس سال کے دوران ترقی پذیر ملکوں سے جو ۵۹ کھرب ڈالر نکالے گئے ان میں حجم کے اعتبار سے سب سے زیادہ رقم ایشیائی ملکوں سے نکالی گئی یعنی ۵۹ کھرب ڈالر کا ۴۰ فیصد، جبکہ صرف چین سے ۸ء۱۰؍کھرب ڈالر نکالے گئے۔

اس تحقیق میں ترقی پذیر ملکوں سے ناجائز رقوم کے بہائو کا پتہ چلانے کے لیے تجارت اور توازن ادائیگی کی ان رپورٹوں کی مدد لی گئی جو عالمی مالیاتی فنڈ کے پاس جمع کرائی جاتی ہیں۔ناجائز رقوم کے بہائو کو ٹھیک ٹھیک ناپا نہیں جا سکتا کیونکہ انہیں تحریر نہیں کیا جاتا اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ خفیہ ہوتی ہیں: تاہم جی ایف آئی نے اپنے اعدادوشمار میں اس سال یہ جدت پیدا کی ہے کہ ہانگ کانگ کے راستے باز برآمد (Re-exporting) کے علاوہ مختلف اقسام کے تجارتی اعدادوشمار کو بھی درج کیا۔

جی ایف آئی کا کہنا ہے کہ ناجائز رقوم اِدھر سے اُدھر کرنے کا سب سے مقبول طریقہ تجارتی اندراج میں ہیر پھیر کرنا ہے، جس میں درآمدی اور برآمدی رقوم کی مالیت اصل سے مختلف لکھی جاتی ہے تاکہ ٹیکسوں سے بچا جائے یا رقم کی بھاری منتقلیوں کو چھپایا جائے۔

محققین نے کسی ملک میں آنے والی رقوم معلوم کرنے کے لیے توازن ادائیگی کے اعدادوشمار کا بھی جائزہ لیا، یہ رقوم مختلف طریقوں سے کسی ملک میں آتی ہیں، مثلاً جزدانی سرمایہ کاری، براہ راست بیرونی سرمایہ کاری، امداد اور قرضے وغیرہ۔ دوسرے اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ یہ رقوم کس طرح استعمال ہوتی ہیں۔ رقوم کی آمد اور استعمال کے مابین غیر معمولی فرق کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ سرمایہ ناجائز طور پر بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے، اور یہ منتقلی رقوم کے مذکورہ بالا ہیرپھیر کے علاوہ ہوتی ہے۔

سرمائے کی ناجائز منتقلی کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ جہاں سے ۲۰۱۱ء میں ۱۴ء۱۹۱؍ارب ڈالر بیرون ملک منتقل کیے گئے، چین سے ۳۵ء۱۵۱؍ارب ڈالر اور بھارت سے ۹۳ء۸۴؍ارب ڈالر پرواز کر گئے۔

رقوم کی ناجائز منتقلی کی روک تھام کے لیے G-20 ملکوں نے پہلی بار اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اپنی ٹیکس معلومات سے بھی آگاہ کریں گے اور اس پر عمل درآمد ۲۰۱۵ء کے اختتام پر شروع کیا جائے گا، اس طرح ٹیکس چوروں اور ناجائز رقوم کی منتقلی کا پتہ چلایا جائے گا۔

کالا دھن سفید کرنے کا ایک اور مقبول طریقہ ’شیل کمپنیاں ہیں کیونکہ یہ کمپنیاں اثاثوں کے اصل مالکان کا نام پتہ معلوم نہیں کرتیں، وہ گمنام مالکان کو بھی کاروبار کی اجازت دیتی ہیں۔ G-8 (بڑی صنعتی اقوام) نے جون میں متفقہ طور پر کہا تھا کہ ’گمنام شیل کمپنیاں‘ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہیں۔ برطانوی حکومت بھی اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔

عالمی رہنمائوں کے ایک پینل نے اقوام متحدہ سے سفارش کی ہے کہ وہ ۲۰۱۵ء سے نئے ’عالمی ترقیاتی اہداف‘ مقرر کرتے وقت، غربت کے خاتمے کے اپنے ایجنڈا پر عمل درآمد کے لیے ناجائز رقوم کے بہائو پر قدغن کو بھی اپنا ایک مقصد بنائے۔

(“Amount of dirty money leaving developing world jumped 14 percent in 2011”. “Reuters”. Dec.11,2013)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*