صاحبو! ہمارا ملک چاند پر پہنچ کر کامیابیوں کی نئی بلندیوں کو چُھو گیا ہے۔ ہمارے سائنسدانوں نے چاند پر کامیابی کے جھنڈے کے طور پر ہندوستانی پرچم لہرا کر ہندوستان کی ترقی میں واقعی چار چاند لگا دیئے ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہوتا اگر چاند پر پہنچنے والے ہمارے سائنسدان اشیائے ضروریہ کی آسمان چھوتی قیمتوں کو کسی لکڑی یا بھالے کی مدد سے نیچے دھکیل دیتے! ان کے اس کارِخیر سے ہم جیسے کروڑوں مفلس اور بے بس انسانوں کو مہنگائی سے راحت مل جاتی۔ بلاشبہ ہمارے سائنس دانوں کا یہ کارنامہ چاند پر پہنچنے سے بھی کہیں زیادہ عظیم کہلاتا، مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا! البتہ ہمارے سائنس دانوں کے چاند پر پہنچ جانے سے ہمیں یہ خوف اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے کہ کہیں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں طیش میں آکر مزید نئی بلندیوں کو چھونے کی کوشش نہ کریں!
بہرحال چاند پر پہنچنے والے ممالک میں سابق سوویت یونین، امریکا اور یورپی یونین کے بعد ہندوستان چوتھا ملک بن چکا ہے، لیکن ہمیں رہ رہ کر یہ خیال آ رہا ہے کہ ہم نے چاند پر پہنچنے میں خواہ مخواہ تاخیر کر دی اور یہ دیری محض ہماری سرد مہری کا نتیجہ ہے۔ یاد رہے کہ ۲۰ جولائی ۱۹۶۹ء کو امریکا کے نیل آرم اسٹرانگ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ چاند پر اترے تھے۔ جب کہ امریکا کے چاند پر پہنچنے کے بیس سال بعد سابق سوویت یونین ۱۸ اگست ۱۹۸۹ء کو چاند پر پہنچ سکا تھا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بیجا نہ ہو گا کہ فلم ’’پاکیزہ‘‘ ۱۹۷۲ء میں ریلیز ہوئی تھی اور اس کے نغمے ریلیز ہونے سے قبل ہی ہٹ ہو چکے تھے۔ اگر ہم اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھتے تو ہم برسوں قبل ہی چاند پر پہنچ جاتے! (عنوان مذکورہ فلم کے ایک گانے سے ماخوذ ہے مگر عنوان میں ’’پار‘‘ کی جگہ ’’دُوار‘‘ استعمال کیا گیا ہے جو کہ ایک ہندی لفظ ہے اور جس کے معنی دروازہ کے ہیں)
جی! کیا فرمایا؟ وہ کیسے؟ ہم بے سر پیر کی باتیں کر رہے ہیں؟ نہیں جناب! ہم بہت سوچ سمجھ کر اپنا منہ بلکہ اپنی چونچ کھولتے ہیں۔ اگر ہمارے سائنس دانوں نے ۱۹۷۲ء میں ریلیز شدہ کمال امروہوی کی فلم ’’پاکیزہ‘‘ کے نغمے ’’چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو‘‘ کو سنجیدگی سے سُن لیا ہوتا تو ہندوستان چاند پر پہنچنے کی خوشیاں ۳۶ سال پہلے منا چکا ہوتا اور ہمارا ملک امریکا کے بعد دوسرا ایسا ملک ہوتا جسے چاند پر پہنچنے کا اعزاز حاصل ہو جاتا۔ کاش! اس فلم میں شامل مذکورہ سحر انگیز نغمہ لکھنے والے شاعر کیف بھوپالی سے ہمارے سائنسداں، چاند کے پار جانے کی ترکیب پوچھ لیتے!
یہاں اس بات کا تذکرہ بیجا نہ ہو گا کہ ’’چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو‘‘ کا سریلا نغمہ محترم راج کمار مرحوم اور محترمہ مینا کماری مرحومہ نے فلم میں ایک دوسرے کی چاہ میں ڈوب کر گایا تھا۔ ان دنوں یہ سحر انگیز نغمہ اتنا مشہور ہوا تھا کہ ہر عاشق و معشوق کے لبوں پر بس یہی نغمہ مچلتا بلکہ اچھلتا تھا۔ اگر ہمارے سائنس دان کیف بھوپالی صاحب سے نہیں تو کم از کم محترم راج کمار مرحوم یا محترمہ مینا کماری مرحومہ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ عرض کرتے کہ چاند کے پار چلنے کا آپ لوگ جب بھی ارادہ کریں، براہ کرم ہمیں بھی ساتھ لے لیں اور چاند کے پار جاتے جاتے ہمیں چاند پر ڈراپ کر دیں، بڑی نوازش ہو گی!‘‘ تو مینا کماری صاحبہ اور راج کمار صاحب انہیں ضرور اپنے ساتھ لے لیتے! جی کیا فرمایا؟ راج کمار صاحب سائنس دانوں کو چاند پر لے جانے سے اعتراض کرتے! ارے نہیں نہیں وہ ایسا ہر گز نہیں کرتے، زیادہ سے زیادہ صرف اتنا کہہ سکتے تھے ’’جانی! ہم تمہیں چاند پر لے جائیں گے اور ضرور لے جائیں گے، لیکن چاند پر مرضی بھی ہماری ہو گی اور نظر بھی ہماری ہو گی!‘‘۔
صاحبو! سائنس اور شاعری کا جب بھی مقابلہ ہوا، شعراء حضرات، سائنس و ٹیکنالوجی سے دو بلکہ دس قدم آگے ہی نظر آئے۔ چاند پر اُتر کر ہمارے سائنس داں خواہ مخواہ اترا رہے ہیں جب کہ ہمارے ایک فلمی شاعر نے تو چاند سے بات چیت تک کر ڈالی۔ جی ہاں فلم ’’عبداللہ‘‘ میں ایک نغمہ تھا ’’میں نے پوچھا چاند سے کہ دیکھا ہے کہیں میرے یار سا حَسیں! تو چاند نے کہا چاندنی کی قسم نہیں، نہیں، نہیں‘‘مانا کہ امریکا سمیت کئی ممالک نے بہت ساری ترقی کر لی ہے لیکن اس کے باوجود کیا ان ممالک میں بسنے والا کوئی سائنس دان چاند سے بات کرنے کی حماقت کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں!
بہرحال! سابق صدر و بابائے میزائل ڈاکٹر کلام نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ پندرہ سالوںمیں ہندوستانی بہ نفس نفیس چاند پر پہنچ جائیں گے لیکن ہماری ناقص رائے میں چاند پر پیار کرنے والوں کے علاوہ Land Grabbers کی کثیر تعداد پہنچے گی۔ اس سے قبل کہ ہم پیار کرنے والوں کا اس ضمن میں تفصیلی جائزہ لیں لینڈ گرابرس کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہیں گے۔ ہم نے کچھ سال قبل یہ سُن رکھا تھا کہ لینڈ گرابرس کی بن آئی ہے کیونکہ چاند پر زور و شور سے پلاٹنگ چل رہی ہے اور انٹرنیٹ پر تو کچھ بے وقوف قسم کے دولت مند پلاٹس بھی خرید رہے ہیں۔ پتہ نہیں اس بات میں کتنی صداقت تھی لیکن ایسا تو ہر گز نہیں ہو سکتا کہ لینڈ گرابرس نے چاند کو یوں ہی بخش دیا ہو۔ جن لینڈ گرابرس نے زمین پر قبرستانوں کو نہیں چھوڑا وہ چاند کو یوں ہی بھلا کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں؟ بہت ممکن ہے بہت سارے لینڈ گرابرس بخارات بن کر چاند تک پہنچ بھی چکے ہوں اور اس وقت چاند پر بیٹھے اس کی اراضی کی قیمت کا تعین کر رہے ہوں!۔
یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ کچھ برسوں میں چاند پر آنا جانا اس قدر سہل ہو جائے کہ جیسے لوگ ڈرائنگ روم سے باتھ روم کی سمت جاتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہو گا جب دولت مند حضرات اپنا چھوٹے سے چھوٹا فنکشن بھی چاند پر منعقد کرنا چاہیں گے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چاند پر کسی ایسے بینک کا عنقریب افتتاح عمل میں آ جائے جس میں کالا دھندا کرنے والے بیوپاری اور گھپلے گھٹالوں کے شوقین سیاست دان سوئزبینک کی بجائے چاند پر موجود بینک میں رقم جمع کرنا شروع کر دیں! اور جب کوئی تحقیقاتی ٹیم جانچ کی غرض سے چاند پر پہنچنا چاہے توان کی خلائی گاڑی پر بڑے بڑے پتھر برسا کرانہیں چاند پر آنے سے باز رکھا جائے!۔
صاحبو! پیار کرنے والوں کو لفظ ’’چاند‘‘ سے عقیدت کی حد تک محبت ہے، جی ہاں! یہ اپنی محبوبہ کو ’’چاند کا ٹکڑا‘‘ کہتے ہیں۔ جب چاند پر آنا جانا سہل ہو جائے گا تو شادی شدہ جوڑے ’’ہنی مون‘‘ منانے کے لیے یقینا چاند کا رُخ کرنا چاہیں گے تاکہ چاند پر منایا جانے والا ان کا ہنی مون درحقیقت ’‘’ہنی مون‘‘ کہلائے۔ ہماری ناقص رائے میں پیار کرنے والے آج جس طرح کالج یا کسی انسٹی ٹیوٹ جانے کے بہانے کسی تھیٹر یا پھر کسی پارک کا رُخ کرتے ہیں کل یہ لوگ چاند پر جا کر آئیں گے!۔
صاحبو! چاند قمر بھی ہے، چاند ماہ (مہ) بھی ہے، چاند ماہتاب بھی ہے، چاند چندرمکھی اور چندرماں بھی ہے۔ چاند میں جانے کیسی بات ہے کہ انسان سے اس کا رشتہ زندگی بھر قائم رہتا ہے۔ بچپن میں وہ چاند کو ’’چندا ماما‘‘ کہہ کر خوش ہوتا ہے تو جوانی میں چاند سے مکھڑے پر فدا ہو جاتا ہے۔ جب کہ بڑھاپے میں عام طور پر انسان کے سر پر کبھی مکمل تو کبھی نامکمل چاند نمودار ہو ہی جاتا ہے۔
چاند سے بے شمار محاورے اور مثالیں وابستہ ہیں۔ ’’یہ چاند کدھر نکلا!‘‘ اس مرد یا عورت کے تعلق سے تعجب کہا جاتا ہے جو ایک عرصہ بعد دکھائی دیتا یا دکھائی دیتی ہے۔ ممکن ہے جب چاند پر انسانی بستیاں آباد ہو جائیں اور کوئی انسان ایک عرصے بعد نظر آ جائے تو ’’یہ زمین کدھر نکلی؟‘‘ کہا جانے لگے۔
چاند کی خاص بات یہ ہے کہ اس پر اگر خاک ڈالنے کی کوشش کی جائے تو خاک اپنے ہی منہ پر پڑتی ہے۔ چاند کے تعلق سے ایک اور اہم بات بھی ہم بتاتے چلیں کہ اس پر زمین کا سایہ بھی پڑے تو اسے ’’گہن‘‘ لگ جاتا ہے، یہ مانا کہ چاند میں بے شمار داغ ہیں لیکن زمین پر بسنے والے بے شمار انسانوں کے قدم جب چاند پر پڑیں گے تو پتہ نہیں اس پر اور کتنے داغ لگ جائیں گے؟ اور کتنی بار اسے گہن کی اذیت سے گزرنا پڑے گا؟
بہرحال! یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ’’چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو‘‘ کا نغمہ آئندہ کچھ برسوں میں پھر ایک بار ساری دنیا میں گونجے گا، جب پیار کرنے والے حقیقت میں چاند کے پار بلکہ چاند کے ’’دوار‘‘ جانا چاہیں گے۔ جی کیا فرمایا؟ انگریز اس دوگانے کو بھلا کس طرح گنگنائیں گے؟ وہ مذکورہ گیت کچھ اس طرح گنگنائیں گے:
[english]Come on, my love come,
across the moon let us go, i am ready, let us go.[/english]
(بحوالہ: ’’نقوش ڈاٹ کام‘‘)
Leave a Reply