
ٹم رودرمیل (Tim Rothermel) نے مغربی کنارہ اور غزا میں فلسطینیوں کی حالت بہتر بنانے کے واسطے ۹ سال گزارے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے مقامی سربراہ کی حیثیت سے انہیں فلسطین میں لائق و فائق فلسطینی افسران کی تلاش رہی جو امداد کی مدد میں دی جانے والی کروڑوں ڈالر کی رقم کا بہتر استعمال کر سکیں۔ اس رقم میں کچھ حصہ امریکی حکومت کی جانب سے ہے‘ جسے اس نے سڑکوں‘ اسکولوں‘ مراکزِ صحت اور حکومتی اداروں کی تعمیر میں استعمال کرنے کی ہدایت کی ہے۔ Rothermel شمالی کیرولینیا کے رہنے والے ہیں اور رجسٹر شدہ ریپبلکن ہیں۔ وہ کوئی سیاسی آزمائشی ہتھکنڈہ استعمال کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ میں حماس کے بہت سارے ذمہ داروں سے ملا ہوں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون ہیں۔ یہ سوال میں نہیں پوچھتا ہوں۔ غزہ میں میونسپل کمیشن کے انتخاب میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ امیدواروں کا تعلق حماس سے ہے یا الفتح سے ہے یا کمیونسٹ سے ہے یا کسی اور سے ہے۔ لوگ اپنے پڑوسی اور جاننے والوں کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں جو خراب سڑکوں کی بہتر مرمت کرا سکتے ہیں۔ شاید نادانستہ طور پر Rothermel گذشتہ ہفتہ جارج بش کے ’’Pothole فلسفے‘‘ کو زبان عطا کر رہے تھے۔ حالیہ مہینوں میں صدر ایسے امکانات پر غور کرتے رہے ہیں جن سے دہشت گرد گروپ‘ بالخصوص حماس و حزب اﷲ جن کی وہ عرصہ سے مذمت کرتے رہے ہیں‘ ان کے منصوبے سے فائدہ اٹھا سکیں جن کا مقصد جمہوری انتخابات کو عام کرنا ہے۔ غزہ میں یہ مسئلہ سنگین ہے جہاں سے اسرائیلی افواج کو اگست میں واپس لوٹنا ہے۔ اگرچہ فلسطینی انتظامیہ تھوڑا بہت غزہ کا انتظام سنبھالتی رہی ہے‘ تاہم اسرائیلی افواج کی واپسی سے وہاں خلا پیدا ہوجائے گا اور اس صورت میں توقع ہے کہ حماس گروپ ۳۰ سے ۴۰ فیصد تک کامیابی حاصل کر لے گا۔ مارچ میں جب ان سے اسرائیل کے ہمسایہ ملک لبنان کے حزب اﷲ کی سیاسی قوت سے متعلق سوال کیا گیا تو صدر بش نے جمہوریت کے قوتِ اندمال پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ دہشت گردوں کو بھی اس راہ سے تشدد سے باز رکھا جاسکتا ہے کیونکہ دہشت گردی سے اعراض اپنے انتخابی حلقہ کو مطمئن کرنے کے لیے ان کے لیے ضروری ہے۔دہشت گرد تنظیموں کو مذاکرات میں شامل کرنے کی امریکا کی پالیسی نہیں ہے۔ حزب اﷲ اور حماس دونوں رقوم حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ بش نے اپنی پہلی مدتِ صدارت میں یورپی حکومتوں پر کافی دبائو ڈالا کہ وہ حماس کی فنڈنگ بند کر دیں اور حزب اﷲ کے سیاسی دھڑے کو تسلیم کرنے کا اپنا فیصلہ واپس لے لیں۔ سوال کیے جانے پر امریکی افسروں نے اس بات پر اصرار کیا کہ حماس کے ساتھ وہ کوئی ڈیل نہیں کریں گے۔ نجی طور سے بہرحال صدر نے گھما پھرا کر اپنا وہ منصوبہ بیان کیا جسے ایک سینئر یورپی افسر نے بش کے فلسفۂ اصلاح سے تعبیر کیا ہے۔ اس افسر نے صرف اس شرط پر یہ بات بتائی کہ اس کے نام اور شہریت کو فاش نہیں کیا جائے گا۔ انتظامیہ کے افسران نے Sinn Fein جیسے گروہ میں جو آئرش ریپبلکن آرمی کا سیاسی بازو ہے‘ میں اصلاح کی نشاندہی کی ہے یا پھر پی ایل او میں جس نے ۹۰ کی دہائی میں دہشت گردی سے ترکِ تعلق کر لیا تھا۔ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فارنیر ایسٹ پالیسی کے سربراہ Robert Satloff کا کہنا ہے کہ صدر ایک قسم کی جوابی سوچ کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ جمہوری سیاست واقعتا ایک اندمالی سیاست (Healing Politics) ہے۔ ان کی الجھن یہ ہے کہ آپ کس طرح اسے ایک پالیسی میں تبدیل کرتے ہیں۔ صدر کا نیا لہجہ اور حماس سے متعلق محمود عباس کی عدم مداخلت والی پالیسی کی حمایت کی وجہ سے اسرائیلیوں میں تشویش پیدا ہونی شروع ہو گئی ہے۔ اگرچہ دہائیوں پر محیط اپنے غاصبانہ قبضے کے دوران اسرائیلی فوج بنیاد پرست گروہوں کو غیرمسلح کرنے یا ختم کرنے میں ناکام رہی‘ پھر بھی ایریل شیرون کی حکومت کو یہ خوف ہے کہ انتخابات کے ذریعہ حماس کو بین الاقوامی مقبولیت حاصل ہو جائے گی۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کے افسران کا کہنا ہے کہ تحریکِ حماس تیزی سے اپنے مسلح باز مضبوط کر رہی ہے اور فلسطینی انتظامیہ کو حتمی طور سے اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے تیاریاں کر رہی ہے۔ خصوصاً شیرون کو یہ پریشانی ہے کہ اسرائیل کے دائیں بازو کے لوگ اسے الزام دیں گے کہ انہوں نے افواج کی واپسی کے ذریعہ حماس کی ریاست کے قیام کے لیے زمینہ ہموار کیا ہے۔ واشنگٹن میں سابق اسرائیلی سفیر Zalman Shoval کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے ہم نے واشنگٹن کے خیالات کی وضاحت چاہی ہے۔ چنانچہ Zalman Shoval نے نیوز ویک کو بتایا کہ صدر بش نے وزیراعظم ایریل شیرون کو یقین دہانی کرائی ہے کہ نہ صرف یہ کہ حماس سے متعلق کوئی پالیسی تبدیل نہیں ہو گی بلکہ انتظامیہ کو یقین ہے کہ پُرامن حماس کا کوئی وجود بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی اسی طرح اہم ہے کہ حماس نے بھی اپنے راستے کو بدلنے کا کوئی خاص ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے۔ حماس کے ایک اہم رہنما حسن یوسف کا کہنا ہے کہ ’’ہم کسی سے بھی مذاکرات کرنے سے انکاری نہیں ہیں‘ یہاں تک کہ امریکا سے بھی نہیں۔ لیکن ہم یہ گفتگو غاصبانہ قبضے کی مزاحمت کے اپنے حق کو قربان کر کے نہیں کر سکتے اور نہ ہی ہم اپنی پالیسی تبدیل کر سکتے ہیں‘‘۔ ان پالیسیوں میں دہشت گردی کا استعمال شامل ہے اور حماس کا ہنوز یہ مقصد ہے کہ اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ امریکی حکام اصلاح میں مضمر خطرات سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ نہ تو Sinn Fein اور نہ ہی فلسطینی انتظامیہ کم از کم گذشتہ سال یاسر عرفات کی موت تک کبھی بھی مکمل طور پر دہشت گردی اور تشدد سے ترکِ تعلق کیا تھا۔ اب بش جنہوں نے کروڑوں ڈالر کی امداد کا وعدہ عباس سے کر لیا ہے تو واشنگٹن اس نکتے پر غور کر رہا ہے کہ یہ امداد فراہم کرتے ہوئے کس طرح حماس کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ ۲۰۰۳ء سے امریکا اس کوشش میں رہا ہے کہ جو اس کی امداد سے براہِ راست مستفید ہو رہے ہیں‘ وہ دہشت گردی کی سخت مخالفت کے عہدنامے پر دستخط کریں۔ Tim Rothermel کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ ایسے راستے مل جائیں گے جن کے ذریعہ بے داغ افسران تک امداد پہنچائی جائے گی حتیٰ کہ ان شہروں میں بھی جو حماس کے زیرِ انتظام ہوں۔ Rothermal کے بقول کہ ’’اگر ووٹروں نے حماس کو کامیاب بنایا تو بھی آپ کو یتیم خانوں یا کلاس رومز کی تعمیرکا موقع میسر آئے گا۔ لیکن یہ اس پر منحصر ہے کہ ان کلاس رومز میں دہشت گردی کی تعلیم نہ دی جائے۔
(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ میگزین ’’نیوز ویک‘‘۔ شمارہ۔ ۲۰ جون ۲۰۰۵)
Leave a Reply