ممبئی حملوں کے بعد یہ بات تواتر سے کہی گئی کہ ’’تمام مسلمان دہشت گرد نہیں تاہم تمام دہشت گرد ضرور مسلمان ہیں‘‘۔ تاثر یہ دیا گیا ہے کہ دہشت گردی مکمل طور پر مسلمانوں ہی کا خاصا ہے، ایسا نہیں ہے۔ حقائق کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔
تمام عیسائی دہشت گرد نہیں تاہم تمام عیسائی ممالک نے اپنے اسلحہ خانے کے سب سے بڑے بم گرا کر بہت بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کی راہ ہموار کی ہے۔
سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ دہشت گردی کوئی نئی چیز نہیں، نئی بات نہیں۔ ۱۸۸۱ میں نراجیت پسند عناصر نے روس کے زار نکولس دوم کو اکیس دیگر افراد کے ساتھ قتل کردیا تھا۔ نراجیت پسندوں ہی نے امریکی صدر میکنلے اور اطالوی بادشاہ ہمبرٹ کو بھی قتل کیا تھا۔ پہلی عالمی جنگ اس وقت شروع ہوئی جب ۱۹۱۴ء میں آسٹریا کے آرک ڈیوک فرڈینینڈ کو بوسنیا ہرزیگووینا کے دارالحکومت سراجیوو میں قتل کردیا گیا تھا۔ یہ واردات بھی مسلمانوں کی نہیں تھی۔
دہشت گردی عام طور پر سیاسی مقاصد کے لئے شہریوں کے قتل کو کہا جاتا ہے۔ اس اصول کے تحت برطانوی راج نے بھگت سنگھ، سبھاش چندر بوس، چندر شیکھر آزاد اور آزادی کے دیگر سپاہیوں کو دہشت گرد قرار دیا۔ یہ لوگ ہندو اور سکھ تھے، مسلمان نہیں۔
ماؤ زے تنگ، ہو چی منہ اور فیڈل کاسترو سے عقیدت رکھنے والے چھاپہ ماروں اور باغیوں نے بڑے پیمانے پر قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ ان کی انقلابی تحاریک خون بہائے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہ ہو پائیں۔ ان میں بھی کوئی مسلمان نہ تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین میں ہیگینا، ارگون اور اسٹرن گینگ نام کے یہودی انتہا پسند گروپوں نے علیٰحدہ وطن کے لئے تحریک چلائی۔ انہوں نے ہوٹلوں کو نشانہ بنایا، سرکاری تنصیبات میں بم دھماکے کئے جن کے نتیجے میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ اس دور میں فلسطینی علاقوں پر برطانیہ کا راج تھا۔ انگریزوں نے ان گروپوں کو بجا طور پر دہشت گرد قرار دیا۔ ان گروپوں میں موشے دایان، یزاک رابن، ایریل شیرون اور مینہم بیگن نمایاں تھے جو بعد میں آزاد اسرائیلی ریاست کے قائدین میں شمار ہوئے۔ المیہ یہ ہے کہ ان دہشت گردوں نے بعد میں ان عربوں کو دہشت گرد قرار دیا جو انہی کی طرح اپنی آزاد ریاست کے قیام کے لئے جدوجہد کر رہے تھے۔
۱۹۶۸ء سے ۱۹۹۲ء کے دوران جرمنی میں بادر مائنہوف گینگ نے جرمن پرائیوٹائزیشن ایجنسی (ٹروہینگ) کے سربراہ سمیت درجنوں افراد کو قتل کیا۔ اٹلی میں ریڈ آرمی نے سابق وزیر اعظم ایلڈو مورو کو اغوا کرکے قتل کردیا۔ اسی کا ایک ایشیائی ورژن جاپان کی ریڈ آرمی تھی۔ ۱۹۹۵ء میں بدھ مت سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ اوم شنرکیو نے ٹوکیو کے زیر زمین ریلوے سسٹم میں اعصاب شکن گیس چھوڑ کر ہزاروں افراد کو قتل کرنے کی کوشش کی۔
یورپ میں آئرش ری پبلکن آرمی ایک صدی تک رومن کیتھولک دہشت گرد تنظیم رہی ہے۔ اسپین اور فرانس کو باسک دہشت گرد تنظیم ای ٹی اے کی جانب سے چیلنج کا سامنا رہا ہے۔
افریقا کا حال اس قدر برا ہے کہ اب کم لوگ ہی اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ کون سی تنظیم دہشت گرد ہے اور کون سی نہیں۔ ان دہشت گرد تنظیموں کا جال پورے بر اعظم میں پھیلا ہوا ہے۔ یوگنڈا میں سرگرم لارڈز سالویشن آرمی ان میں سفاک ترین ہے جو اپنے مقاصد کے لئے بچوں کو بھی استعمال کرتی ہے۔
سری لنکا میں تامل علیٰحدگی پسند گروپ دنیا کے خطرناک ترین دہشت گرد گروپوں میں شمار ہوتا ہے۔ ہندوؤں پر مشتمل یہ پہلا گروپ تھا جس نے بچوں کو دہشت گردی کے لئے باضابطہ طور پر استعمال کیا۔ آج خود کش حملوں کا الزام فلسطینیوں اور عراقیوں پر عائد کیا جاتا ہے تاہم ان حملوں کو بڑے پیمانے پر متعارف کرانے والے تامل باغی تھے۔ ۱۹۹۱ء میں بھارت کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کو ایک تامل نے خود کش حملے میں ہلاک کیا تھا۔
بھارت میں (مقبوضہ) جموں و کشمیر کے علیٰحدگی پسند مسلمان ہیں۔ مگر یہ بھارت کے بہت سے علیٰحدگی پسند گروپوں میں سے ہیں۔ پنجاب میں جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کی سرکردگی میں کام کرنے والے علیٰحدگی پسند سکھ تھے۔ دی یونائٹیڈ لبریشن فرنٹ آف آسام ایک ہندو تنظیم ہے جو مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہے۔ عام طور پر تاثر یہ دیا جاتا ہے جیسے مسلمان اس تنظیم پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ مزو رام میں عیسائی علیٰحدگی پسندوں نے تین عشروں تک ملک سے الگ ہونے کی جدوجہد کی ہے۔ ناگا لینڈ میں عیسائی انتہا پسند تو آج بھی دہشت گرد گروپوں کی قیادت کر رہے ہیں۔
آج کل بھارت میں سب سے بڑا علیٰحدگی پسند گروپ ماؤ نواز باغیوں کا ہے۔ بھارت کے ۶۰۰ میں سے ۱۵۰ اضلاع میں یہ سرگرم ہیں۔ جو بھی ان کی مخالفت کرتا ہے اسے یہ راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔ فوج، نیم فوجی دستوں اور پولیس پر ان کے حملوں کی شدت بڑھتی جارہی ہے۔ ماؤ نواز باغی سیکولر دہشت گرد ہیں۔ جس قدر رقبہ انہوں نے کور کر رکھا ہے اس کے پیش نظر یہ بھارت کے مسلمان دہشت گردوں سے کہیں بڑا گروپ ہیں۔
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کوئی ایسی حقیقت نہیں جس کے لئے صرف مسلمانوں ہی کو مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ صرف مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھنے کی دو وجوہ میری سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ بھارت میں اشرافیہ نے یہ تصور کرلیا ہے کہ جو کچھ بھی مغربی میڈیا مسلمانوں کے بارے میں کہتا ہے وہ بالکل درست ہے۔ مغرب میں یہ تاثر بڑی محنت اور جاں فشانی سے پھیلایا گیا ہے کہ مسلمانوں سے غیر معمولی خطرات لاحق ہیں۔ آئرش ری پبلکن آرمی نے مسلمانوں سے کہیں بڑی تعداد میں لوگوں کو قتل کیا ہے مگر لوگوں کو یاد ہیں تو صرف مسلمان۔ لندن میں زیر زمین ریلوے اور میڈرڈ میں حملے یورپ والوں کو اب تک یاد ہیں۔ بادر ماہئنہوف گینگ، آئی آر اے اور ریڈ بریگیڈ وغیرہ سے اب کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا جاتا تاہم نائن الیون کی طرز کے کسی بھی دوسرے حملے کا خوف امریکا اور یورپ کے رہنے والوں کے دلوں میں اب بھی جاگزین ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اس خوف کو میڈیا والے مرنے ہی نہیں دیتے۔ مغربی میڈیا کی ساری توجہ صرف اسلامی عسکریت پسندی پر مرکوز ہے۔ افریقا، سری لنکا یا بھارت میں دہشت گردی کے جتنے بھی خطرات ہیں ان پر مغربی میڈیا ذرا بھی توجہ نہیں دیتا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان سے مغربی دنیا کو کوئی خطرہ بھی تو لاحق نہیں۔ بھارت میں ماؤ نواز باغی ملک کے ایک تہائی علاقے میں سرگرم ہیں اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت کے مرتکب بھی ہو رہے ہیں مگر اس کے باوجود بڑے شہروں میں صرف مسلم دہشت گردوں کا خطرہ محسوس کیا جاتا ہے۔ میڈیا اور اشرافیہ نے صرف مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھ رکھا ہے۔
(بشکریہ: ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ ممبئی)
Leave a Reply