
ایسا لگتا ہے کہ ٹائمز اسکوائر میں دھماکے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے فیصل شہزاد نے بھی وہی معروف راستہ اختیار کیا تھا جو دوسرے بہت سے کرتے آئے ہیں۔ دوسرے بہت سے جہادیوں کی طرح وہ بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا اور تعلیم یافتہ ہے۔ بظاہر وہ امریکی معاشرے کا حصہ بن چکا تھا مگر پھر اچانک نہ جانے کیا ہوا کہ اس کے خیالات انقلابی ہوگئے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کبھی یہ سوچنے سمجھنے کے قابل نہ ہوسکے کہ کس بات نے اسے بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کے منصوبے میں شریک ہونے پر اکسایا۔ اس کی کہانی میں ایک خاص بات اور بھی ہے اور وہ یہ کہ معاملہ پاکستان پر جاکر رکتا ہے۔
برطانوی انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ اس نے ایک عشرے کے دوران دہشت گردی کے جتنے منصوبے بے نقاب کیے ہیں ان میں سے ۷۰ فیصد کے ڈانڈے پاکستان سے جا ملتے ہیں! عالم اسلام میں دیگر مقامات پر جہادی سوچ کشش سے محروم ہوتی جارہی ہے مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ مصر سے اردن اور ملائیشیا سے انڈونیشیا تک جہادی گروپوں کی عسکری قوت خاصی کم ہوچکی ہے اور انہیں ملنے والی سیاست حمایت میں بھی متعدبہ کمی واقع ہوچکی ہے۔ پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہے؟ جواب سادہ ہے۔ پاکستان کے قیام کے وقت ہی سے حکومت جہادی کلچر کو فروغ دیتی آئی ہے۔ جہادی گروپوں کو ہر دور میں حمایت حاصل ہوتی رہی ہے۔ چند برسوں کے دوران معاملات کا رخ پلٹا ہے مگر جہادی کلچر کی جڑیں بہت گہری ہیں۔
اگر کوئی جہادی بننا چاہتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے کچھ سامان حاصل کرنا چاہتا ہے تو پاکستان اس کے لیے سپر مارکیٹ ہے۔ پاکستان میں جہادی گروپ ہیں جن میں جیش محمد، لشکر طیبہ، القاعدہ، جلال الدین حقانی، سراج الدین حقانی گروپ، تحریک طالبان پاکستان وغیرہ نمایاں ہیں۔ لشکر طیبہ جیسے گروپ ملک بھر میں کھلے عام کام کر رہے ہیں۔ انہیں رقوم اور ہتھیاروں کے حصول کے حوالے سے کسی مشکل کا سامنا نہیں۔
پاکستان کے دانشور سیاست دان حسین حقانی نے اپنی کتاب ’’پاکستان۔ بیٹ وین موسک اینڈ ملٹری‘‘ میں بہت عمدگی سے بیان کیا ہے کہ کس طرح پاکستان کا قیام ایک نظریاتی اسلامی ریاست کی حیثیت سے عمل میں لایا گیا اور کس طرح حکومتیں ابتدا ہی سے جہادی گروپوں کو اپنے سیاسی مقاصد اور روایتی حریف بھارت کے خلاف استعمال کرتی رہی ہیں۔ فوج دہشت گرد اور آزادی کے سپاہی میں جو فرق روا رکھتی ہے اس کے حوالے سے حسین حقانی نے لکھا ہے کہ یہ دہرا معیار بنیادی ساخت کا مسئلہ ہے۔ اس کا تعلق ملک کی جڑوں اور بنیادی پالیسی سے ہے۔ اسے محض چند حکومتوں کے غلط فیصلوں کا نتیجہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حسین حقانی اب امریکا میں پاکستان کے سفیر ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ جس منتخب حکومت کی جانب سے امریکا میں سفیر مقرر کیے گئے ہیں وہ اب فوج کے مقابلے میں خاصی کمزور ہوگئی ہے۔
چند ماہ کے دوران پاکستان کی حکومت اور فوج نے انتہا پسندوں کے خلاف سخت اقدامات کیے ہیں اور فوج کو اچھا خاصا جانی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔ فوج آج بھی عسکریت پسندوں کے درمیان فرق روا رکھتی ہے۔ جو عسکریت پسند عوام پر حملے کرتے ہیں ان کے خلاف فوج سرگرم عمل ہے اور بخشنے کے موڈ میں نہیں۔ دوسری جانب افغانوں، بھارتیوں اور مغربی باشندوں کو نشانہ بنانے والوں کو پاکستانی فوج ہاتھ نہیں لگاتی۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں کے بارے میں سوچیے جہاں سے فیصل شہزاد کو تربیت پانے کا موقع ملا۔ شمالی وزیرستان میں ان عسکریت پسندوں کو پناہ ملتی ہے جو افغانوں، بھارتیوں اور مغربی باشندوں پر حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ گزشتہ سال جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوج نے ان عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کیا تھا جو پاکستان میں حملے کرتے رہے ہیں۔ امریکا اور نیٹو کی جانب سے بار بار توجہ دلائے جانے پر بھی پاکستانی فوج نے اب تک شمالی وزیرستان میں آپریشن نہیں کیا۔ ایسا نہ کرنے کی اس کے پاس کئی وجوہ ہیں۔ نامور پاکستانی صحافی اور افغان امور کے ماہر احمد راشد نے حال ہی میں رپورٹ کیا ہے کہ افغان طالبان آج بھی پاکستان کے زیر اثر ہیں اور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے کے بجائے پاکستان اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔
جب تک پاکستانی فوج قومی مفادات کے حوالے سے درست رویہ نہیں اپناتی یعنی عسکری امور پر ترقی کو ترجیح نہیں دیتی اور جب تک افغانستان اور بھارت کے خلاف گیمز مین شپ ترک نہیں کردی جاتی تب تک عسکریت پسند عناصر پاکستان کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے رہیں گے۔
چار عشروں کے دوران اسلامی دہشت گردی کے ڈانڈے پاکستان اور سعودی عرب سے جا ملتے ہیں۔ دونوں ممالک کو اسلام کے نفاذ کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔ مختلف ادوار میں قائم ہونے والی حکومتوں نے اسلامی نظریات کو راسخ کیا جس کے نتیجے میں یہ دونوں ممالک اسلام کے نام پر عسکریت پسندی، بنیاد پرستی اور جہادی سوچ کے مراکز بن گئے۔ سعودی عرب میں اب رجحان تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ شاہ عبداللہ روشن خیالی کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان کے لیے جہادی ماضی اور روایات سے چھٹکارا پانا آسان نہیں۔
فرید زکریا کا آبائی تعلق بھارت سے ہے۔ وہ معروف امریکی جریدے ’’نیوز ویک‘‘ کے ایڈیٹر اور ’’پوسٹ امریکا ورلڈ‘‘ اور ’’دی فیوچر آف فریڈم‘‘ کے مصنف ہیں
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۱۷ مئی ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply