تھائی لینڈ مشرقی ایشیا کا وہ ملک ہے جو اس وقت زبردست سیاسی بحران سے دوچار ہے۔ گزشتہ دو ماہ سے ملک کے اندر سیاسی فضا اس قدر مکدر ہو چکی ہے کہ جس سے نہ صرف زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے بلکہ پُرتشدد مظاہروں، فوج اور عوام کے درمیان جھڑپوں اور جلائو گھیرائو سے شدید جانی و مالی نقصان بھی ہوا ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازا اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا سمیت یورپ کے اکثر ممالک نے اپنے شہریوں کو تھائی لینڈ کا سفر کرنے سے منع کر دیا ہے۔ انہی حالات کی بنا پر گزشتہ ماہ منعقد ہونے والی آسیان کانفرنس بھی نہیں ہوسکی۔ حقیقتِ احوال یوں ہے کہ تھائی لینڈ میں تقریباً تین سال سے سابق وزیراعظم تھکاشین شناوترا کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان اقتدار کی کشمکش چل رہی ہے۔ تھکاشین شناوترا کی حکومت کے خلاف دولت مند تاجروں، سیاستدانوں اور کچھ فوجی عہدیداروں کے ایک اتحاد ’’پی اے ڈی‘‘ نے ۲۰۰۶ء میں کئی ریلیاں منعقد کر کے حکومت مخالف مظاہروں کی بنیاد رکھی۔ کچھ ہی عرصہ بعد تھائی لینڈ کی فوج نے شناوترا کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھال لیا۔ اس وقت وزیراعظم شناوترا ملک سے باہر تھے۔ گرفتاری کے خوف سے وہ واپس تھائی لینڈ نہیں لوٹے۔ تاریخ اور وقت کا دھارا آگے بڑھتا رہا۔ دسمبر ۲۰۰۷ء میں ہوئے انتخابات میں شناوترا کی حمایت یافتہ ’’پیپلز پاور پارٹی‘‘ نے آسانی سے انتخابات جیت لیے لیکن چند ماہ بعد مخالف گروپ ’’پی اے ڈی‘‘ نے دوبارہ مخالفت شروع کر دی۔ ان کا استدلال تھا کہ نئے وزیراعظم بھی شناوترا کی کٹھ پتلی ہیں۔ واقعات کا چکر اتنا تیزی سے گھوما کہ نئے وزیراعظم کو بے بنیاد وجوہات کی بناء پر مستعفی ہونے کے لیے مجبور کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ حکمران جماعت کو ہی تحلیل کر دیا گیا اور پارلیمان نے اپوزیشن قائد ابھیسیت ویجاجیوا کو وزیراعظم بنا لیا۔ پی اے ڈی کی مکمل حمایت ابھیسیت کو حاصل تھی۔ تنازع کااختتام یہیں نہیں ہوا کیونکہ اب مخالفت کرنے کی باری تھکاشین کے حامیوں کی تھی۔ انہوں نے سرخ رنگ کی قمیص پہن کر اسی طرح دھرنے اور مظاہرے شروع کر دیے جس طرح ’’پی اے ڈی‘‘ کارکنان پیلی قمیص پہن کر گزشتہ دو برسوں سے کر رہے تھے۔ دھرنوں اور مظاہروں نے اتنی شدت اور سنگینی اختیار کرلی کہ نتیجہ آسیان اور مشرقی ممالک کے سربراہان کے مذاکرات کے ناکام ہونے کے ساتھ نکلا۔ انہی پرتشدد اور تشویشناک حالات میں موجودہ وزیراعظم ابھیست کے قافلے پر حملہ بھی ہوا۔
تھائی لینڈ میں ’’آئینی بادشاہت‘‘ کا نظام رائج ہے۔ تھائی لینڈ کا موجودہ بادشاہ ۸۲ سالہ سمراٹ بھومی بول اویولدیج ہے جو کہ ایک عرصہ سے خرابی صحت کی وجہ سے منظر عام پر کم کم ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ بھومی بول کو پورے تھائی لینڈ میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اگرچہ سیاسی بساط کے دونوں بڑے فریق سمراٹ بھومی بول اویولدیج کا اپنے تئیں احترام کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر اب سرخ پوشوں کی جانب سے بادشاہی نظام کی موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تبدیلی کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں جبکہ موجودہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں اس مطالبے کو شاہی نظام و خاندان کے ساتھ بے وفائی اور غداری کے زمرے میں شمار کر رہی ہیں۔ موجودہ سیاسی بحران میں اس پہلو کو بھی مدنظر رکھا جا رہا ہے کہ آیا محترم اور قابلِ عزت منصب پر فائز بھومی بول ملک کو سیاسی بحران سے نکالنے کے لیے کسی قسم کی مداخلت کریں گے اور وہ ایسا کرتے ہیں تو مصالحتی کوشش کسی حد تک مؤثر اور سود مند ثابت ہو گی۔ ویسے بھی آئینی طور پر سمراٹ یعنی شاہی سربراہ کا سیاست میں براہِ راست کوئی کردار نہیں ہوتا۔ سمراٹ بھومی بول اس وقت خاصے ضعیف ہو چکے ہیں اوران دنوں ان کی صحت بھی خراب چل رہی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھومی بول اویولد یج جیسی سوجھ بوجھ اور بصیرت شاہی خاندان کے کسی فرد میں نہیں ہے۔ اس کے بعد شاہی سربراہ کون ہو گا اس کا اثر بھی سیاسی واقعات پر پڑ رہا ہے۔
تھائی لینڈ کی سیاسی بساط کے دو بڑے سیاسی دھڑوں کے ٹکرائو اور چپقلش نے ملک کے بین الاقوامی امیج پر برا اثر ڈالا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کی معمولاتِ زندگی کو بھی پٹری سے اتار دیا ہے۔ معاشی ترقی پر بھی منفی اثر پڑا ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں تین وزرائے اعظم بدلنے کے باوجود تھائی لینڈ میں سیاسی عدم استحکام کا ماحول اس بات کا غماز ہے کہ وہاں جمہوریت کی جڑیں اب بھی پوری طرح مضبوط نہیں ہوئی ہیں۔ عالمی کساد بازاری سے نمٹنے کے لیے مشرقی ایشیائی ملک کئی اہم منصوبے بنانے والے تھے لیکن آسیان کے اجلاس اور اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے ممالک کے سربراہان کے مذاکرات منسوخ ہونے سے علاقائی ہم آہنگی کی کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔ تھائی لینڈ میں گزشتہ دو ماہ کے دوران ہونے والے ہنگاموں اور ابتر ہوتی ہوئی صورتحال پر میڈیا میں مختلف رپورٹس منظر عام پر آرہی ہیں جن میں اس پہلو پر بھی بطورِ خاص روشنی ڈالی جا رہی ہے کہ حالیہ ہنگاموں کے پیچھے کچھ خفیہ اور نادیدہ ہاتھ کارفرما ہیں جو حالات کے بگاڑ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ بعض رپورٹس میں تو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا نام لیا جا رہا ہے۔ اگرچہ اب تک اس حوالے سے ٹھوس ثبوت تو حاصل نہیں ہو سکے ہیں مگر کچھ حالات، واقعات اور شواہد اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ جن میں سے ایک تھائی لینڈ میں رونما ہونے والے پرتشدد واقعات اور مظاہرین پر تھائی لینڈ حکومت کے ایماء پر بلا اشتعال فائرنگ اور اس پر امریکا کی خاموشی ہے۔ یہی صورتحال اگر وینزویلا یا ایران میں ہوتی تو شاید امریکی انتظامیہ اور امریکی میڈیا وینزویلین اور ایرانی حکومت کی شدید مذمت کرنے میں ذرا دیر کے لیے بھی نہ چُوکتا۔
اگر ہم تھائی لینڈ کے ماضی میں جھانکیں تو غالباً ہمیں اس کا واضح جواب مل جائے۔ ویتنام جنگ کے دوران امریکا نے تھائی لینڈ کو خطے میں تمام کمیونسٹ ممالک کے خلاف جن میں چین، ویتنام، برما اور دیگر ممالک شامل تھے ایک اہم اتحادی کے طور پر استعمال کیا تھا۔ ملک کے اندر اور ملک کے باہر کمیونسٹوں کا راستہ روکنے کے عوض تھائی لینڈ حکومت کو بے پناہ دولت، امداد اور اسلحہ فراہم کیا تھا۔ امریکی حکومت کے ان ظالم آمروں سے تعلقات اچھے رہے جنہوں نے لاتعداد کمیونزم کے پرچار کنندگان کو بربریت کا نشانہ بناتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیا یہ بالکل ایسی ہی صورتحال تھی جس طرح آجکل امریکا کے اتحادی ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ امریکا اور تھائی لینڈ کے تعلقات اس وقت خاصی حد تک کشیدہ ہو گئے تھے جب عوام کی جانب سے منتخب ہونے والے سابق وزیراعظم تھاکسن شناوترا نے چین کے ساتھ بہت اچھے تعلقات استوار کرتے ہوئے اقتصادی، تجارتی اور عسکری معاہدے کیے۔ ۷ نومبر ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں مؤقر اخبار ایشین ٹائمز نے ان معاہدوں پر یوں تبصرہ کیا۔
[english]”Thaksin’s Willingness to promote defense ties with china came at the U.S’s direct strategic expense and many observer believe that’s one reason Washington’s reaction to the September 2006 military coup that ousted a democratically elected government was so muted.”(Nov 7-2008)[/english]
تھاکسن کی چین کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کی خواہش سے امریکی مفادات کو براہِ راست زَد پہنچتی تھی اور بہت سے ناقدین و مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہی وجہ ہے ستمبر ۲۰۰۶ء میں فوج کی جانب سے تھاکسن کی حکومت کا تختہ الٹے جانے پر بھی امریکا نے خاموشی سادھے رکھی۔ امریکا کے ایک مشہور مصنف اور اسکالر History of the CIA Legacy of Ashes میں لکھا ہے کہ امریکی حکومت نے ہمیشہ دنیا میں موجود حریف حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے مختلف عسکری اور خفیہ ایجنسیوں کے عناصر کو ہر قسم کی ٹیکنیکل اور مالی امداد فراہم کی ہے اور جب ایسا ہو جاتا ہے تو خاموشی کے ذریعے اس پر رضامندی اور اطمینان کا اظہار کر دیا جاتا ہے لیکن اگر یہی صورتحال امریکا کی کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ رونما ہوتی ہے تو امریکی حکومت اور اس کے میڈیا میں ایک واویلا مچ جاتا ہے۔ ایشین ٹائمز کی اسی روز کی اشاعت میںاس امر کی تصدیق کی گئی کہ ۲۰۰۶ء میں جن سرکردہ شخصیات نے تھائی حکومت کا تختہ الٹا ان میں سے بیشتر کے امریکا سے بہت قریبی اور دوستانہ تعلقات تھے۔ ۲۰۰۶ء میں تھائی لینڈ کی حکومت کا تختہ الٹے جانے میں جن شخصیات کا نام آتا ہے ان میں ایک براہِ راست سی آئی اے کی طرف سے تربیت یافتہ شخص ’’پراسونگ سون سری‘‘ بھی شامل تھا جسے خود اس نے بھی بعد میں تسلیم کیا۔ اگر تھائی لینڈ کے موجودہ بحران کی اساس اور بنیادی وجہ پر غور کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ موجودہ ہنگاموں کی وجہ سے بھی ۲۰۰۶ء میں فوج کی جانب سے تھائی حکومت پر قبضہ ہے۔ مزدور اور درمیانے طبقے کے عوام ابھی بھی تھاکس کو اپنا رہنما تسلیم کرتے ہوئے اس کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ خود امریکا کے کئی اخبارات جس میں نیویارک ٹائمز بھی شامل ہے، نے صدر اوباما اور ان کی انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ عجیب اور قابل افسوس صورتحال ہے کہ اوباما اور ان کی انتظامیہ نے تھائی لینڈ میں ہونے والے نہتے مظاہرین کی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت پر کوئی اظہارِ مذمت اور مقتولین کے لواحقین کے ساتھ کسی قسم کا اظہار ہمدردی نہیں کیا۔ امریکا نے گزشتہ برس اس بات کااقرار کیا تھا کہ تھائی لینڈ میں امریکا کی ایک خفیہ جیل موجود ہے۔ جہاں نام نہاد ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے ملزمان کو قید رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں بہت سے قیدیوں کو ایک دوسرے کو سپردگی کے حوالے سے خصوصی فلائٹس بھی چلائی جاتی ہیں۔ انہی میں ابوزبیدہ اور عبدالرحیم الناشری بھی شامل ہیں جنہیں ۲۰۰۵ء میں امریکا سے تھائی لینڈ لایا گیا۔ موجودہ حالات کا ایک اور نہایت افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ اب یہاں پر ہونے والے متعدد دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری ایک نامعلوم اسلامی تنظیم پر ڈالی جا رہی ہے۔ یعنی ایک ہی وقت میں مختلف جہتوں میں نہایت گھنائونا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ان رپورٹس میں بتایا گیا ہے جلوسوں میں بہت سے فائرنگ کے واقعات میں مظاہرین نہیں بلکہ کچھ نامعلوم نقاب پوش ملوث ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے دونوں بڑے گروپوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بِلا اشتعال نشانہ بنایا ہے۔ فرانس سے تعلق رکھنے والے ایک رپورٹر سرل پائن نے رپورٹ دی کہ انہوں نے نامعلوم افراد کے ہاتھوں نشانہ بننے والی چھ لاشوں کا معائنہ کیا تو سب لاشوں کی پیشانیوں کے وسط میں گولیوں کا سوراخ موجود تھا جو اس امر کی نشاندہی ہے کہ انہیں نہایت مشاق نشانہ بازوں نے نشانہ بنایا اور اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ جن ہتھیاروں سے ان افراد کو قتل کیا گیا وہ کوئی عام اسلحہ نہیں تھا بلکہ وہ صرف اسپیشل سیکورٹی فورسز کے پاس ہی ہوتا ہے۔ تھائی لینڈ کے جلا وطن سابق وزیراعظم نے اقوام متحدہ سے درخواست کی ہے کہ موجودہ بحران کی آزادانہ تحقیقات کروائی جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر تھائی لینڈ کے حالات پر ایک انکوائری کمیشن بٹھایا جائے جو نہ صرف موجودہ حالات کے ذمہ داروں کا تعین کر کے انہیں سزا دے بلکہ ملک میں پرامن حالات کے قیام کے لیے بھی ٹھوس اور جامع تجاویز دے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘ حیدرآباد دکن۔ ۱۶ جون ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply