
انسانوں کا اُس لبرل کہانی پر سے اعتبار اٹھتا جارہا ہے، جس نے حالیہ دہائیوں میں عالمی سیاست پر حکمرانی کی ہے۔ یہی وہ وقت بھی ہے جب بائیوٹیک اور انفوٹیک کا اتصال سب سے بڑا چیلنج بن کرہمارے سامنے آکھڑا ہوا ہے۔
تاریخ کا اختتام ملتوی ہوگیا!
حقائق، شماریات یا تسویہ (equation) کی نسبت، انسان قصہ کہانیوں کے انداز میں زیادہ سوچتے ہیں، یہ آسان اور بہتر لگتا ہے۔ ہر شخص، گروہ اور قوم کی اپنی اپنی کہانیاں اور دیومالائی داستانیں ہیں۔ مگربیسویں صدی کے دوران عالمی اشرافیہ نے نیویارک، لندن، برلن اور ماسکومیں بیٹھ کرتین عالمی کہانیاں وضع کیں، جن میں ماضی کی مکمل وضاحت کا دعویٰ کیا گیا اورپوری دنیاکے مستقبل کی پیش گوئی کی گئی، یہ کہانیاں ہیں: فاشسٹ کہانی،کمیونسٹ کہانی اور لبرل کہانی۔ دوسری عالمی جنگ نے فاشسٹ کہانی کا خاتمہ کردیا، پھر چالیس کی دہائی کے اواخر سے ۸۰ کی دہائی کے آخرتک دنیا لبرالزم اور کمیونزم کی دو کہانیوں کا میدان جنگ بنی رہی۔ پھرکمیونسٹ کہانی بھی تمام ہوئی اورصرف لبرل کہانی واحد مقتدر قوت رہ گئی، جوعالمی اشرافیہ کی نظرمیں، ماضی کی رہنما اور مستقبل کی اٹل قوت خیال کی گئی تھی۔ (ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچاؤ کے لئے پریشان ہوگا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لئے لرزہ براندام ہوگی۔ مادّہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونیورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا۔ نسل پرستی اور قوم پرستی خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پاسکے گی اور یہ آج کا دور صرف تاریخ میں ایک داستانِ عبرت کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا۔
(’’شہادتِ حق‘‘، سید ابوالاعلیٰ مودودی، ۳۰ دسمبر۱۹۴۶ء)
لبرل کہانی میں آزادی کی قدر اور طاقت کی بھرپور توانائی ہے۔ یہ کہتی ہے انسانوں نے ہزاروں سال ظالم حکمرانوں کے جبر تلے زندگی بسر کی، جہاں برائے نام سیاسی حقوق، معاشی مواقع، شخصی آزادی تھی، اورجہاں فرد، فکر اور سامانِ ضرورت کی نقل وحرکت پرکڑی پابندیاں عائد تھیں۔ مگرپھر لوگ اپنی آزادی کے لیے لڑے، اوریوں قدم بہ قدم، آزادی حاصل کی۔ ظالم آمریتوں کی جگہ جمہوریتوں نے سنبھال لی۔ فرد معاشی پابندیوں سے آزاد ہوا۔ لوگوں نے متعصب پادریوں اورتنگ نظرروایتوں کے بجائے، اپنے دماغوں سے سوچنا شروع کیا، اور اپنے دلوں کی ماننے لگے۔ سڑکوں، پُلوں اور ہوائی اڈوں نے فصیلوں، خندقوں اور خاردار باڑوں کی جگہ لے لی۔ لبرل کہانی نے یہ تسلیم کیا کہ دنیا میں سب کچھ اچھا نہیں ہے، اور یہ سب اچھا کرنا ہے۔ ابھی بہت سی رکاوٹیں طے کرنی ہیں۔ ہمیں انسانی حقوق کی حفاظت کرنی ہے۔ منڈیاں آزاد کروانی ہیں۔ جارج ڈبلیو بش اور براک اوباما جیسے رہنما تھوڑے بہت فرق سے دنیا کو یقین دلاتے رہے کہ لبرل سیاسی اور معاشی نظام کو فروغ دینا ہے، عالمگیر بنانا ہے، یہاں تک کہ پوری دنیا میں امن اور ترقی کا بول بالا ہو۔ ۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۰ء کی دہائی میں یہ کہانی عالمی منترا بن چکی تھی۔ برازیل اور بھارت تک بہت سی حکومتوں نے لبرل کہانی کا یہ نسخہ اپنایا اور تاریخ کی اس پیشرفت کا حصہ بننا چاہا۔ جو ایسا کرنے میں ناکام ہوئے، انہیں گزرے ہوئے وقتوں کی بوسیدہ ہڈیاں سمجھا گیا۔ ۱۹۹۷ء میں امریکی صدر بل کلنٹن نے چین کواس بات پرلتاڑا کہ وہ لبرل سیاسی اقدار کیوں نہیں اختیار کرتا! وہ (چین) تاریخ کے غلط رخ پر کھڑا ہے۔
تاہم ۲۰۰۸ء کے مالی بحران نے دنیا بھر کے لوگوں میں لبرل کہانی کو مشکوک بنادیا۔ امیگریشن پر پابندیاں لگنے لگیں۔ تجارتی معاہدے بڑھنے لگے۔ جمہوری حکومتیں عدالتی نظام کی آزادی پراثر انداز ہونے لگیں۔ ذرائع ابلاغ کی آزادی خواب و خیال ہونے لگی۔ ہرقسم کی بغاوت غداری قرار دی جانے لگی۔ روس اور ترکی کے طاقتور حکمرانوں نے لبرل جمہوریتوں کے ایسے تجربے کیے، جو واضح طورپرآمریتیں تھیں۔ آج، ایسے چند ہی لوگ ہوں گے، جوکہہ سکیں کہ چین تاریخ کے غلط رخ پرکھڑا ہے!
برطانیہ میں بریگزٹ ووٹ سال ۲۰۱۶ء کا اہم واقعہ ہے، یہی وہ سال ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص کو امریکا میں عروج حاصل ہوا، یہ دونوں واقعات ایسے تھے، جنہوں نے لبرل کہانی کو مغربی یورپ اور امریکا میں مزید کمزورکردیا۔ جبکہ چند ہی سال قبل یہی یورپ اور امریکا گن پوائنٹ پرلیبیا اور عراق میں لبرل ازم نافذ کروارہے تھے، اب صورتحال یہ ہے کہ کینٹکی اور یارک شائر کے لوگ لبرل وژن کویکساں طورپرناگوار اور ناقابل حصول سمجھتے ہیں۔ کچھ نے قدیم روایتی دنیا میں پناہ لی، کچھ نسلی اور قومی وابستگیوں سے چمٹ گئے۔ جبکہ دیگرنے یہ باور کیا کہ لبرل ازم اور عالمگیریت محض اکثریت پراقلیتی اشرافیہ کی حکمرانی کا عنوان ہے۔۔۔ یوں اچانک دنیا کی کوئی کہانی باقی نہ رہی، یہ ہولناک صورتحال تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، بالکل اسی طرح جب سوویت یونین کی اشرافیہ، اور لبرل دنیا کے دانشور نہ سمجھ پائے تھے، کہ تاریخ کس طرح سوچے سمجھے رستے سے انحراف کرگئی! (اشارہ جہاد افغانستان میں سوویت یونین کی شکست پرکریملن کی نظریاتی کمزوری اورلاچارگی، اور اس کے بعد تاریخ کے اختتام کی خام خیالی، اورپھر تہذیبوں کے تصادم کی جانب ہے)۔ اسے تاریخ کی ناکامی سمجھا گیا، اور سب جیسے آرمیگاڈون کی جانب دھکیلے جانے لگے۔
مچھرمارنے سے لے کر خیالات کچلنے تک
لبرل سیاسی نظام صنعتی دور میں وضع کیا گیا تھا، تاکہ اسٹیم انجن، آئل ریفائنری، اور ٹیوی سیٹ کی دنیا کا انتظام کیا جائے۔ تاہم آج یہ لبرل سیاسی نظام انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بائیو ٹیکنالوجی میں آنے والے انقلابات نہیں سمجھ سکاہے۔ سیاستدان اور ووٹر جو مشکل ہی سے نئی ٹیکنالوجی کی کوئی سمجھ رکھتے ہیں، وہ کیسے ان کی حیرت انگیز قوتوں کا اندازہ لگاسکتے ہیں! ۹۰ کی دہائی سے انٹرنیٹ نے دنیا بدل کر رکھ دی ہے اور یہ انقلاب سیاستدان نہیں بلکہ انجینئرز نے برپا کیا ہے۔ کیا آپ نے کبھی انٹرنیٹ کے حق میں کوئی ووٹ دیا ہے؟ جمہوری نظام اب تک یہ سمجھنے کی سعی کررہا ہے کہ کس چیز نے اسے دھچکا پہنچایا ہے، اوراب تک مشکل ہی سے اس نے مزید دھچکوں سے نمٹنے کی کوئی تیاری کی ہے، جیسے کہ مصنوعی ذہانت اور بلاک چین کا انقلاب وغیرہ۔
پہلے ہی کمپیوٹر مالیاتی نظام کو اتنا پیچیدہ بناچکے ہیں کہ جسے کم ہی لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ جیسے جیسے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) میں بہتری آرہی ہے، انسان کی مالی واقتصادی معاملات میں سوجھ بوجھ کم ہوتی جارہی ہے۔ سوچیے! پھر یہ مصنوعی ذہانت سیاسی نظام کے ساتھ کیا کچھ نہیں کرے گی؟ کیا آپ ایسی حکومت کا تصور کرسکتے ہیں، جوٹیکس اصلاحات اور بجٹ کی منظوری کے لیے مؤدبانہ انداز میں ایلگوریتھم (algorithm) کی منظوری کی منتظرہو؟ اور جب بلاک چین (انفوٹیکنالوجی) کے جوڑے نیٹ ورکس کی صورت میں سارا مالیاتی نظام ہی بدل کر رکھ دیں؟ اس سے بھی بہت زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انفو ٹیک اور بائیو ٹیک کا جڑواں انقلاب معاشیات اور معاشروں کو از سر نومنظم اورتعمیر کریں، یہاں تک کہ ہمارے جسموں اور دماغوں کو بھی! ماضی میں انسانوں نے خارجی دنیا پر حکمرانی کی ہے، لیکن داخلی دنیا پربہت ہی کم کنٹرول رہا ہے۔۔۔ اگر مچھرنیند میں تنگ کریں توہم جانتے ہیں کہ کیسے مارنا ہے، مگرکوئی فکر یا خیال نیند اڑا دے، توہم میں سے اکثر نہیں جانتے، کہ کیسے اس خیال کوکچلا جائے۔ بائیو ٹیک اور انفوٹیک انقلابات خارجی دنیا کے ساتھ ساتھ داخلی دنیا پر بھی قابو پاسکے گا۔ ہم انسانی زندگی کو انجینئراور مینوفیکچر کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ ہم جان سکیں گے کہ کس طرح دماغ کو ڈیزائن کرنا ہے، زندگی کی مدت بڑھانی ہے اور فکر و پریشانی کو کس طرح ختم کرناہے۔ کوئی نہیں جانتا، ان تجربات کے کیا نتائج ہوں گے! ہم آلات کی ایجادات میں بہتر، مگر استعمال میں غیردانش مند رہے ہیں (انتہائی خوفناک اورغیر انسانی صورتحال ہے۔ پروفیسر ہراری نظریہ ارتقا کے بھرپور معتقد ہیں، اورمستقبل کی ممکنہ تاریخ پر اپنی کتاب Homo Deus کے نئے انسانی ایجنڈے میں اس پر تفصیل سے اپنا تصور انسان پیش کرچکے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ نشہ آور ادویات انسانی کے روحانی ونفسیاتی مسائل میں معاون ومددگار ہوں گی۔ امریکی سی آئی اے پوسٹ ٹراما اسٹریس کے مریض فوجیوں پرایسی ادویات استعمال کرتی رہی ہے، اس کے علاوہ خود کش حملوں کے لیے نشہ آور انجکشن کا کثرت سے استعمال سامنے آچکا ہے۔ پروفیسر ہراری جسے بائیو ٹیک انقلاب فرما رہے ہیں، یہ انسانی تہذیب کے لیے زہر قاتل ہے۔ یہ زہرمغرب اور مغرب زدہ دنیا میں عام ہورہا ہے، خودکشی اورنفسیاتی بیماریاں تیزی سے بڑھتی جارہی ہیں۔ انسانوں کی مجموعی فلاح بائیو ٹیک کی منفی سرگرمیوں سے انتہائی محتاط رہنے میں ہے)۔ مگر انجینئر اور سائنسدان انفو ٹیک اور بائیو ٹیک میں جو انقلاب لائے ہیں، وہ نہ صرف خارجی دنیا پر قابو پاسکے گا، بلکہ انسانوں کی داخلی دنیا بھی بدل کر رکھ دے گا! یہی وجہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت سال ۲۰۱۸ء سے خود کو عالمی معاشرتی نظام سے لاتعلق ہوتا محسوس کررہی ہے۔۔۔ لبرل کہانی عام لوگوں کی کہانی تھی۔ یہ سائی بورگز اور ایلگوریتھم نیٹ ورکس کی دنیا میں کس طرح چل سکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ آج انسانوں کی اکثریت لاتعلقی کے بحران میں گھرتی جارہی ہے۔ شاید اکیسویں صدی میں اشرافیہ کے معاشی استحصال کے خلاف بغاوتوں کے بجائے، ایسی اشرافیہ کے خلاف بغاوتیں ہوں، جنہیں لوگوں کی ضرورت ہی نہ رہی ہو، جوان سے بے پروا ہوچکی ہو۔
لبرل فینکس
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ لبرل کہانی پر اعتماد کا بحران آیا ہو۔ جب سے اس کہانی نے عالمی اثرورسوخ حاصل کیا، یعنی انیسویں صدی کے دوسرے نصف سے، یہ بحرانوں کی زَد میں رہی۔ لبرلائزیشن اور عالمگیریت کا پہلا دور پہلی عالمی جنگ کے کشت وخون پرہی تمام ہوگیاتھا۔ عالمی طاقتیں لبرل اقدار کے بجائے استعماری پالیسیوں پر عمل پیرا رہیں۔ سب زیادہ سے زیادہ دنیا پرقبضہ کی دوڑ میں لگ گئے۔ انسانوں نے بدترین قتل وغارت کا مشاہدہ کیا۔ استعماریت کی ہولناک قیمت چکانی پڑی۔ پھر ہٹلر کا عہد آیا، اورفاشزم ناقابل شکست لگنے لگا۔۔۔ اس مرحلے پر کامیابی بھی محض اگلے محاذ پر لے گئی، پچاس سے ستر کی دائیوں تک’چی گوویرا‘ جدوجہد کا زمانہ تھا، مستقبل کمیونزم کالگ رہا تھا۔ مگرپھر بالآخر کمیونزم زمین بوس ہوگیا۔۔۔ لبرل سرمایہ دارانہ نظام نے استعماریت، فاشزم، اور کمیونزم کو شکست دی۔ ۱۹۹۰ تک مغربی مفکرین اور سیاستدان تاریخ کی اس مبینہ تکمیل پر رطب اللسان تھے۔ بڑے اعتماد سے کہا جارہا تھا کہ ماضی کے سارے سیاسی ومعاشی سوالوں کے جواب حاصل کرلیے گئے ہیں، سرمایہ دارانہ لبرل جمہوریت نے انسانوں کی ساری ضرورتیں پوری کردی ہیں۔ تمام حقوق ادا کردیے گئے، تمام سرحدیں کھول دی گئیں، تمام رکاوٹیں ہٹادی گئیں اور بنی نوع انسان کوآزاد عالمی برادری میں ڈھال دیا گیا ہے۔
مگر تاریخ ختم نہیں ہوئی۔ ٹرمپ موومنٹ آگیا۔ اس بار لبرل ازم کا سامنا کسی نظریہ یا کلیہ سے نہیں تھا (پروفیسر ہراری کا یہ دعویٰ درست نہیں۔ جس ٹیکنالوجی کے انقلاب کی یہ بات کررہے ہیں، اس کی جڑیں خالص سائنس پرستی اور نظریہ ارتقا میں گہری ہیں، یوں یہ مادہ پرستی کی وہ بدترین صورت ہے، جس میں عالمی اشرافیہ کے استعماری اور استحصالی عزائم واضح ہیں، طویل عرصہ سے جدید ترین ٹیکنالوجی مسلسل تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری پرکام کررہی ہے)، اس بار یہ بحران تباہ کن ثابت ہوا ہے، لبرل ازم بے حقیقت ہوکر رہ گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کو کسی لبرلائزیشن اور عالمگیریت کی پیشکش نہیں کی۔ بلکہ اس نے پیغام دیا کہ دنیا کو کوئی عالمگیر وژن دینا امریکا کا کام نہیں۔ بالکل اسی طرح بریگزٹرزکے سامنے یورپ کے مستقبل کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ انہیں ووٹ دینے والوں کی اکثریت کا عالمگیریت پر سے ایمان اٹھ چکا ہے۔ بلکہ وہ اس بات کے حامی ہوچکے ہیں کہ سرحدوں پر دیواریں اٹھادی جائیں، تاکہ غیر ملکیوں کا داخلہ روکا جاسکے۔ چین، روس، اسلامی خلافت اور دیگر نظریات بھی بادی النظر میں عالمگیریت کی اہلیت نہیں رکھتے۔
اب ہم سوائے اس کے کچھ نہیں کرسکتے کہ دنیا کی نئی کہانی تخلیق کریں۔ بالکل اسی طرح، جیسے صنعتی انقلاب نے بیسویں صدی کے لیے نت نئی صنعت و حرفت متعارف کروائی تھیں۔ چنانچہ ہمارے سامنے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بائیوٹیکنالوجی ہیں، جونئے وژن تشکیل دے رہی ہیں۔ آئندہ چند دہائیاں شاید نئے سیاسی اور معاشرتی نمونے سامنے لائیں۔ کیا اس صورت میں بھی لبرل ازم خود کو از سر نو قابل استعمال بناسکے گا؟ جیسا کہ اس نے ۱۹۳۰ اور ۱۹۶۰ کے بعد کیا تھا؟ کیا پہلے سے زیادہ پرکشش ہوسکتا ہے؟ کیا روایتی مذاہب اور قوم پرستی ان سوالوں کے جواب مہیا کرسکے گی، جو لبرل ازم سے حل نہ ہوسکیں گے؟ اور کیا یہ قدیم علم و دانش کے سہارے کوئی نیا تصور جہاں پیش کرسکیں گے؟ یا پھر وقت آگیا ہے کہ ماضی سے یکسر تعلق توڑ دیا جائے اور بالکل نئی کہانی لکھی جائے، جو نہ صرف پرانے خداؤں اور اقوام پرستی سے ماورا ہوں، بلکہ آزادی اور برابری کی جدید اقدار سے بعیدتر بھی ہوں؟
اس وقت، بنی نوع انسان ان میں سے کسی بھی سوال کے جواب پراتفاق رائے سے محروم ہے۔
پھراگلی کہانی کیا ہوگی؟سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ خوف اور بے یقینی کی حالت سے نکلا جائے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اوربائیو ٹیکنالوجی کا جڑواں انقلاب ابتدائی مرحلے میں ہے، اور یہ بھی فی الحال متنازع فیہ ہے کہ لبرل ازم کے موجودہ بحران میں اس کا کتنا کردار ہے۔ آج بھی برمنگھم، استنبول، ممبئی، اور سینٹ پیٹرس برگ میں اکثر لوگ مصنوعی ذہانت اور اس کے انسانی زندگیوں پرگہرے اثرات سے واقف نہیں ہیں۔ یہ بھی یقینی ہے کہ آئندہ چند دہائیوں میں ٹیکنالوجیکل انقلابات ظاہر ہوجائیں گے، اور بنی نوع انسان کے لیے اب تک کی سب سے بڑی آزمائشیں لائیں گے۔ اب انسانوں میں وہی کہانی چل سکے گی، جوانفو ٹیک اور بائیو ٹیک کا مقابلہ کرنے کی اہل ہوگی۔ اگر لبرل ازم، قوم پرستی، اسلام یا کوئی بھی نیا عقیدہ یا نظریہ ۲۰۵۰ کی نئی دنیا تشکیل دینا چاہے گا، تو اس کے لیے نہ صرف یہ ضروری ہوگا کہ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)، بگ ڈیٹا ایلگوریتھم، اور بائیو انجینئرنگ کی سمجھ بوجھ حاصل کرے بلکہ انہیں ایک بامعنی بیانیے میں ڈھال بھی سکے۔
درپیش ٹیکنالوجیکل چیلنج کی نوعیت سمجھنے کے لیے، شاید بہترین آغاز روزگار کی منڈی ہوگی۔ کیونکہ ٹیکنالوجیکل انقلاب شاید اربوں انسانوں کو بے روزگار کردے گا اور ایک بہت بڑا بے کار طبقہ وجود میں لے آئے گا۔ جو بہت بڑے سیاسی اور معاشرتی وسماجی بحران کا سبب ہوگا، جس سے نبٹنے کے لیے اس وقت کوئی نظریہ تیار نہیں۔ اس وقت ٹیکنالوجی اور نظریہ کی یہ بات عجیب اور موجودہ حالات کے سیاق و سباق سے باہر محسوس ہو، مگر درحقیقت اس وقت درپیش خدشہ ممکنہ بیروزگاری کا ہے، جس سے کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہ ہوگا۔
(کتاب: ’’اکیسویں صدی کے اکیس سبق‘‘۔ ترجمہ و تلخیص: ناصر فاروق)
Leave a Reply