
گزشتہ کئی ماہ سے حکمت یار اور افغان حکومت کے مابین امن مذاکرات چل رہے تھے، جس کا ابتدائی مرحلہ ۱۵؍مئی ۲۰۱۶ء کو کامیابی سے مکمل ہوا۔ اطلاعات کے مطابق فریقین نے ۲۵ نکاتی معاہدے پر اتفاق کرلیا ہے۔ اس سے قبل حکمت یار نے امن مذاکرات کو غیر ملکی فوجی انخلا کے ساتھ مشروط کیا تھا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں حزب اسلامی:
٭ ملک کے بنیادی قانون کو تسلیم کرے گی۔
٭ اس کے تمام مسلح افراد ہتھیار پھینک دیں گے۔ (اور اگر وہ چاہیں تو انہیں ملکی سیکورٹی فورسز میں شامل کیا جاسکتا ہے)
٭ القاعدہ و طالبان سمیت کسی بھی مسلح گروہ سے روابط نہیں رکھے گی۔
معاہدے میں غیر ملکی افواج کے انخلا پر فریقین کا اتفاق تو ہوا ہے لیکن اس کے لیے کسی ٹائم فریم کا ذکر نہیں کیا گیا، نہ طریقہ کار کا اور نہ ہی اس کی خلاف ورزی کو روکنے کی کوئی ضمانت موجود ہے۔
معاہدے میں حزب کی طرف سے جو شرائط عائد کی گئی ہیں، ان میں اہم ترین یہ ہیں:
٭ تین ماہ کے اندر اندر حزب کے تمام گرفتار کارکنان کو رہا کیا جائے گا، ان پر لگائی گئی ہر قسم کی پابندیوں کو ختم کیا جائے گا۔ حزب کے قائدین کے نام بلیک لسٹ سے خارج کردیے جائیں گے۔
٭ حزب کے تقریباً ۲۰ ہزار مہاجر خاندانوں کی دوبارہ آبادکاری کے لیے مختلف علاقوں میں زمین دی جائے گی۔
٭ کابل میں دفاتر کھولنے اور کام کرنے کی اجازت اور آزادی دی جائے گی۔
٭ نئے سرے سے انتخابات کرائے جائیں گے، اگر فوری طور پر ایسا ممکن نہ ہوسکا تو ایسی حکومت تشکیل دی جائے گی، جس میں حزب بھی اپنا کردار ادا کرسکے۔
ان مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ اس سے امن و امان کی صورتحال پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیوں کہ حزب کے بہت سے افراد پہلے بھی براہ راست یا بالواسطہ حکومت کا حصہ ہیں۔
ذرائع کے مطابق معاہدے کو حتمی شکل دی جاچکی ہے اور توقع ہے کہ صدر اشرف غنی پیر ۱۶؍مئی ۲۰۱۶ء کو اس پر دستخط کردیں گے، جس کے بعد اسے انجینئر گلبدین حکمت یار کے پاس دستخط کے لیے بھیجا جائے گا۔ مذاکرات میں حزب کی طرف سے قاضی امین وقاد، ہمایوں جریر، ڈاکٹر غیرت بہیر، وحید اللہ سباؤن اور بعض دیگر ذمہ داران شریک تھے۔
Leave a Reply