
افغانستان میں اگر امریکی فوج کی کوئی حکمتِ عملی ہے تو بس یہ کہ کسی نہ کسی طور لڑائی جاری رکھی جائے تاکہ خطرات کی سطح اس حد تک گر جائے کہ افغان فوج کے لیے ملک کی سیکورٹی کا انتظام اپنے ہاتھ میں لینا ممکن ہوسکے۔ افغانستان کے طول و عرض میں سترہ سال کی لڑائی کے بعد بھی کوئی بھی کسی بھی سطح پر یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں کہ افغان فوج کو اس قابل بنایا جاسکا ہے کہ وہ ملک میں سلامتی برقرار رکھنے کی ذمہ داری سنبھال سکیں۔ افغان فوج جیتنے کی پوزیشن میں تو خیر آہی نہیں سکی ہے۔ زیادہ سے زیادہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ہار نہیں رہیں۔ اور ہاں، یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ وہ ایک نہ ایک دن امریکی فوج کی مدد سے کسی بڑی فتح کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔
سیاست، نظام حکومت اور معاشیات کے حوالے سے سویلین سطح پر بھی کسی بڑی کامیابی کو ممکن بنانے کا دعویٰ کوئی نہیں کر رہا۔ یہ بات ضرور کہی جارہی ہے کہ اگر اصلاحات کے پروگرام پر عمل جاری رکھا جائے تو ایک نہ ایک دن کامیابی ضرور نصیب ہوگی۔ تجربے کے مقابلے میں اِسے امید کی فتح قرار دیا جاسکتا ہے۔
افغان جنگ میں امریکا اب تک کم و بیش ایک ہزار ارب ڈالر جھونک چکا ہے۔ تصدیق شدہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۲۰۰؍امریکی فوجی مارے جاچکے ہیں اور ۲۰ ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود یہ جنگ اب بھی ’’اوپن اینڈیڈ‘‘ ہے یعنی کوئی بھی حتمی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔ اتنی مدت گزر جانے پر بھی امریکا اپنے اتحادیوں سے زیادہ سے زیادہ فنڈ اور مزید فوجی فراہم کرنے کی اپیل کر رہا ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ افغانستان میں امریکا کے واضح دشمنوں کے پاس کس قدر رقبہ ہے اور افغان حکومت معاملات کو کس حد تک کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
امریکا نے افغان فوج کو مضبوط بنانے میں تاحال خاطر خواہ حد تک کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ امریکا اور اتحادیوں نے بھرپور کوشش کی مگر اس کے باوجود افغان ’’نیشنل سیکورٹی فورسز‘‘ ملک کو کنٹرول کرنے کے قابل نہیں ہو پائی ہیں۔ یہ دعویٰ بھی کوئی نہیں کرسکتا کہ افغان فوج اپنے پیروں پر کھڑی ہوچکی ہے، اب انہیں فنڈنگ یا امریکا سے فضائی امداد درکار نہیں۔ خیر، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ افغان فوج کو تیار کرنے کے معاملے میں امریکا اور اتحادی مکمل ناکام رہے ہیں۔ امریکا نے افغان فوج کی اعلیٰ تربیت کے ساتھ ساتھ اُسے فضائی لڑائی میں بہترین انداز سے معاونت فراہم کرکے معاملات کو بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس کے نتیجے میں امریکی فوج کے لیے جانی نقصان کا گراف بھی نیچے آیا ہے۔
انتہائی پریشان کن امر صرف یہ ہے کہ افغان فوج اب بھی یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ وہ ملک کو بہترین انداز سے کنٹرول کرسکتی ہیں یا یہ کہ وہ طالبان اور دیگر دشمنوں کو قابو میں رکھنے کی پوزیشن میں آچکی ہیں۔ طالبان اور دیگر عناصر پر قابو پانے کے حوالے سے بھی کچھ کہنا تاحال ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے امریکا نے خاصا سخت موقف اختیار کیا ہے مگر اس کے باوجود یہ بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ اس کا حتمی نتیجہ کیا برآمد ہوا ہے۔ یہ بات بھی بہت واضح ہوچکی ہے کہ روس اور ایران اب طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ بڑے افغان شہروں میں طالبان اور داعش کے حملوں سے افغان فوج پر عوام کا اعتماد مزید متزلزل ہو رہا ہے۔
افغانستان میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت حد تک ویسا ہی ہے جیسا ویت نام میں تھا۔ تب امریکا نے برسوں کی بات چیت کے بعد یا ساتھ ساتھ شمالی ویت نام کو بھرپور قوت کے ساتھ نشانہ بنایا تھا اور دوسری طرف جنوبی ویت نام کو اپنی مدد کے لیے تیار کیا تھا۔ یہ گویا امن کو جیتنے اور جنگ کو ہارنے کی حکمت عملی تھی۔ شمالی ویت نام کی مزاحمتی فوج کو اس بات کا یقین تھا کہ وہ جنگ جاری رکھنے کی پوزیشن میں ہیں۔ مزید یہ کہ وہ اپنی مرضی کے نتائج بھی حاصل کرسکتے تھے۔ دوسری طرف چند امریکی حکام نے آنے والے دور کے خطرات کو بھانپ لیا تھا۔ انہیں اندازہ تھا کہ امریکا در حقیقت ہار چکا ہے مگر آبرو بچانے کی خاطر امن کو ’’نافذ‘‘ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ویت نام کی جنگ امریکا نے ایسی شرائط کے تحت ختم کی تھی جو دراصل شکست کی شرائط تھیں۔
چند اور معاملات بھی ہیں جن میں موجودہ افغانستان اور تب کے ویت نام میں کئی اقدارِ مشترک پائی جاتی ہیں۔ امریکا نے شمالی ویت نام کو باہر سے ملنے والی مختلف النوع امداد کے بارے میں غلط اندازے قائم کیے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے جنوبی ویت نام کے بارے میں یہ خوش فہمی پال لی تھی کہ وہ گورننس اور اقتصادی کارکردگی کے معاملے میں بہت آگے ہے، غیر معمولی دم خم رکھتا ہے جبکہ ایسا نہیں تھا۔ امریکی قیادت نے اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کردیا کہ ویت نامی حکومت بدعنوانی اور نا اہلی پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی تھی اور نظامِ حکومت کے حوالے سے اس کی کارکردگی بہت خراب تھی۔ سویلین اور فوجی دونوں ہی معاملات میں وہ نا اہل تھی اور معاشی کارکردگی کے حوالے سے قابل رحم حالت میں تھی۔ اس کے نتیجے میں وہ نام نہاد جمہوریت بھی کچھ نہ کرسکی جو امریکا نے متعارف کرائی تھی۔
اس وقت افغانستان کے حکومتی سیٹ اپ میں بہت سے افسران انتہائی ایماندار اور محب وطن ہیں جیسا کہ ویت نام کے کیس میں تھا، مگر مسئلہ یہ ہے کہ مجموعی سیاسی سیٹ اپ ویسا ہی بدعنوان اور نا اہل ہے جیسا کہ ویت نام میں تھا۔ سیاسی اور معاشی کارکردگی کا گراف گرا ہوا ہے۔ پوری معیشت آبادی کے ایک چھوٹے سے طبقے کو اپنے ثمرات سے مستفید ہونے کا موقع دے رہی ہے۔ معاشرے میں تقسیم غیر معمولی ہے۔ مسائل ہیں کہ بڑھتے جارہے ہیں اور اُن کے حل کی کوئی سبیل نہیں نکالی جارہی۔ ویت نام کی طرح افغانستان میں بھی سویلین اور فوجی دونوں ہی سیٹ اپ ناکام ہیں، مگر سویلین سائڈ کی ناکامی زیادہ نمایاں ہے۔ سیاسی اعتبار سے افغانستان زیادہ منقسم اور کمزور تر ہے۔ اس کے شدید منفی اثرات ملک کی معاشی کارکردگی پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔
افغانستان کی قومی فوج اب تک اس قابل نہیں ہوسکی کہ ملک کا نظم و نسق بہتر انداز سے سنبھال سکے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ دنیا نے سیاسی پہلو کو بہت حد تک نظر انداز کر رکھا ہے۔ افغان فوج کا کمزور ہونا ایک حقیقت ہے مگر سیاسی پہلو زیادہ بڑی حقیقت کا درجہ رکھتا ہے۔ ملک میں مجموعی اعتبار سے تعمیر و ترقی ممکن نہیں ہو پارہی۔ یہ محض عسکری معاملہ نہیں۔ مجموعی طور پر سیاسی سیٹ اپ ہی نا اہل اور بدعنوان ہے۔ ایسے میں ملک کسی بھی طور آگے نہیں بڑھ سکتا۔ منتخب حکومت اپنی ناکامی کا سارا الزام سیکورٹی کی صورت حال کے سر منڈھنے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی سیٹ اپ اپنی نااہلی چھپانے کے لیے کوئی بھی بہانہ گھڑ رہا ہے اور معاملات کو مزید خرابی کی طرف دھکیل رہا ہے۔
جنوبی ویت نام میں بھی نا اہلی تھی، کرپشن بھی تھی مگر خیر، معاشرے میں غیر معمولی تقسیم نہ تھی۔ بدھسٹ اور کیتھولک گروہوں کے درمیان تقسیم کی نوعیت وہ نہ تھی جو افغانستان میں ہے۔ یہاں فرقہ وارانہ یا مسلکی بنیاد پر اختلافات بہت زیادہ ہیں۔ نسلی اور لسانی تقسیم بھی موجود ہے۔ عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ جیسے اداروں نے افغانستان میں سویلین حکومت کی نا اہلی کی طرف بار بار اشارہ کیا ہے۔ ملک میں اب بھی ’’نارکو اکانومی‘‘ کا اثر بہت زیادہ ہے، یعنی پوست کی کاشت پر اطمینان بخش حد تک قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ سیاسی نا اہلی سے ایک طرف تو ملک میں سلامتی کا معاملہ داؤ پر لگا ہوا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ترقی کی راہ بھی مسدود تر ہوتی جارہی ہے۔ ملک بھر میں غیر معمولی بے روزگاری پائی جاتی ہے جو مسائل کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مکمل ناکامی سے قبل ویت نامی معاشرہ اُس قدر منقسم نہ تھا جس قدر افغان معاشرہ ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکا کو اب افغانستان سے نکلنا ہے اور وہ اس جنگ سے کسی نہ کسی طرح مکمل طور پر جان چھڑانا چاہتا ہے، مگر یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ جس جنگ کو چھوڑنا ہے اُسے کسی نہ کسی شکل میں جاری بھی رکھنا ہے۔ یہی سبب ہے کہ امن مذاکرات جنگ جاری رکھنے کا ایک طریقہ بھی سمجھے جارہے ہیں۔ امریکا طالبان سے مذاکرات کے ذریعے ایک ایسی ’’فتح‘‘ چاہتا ہے جس سے وہ جان بھی چھڑانا چاہتا ہے۔ نیپال اور کمبوڈیا میں بھی خانہ جنگی ہوئی مگر اِن دونوں ممالک کا معاملہ افغانستان اور ویت نام سے بہت مختلف رہا۔ نیپال اور کمبوڈیا میں جب جنگجوؤں نے دیکھا کہ وہ میدانِ جنگ میں سب کچھ نہیں پاسکتے تو انہوں نے بات چیت کی راہ اپنائی اور مذاکرات کی میز سے ایوانِ اقتدار تک پہنچے۔ کمبوڈیا اور نیپال دونوں کے معاملات میں یہ ثابت ہوا ہے کہ کبھی کبھی امن مذاکرات جنگ کو طول دینے کا باعث بنتے ہیں اور فریقین ایک دوسرے کو دھوکا دینے کے لیے مذاکرات کی میز تک آتے ہیں۔
اگر امریکا چاہتا ہے کہ افغانستان سے جان چھوٹے تو لازم ہے کہ کسی نہ کسی سطح کی فتح کا اعلان کرکے اپنی راہ لے۔ طالبان اور دیگر فریقین سے مذاکرات کی صورت میں جنگ صرف گھسٹتی ہوئی آگے بڑھتی رہے گی اور کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ اگر اس امید پر جنگ جاری رکھی جائے کہ طالبان کبھی تو تھک ہار کر ہار مانیں گے تو کچھ بھی ملنے والا نہیں۔ ایسی صورت میں لڑائی کسی نہ کسی صورت جاری رہے گی۔ افغان جنگ جیتنے کا ایک اور طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افغان حکومت کو زیادہ فنڈز دے کر مضبوط بنایا جائے، ملک کا کنٹرول مکمل طور پر سنبھالنے کی پوزیشن میں لایا جائے۔ مگر ایسا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔ جنگ میں بھی کسی نہ کسی سطح پر تو ایماندار ہونا ہی پڑتا ہے۔ امریکا کو یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ دنیا بھر میں یہ تاثر عام ہے کہ افغانستان میں امریکی افواج کبھی حقیقی فتح کا دعویٰ یا اعلان نہیں کرسکتیں۔ ایسے میں ایک اچھا اقدام یہی ہوسکتا ہے کہ فتح کا اعلان کرنے کے بجائے امن کا اعلان کرکے اپنی راہ لی جائے۔ ایشیا کے نئے ’’گریٹ گیم‘‘ میں جیتنے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ کھیلنا ترک کردیا جائے۔ اس کے نتیجے میں خرابیاں پاکستان، ایران، روس، چین اور دیگر ممالک کے حصے میں آئیں گی اور جو کچھ امریکا نے سہا ہے وہی کچھ اِن ممالک کو بھی سہنا پڑے گا۔
(انتھونی کارڈزمین واشنگٹن ڈی سی میں قائم تھنک ٹینک ’’سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز‘‘ میں اسٹریٹجی کے حوالے سے آرلی اے برک چیئر کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے افغانستان کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ دفاع کے لیے مشیر کی حیثیت سے کام کیا ہے۔)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The Afghan war of attrition: Peace talks remain an extension of war by other means”. (“csis.org”. July 16, 2018)
Leave a Reply