
لبنان اور اسرائیل کی جھڑپوں کو ختم ہوئے چند دن ہوئے تھے۔ ایک دن میں اپنی پرانی یادداشتیں اور کاغذات کی ورق گردانی کررہا تھا۔ یہ یادداشتیں، جو میں نے گزشتہ تیس برسوں کے دوران وقتاً فوقتاً جمع کی تھیں، اب ایک انبارکی صورت اختیار کرچکی ہیں۔ ان میں کچھ نوٹس تو وہ ہیں جن میں میرے ان ساتھیوں کے حوالہ جات درج ہیں، جو اس سفرکے دوران مختلف حادثات کا شکار ہوکر مجھ سے بچھڑگئے۔ کچھ یادداشتوں کا تعلق عربوں، کردوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی ان داستانوں سے تھا جو میں نے اپنے صحافتی سفر کے دوران مختلف مواقع پر یکجا کی تھیں۔ ان یادداشتوں کا مطالعہ مجھے ماضی میں لے گیا اور مختلف حادثات و واقعات دفعتاً ذہن میں تازہ ہوگئے۔ انہی نوٹس میں مجھے ۱۹۹۱ء کا ایک مختصر نوٹ بھی نظر آیا، یہ کسی مادے کے گرنے کے باعث سیاہی مائل اور خستہ حال تھا۔ میرا ذہن مجھے کویت کے ان میدانوں میں لے گیا جہاں خلیج جنگ کے دوران عراق کی پسپائی اختیار کرتی فوجوں نے تیل کے کنوؤں کو آگ لگادی تھی اور ان جلتے کنوؤں کا تیل آسمان سے بارش کی طرح برس رہا تھا۔ میں اس وقت امریکی فوجوں کے ساتھ میدان جنگ میں محو سفر تھا اور کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا تھا مگر تیل کی پھوار نے مجھے ایسا کرنے سے باز رکھا۔
جلد ہی مجھے لمحۂ موجود میں واپس آنا پڑا اور یاد آیا کہ میں ان یادداشتوں میں ان نوٹس کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا جن میں نائن الیون سے پہلے کے حالات اور کیفیات کو قلم بند کیا گیا ہو۔ بالآخر مجھے۱۹۹۰ء میں ٹورنٹو میں دیے گئے ایک انٹرویو کا مسودہ مل ہی گیا۔
اس انٹرویو کے دوران میں نے مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے حوالے سے میزبان کی رجائیت سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے تو مشرق وسطیٰ میں دھماکے سنائی دے رہے ہیں۔
میں کن دھماکوں کی بات کر رہا تھا؟ یہ پڑھنے کے بعد میرا اپنا تجسس بڑھ گیا اور میں نے مزید یادداشتوں کی تلاش شروع کردی۔ ۱۹۹۲ء میں لکھے گئے نوٹس میں لکھا تھا ’’دھماکے قریب آرہے ہیں۔‘‘ لیکن یہاں میں نے مشرق وسطیٰ کا ذکر نہیں کیا تھا۔ میں سوچ وبچار میں ڈوب گیا کہ ان تحریروں سے میرا مقصد کن واقعات کی جانب اشارہ کرنا تھا؟
اسی شش و پنج اور تلاش کے دوران مجھے ۱۹۹۳ء میں بی بی سی چینل فور اور ڈسکوری کے تعاون سے تیار کی گئی دستاویزی فلم یاد آئی۔ چار حصوں پر مشتمل اس فلم کا نام ’’بیروت سے بوسنیا تک‘‘ تھا اور اس میں ہم نے بیروت سے بوسنیا تک، مسلمان جہاں جہاں بھی ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں، انہیں منظر عام پر لانے کی کوشش کی تھی۔ ہم مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے اضطراب اور اشتعال کو بھی ریکارڈ کرنا چاہتے تھے۔
میں فلم دیکھ رہا تھا۔ یہ بوسنیا میں ایک تباہ حال مسجد کا منظر تھا۔ کچھ عرصے پہلے ہی میں یہاں سے ہوکر گیا تھا۔ تب یہ علاقہ محفوظ تھا اور یہ مسجد بھی آباد تھی۔ نسلی اور لسانی بنیاد پر ڈھائے جانے والے مظالم کے باعث پورا علاقہ ویرانی کا منظر پیش کر رہا تھا اور مسجد اس صورت حال پر نوحہ خواں تھی۔ فلم کے پس منظر سے میری آواز آرہی تھی ’’جب میں اس طرح کے مناظر دیکھتا ہوں تو مجھے وہ جگہ یاد آجاتی ہے جہاں میں کام کرتا ہوں، یعنی مشرق وسطیٰ۔ اور میں سوچتا ہوں کہ مسلم دنیا مغرب کے حوالے سے کیا سوچتی ہے؟‘‘
جب میں نے فلم کے حوالے سے لکھے گئے نوٹس چیک کیے تو معلوم ہوا کہ بوسنیا کی تباہ حال مسجد والا منظر جس روز فلمایا گیا تھا وہ ۱۱ ستمبر ۱۹۹۳ء تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نائن الیون سے ٹھیک آٹھ برس پہلے بھی مجھے مغرب کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والے ممکنہ واقعات کا خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔
مجھے شروع ہی سے ایسے صحافی ہرگز پسند نہیں جو ادھیڑ عمر کو پہنچنے کے بعد دنیا کے شر و خباثت کو بیان کرتے وقت پژمردہ اور انہیں قلم بند کرتے وقت افسردہ ہوجاتے ہیں اور جو اپنے پرانے کاغذات کی چھان بین کرتے رہتے ہیں تاکہ یادداشتوں کی زنبیل سے مایوسی کا سامان ہاتھ لگ سکے۔ اور اب میں بھی یہی سب کچھ کر رہا تھا! میرے نزدیک یہ ضروری نہیں کہ ہم یادداشتوں تلے دب جائیں، چیزوں کو ہمیشہ ماضی میں تلاش کرنے لگیں اور یادداشتوں سے ’’گم شدہ خزانہ‘‘ مل جانے پر قارئین کو یہ بتائیں کہ دنیا بس اب ختم ہونے والی ہے! میں نے یہ سب بند کیا اور بالکونی میں جاکر بیٹھ گیا۔
مشرق وسطیٰ جس بے شفقت اور بے رحم دور سے گزر رہا ہے، اس پر غور و فکر کرنے کے لیے بیروت ایک مثالی جگہ ہے کیونکہ خود اس شہر نے بھی تین عشروں کے دوران بہت کچھ سہا ہے، بہت ہولناک مناظر دیکھے ہیں۔ افغانستان سے عراق اور فلسطین سے لبنان تک اجتماعی قبروں کا آسیب اس پورے خطے میں بسنے والوں کو ہمہ وقت ڈراتا رہتا ہے۔ میرے فلیٹ کی بالکونی سمندر کی سمت واقع ہے۔ یہاں سے مجھے کھلے سمندر میں دور کہیں ایک جنگی جہاز نظر آرہا ہے جو جرمنی کا ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حکم کے تحت اس آبی گزرگاہ میں لنگر انداز تھا تاکہ لبنان میں حزب اللہ کو اسلحے کی ترسیل پر نظر رکھ سکے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ حزب اللہ کو سمندر کے راستے اسلحے کی ترسیل کون کرے گا؟ اور اگر واقعی اسلحے کی تحدید کو یقینی بنانا ہے تو پھر شام کی سرحد پر کیوں نظر نہیں رکھی جارہی؟ شام کی جنوب مشرقی سرحد لبنان سے ملتی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان ساحلی رابطہ ہرگز نہیں تھا۔
جب اس حوالے سے میں اپنے مالک مکان سے گفتگو کر رہا تھا تو وہ اچانک غصے سے بھڑک اٹھا اور بولا ’’ہاں! یہ جرمن جہاز میرے گھر کے سامنے سمندر میں کیا کر رہا ہے؟ یہاں اس کا کیا کام؟‘‘ اس کی بات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ واقعی مغرب نے اپنے آپ کو تمام مسلم دنیا میں پھیلالیا ہے اور اگر آپ جائزہ لیں تو آپ کو قازقستان، افغانستان، پاکستان، عراق، مصر، الجزائر، یمن، قطر، بحرین، کویت، سعودی عرب، عمان، لبنان۔ ہر جگہ اہل مغرب کے قدموں کے نشان نظر آئیں گے۔
ہم اہل مغرب اس وقت ایک ایسے وسیع اور کشیدہ خطے میں گھرے ہوئے ہیں جو شدید غصے سے بھرے لوگوں سے اٹا پڑا ہے۔ عسکری لحاظ سے ہم بارہویں صدی کی صلیبی فوج سے کہیں زیادہ گہرے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں اور ان سے کہیں زیادہ دام گرفتہ ہیں۔ مغربی افواج کو اسلام پسندوں، خودکش بمباروں، عسکری سالاروں، منشیات کے سوداگروں اور پیشہ ور مجاہدین کا سامنا ہے۔
اس وقت خوف اور دہشت کا یہ عالم ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے جنوبی لبنان میں تعینات کیے جانے والے فرانسیسی اور اطالوی فوجیوں نے اپنی بیرکوں کے گرد حصار بنالیا ہے اور وہ اس سے باہر آنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ انہیں ڈر ہے کہ نہ جانے کب، کہاں سے، کوئی خودکش بمبار آجائے! کوئی ایسا فدائی جو یہ سوچے کہ اس نے عراق میں ہونے والا تشدد اور وہاں مغربی مظالم کو بہت برداشت کرلیا یا پھر اسرائیل نے ایک بار پھر سرحدی خلاف ورزی کی ہو! یا پھر امریکا کی جانب سے ایران پر ممکنہ حملے کی تیاریاں اور پھر یہ بھی کہ وہ امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم کی دروغ گوئی سے تنگ آچکا ہو! میں نے لبنان میں جنوبی صیدون کے علاقے میں حزب اللہ کے لگائے ہوئے پوسٹرز دیکھے ہیں جن پر لکھا ہے ’’کوئی نیا مشرق وسطیٰ نہیں!‘‘ اور حزب اللہ کا موقف درست نظر آتا ہے۔ پورا خطہ ہمہ وقت، متواتر خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ دوسری جانب امریکا اور برطانیہ کی قیادت یہ دعوے کرتی نہیں تھکتی کہ خطے میں دن بہ دن بہتری آرہی ہے، جمہوریت کی جڑیں گہری ہوتی جارہی ہیں اور ایک نئے مشرق وسطیٰ کا سورج طلوع ہونے کو ہے وغیرہ وغیرہ۔ کیا واقعی امریکا اور برطانیہ کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ وہ ان دروغ آمیز جملوں اور ملمع کاری سے حقیقت کو مسخ کرسکتی ہے؟ اس مسخ شدہ آئینے میں اپنی مرضی کا عکس پیش کیا جاسکتا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت سے بحیرۂ روم کے ساحل تک تبدیلی کی ایک نئی لہر بیدار ہو رہی ہے، ایک نیا سورج طلوع ہو رہا ہے۔
امریکا اور برطانیہ کے قائدین شاید ہماری دنیا سے تعلق نہیں رکھتے۔ زمینی حقائق کا انہیں کچھ علم نہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے اور کہیں کوئی گڑبڑ نہیں۔ ان کے دعوے سراسر جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ امریکیوں نے عراقیوں کو محفوظ رکھنے کا دعویٰ کیا تھا مگر وہ اپنے آپ کو بھی محفوظ نہ رکھ سکے۔ برطانوی فوج طالبان کے ہاتھوں ایک سے زائد مواقع پر بری طرح شکست کھاچکی ہے اور اسرائیل کو، جو اپنے آپ کو مغرب کا حصہ ہی سمجھتا ہے، حزب اللہ کے ہاتھوں کافی ہزیمت کا سامنا ہے۔ ان تمام حقائق کے پیش نظر جب کبھی نیو یارک، لندن یا کسی اور مغربی شہر میں دہشت گردی ہوتی ہے تو اس امر پر اصرار کیا جاتا ہے کہ اس کی پشت پر مشرق وسطیٰ کے عناصر ہیں۔ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ دہشت گردی وہ لوگ کر رہے ہیں جو مغربی اقدار اور طرز زندگی کے مخالف ہیں۔ مغربی قائدین کبھی واقعات کے حقیقی اسباب تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
کبھی کبھار مجھے اس امر پر افسوس ہوتا ہے کہ اس وقت دنیا میں روزویلٹ اور چرچل جیسے دیو پیکر سیاستداں موجود نہیں۔ ان کا دور بھی پرآشوب تھا۔ مگر خیر وہ حالات سے نمٹنے کا ہنر جانتے تھے اور بہتر نتائج تیزی سے حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے مغربی قائدین کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہوچکی ہے اور اب ان کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا۔ یہ لوگ تاریخ سے رشتہ توڑ چکے ہیں۔ اب انہیں سچ سننا پسند ہے نہ کہنا۔
ماضی میں ’’ہم‘‘ مغرب اپنے ممالک میں محفوظ و مامون تھے اور جو کچھ بھی مناقشے ہوتے تھے وہ سمندری حدود میں پیدا اور ختم ہو جاتے تھے۔ ۱۹۵۰ء کے عشرے میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ لندن میں زیر زمین ریلوے اسٹیشن پر شمالی کوریا کے کسی باشندے نے خود کو بارود سے اڑا لیا ہو۔ نہ ہی ویت نام کی تنظیم آزادی کا کوئی رکن امریکا سے بدلہ لینے کے لیے واشنگٹن آتا تھا۔ ہم نے کینیا، ملائشیا، فلسطین، اور یمن میں بھی جنگیں لڑیں تاہم اس کے باوجود ہم لندن، گلوسٹر شائر، نیویارک اور واشنگٹن وغیرہ میں محفوظ تھے۔ لیکن کیا اب ایسا ہے؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ تبدیلی الجزائر کی جنگ آزادی کے بعد رونما ہوئی جب پیرس اور لیونز پر حملے کیے گئے یا پھر جب آئرش ری پبلکن آرمی کی جانب سے لندن کو بموں سے نشانہ بنایا گیا۔ سیاسی منظر نامہ اور احتجاج کا طریق تبدیل ہوا اور مخالفین نے جان لیا کہ اگر وہ اہل مغرب کو میدان جنگ میں شکست نہیں دے سکتے تو کیوں نہ انہیں ان کے گھر میں غیر محفوظ کردیا جائے!
آج دنیا یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ اب ایسا نہیں ہے کہ ہم اپنی فوجیں، جنگی جہاز، تباہ کن ٹینک اور گن شپ ہیلی کاپٹرز بیرونی ممالک جنگوں کے لیے منتقل کریں اور یہ تصور کرلیں کہ ہم اپنے ملک میں محفوظ رہیں گے۔ تاریخ کی اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں۔ جارج واکر بش اور ٹونی بلیئر جیسے قائدین اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں، حقیقت تو یہی ہے۔ تمام مشرق وسطیٰ میں ہم نامعلوم دہشت گردی کے خلاف کبھی ختم نہ ہونے والی جنگ میں مشغول ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد سے دنیا ہمیشہ کے لیے تبدیل ہوچکی ہے۔ میں نہیں مانتا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ محض ۱۹ دہشت گرد ہماری پوری دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دیں۔ ہم اس وقت ایک تاریک دنیا میں آباد ہیں جہاں ٹیلی فون پر امریکی جاسوسوں کے کان لگے ہیں، سی آئی اے کے زیر زمین قید خانوں میں تفتیش کا عمل جاری ہے اور اس سارے عمل کے نتیجے میں جنیوا کنونشن کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے جو رہنما اصول ہم نے دوسری جنگ عظیم کے بعد خاصی عرق ریزی سے مرتب کیے تھے، اب پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔ قومی سلامتی کے نام پر شخصی آزادی کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔
یہ مت بھولیے کہ ہم نے عربوں سے کتنے وعدے کیے اور انہیں کتنے خواب دکھائے تھے کہ عراق میں جمہوریت قائم ہوگی، انسانی حقوق کو فروغ ملے گا اور پھر اس جمہوریت کے ثمرات مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں بھی پھیلیں گے۔ بالکل اسی طرح کا وعدہ لبنان سے بھی کیا گیا تھا کہ وہاں نوآموز جمہوریت کا احترام کیا جائے گا اور اس کی نشو و نما میں مدد دی جائے گی لیکن جب حزب اللہ نے دو اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار کیا اور اس کے نتیجے میں اسرائیلی بمباری اور غضب کو دعوت دی تو مغرب خاموش تماشائی بن کر یہ سب کچھ دیکھتا رہا اور لبنان تباہ ہوتا رہا۔ اسی تباہی کو دیکھتے ہوئے ایک خاتون نے مجھ سے کہا تھا کہ ’’کیا مغرب نے ہم سے یہی وعدہ کیا تھا؟ اب ہمیں اہل مغرب کے وعدوں پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے‘‘۔
اسرائیلی غیظ و غضب کا معکوس نتیجہ یہ نکلا کہ حزب اللہ اب عربوں کی نظر میں ہیرو بن گئی ہے۔ لبنان کا سیاسی نظام کمزور تھا مگر اب تو خیر رہا ہی نہیں۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاکر حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے قومی حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا۔ اگر لبنان میں حزب اللہ کے واضح اثرات والی حکومت قائم ہوتی ہے تو وہ یقینی طور پر شام نواز ہوگی۔
اگر بش اور بلیئر نے فوجیوں کو یرغمال بنائے جانے کے اسرائیلی دعووں کو مسترد کرتے ہوئے بروقت جنگ بندی کی کوششیں کی ہوتیں تو لبنان میں اتنی انسانی جانیں کبھی ضائع نہ ہوتیں اور نہ ہی وہاں جمہوری عمل کو نقصان پہنچتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ لبنان میں مرنے والوں کی تعداد نیو یارک کے ٹوئن ٹاورز کے ملبے تلے دب کر مرنے والوں کی تعداد کا نصف ہے اور یہ تمام لوگ بھی بے گناہ مارے گئے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم صرف ان جانوں کے ضیاع پر نوحہ خوانی کرتے ہیں جن کا تعلق ہمارے اپنے ملک سے ہو، دیگر ممالک میں ظلم کا شکار ہونے والوں کے لیے ہماری آنکھوں سے ایک آنسو نہیں ٹپکتا۔ عراق میں بھی ہم نے یہی پالیسی جاری رکھی۔ ہماری ’’مردم شماری‘‘ صرف اپنے فوجیوں کی لاشیں گننے تک محدود رہی۔ عراق میں اب تک مارے جانے والے شہریوں کا ہمیں علم ہے نہ پروا۔ مغربی پالیسی کا یہ کھوکھلاپن کہ ہم لوگوں کو اقوام میں تقسیم کرکے دیکھتے ہیں، اب مشرق وسطیٰ میں نمایاں ہوکر سامنے آگیا ہے۔ ایک بار ایک برطانوی فوجی کا خط، جو اس نے اہل خانہ کو لکھا تھا، غلطی سے میرے پاس آگیا۔ خط میں اس فوجی نے عراقی عوام کے ساتھ اپنے تعلقات میں ناکامی اور اس سے پیدا ہونے والی الجھن کا ذکر کیا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ ’’مغربی طرز حکومت اور تنظیم سازی کے حوالے سے عراقی عوام کی تفہیم تہذیبی طور پر بڑی بچکانہ ہے اور ان پر اس کا پورا ابلاغ واضح کرنے میں کئی نسلوں کا وقت درکار ہوگا۔ انہیں بہت محنت کرنی ہوگی اور بھرپور ذوق و شوق کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔‘‘
اس نے مزید لکھا تھا کہ ’’ہمارے لیے اُن کا قبائلی طرز حکومت اور اُن کے اپنی شہری حکومت کے ساتھ انتظامی تعلقات کس نوعیت ہیں، سبھی کچھ بالکل اجنبی اور نامانوس معلوم ہوتا ہے اور اُلجھن کا باعث ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ہمارے اخلاص اور ارادے کو مکمل طور پر سمجھ نہیں سکے ہیں۔ ہم آزادی کے محرک کے تحت عراق میں فوجی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ یہ ہماری سوچ کا ورثہ ہے، تاہم مقامی سطح پر ہمارے نظریات غیر متعلق اور ہماری کاوشیں بے ربط معلوم ہوتی ہیں۔ ہم فوجی ہیں اور اپنے جذبے کو عمل سے پیوستہ رکھتے ہیں مگر ہماری خارجہ پالیسی ہمیں مسلسل دھوکا دیتی ہے اور ہمیں جھوٹا اور غلط ثابت کرتی رہتی ہے‘‘۔
اسی فوجی نے خط میں آگے چل کر رمادی میں شیشے کے ایک کارخانے کا ذکر کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا اور برطانیہ کی جانب سے عراق میں کامیابی کے دعوے کس قدر کھوکھلے اور بے معنی ہیں۔ وہ لکھتا ہے ’’فوجی ڈویژن کی جانب سے رمادی میں شیشے کے کارخانے کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے ہزاروں ڈالر خرچ کیے گئے مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کارخانے کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے لاکھوں ڈالر درکار تھے۔ اس میں ڈھائی ہزار افراد سے کام لینے کی گنجائش تھی مگر کبھی ۱۰۰ سے زائد افراد کام پر نہ آسکے۔ جدید آلات اور کمپیوٹرز تو نصب کردیے گئے مگر کام کرنے والے نہیں تھے‘‘۔
میرے خیال میں اس فوجی کا بیان کردہ یہ قصہ ہمیں یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ کس طرح مغربی دنیا عسکری اور تعمیری سطح پر ناکام ہوچکی ہے۔ اگر مغرب عراق میں واقعی تعمیر نو چاہتا ہے تو عوام کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ ان کی ذہنی استعداد اور تہذیبی ورثے کو بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا۔ یورپی مشینری اور امریکی کمپیوٹر لگادینے سے لوگ ہرگز دلچسپی نہیں لیں گے۔ وہ اس انداز سے کام کرنے کے عادی ہیں اسی انداز سے ان سے کام لینا ہوگا۔
تھامس ایڈورڈ لارنس یعنی لارنس آف عریبیہ کی ایک تحریر ہمارے لیے رہنما اصول کا درجہ رکھتی ہے۔ لارنس نے ۱۹۲۰ء میں عربوں کے حوالے سے لکھا تھا کہ ’’اپنے ہاتھ سے زیادہ کام کرنے کی کوشش نہ کرو۔ بہتر یہی ہے کہ جو کام عربوں کا ہے، وہ انہیں کرنے دو۔ معیار میں کمی بیشی ہوسکتی ہے مگر خیر وہ اپنا کام بہتر انداز سے کرسکتے ہیں۔ یاد رکھو، سر زمین عرب کے ناموزوں حالات میں تمہارے عملی مظاہر شاید انہیں اتنے کارآمد اور کارگر نظر نہیں آتے جتنا تم سمجھتے ہو‘‘۔
اسی طرح ایران کے حوالے سے ہمارا طرز عمل نامعقول اور غیر منطقی نظر آتا ہے۔ مغرب کا خیال ہے کہ ایرانی حکومت ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتی ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یہ ہتھیار صرف چھ مہینے کی مسافت پر ہیں جبکہ ایٹمی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منزل دس برس دور ہے! کوئی بھی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ اس ایٹمی بحران کے پیدا کرنے میں ہمارا اپنا کتنا کردار ہے؟
۱۹۷۳ء میں شاہ ایران نے یہ کہتے ہوئے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تھی کہ جب امریکا اور روس ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرسکتے ہیں تو ایران کیوں اس سے محروم رہے! اور پھر اس وقت تمام مغربی کمپنیاں ایران کو ایٹمی آلات، ری ایکٹرز فراہم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں شامل تھیں۔ سیمینز نے بوشہر میں ایٹمی ری ایکٹر کی تعمیر شروع کی تھی۔ اس پورے دور میں کبھی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایران کے ارادوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا کیونکہ اس وقت ایران مشرق وسطیٰ میں مغرب کے لیے ’’پولیس مین‘‘ کا کردار ادا کر رہا تھا!
پھر جب ایران پر آیت اللہ خمینی کا اسلامی انقلاب چھاگیا تو انہوں نے کیا کیا؟ ایٹمی پروگرام کو شیطانی عمل قرار دیتے ہوئے بند کردیا۔ کچھ ہی مدت بعد صدام حسین نے لشکر کشی کرتے ہوئے میزائلوں اور بموں کی بارش کردی۔ کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے گئے۔ اس حملے کو مغرب کی بھرپور حمایت حاصل تھی کیونکہ ایران مغرب کے خلاف علم بغاوت بلند کرچکا تھا غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دیس نکالا دیا جاچکا تھا۔ ایران نے صورت حال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ایٹمی پروگرام دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگر مغرب کی حمایت سے عراق نے ایران پر لشکر کشی نہ کی ہوتی تو ایران دوبارہ ایٹمی پروگرام شروع کرنے کے بارے میں شاید نہ سوچتا۔
پاکستان کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اندرونی صورت حال کے اعتبار سے پاکستان کا معاملہ عراقی انارکی (نراجیت) سے زیادہ خطرناک ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے مغرب کی مدد سے ۹ سال تک بلا شرکت غیرے پاکستان پر حکومت کی۔ جنرل پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مجبوراً شامل ہونا پڑا کیونکہ امریکا نے اسے ’’پتھر کے دور‘‘ میں پہنچانے کی دھمکی دی تھی! حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایٹمی قوت ہے اور کسی بھی جارحیت کی صورت میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا حق بھی رکھتا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں ہماری ناکامی کا ایک اور سبب یہ ہے کہ مغربی ممالک اپنا اعتقاد و ایمان کھوچکے ہیں جبکہ مسلمان اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ مذہب اب تک ان کی زندگی پر حکمرانی کر رہا ہے۔ اہل مغرب چونکہ اس معاملے میں تہی داماں ہیں اس لیے اپنے احساس محرومی کو یہ کہتے ہوئے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام اور سیکولر ازم کا ملاپ نہیں ہوسکتا۔ اہل مغرب روشن خیال اور بلند فکر ہیں لیکن وہ اپنے نظریات کو دوسروں اور بالخصوص اسلامی دنیا پر تھوپنا چاہتے ہیں، بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ہم اپنی تہذیب اور روایات کے ذریعے ان پر یلغار کرنا چاہتے ہیں۔
مسلمانوں کی یادداشت اِتنی بھی بری نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اپنے ایک عراقی دوست سے گفتگو کے دوران جب میں نے اس سے کہا کہ تم لوگوں کو مغرب کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ اس نے تمہیں صدام سے نجات دلائی تو اس نے نفی میں گردن ہلائی اور کہا کہ ’’جب صدام نے ایران پر حملہ کیا تھا تو تمہی لوگوں نے اس کی حمایت کی تھی۔جب اُس نے کویت پر حملہ کیا تو تم نے عراق پر اقتصادی پابندیاں عائد کردیں جن کے نتیجے میں ہماری عورتیں اور بچے خوراک کی قلت اور ناقص غذا سے مرگئے۔ اور اب عراق میں نراجیت پھیلاکر تم چاہتے ہو کہ ہم تمہارا شکریہ ادا کریں!‘‘
ان باتوں کا امریکی اور یورپی میڈیا میں کم ہی ذکر ملتا ہے۔ امریکی نیوز چینل ایسی ہر بات کو دبا دیتے ہیں۔ جب نارمن فنکلسٹائن نے اسرائیلی عدالت کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کے وسط میں تعمیر کی جانے والی دیوار کو قانونی قرار دیے جانے پر مضامین لکھے تو مغرب نے اُنہیں نظر انداز کردیا۔ امریکی میڈیا میں اس حوالے سے اگر کوئی خبر دکھائی بھی دیتی ہے تو خاصی سہمی ہوئی ہوتی ہے۔ ایسا بارہا ہوا کہ امریکی جامعات کی جانب سے فلسطینی پروفیسرز یا عرب مفکرین کو لیکچرز کی دعوت دی گئی اور عین موقع پر منسوخ کردی گئی۔ نیو یارک کے تھیٹرز میں کئی ایسے ڈرامے جبراً بند کرائے گئے جن میں مغرب کا مظالم کا ذکر کیا گیا ہو یا مشرق وسطیٰ کی سیاست کو موضوع بنایا گیا ہو۔
کیا ہم صحافی بس یہی کچھ کرسکتے ہیں؟ امریکی پریس میں ہمیں سیمور ہرش اور انہی جیسے دو چار لوگوں کے سوا کوئی بھی نظر نہیں آتا جو تحقیق پر آمادہ ہو۔ ہم سے کبھی کوئی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ بیشتر عرب ممالک میں آمرانہ حکومتیں کیوں قائم ہیں۔ ان حکومتوں کو یقینی طور پر مغرب کی حمایت حاصل ہے۔ ہم سی آئی اے کے عقوبت خانوں کے بارے میں بھی نہیں لکھتے۔ میں ایسے صحافیوں کو جانتا ہوں جو حقائق سے باخبر ہیں مگر کچھ بھی لکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ قومی سلامتی کے تقاضے ان کی راہ میں دیوار بن جاتے ہیں۔
اظہار رائے کی آزادی نایاب جنس ہے۔ مجھے اس کا اندازہ اس دن ہوا جب مجھے امریکن یونیورسٹی آف بیروت سے خطاب کرنے کی دعوت ملی۔ انہوں نے مجھے اعزازی ڈگری دینے کا اعلان کیا تھا۔ اپنی تقریر کے دوران میں نے بش انتظامیہ کے جھوٹ اور مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے خطرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی تاہم بعد ازاں امریکی سفیر نے میری تقریر کی سخت مذمت کی کہ کس طرح مجھے اس کی اجازت دی گئی ایک ایسی یونیورسٹی میں تقریر کروں جو امریکی امداد سے اپنے اخراجات پورے کر رہی ہے۔
بہرحال ہم مشرق وسطیٰ کے المیے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ دنیا کو بتایا جارہا ہے کہ معاملات درست چل رہے ہیں جبکہ در حقیقت خرابی زیادہ ہے۔ جمہوریت کو فروغ دینے کی بات ہو رہی ہے جبکہ معاملہ یہ ہے کہ آزادی کے علمبردار عہد طفولیت ہی میں اُس کا گلا گھونٹ رہے ہیں!
مشرق وسطیٰ کے بسنے والے مغربی طرز جمہوریت کو اپنانے کے خواہش مند بھی ہیں اور مغربی سپر مارکیٹ سے وہ انسانی حقوق اور لبرل ازم بھی خریدنا چاہتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ وہ آزادی بھی تو چاہتے ہیں جو ہم انہیں دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وہ کشمکش ہے جو مشرق وسطیٰ کو مزید تاریکی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ میں اپنے اپارٹمنٹ کی بالکونی میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ اب اگلے دھماکوں کی منزل کہاں ہے؟ اور آپ کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ مزید دھماکے ہوں گے۔ اب اس بات کی اہمیت نہیں رہی کہ بن لادن زندہ ہے یا نہیں؟ یہ بالکل ایسا ہی معاملہ ہے جیسے یہ کہ ایٹم بم ایجاد ہوچکا ہے، اب اس بات کی کچھ اہمیت نہیں کہ دنیا کے تمام ایٹمی سائنس دان زندان میں ہیں یا نہیں۔ القاعدہ کا ایٹم بم تیار ہوچکا ہے، اب بن لادن کا وجود ثانوی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔
(ترجمہ: تنزیل الرحمن)
(“Double Standards of Morality: The Age of Terror”… “Counter Punch”. Oct. 9, 2013)
Leave a Reply