ویسے تو اور بھی بہت سے معاملات میں امریکی صدر براک اوباما کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی معاملات میں وہ صاف محسوس کرتے ہیں کہ سب کچھ ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہو رہا مگر سب سے زیادہ بے مزا وہ اس وقت ہوتے ہیں، جب کوئی ان کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر یا خیالات کو مسخ کرکے پیش کرے۔ یعنی جو بات انہوں نے نہ کہی ہو وہ ان سے منسوب کردی جائے! میڈیا کو وہ اِسی لیے زیادہ پسند نہیں کرتے اور ری پبلکنز کے ٹاک شوز کو اِسی لیے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے اسرائیلی سرحدوں پر گفت و شنید اور ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے امریکی صدر کے الفاظ کو غلط رنگ میں پیش کیا تو ان پر کیا گزری ہوگی۔ یہ سب وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ۲۰ مئی کو خود صدر اوباما کی موجودگی میں ہوا۔ امریکی صدر نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ دو ریاستوں کے نظریے کے تحت، جس کی حمایت اسرائیلی وزیراعظم بھی کرتے ہیں، اسرائیل ۱۹۶۷ء سے پہلے کی سرحدوں کو قبول کرلے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں وہ اپنی (غیر قانونی) بستیوں کو بھی قانونی حیثیت دلوا کر سرحدوں میں شامل کرسکے گا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ اسرائیل کو تھوڑا سا علاقہ چھوڑنا تو پڑے گا تاہم اس سے خود اسرائیلیوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں سے کہا جائے کہ وہ آنکھوں دیکھی مکھی نگل لیں۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے گزشتہ سال گیارہ نومبر کو اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں بھی سرحدوں پر نظر ثانی کی بات کی گئی تھی۔ اس سے بہت پہلے ۲۰۰۰ء میں بھی سرحدوں پر نظر ثانی کی بات ہوئی تھی اور اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن معاہدے تک تقریباً پہنچ ہی گئے تھے۔ ۲۰۰۸ء میں اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ سے مذاکرات میں فلسطینی قیادت بہت حد تک سرحدوں پر نظر ثانی کے معاہدے تک پہنچ گئی تھی۔ ایسے نقشے بھی گردش کر رہے ہیں کہ مجوزہ تبدیلیوں کے بعد سرحدیں کس طرح دکھائی دیں گی۔ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ آف نیئر ایسٹ پالیسی کے ڈیوڈ میکووسکی کے تجویز کردہ تین نقشوں میں سے ایک خاصا مقبول ہے۔
نیتن یاہو نے امریکی صدر سے حالیہ ملاقات میں ایک حیرت انگیز حرکت کی۔ انہوں نے سرحدوں کی دوبارہ حدبندی کا معاملہ ہی رہنے دیا۔ انہوں نے امریکی صدر براک اوباما کے ان بیانات کو بھی نظر انداز کیا جن میں قدرے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ وہ حماس جیسے گروپوں سے بات چیت نہ کرے جو اس کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کرتے۔ امریکی صدر نے یہ بھی کہا تھا کہ اسرائیل کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ دریائے اردن کی وادی میں فوج طویل مدت تک رکھی جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی تجویز کیا تھا کہ اسرائیلی فوج کو ایک دن دریائے اردن کی وادی سے انخلاء کرنا ہے، تاہم انخلاء کی کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی گئی۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ تمام فلسطینیوں کو غیر مسلح کردیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ امریکی صدر نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کی جانب سے کسی بھی فلسطینی ریاست کے قیام کے یک طرفہ اعلان کی مخالفت کریں گے۔ بنیامین نیتن یاہو نے صدر اوباما کو ایک ایسے نکتے پر لیکچر دیا جس پر بات کرنے کے لیے وہ تیار نہیں تھے یعنی ۱۹۶۷ء سے پہلے کی ناقابل دفاع سرحدیں!
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے اس قدر جارحانہ انداز کیوں اپنایا۔ بات یہ ہے کہ وہ ایسا کرنے کے متحمل ہوسکتے تھے۔ اور ایسا اس لیے ہے کہ امریکی کانگریس ان کی جیب میں ہے۔ انہوں نے جب کانگریس سے خطاب کیا اس سے ایک رات قبل امریکن اسرائیل پبلک افیئر کمیٹی کی طرف سے ان کے اعزاز میں دیئے جانے والے استقبالیے میں ۶۸ سینیٹروں اور ایوان نمائندگان کے ۲۸۶ ارکان نے بھی شرکت کی تھی اور کانگریس سے خطاب پر بھی انہیں ایوان سے خوب داد ملی تھی۔ اس بار نیتن یاہو کے پاس جارحانہ انداز اختیار کرنے کا ایک اور جواز بھی ہے۔ فلسطینی دھڑوں کے درمیان مصالحت ہوچکی ہے جو اسرائیل کے وجود کے لیے خطرے کی گھنٹی کی طرح ہے! یاسر عرفات مرحوم نے اوسلو میں اسرائیل سے امن معاہدہ ضرور کیا تھا مگر اب اس کی اہمیت اس لیے نہیں رہی کہ فلسطینی قیادت نے بل کلنٹن اور ایہود اولمرٹ کی پیشکش ٹھکرائی ہے۔ غرب اردن میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیلیوں کی غیر قانونی آباد کاری کا معاملہ فریقین میں تنازع کے بنیادی اسباب میں سے ہے۔ نیتن یاہو نے جب جارحانہ انداز اپنایا تو انہیں دفاعی انداز اپنانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔
نیتن یاہو کو امریکی سیاست کا پوری طرح ادراک ہے۔ کانگریس سے انہوں نے جس عمدگی سے خطاب کیا اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ امریکی سیاست دانوں کے مزاج آشنا ہیں اور ان سے اپنی بات منوانے کا ہنر جانتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں یہ بھی اندازہ ہوگا کہ امریکی کانگریس کے ارکان آئندہ صدارتی انتخاب کے حوالے سے ان سے کیا امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہوں گے۔ انہوں نے ۲۰۱۲ء کے صدارتی انتخاب کے لیے ری پبلیکنز کو حمایت کا یقین دلا دیا ہے۔ جو لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ اوباما نے نیتن یاہو کو بس کے نیچے دھکیل دیا ہے وہ نیتن یاہو کا رویہ دیکھ کر حیران رہ گئے اور اب یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ امریکا کو کسی اتحادی سے ایسے رویے کی امید نہ رہی ہوگی۔ اور اوباما اسے ہرگز نہ بھلا سکیں گے۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘ امریکا۔ ۶جون ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply