امریکی غلبے کو چین ختم نہیں کرے گا، تاہم سیاسی پیچیدگیوں اور دوسروں کے مسائل سے لاتعلقی کے باعث ایسا ہوسکتا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرِ سیاسیات جوزف نائے نے جیسے ہی نشست سنبھالی، کانفرنس روم میں لگی تصویر پر اُن کی نظر پڑی اور وہ بول اٹھے، ’’یہ رہے وہ صاحب‘‘۔ ’’وہ‘‘ سے مراد ’’ٹائم‘‘ اور ’’لائف میگزینز‘‘ کے بانی ہنری لیوس تھے (اور ظاہر ہے تصویر انہی کی تھی جو ’’ٹائم‘‘ میگزین کے دفتر میں آویزاں تھی)۔ ۱۹۴۱ء میں ’’لائف میگزین‘‘ کے اداریے میں لیوس نے امریکا پر زور دیا تھا کہ وہ دوسری جنگِ عظیم میں جمہوری اقدار کے تحفظ اور ’’پہلی عظیم امریکی صدی کی تشکیل‘‘ کی خاطر حصہ لے۔
جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی شروع ہونے والی امریکی جغرافیائی سیاسی اجارہ داری کے دور میں یہ اصطلاح بہت زیادہ استعمال کی گئی۔ مگر جب سے امریکی صدی کا آغاز ہوا، امریکی قوم اپنے ملک کی بالادستی کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں ہی لگی رہی۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی میں سوویت یونین گویا تیار تھی کہ امریکا کو دفن ہی کردے گی ۱۹۸۰ء کی دہائی میں جاپانی اپنی تیز رفتار کارکردگی سے کاہل امریکیوں کو مات دینے جارہے تھے۔
آج ابھرتا ہوا چین ایک بڑا حریف ہے۔ ۲۰۱۳ء میں ۳۹ ممالک میں کیے گئے ’’پیو‘‘ سروے کے مطابق زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ چین دنیا کی ابھرتی ہوئی سپر پاور بن چکا ہے یا لامحالہ بن جائے گا اور ان لوگوں میں تقریباً آدھے امریکی عوام شامل تھے۔
اس پر جوزف نائے کہتے ہیں کہ یہ اتنی تیزی سے نہیں ہوگا۔ نرم طاقتی نظریے کے بانی اور امریکا کے ممتاز ماہرِ سیاسیات جوزف نائے جغرافیائی سیاست کو خوب جانتے ہیں۔ اپنی نئی کتاب ’’کیا امریکی صدی ختم ہوچکی ہے؟‘‘ میں جوزف نائے امریکی جغرافیائی سیاسی بالادستی کی بھرپور وکالت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امریکی طاقت ابھی تک گہنائی نہیں ہے بلکہ پوری قوت کے ساتھ موجود ہے اور مزید مستحکم ہونے کے لیے تیار ہے۔ اور سب سے بڑا خطرہ چین، بھارت یا روس نہیں بلکہ خود امریکا ہے۔
یہ بھولنا آسان نہیں ہے کہ امریکا کتنی بڑی عالمی طاقت ہے۔ عسکری قوت کو ہی لیجیے، امریکا اپنے دفاع پر اپنے بعد دوسرے نمبر پر آنے والے چین سے ہی چار گنا زیادہ خرچ نہیں کرتا بلکہ اس کے بعد آنے والے آٹھ ممالک کے مجموعی اخراجات سے بھی زیادہ خرچ کرتا ہے۔ امریکی بحریہ سمندروں کو کنٹرول کرتی ہے، اس کی افواج نے ہر آباد براعظم پر اپنے فوجی اتار رکھے ہیں۔ لیوس کی بیان کردہ ’’امریکی صدی‘‘ کے آغاز سے اب تک امریکی مسلح افواج کی بالادستی میں کمی نہیں، اضافہ ہی ہوا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے تقریباً ۵۰ برس بعد سویت یونین نے امریکی طاقت کو چھیڑا تھا، وہ بھی اب نہیں رہی۔
امریکی معاشی ترقی کا تنزل اب شاید ایک یقینی بات ہے۔ ایک حساب سے چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کے لیے امریکا کو پہلے ہی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ مگر یہ بھی کسی حد تک زاویۂ نظر کی چال ہے۔ ۱۹۴۵ء میں بڑی حد تک دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں کے باعث امریکا نے دنیا کی مجموعی ملکی پیداوار کا تقریباً نصف پیدا کیا۔ ۱۹۷۰ء تک امریکا کا یہ حصہ ایک چوتھائی تک آگیا، لیکن جیسا کہ جوزف نائے بیان کرتے ہیں کہ یہ معاملہ امریکی زوال سے زیادہ عالمی حالات کے معمول پر آنے کا تھا۔ ۵۰۰ بہترین بین الاقوامی کمپنیوں میں سے کم و بیش آدھی امریکی شہریوں کی ملکیت ہیں اور ۲۵ بہترین عالمی مصنوعات میں سے ۱۹؍امریکی ہیں۔
لیکن امریکی تسلط کے ممکنہ تسلسل کی سب سے بڑی وجہ کسی قابلِ لحاظ حریف کا نہ ہونا ہے۔ جوزف نائے اس ضمن میں ہر ایک کو مسترد کرتے ہیں ان کے مطابق یورپی یونین پوری طرح متحد نہیں ہے، جاپان اپنا وقت گزار چکا ہے، روس میں بدعنوانی بہت زیادہ ہے، بھارت میں بہت غربت ہے، برازیل بڑی حد تک غیر متاثر کن ہے۔
جوزف نائے یہ توقع کرتے ہیں کہ چین جس طرح ترقی کررہا ہے، وہ بین الاقوامی منظرنامے میں مزید جگہ بنائے گا۔ مگر بیجنگ کو بڑے اندرونی خطرات کا سامنا ہے جو اس کو پٹری سے اتار سکتے ہیں، مثلاً آلودہ ماحول، معمر آبادی اور غیر مؤثر سرکاری صنعتیں۔ مزید اہم یہ کہ چین کے پاس وہ عنصر نہیں ہے جس نے امریکا کو منفرد بنایا، یعنی تارکینِ وطن کے لیے کشادگی۔ جدید سنگاپور کے معمار کا ذکر کرتے ہوئے جوزف نائے کہتے ہیں کہ لی کوان یو نے ایک بار انہیں بتایا کہ چین ۳ء۱؍بلین باصلاحیت افراد جمع کرسکتا ہے مگر امریکا دنیا بھر کے ۷ بلین افراد اکٹھے کرسکتا ہے۔
کشادگی کا یہی فقدان ہے جو جوزف نائے کو تشویش میں مبتلا کرتا ہے۔ اگر امریکا اپنی سرحدیں بند کردے یا بین الاقوامی امور سے صرفِ نظر کرنے لگے، جیسا کے امریکا پر یہ دو دباؤ بار بار آئے ہیں، تو پھر کوئی راستہ نہیں بچتا۔ اگر سیاسی پیچیدگیاں مستقل ہوجاتی ہیں یا آمدنی کا عدم توازن مسلسل بڑھتا ہے تو یہ بھی امریکی بالادستی کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔ جوزف نائے کے مطابق ’’سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی صلاحیت کے مطابق زندگی گزارتے رہیں گے۔
وہ شرطیہ کہتے ہیں کہ ایسا ہوگا اور سمجھتے ہیں کہ مجموعی طور پر دنیا کے لیے بھی یہ ایک اچھی چیز ہے۔ ایک مضبوط امریکا نے مشرقی ایشیا میں تناؤ کو قابو میں رکھنے میں مدد دی اور ابھرتے ہوئے چین کو موجودہ بین الاقوامی نظام میں سمونے کے لیے بھی کام کیا۔ جولائی میں امریکی خلائی ادارہ ’’ناسا‘‘ کی ٹیم تاریخ میں پہلی مرتبہ پلوٹو سیارے پر اترے گی اور شروع سے آخر تک امریکی سربراہی میں انجام پانے والی نظامِ شمسی کی دریافت مکمل ہوجائے گی۔
امریکا غلطیوں سے مبرا ہونے سے بہت دور ہے۔ عراق پر حملہ اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر سخت گیری، دو بڑی غلطیوں کے طور پر نمایاں ہیں۔ تاہم یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ اگر ولادی میر پوٹن کا روس یا ژی جن پنگ کا چین دنیا کے امور چلا رہے ہوں گے تو وہ ایک بہتر جگہ بن جائے گی۔ جوزف نائے امریکا کے بارے سمجھتے ہیں کہ یہ ایک مختلف ملک ہے۔ ہنری لیوس یہ بات اس سے بہتر انداز میں نہیں کہہ سکتے تھے۔
(مترجم: حارث بن عزیز)
“The American century isn’t over”.
(“Time”. March 23, 2015)
Leave a Reply