
امریکی معیشت ایک بار پھر شدید بحران سے دوچار ہے۔ مالیاتی بحران ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ایک سال کی قلیل مدت میں کم و بیش دو ہزار ارب ڈالر (۲کھرب ڈالر) کی ری فائنانسنگ لازم ہے۔ اور اس کا تعلق بجٹ خسارے کے حوالے سے کیے جانے والے اضافی اخراجات سے نہیں جو ڈیڑھ ہزار ارب ڈالر سے زائد ہیں۔ اب ذرا یہ سوچیے کہ امریکی وزارت خزانہ محض ایک سال کی مدت میں کہاں سے تین ہزار پانچ سو ارب ڈالر کا اہتمام کرسکتی ہے؟ یہ تو مجموعی خام قومی پیداوار کے ۳۰ فیصد کے مساوی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے مگر اتنی بڑی رقم لائیں گے کہاں سے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیا ہوگیا تھا کہ ہم مختصر میعاد کے قرضوں کی دلدل میں پھنس گئے؟ امریکی حکومت نے بھی وہی کیا جو بہت سے پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں کیا کرتی ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے قرض اتارنے کے لیے قرض لینے کی روایت پر عمل کیا۔ اندرونی قرضوں پر سود کا بوجھ کم کرنے کے لیے قرضے لیے جاتے رہے۔ جنرل موٹر، فینی، جنرل الیکٹرک اور دوسرے بہت سے پرائیویٹ ادارے اسی روش کو اپناکر تباہی کی منزل تک پہنچے۔ امریکا سمیت دنیا بھر میں بہت سے بڑے ادارے اور حکومتیں قرضوں کو ادا کرنے کے بجائے ادائیگی ٹالنے کے جتن کرتی رہتی ہیں۔ جب تک خرابی مکمل طور پر واقع نہیں ہو جاتی! یہ طریق کار انسان، اداروں اور حکومتوں کو قرضوں پر قرضے لیتے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ قرض دینے والے جلد یا بدیر بیدار ہوکر یہ سوچنے لگتے ہیں کہ قرض کی واپسی کا امکان کس حد تک ہے؟ اور جب ایسا ہوتا ہے تب خرابی تیزی سے وسعت اختیار کرنے لگتی ہے اور سود کی شرح بھی ہوش ربا رفتار سے بلند ہوتی جاتی ہے۔ پھر محفل اجڑنے لگتی ہے اور دیوالیہ قرار دیے جانے کی منزل آجاتی ہے۔
جب حکومتیں دیوالیہ ہوتی ہیں تو اسے ’ڈیفالٹ‘ کہا جاتا ہے۔ کرنسی مارکیٹ پر نظر رکھنے والے اور اس مارکیٹ میں سٹے بازی کرنے والے اندازے لگاتے رہتے ہیں کہ کوئی بھی حکومت کب ڈیفالٹ کر جائے گی۔ ۱۹۹۹ء میں ایلن گرین اسپین اور پابلو گوئیڈوٹی نے کسی بھی ملک کے ڈیفالٹر ہونے کے امکان کا جائزہ لینے کے لیے ایک فارمولا دیا۔ ان دونوں سے موسوم فارمولے کو گرین اسپین گوئیڈوٹی کا اصول کہا جاتا ہے۔ اس اصول کے تحت کسی بھی حکومت کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے اپنے ہارڈ کرنسی ریزرو کو مختصر میعاد کے ایسے بیرونی قرضوں کے مساوی رکھنا چاہیے جن کی ادائیگی کی تاریخ آچکی ہو۔ زر کے نظم و نسق کی سب سے بڑی فرم PIMCO نے اس اصول کی تشریح اس طرح کی ہے۔ ’’گرین اسپین اور گوئیڈوٹی کے اصول کو شاید آج کی دنیا میں سب سے زیادہ مستند حوالوں اور شواہد کی مدد حاصل ہے۔ دنیا بھر میں بحرانوں سے نمٹنے کے لیے اس اصول کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔‘‘
گرین اسپن اور گوئیڈوٹی کا اصول سیدھا سادہ ہے۔ اگر کوئی ملک اپنے قلیل المیعاد قرضوں کو ایک سال میں ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اسے غیر معمولی سیکورٹی رسک سے تعبیر کیا جائے گا۔ ایسی صورت میں بازار زر کے سٹے باز آپ کے بونڈ، سیکورٹی اور کرنسی کو نشانہ بنانے لگتے ہیں اور ڈیفالٹ کی راہ واقعی ہموار ہو جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گرین اسپین اور گوئیڈوٹی کے طے کردہ معیار کے مطابق امریکا کہاں کھڑا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ امریکا کے پاس ۵ء۸۱۳۳ میٹرک ٹن سونا ہے جو دنیا میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ ڈالر کی آج کی قدر کے حساب سے سونے کا یہ ذخیرہ ۳۰۰ ؍ارب ڈالر کا ہے۔ امریکا نے کسی بھی ہنگامی صورت حال کے لیے جو تیل ذخیرہ کر رکھا ہے وہ ۷۲ کروڑ ۵۰ لاکھ بیرل ہے۔ اس تیل کی قیمت ۵۸ ؍ارب ڈالر سے زیادہ نہیں اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق امریکا کے زر مبادلہ کے ذخائر ۱۳۶ ؍ارب ڈالر کی مالیت کے ہیں۔ ان سب کی مجموعی مالیت ۴۹۴ ؍ارب ڈالر ہوئی۔ امریکا کے قلیل المیعاد بیرونی قرضے اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ امریکا پر قرضوں کا بوجھ اس قدر ہے کہ اب معیشت کی حقیقی بحالی کے بارے میں سوچنے والے احمق دکھائی دیں گے۔ قومی خزانے پر بوجھ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب اترتا دکھائی نہیں دیتا۔ محکمہ خزانہ کو بارہ ماہ میں دو ہزار ارب ڈالر کا اہتمام کرنا ہے۔ اتنی بڑی رقم کہاں سے لائی جاسکے گی، بس یہی سوچ کر ماہرین پریشان ہیں۔ ۱۹۸۵ء سے اب تک امریکا دنیا بھر سے قرضے لیتا آیا ہے۔ اس وقت امریکا کے مجموعی قرضوں میں بیرونی قرضوں کا تناسب ۴۴ فیصد ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ قرضہ دینے والے بیرونی اداروں اور حکومتوں کو ہمیں بارہ ماہ میں ۸۸۰ ؍ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے۔ یہ بات ذہن نشین رکھیے کہ اس سے ہمارے موجودہ قرضے ہی کور ہوسکیں گے۔ دی آفس آف مینیجمنٹ اینڈ بجٹ کا کہنا ہے کہ ایک سال کے دوران بجٹ خسارہ ۱۵۰۰ ؍ارب ڈالر تک ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک سال کی مدت میں ہمیں مختلف مدوں میں فنڈنگ کے لیے مجموعی طور پر ۳۵۰۰ ؍ارب ڈالر درکار ہوں گے۔
اب ذرا سوچیے کہ رقم کہاں سے آئے گی۔ امریکا میں بچتوں کی شرح بہت ہی کم ہے۔ سال بھر میں امریکی بمشکل ۶۰۰ ؍ارب ڈالر کی بچت کر پاتے ہیں۔ اگر یہ تمام بچتیں بھی قومی خزانے میں ڈال دی جائیں تو ۳ ہزار ارب ڈالر کا خسارہ باقی رہتا ہے۔ امریکی ٹریژری بلوں کی بیرون ملک فروخت بھی اب کوئی اچھا آپشن نہیں۔ بھارت اور روس کے مرکزی بینکوں نے بھی اب امریکی ٹریژری بلوں کے بجائے سونا خریدنا شروع کردیا ہے۔ بیرونی قرضوں کے حصول کی اب کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔ بھارت نے اسی ماہ ۲۰۰ میٹرک ٹن سونا عالمی منڈی سے خریدا ہے۔ روس کا مرکزی بینک سونے کے ذخائر کو دگنا کرنے کا خواہش مند ہے۔
اب ایک ہی آپشن رہ گیا ہے کہ مزید ڈالر چھاپے جائیں۔ اس آپشن پر عمل کی بھی اب زیادہ گنجائش نہیں رہی۔ امریکا اپنی گنجائش سے زیادہ زر چھاپ کر پھیلا چکا ہے۔ جن ممالک، اداروں اور افراد نے امریکی ٹریژری بل اور بونڈ خرید رکھے ہیں ان پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ اب ان کے پاس دو ہی راستے رہ گئے ہیں۔ پہلا راستہ یہ ہے کہ وہ امریکی بونڈ کو پکڑے رہیں اور اس کی قدر میں رفتہ رفتہ رونما ہوتی ہوئی کمی کو سدھارتے رہیں یا پھر سونے کی طرف جائیں اور ان بونڈز کی ویلیو کو اچانک ختم ہوتا ہوا دیکھ لیں۔
ایک بات طے ہے اور یہ کہ بیرونی قرض دہندگان اب ہمیں مزید قرضے نہیں دیں گے۔ دنیا بھر کے مرکزی بینک ڈالر کو معیار کی حیثیت سے ترک کرتے جارہے ہیں۔ اب کس ملک کے مرکزی بینک کی باری ہے؟ برازیل، جنوبی کوریا یا چلی؟ ان تینوں ممالک کے مرکزی بینک کے پاس سونا مجموعی زری مالیت کا ایک فیصد بھی نہیں۔
(بحوالہ: “www.thedailycrux.com”۔ ۲۱ فروری ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply