
یہ قصہ ہے امریکی جمہوریت کے ہاتھوں ہر سطح پر پیدا ہونے والی ’’ناطاقتی‘‘ کا۔ امریکی جمہوریت کے حوالے سے دنیا بھر میں طرح طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی جمہوریت اب ایک پُرتجسس حیوان ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تبدیلی کو یقینی بنانے والے ہر معاملے سے منہ موڑ لیا گیا ہے۔ کوئی سانحہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، کسی کے لیے ذرا بھی اہمیت نہیں رکھتا۔ سیاست دان چاہے جتنا بھی شور مچائیں، مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام چاہے کچھ بھی کہیں، جمود ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے وہی اب امریکا میں بھی ہو رہا ہے۔ متضاد اثرات کا قانون نافذ ہوچکا ہے۔ اب اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ کسی بھی معاملے میں جس قدر شور مچایا جاتا ہے تبدیلی کی گنجائش اُسی قدر کم ہوتی ہے۔ اور کبھی کبھی تو بالکل نہیں ہوتی۔ پرنالے جہاں گرتے تھے وہیں گرتے رہتے ہیں۔
کئی معاملات ایسے ہیں، جنہوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ امریکا میں اب کسی بھی حقیقی بڑی تبدیلی کی راہ ہموار کرنا آسان نہیں۔ بہت سے گروہوں کے مفادات جب آپس میں ٹکراتے ہیں تب کسی بھی حقیقی اور مثبت تبدیلی کی راہ مسدود ہو جاتی ہے یا کردی جاتی ہے۔ فیس بک اسکینڈل ہو یا افریقی نسل کے امریکیوں کو قتل کرنے کا معاملہ، بے حسی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدِ صدارت نے معاملات کو مزید الجھادیا ہے۔
عوام واقعی بھولے ہوتے ہیں۔ وہ حقائق کو ذہن نشین رکھے بغیر سوچتے اور خوش فہمیوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ عوام کا خیال تھا کہ پارک لینڈ، فلوریڈا کے اسکول میں شوٹنگ کے واقعے سے قوم ہل کر رہ جائے گی اور گن کنٹرول کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔ عوام کو امید تھی کہ اب پالیسی ساز جاگیں گے اور بہت کچھ بدل دیں گے۔ اُنہیں تو یہ توقع بھی تھی کہ اب سیاسی منظر نامہ بدل جائے گا اور سیاسی قوتیں بہت کچھ کرنے کا عزم لے کر میدان میں اتریں گی۔ کچھ نہ ہوا، کچھ بھی تو نہ بدلا۔ لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ وہ جو کچھ سوچ رہے تھے وہ محض خوش گمانی کا شاخسانہ تھا، اپنے دل کو تسلی دینے کے لیے کافی تھا۔
پٹز برگ کے یہودی معبد میں فائرنگ کا واقعہ بھی لوگوں کے دلوں کو یہ امید دلاگیا کہ اب شاید کچھ بدل جائے گا۔ اِس کے بعد سانٹا کلیریٹا ، کیلی فورنیا کے اسکول میں فائرنگ نے لوگوں کے دلوں میں امید جگائے گی کہ شاید اب گن کنٹرول کے حوالے سے حقیقی مطلوب اقدامات کیے جائیں گے۔ دانش کا تقاضا تو یہی تھا کہ پالیسی ساز بیدار ہوں، قومی قیادت اُٹھے اور کچھ کرے۔ ٹرمپ اور اُن کے ساتھیوں نے ان تمام واقعات کو ذہنی خلل کا نتیجہ قرار دے کر فائل کھلنے سے پہلے ہی بند کردی۔
مغربی دنیا نے ذہنی خلل والے بہت سے ممالک دیکھے ہیں مگر مغربی تاریخ میں اس حوالے سے امریکا سے بڑا ملک کوئی واقع نہ ہوا ہوگا۔ بڑھکوں اور سیاسی حقائق میں اِتنا واضح فرق کہیں اور نہیں رہا ہوگا۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ سبھی کچھ جعلی ہے۔ ری پبلکنز اس حقیقت کا سہارا لیتے ہوئے چل رہے ہیں کہ لوگ کچھ دنوں میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ عوام کے جذبات کی تسکین کے لیے اصلاحات کا راگ کچھ دیر کے لیے الاپا ضرور جاتا ہے، مگر ہوتا کچھ بھی نہیں۔ یا یوں کہیے کہ کچھ بھی ایسا نہیں کیا جاتا جو معاملات کو بہتری کی طرف لے جائے۔
ڈیموکریٹس کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی ایشو پر تھوڑا بہت شور تو مچاتے ہیں مگر اعتماد کا فقدان انہیں بھی کچھ دیر میں خاموش کردیتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ پہلے بھی اُنہوں نے بہت دعوے کیے مگر ڈلیور نہ کرسکے۔ لوگ اب ان کی کسی بات پر بھی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ ڈیموکریٹس میں اندرونی سطح پر غیر معمولی اختلافات اور تضادات پائے جاتے ہیں۔ سلیکون ویلی کی فرمز نے ڈیموکریٹس کو نوازا ہے۔ انٹرنیٹ کے نوگزے پیر ڈیموکریٹس کی امیدوں کا مرکز رہے ہیں۔ عالمگیر نرم قوت ہی کو ڈیموکریٹس سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔ سلیکون ویلی کی فرمز انسانی رویوں کے حوالے سے غیر معمولی کنٹرول کی حامی ہیں۔ وہ اس معاملے میں مختلف سطحوں پر بھرپور انداز سے کام کرتی ہیں۔
دل خراش حقیقت یہ ہے کہ امریکا میں پالیسی سازی اب سرکس جیسی ہوکر رہ گئی ہے۔ پالیسی کے نام پر صرف اچھل کود کی جارہی ہے۔ کسی بھی مسئلے کا کوئی پائیدار حل تلاش کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے نہ اس حوالے سے ولولہ ہی پایا جاتا ہے۔ فیس بک کے بانی ایگزیکٹیو مارک زکر برگ نے کانگریس میں جو بیان دیا ہے وہ اس امرکا منہ بولتا ثبوت ہے کہ امریکا میں جمود نے گھر کرلیا ہے، اب کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ خیال کیا جارہا تھا کہ فیس بک کو زنجیر پہنائی جائے گی، اُس کے اثرات کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے کوئی واقعی ٹھوس اقدام کیا جائے گا مگر ایسا کچھ بھی تو نہ ہوا۔ ری پبلکنز کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ فیس بک کے اثرات کتنے وسیع اور گہرے ہیں۔ اُنہوں نے فیس بک کو انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی تبلیغ و اشاعت کے حوالے سے آلۂ کار بنانے پر توجہ دی ہے۔
کوئی کتنے ہی دعوے کرے، کچھ بھی کہتا پھرے، حقیقت یہ ہے کہ امریکا وہ ملک ہے جہاں جمہوریت بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ ری پبلکنز نے اب محض کور اپ آرٹسٹس کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر اپنے مفادات کا ہر حال میں تحفظ چاہتا ہے اور ری پبلکنز اس حوالے سے اُس کی بھرپور خدمت کر رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ گرینڈ اولڈ پارٹی اب کارپوریٹ سیکٹر کے مفادات کی نگران و محافظ بن بیٹھی ہے۔ امریکا میں ایک ایسی قوم پروان چڑھ رہی ہے، جو مستقل نوعیت کی ناطاقتی سے دوچار ہے۔
ایک زمانے سے امریکا میں بہبودِ عامہ کے حوالے سے انقلابی نوعیت کے اقدامات کیے جانے کا غلغلہ ہے۔ اس حوالے سے سوچا بہت کچھ جاتا ہے مگر کیا کچھ بھی نہیں جاتا۔ براک اوباما کے دور میں صحتِ عامہ کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے طرح طرح کے دعوے کیے گئے مگر ہوا کیا؟ وہی ڈھاک کے تین پات۔ آج حالت یہ ہے کہ اگر امریکا میں عوام کی بہبود سے متعلق کوئی بڑا کام ہوجائے تو اُسے محض اتفاق ہی سمجھا جانا چاہیے۔ بہبودِ عامہ کا کوئی بھی کام اب سنجیدہ پالیسی سازی کا نتیجہ نہیں ہوسکتا۔
امریکی قیادت اور پالیسی سازی میں جو خامیاں اور کمزوریاں پائی جاتی تھیں، وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد کے بعد دوچند ہوگئیں۔ امریکیوں نے دیکھ لیا ہے کہ ٹرمپ اور اُن کی ٹیم نے ہر معاملے کو گرفت میں لے رکھا ہے۔ ٹرمپ نے ایوانِ صدر میں سارا وقت عوام کے جبلّی تقاضوں کو کچلنے اور اپنے کاروباری مفادات کو زیادہ سے زیادہ محفوظ کرنے پر صَرف کیا ہے۔ کانگریس میں ری پبلکنز اس امر کو یقینی بنانے کے لیے فعال رہتے ہیں کہ کوئی بھی کسی بھی معاملے میں ٹرمپ کو نہ روکے۔ اور یہی امریکا کی حقیقی ناطاقتی ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The American Impotence”.(“The Globalist”. Nov. 16, 2019)
Leave a Reply