
مقبوضہ جموں و کشمیر میں نئی نسل شدید مشتعل دکھائی دیتی ہے۔ والدین جوان اولاد کو سڑکوں پر آنے سے روکنا چاہتے ہیں مگر ایسا کرنے میں وہ کامیاب نہیں ہو پارہے۔ نئی نسل میں اشتعال غضب ناک حد تک ہے۔ اُسے بظاہر والدین کا خیال ہے نہ سیکورٹی فورسز کا خوف۔ اور یہ سب کچھ بلا سبب نہیں۔ بہت کچھ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
عاطف حسن کی عمر ۳۱ سال ہے۔ اس پر ۴۴ مقدمات ہیں۔ بیشتر میں اُس کی ضمانت ہوچکی ہے اور وہ بظاہر نارمل زندگی بسر کر رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں کچھ بھی نارمل نہیں۔ عاطف کشمیریوں کی نئی نسل کا حصہ ہے جو آزادی کے نام پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں۔ پولیس، نیم فوجی دستوں اور دیگر ریاستی قوتوں سے ٹکرانے کا عزم کمزور نہیں پڑ رہا۔ جن کے پاس ہتھیار ہیں وہ ہتھیاروں سے لڑ رہے ہیں اور جن کے پاس ہتھیار نہیں انہوں نے اینٹ اور پتھر ہی کو ہتھیار میں تبدیل کرلیا ہے۔
عاطف نے ۲۰۰۶ء میں وولر جھیل میں نیوی کی کشتی ڈوبنے سے اسکول کے ۱۶ بچوں کی ہلاکت پر احتجاج سے اپنی جدوجہد کی ابتدا کی۔ اسے گرفتار بھی کیا گیا اور مقدمات بھی درج کیے گئے۔ اس کے بعد سے وہ ۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۶ء میں احتجاجی تحریک کا حصہ رہا ہے۔ اس کے والد ریٹائرڈ فاریسٹ افسر اور والدہ ریٹائرڈ اسسٹنٹ میٹرن ہیں۔ وہ دونوں چاہتے ہیں کہ عاطف آزادی کے حق میں نعرے لگانے والوں سے الگ ہوجائے اور اپنے گھر پر توجہ دے۔ بیٹے کو احتجاج کرنے اور آزادی کے لیے نعرے لگانے والوں سے دور کرنے کی خاطر انہوں نے ۲۰۰۹ء میں اس کی شادی کردی۔ عاطف کی ایک بیٹی ہے اور اب وہ خیر سے پانچ سال کی ہوچکی ہے۔
عاطف کہتا ہے کہ حالات بدل چکے ہیں۔ مجھ پر گھر کی ذمہ داری بھی ہے مگر اس کے باوجود میں اپنے فرض سے غافل نہیں ہوں۔ میں بعض معاملات میں کمزور ضرور پڑ جاتا ہوں مگر اب بھی آزادی کے لیے کچھ کر گزرنے کی لگن مجھ میں زندہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے یعنی انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جانا چاہیے۔ اس سے کم کچھ بھی ملنے سے تشفی نہیں ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ جو سیاسی طور پر باشعور ہو وہ صورتِ حال کی نزاکت اور خرابی دیکھتے ہوئے کس طور نچلا بیٹھا رہے گا، احتجاج نہیں کرے گا؟
عاطف کے والد بھی جوانی میں ریاستی جبر کے خلاف احتجاج کرنے کی پاداش میں تین سال جیل میں رہ چکے ہیں۔ ایسے میں یہ کس طور ممکن ہے کہ عاطف میں بھی وہی جذبات پیدا نہ ہوں جو اُس کے والد میں پائے جاتے تھے؟ عاطف کہتا ہے کہ والدین بظاہر مجھے احتجاج سے روکنا نہیں چاہتے مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ مجھے کھونا بھی نہیں چاہتے۔ ان کی خواہش ہے کہ میں زندہ اور خیریت سے رہوں۔ عاطف پنج وقتہ نمازی ہے مگر وہ کشمیر میں خلافت قائم ہوتی نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس کا موقف یہ ہے کہ اگر کشمیر کی آزادی کے لیے کوئی غیر مسلم بھی ساتھ آنا چاہے تو اُسے بخوشی قبول کیا جائے گا۔
کلگام کا ایک ۱۹؍ سالہ نوجوان کہتا ہے کہ ’’ہم نے پتھر اس لیے اٹھائے ہیں کہ ہتھیار کم ہیں۔ ۱۹۹۰ء کا عشرہ ہوتا تو میں بھی ہتھیار اٹھاکر حریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہوچکا ہوتا۔ یہ سب کچھ ہم اسلام کے نام پر کر رہے ہیں۔ ایسی آزادی کس کام کی جو اسلام کی خاطر نہ ہو؟ میرے والدین ان ساری باتوں کے خلاف ہیں، ڈھلتی ہوئی عمر نے انہیں کمزور کردیا ہے۔ حریت قیادت بھی بوڑھی اور ڈرپوک ہوچکی ہے‘‘۔
جب یہ نوجوان اور اس کے ساتھی چلے گئے تو چائے خانے میں موجود ایک معمر شخص نے کہا ’’یہ لوگ اسلام کی بات کر رہے ہیں مگر انہیں کچھ معلوم بھی ہے کہ اسلام کیا ہے؟ اور اگر اسلام ہی کا معاملہ ہے تو یہ مساجد کا رخ کیوں نہیں کرتے؟ سچ تو یہ ہے کہ انہیں اسلام کے بارے میں بنیادی باتیں بھی معلوم نہیں۔ آج ان میں اشتعال بھرا ہوا ہے۔ انہیں کچھ بھی اندازہ نہیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ یہ مکمل طور پر سیاسی جدوجہد ہے جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اس کا احساس بھی ہوتا چلا جائے گا‘‘۔
کلگام کے علاقے ریڈ وانی میں ایک ۲۳ سالہ نوجوان سڑک کے کنارے بیٹھا ہے۔ وہ بھی پتھراؤ کرنے والوں میں شامل ہے۔ اب اس کی شادی کردی گئی ہے اور اس کی ایک بیٹی بھی ہے۔ مگر اس کے اندر کشمیر کے لیے کچھ کر گزرنے کی آگ بجھی نہیں۔ گھر کی ذمہ داریوں نے اُسے پریشان ضرور کر رکھا ہے مگر وہ چاہتا ہے کہ احتجاج میں شریک ہو اور آزادی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرے۔ وہ کہتا ہے کہ بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر ۲۳ مقدمات ہیں۔ وہ اب بھی تحریکِ حریت میں بھرپور حصہ لینا چاہتا ہے مگر ایسا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ بیوی اور بیٹی پاؤں کی زنجیر بن چکی ہیں۔ یہ نوجوان کہتا ہے ’’حالات بدلے ہیں مگر میرے خیالات نہیں بدلے۔ میں بعض معاملات میں مجبور ہوں مگر اب بھی آزادی کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ جوان ہے۔ میرے والدین پوچھتے ہیں کہ چند سو نوجوان ہتھیار اٹھاکر کیا کرلیں گے؟ میں ان سے کہ کہتا ہوں کہ اتنا تو ہے کہ آج کی نسل بہادر ہے، بے خوف ہے۔ یہ کیا کم ہے آج کی کشمیری نسل کل کی نسل کی طرح بزدل نہیں؟ لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ کشمیریوں کی نئی نسل میں اس قدر اشتعال کیوں ہے؟ سوال یہ ہے کہ اس قدر اشتعال کیوں نہ ہو؟ اس نسل نے المیے پر المیہ سہا ہے، تدفین پر تدفین دیکھی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ اور جھیل کر اس میں اشتعال پیدا نہیں ہوگا تو اور کیا پیدا ہوگا؟ بہت سے نوجوانوں کے نزدیک عسکریت پسند بن جانا بھی آزادی حاصل کرچکنے کے مترادف ہے۔
سری نگر میں ایک ۴۷ سالہ سرکاری ملازم چاہتا ہے کہ اس کا ۱۷ سالہ بیٹا حریت پسندوں اور احتجاج کرنے والوں سے دور رہے۔ اس شخص کے دو بھائی ۱۹۹۰ء کے عشرے میں چلنے والی تحریکِ آزادی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اب اس کا جوان بیٹا پوچھتا ہے کہ اُن دونوں کی موت کا بدلہ کیوں نہیں لیا گیا۔ یہ ۴۷ سالہ سرکاری ملازم ایک روز اسکوٹر پر سری نگر میں کسی علاقے سے گزر رہا تھا تو اس نے اپنے بیٹے کو اُس کے چند دوستوں کے ساتھ پولیس پر پتھراؤ کرتے دیکھا۔ وہ سہم گیا اور بیٹے کو روکنے کے بجائے جلدی جلدی گھر پہنچا۔ جب بیٹا گھر پہنچا تو اس نے پتھراؤ کے بارے میں پوچھا۔ بیٹے نے بتایا کہ وہ تو ڈیڑھ سال سے یہ سب کچھ کر رہا ہے! ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ گزری ہوئی نسل بزدل تھی، وہ نہیں۔ اور یہ انتباہ بھی کیا کہ اگر اُسے پتھراؤ کرنے سے روکا گیا تو وہ ہتھیار اٹھالے گا! یہ شخص بتاتا ہے کہ وہ اب بیٹے سے زیادہ بات نہیں کرتا۔ اُسے یہ ڈر ہے کہ کہیں بیٹا گھر سے بھاگ کر عسکریت پسندوں سے نہ جا ملے۔
کشمیر میں ایک بڑا مخمصہ یہ ہے کہ والدین اپنی جوان اولاد کو احتجاج سے روکنا چاہتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ انہیں یہ بھی اندازہ ہے کہ ان کی اولاد جو کچھ کر رہی ہے وہ غلط نہیں! ڈھائی تین عشروں کے دوران ریاستی اداروں نے جموں و کشمیر میں جو کھیل کھیلا ہے وہ اب نئی نسل کو انتہائی مشتعل کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ بپھری ہوئی نسل بہت کچھ کرنا چاہتی ہے۔ والدین اگر جلدی شادی بھی کردیں تو ان کا غصہ سرد نہیں پڑتا۔ انہیں والدین کا کچھ خیال ہے نہ ریاستی قوتوں یعنی سیکورٹی فورسز کا کوئی خوف دامن گیر ہے۔ انہوں نے سفاکی اور درندگی اس قدر دیکھی ہے کہ اب کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں۔ والدین بھی پریشان ہیں کہ اولاد کو ایک جائز کاز سے کیسے روکیں؟
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The new hardline in the Valley: The angry young Kashmiri, not deterred by parents or police cases”. (“Indian Express”. June 9, 2017)
Leave a Reply