
اس مضمون کا ماخذصہیونیت مخالف یہودیوں کی چند سائٹس ہیں جو صہیونزم کے خلاف صدائے استغاثہ بلند کیے ہوئے ہیں۔ اکثر و بیشتر یہ تنظیمیں صہیونیت اور صہیونی ریاست یعنی اسرائیل کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتی رہتی ہیں۔ ان تنظیموں کا تازہ ترین اقدام غزہ جانے والے انسانی حقوق کے وفد میں شرکت ہے۔یہ تنظیمیں صہیونیت کے یہودی چہرہ پر سے نقاب کشائی کرنے میں سرگرم ہیں۔ان سائٹس پر صہیونیوں کی تاریخ، ان کا یہودیت کے لیے کرداراور ہولو کاسٹ میں ان کا حصہ دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ،جو حقائق سے شغف رکھنے والے قارئین کے لیے انتہائی اہم ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے ۔میں نے اس مضمون میں کوشش کی ہے کہ یہودیوں اور صہیونیوں کے اختلافات کو واضح کروں تاکہ ان دونوں گروہوں کے درمیان پائی جانے والی خلیج اور فرق کا اندازہ ہو سکے ۔یہ امر پیش نظر رہے کہ مضمون میں پیش کیے گئے مطالب خود یہودیوں کے افکار کی غمازی کرتے ہیں۔ ابتدا میں چند ایک باتوں کی وضاحت انتہائی ضروری ہے ۔
یہودی کون :
یہودی ہزاروں سال پرانی قوم ہے،جو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر ایمان رکھتی ہے ۔اس قوم کا اپنا ایک مخصوص مزاج ہے اور توریت ان کے اس مزاج کا ماخذ ہے۔یہودیوں کے بقول توریت اور اس پر ایمان کے بغیر یہودیت کا کوئی وجود نہیں۔دنیا میں بسنے والے اکثر غیر صہیونی یہودی اپنی زندگی کا مقصد الہی خدمت بتاتے ہیں۔یہودی اس نظریہ کے قائل ہیں کہ خدا نے ان سے عہد لیا ہے کہ وہ ایک مخصوص وقت تک حکومت نہیں بنائیں گے اور نہ ہی یروشلم کو بزور طاقت حاصل کریں گے یہی وہ بنیادی اختلاف ہے جو یہودیوں اور صہیونیوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ان یہودیوں کو آرتھوڈاکس کے نام سے جانا جاتا ہے ۔یہ یہودی اسرائیل کے وجود کے مخالف ہیں اور اسی طرح صہیونی پالیسیوں کو غیر یہودی ثابت کرنے کے درپے رہتے ہیں۔
صہیونیت کیا ہے:
صہیونیت در حقیقت لفظ صہیون سے اخذ کردہ ہے صہیون یروشلم کے قریب واقع ایک پہاڑی کا نام ہے بعد ازاں پورے یروشلم کو صہیون کہا جانے لگا ۔صہیونیت کا بانی تھیروڈ ہرٹزل ایک صحافی تھا۔صہیونیت کی ابتدا کا اصل سبب یورپ اور روس میں سامی نسل کی مخالفت تھی۔ اسی مخالفت کو کم کرنے کے لیے کچھ سیکولر یہودیوں نے اس سیاسی تحریک کا آغاز کیا اور ایک یہودی ریاست کو اس مسئلہ کا حل قرار دیا۔اس ریاست کے وجود کے لیے وہ تاریخی اور مذہبی حوالوں کا سہارا لیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل بائبل کے مطابق یہودیوں کا مسکن تھا۔ ان یہودیوں کو رومن افواج نے فلسطین کے علاقے سے بے دخل کیا اور اب دوبارہ ان علاقوں میں یہودیوں کی آبادکاری ان کا حق ہے ۔اسی مقصد کے لیے صہیونیوں نے یہودیوں کی حقیقی ترتیب و ساخت کو نئے سرے سے وضع کیا، جو کہ ان کے سابقہ مزاج سے کاملاً مختلف تھی ۔صہیونی دنیا ایک مادی دنیا ہے۔ان کی نجات اسی میں ہے کہ یہ ایک ریاست اور فوج قائم کریں۔صہیونیوں اور صہیونی ریاست کے سربراہان کے نزدیک یہودی افراد کی فطرت اور کردار کو بدل کراور ان کی سوچ کے زاویہ کی تبدیلی کے ذریعہ وہ اسرائیلی ریاست کو ان کے لیے راہ نجات کے طور پر پیش کر سکتے ہیں ۔
دنیا کے یہودی چار وجوہات کی بنا پر اس نظریہ ریاست کے خلاف ہیں۔
پہلی وجہ اس نظریہ ریاست کا حقیقی یہودی تعلیمات کے خلاف ہوناہے۔کیونکہ یہودیوں کو ریاست کے قیام کی اجازت دو ہزار سال قبل دی گئی جبکہ خدا کی عنایات ان کے ساتھ تھیںاور اسی طرح مستقبل میں اس ریاست کے قیام کی اجازت ہوگی جب خالق کی عنایات ان کے ساتھ ہوں گی اور اس ریاست کی بنیاد الہی خدمات پر ہوگی، اس ریاست کے حصول کے لیے کسی قسم کی انسانی حکمت عملی یا فوجی قوت کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔
دوسری اقوام کی مانند دنیاوی ریاست کا قیام حقیقی یہودی ماخذ کے خلاف ہے۔جو شخص بھی اسرائیل کو یہودیوں کی حقیقی نجات قرار دیتا ہے وہ دنیاوی نجات کا قائل ہے اسی سبب سے وہ ایک مادی ریاست کے قیام کو راہ نجات قرار دیتا ہے۔ اس ریاست کے حصول کے لیے کیے جانے والے اقدامات بھی مادی اور دنیاوی نوعیت کے ہیں۔یہودیوں کی حقیقی نجات خالق سے قرب میں ہے زمین اور فوج کے حصول میں نہیں۔
دوسری وجہ توریت کے وہ احکامات ہیں جن میں یہودیوں کو الٰہی نمائندہ کی آمد سے پہلے ریاست کے قیام اور فوج کی تشکیل سے منع کیا گیا ہے، چاہے اس ریاست کا انتظام توریت کے تعلیم کردہ قوانین کے مطابق ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ وایول موسح میں لکھا ہے:
’’اور روح القدس (اس پر رحمتیں نازل ہوں) نے ہم کو تنبیہہ کی ہے کہ اگر ہم نے اس ہدایت سے تجاوز کیا تو وہ ہمیں دردناک عذاب میں مبتلا کر دے گا۔‘‘
تیسرے یہ کہ صہیونیوں نے جلاوطنی میں بغاوت کرتے ہوئے نہ صرف تورات کی نفی کی ہے بلکہ ان کے تمام تر معاملات تورات کی صریح نفی کرتے ہیں اور ہمارے عقیدے کے مطابق تورات الٰہی کتاب ہے اور جو بھی تورات پر عمل کرے گا اس کے لیے انعام ہے اور جو تورات کی مخالفت کرے گا خدا اس پر عذاب نازل کرے گا۔
چوتھے یہ کہ صہیونی تورات کی مخالفت کرنے کے ساتھ ان تمام لوگوں کو اس کی مخالفت پر اکساتے ہیں جو ان کے دائرہ اختیار میں آتے ہیںکہ وہ تورات کے احکامات کی مخالفت کریں۔ان کا آزادیٔ مذہب کا نعرہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔
صہیونیت کی ابتدا سے ہی کئی یہودی راہبوں نے عوام اور خواص کو اس کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا ۔انہوں نے سب کو بتایا کہ وہ صہیونیت سے ایسے ہی دور رہیں جیسا کہ وہ آگ سے دور رہتے ہیں۔ان کا پیغام تھا کہ صہیونیت وطن پرست اور نسل پرست تحریک ہے جس کا یہودیت سے دور دور کا واسطہ نہیں۔ راہبوں نے عوامی سطح پر اس خدشے کا اظہار کیا کہ صہیونیت کے اثرات یہودیوں اور یہودی مذہب کے لیے انتہائی مضر ہوں گے ۔صہیونیت کے سبب یہودیوں کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا اور یہودی اور غیر یہودی طبقات کے درمیان تمیز مشکل ہو جائے گی۔ یہودیت ایک مذہب ہے نہ کہ ایک نسل اس سلسلے میں راہبوں کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
راہب کہتے ہیںکہ خدا نے ہمیں مقدس سرزمین سے نوازا تاکہ ہم توریت کے احکامات پر عمل کریں اور وہ اخلاص حاصل کریں جو مقدس سر زمین سے باہر ممکن نہ تھاہم نے ان اختیارات سے تجاوز کیا اور ہمیں مقدس سر زمین سے بے دخل کر دیا گیا۔ وہ اس کے ثبوت کے طور پر ان الفاظ کا ذکر کرتے ہیں جو یہودی ہر تہوار کے موقع پر اپنی دعائوں میں کہتے ہیں کہ :
’’ہمارے گناہوں کے سبب خدا نے ہم کو مقدس زمین سے بے دخل کیا۔‘‘
جیسا کہ تلمود میں ہے جس کا یہودیوں سے خدا نے عہد لیا تھا:
’’ وقت معین سے پہلے ایک جماعت کی صورت میں ارض مقدس میں داخل نہیں ہوں گے۔قوموں کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے۔وفادار شہری بن کر رہیں گے ،کسی قوم سے انتقام نہیں لیں گے، کسی سے ہرجانہ نہیں مانگیں گے۔ وقت معین سے پہلے جلاوطنی ختم نہیں کریں گے۔‘‘
اس کے برعکس یہودیوں کو تنبیہہ کی گئی تھی کہ اگر انہوں نے اس عہد کی خلاف ورزی کی تو :
’’ان کا گوشت ہرن اور جنگل کے آہوکی مانند قابل شکار بنا دیا جائے گا اور ان کی نجات میں تاخیر ہو جائے گی‘‘(تلمود تراکتیت قسوبوس ص۱۱۱)
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ صہیونیت کے بانیان نے نہ تو کبھی یہودی قوانین کو پڑھا اور نہ ہی مذہبی روایات پر ایمان لائے۔انہوں نے علی الاعلان راہبوں کی عملداری کو چیلنج کیا اور بزعم خود یہودی قوم کے راہنما بن بیٹھے۔یہودی تاریخ میں اس قسم کے اقدامات ہمیشہ بربادی لائے۔
عظیم راہب جویل ٹیٹل بائوم جو یہودی مذہب کی عمیق سمجھ بوجھ رکھتے تھے نے کسی لگی لپٹی کے بغیر صہیونیت کو ’’عمل شیطان ‘‘،’’دینی مقدسات پر ڈاکہ ‘‘اور ’’کلمہ کفر‘‘ سے تعبیر کیا ۔انہوں نے صہیونیت سے کسی بھی قسم کے تعلق کوعذاب خدا کودعوت دینے کے مترادف قرار دیا۔وہ اپنے اس موقف پر اپنی موت تک قائم رہے۔ان کے مطابق ہولوکاسٹ صہیونیت کا براہ راست نتیجہ تھا جو خدا کی طرف سے ایک عذاب تھا۔
صہیونیت نے جلتی پر تیل ڈالا اور اس وقت کے ملک الموت ہٹلر کو مزید ابھارا۔ انہوں نے آزادیٔ اظہار کا سہارا لیتے ہوئے اپنے آپ کو یہودیت کا نمائندہ قرار دیا۔ان کو کن لوگوں نے یہودیت کے نمائندے کے طور پر چُنا؟ وہ کون سے سیاستدان تھے جنہوں نے ۱۹۳۳ء میں انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے جرمنی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ اس بائیکاٹ نے جرمنی کو اسی طرح تکلیف پہنچائی جیسے ایک بھڑ ہاتھی کو تکلیف پہنچاتی ہے مگر اس کے اثرات یورپ کے تمام یہودیوں کو بھگتنے پڑے۔ اس وقت امریکا اور برطانیہ ہٹلر سے امن معاہدہ کیے ہوئے تھے اور ان سیاستدانوں نے اپنے بائیکاٹ کے ذریعہ جرمن رہنما کو دماغی انتشار میں مبتلا کر دیا اور اس طرح نسل کشی کی ابتدا ہوئی۔ تاہم یہ صہیونی جن کا انسانی نسل میں سے قرار دیا جانا بھی درست نہیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ رہے۔
۶ تا ۱۵ جولائی ۱۹۳۸ کو صدر روز ویلیٹ نے یہودی مہاجرین کے مسئلہ کے حل کے لیے ایوین کانفرنس بلوائی جیوش ایجنسی کے وفد جس کی سربراہی گولڈا مئیر (میریسن) کر رہے تھے، نے جرمنی کی اس پیشکش کو کوئی اہمیت نہ دی جس کے مطابق ہریہودی ۲۵۰ ڈالر کے عوض کسی دوسرے ملک میںہجرت کر سکتا تھا،اور صہیونیوں نے امریکی صدر اور دیگر ۳۲ ممالک جو اس کانفرنس میں شریک تھے پر کوئی دبائو نہ ڈالا کہ وہ یہودیوں کی جرمنی اور آسٹریا سے ہجرت کے اس معاہدے کو قبول کر لیں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ۱۹۴۱ اور دوبارہ ۱۹۴۲ میں جرمن حکام نے یورپی یہودیوں کو اسپین کی طرف چلے جانے کی پیشکش کی اس شرط پر کہ وہ جرمنی اور فرانس میں اپنی تمام تر جائدادوں سے دست بردار ہو جائیںاوریہ کہ :
۱۔کوئی بھی تارک وطن اسپین سے فلسطین نہیں جائے گا۔
۲۔تمام تارکین اسپین سے امریکا اور برطانیہ کی کالونیوں میں جا سکیں گے۔
۳۔ ہر خاندان کو ایک ہزار ڈالر ہرجانہ اسپین کی سرحد پر ادا کیا جائے گا۔
سوئٹزرلینڈ اور ترکی کے صہیونی رہنمائوں کو واضح طور پر معلوم تھا کہ یہ پیشکش جرمن حکام اور مفتیوں کے درمیان ایک معاہدے کے تحت پیش کی گئی ہے۔ جواباً صہیونی رہنمائوں نے درج ذیل بیانات کے ساتھ اس پیشکش کو رد کر دیا:
۱۔فلسطین ہی ان تارکین کی اصل منزل ہے۔
۲۔یورپی یہود کو دوسری قوموںکے مقابلے میںزیادہ مصائب اور موت کا سامنا کرنا ہو گا تاکہ اتحادیوں کے جنگ جیتنے کی صورت میں وہ آسانی سے یہودی ریاست کے قیام پر آمادہ ہو جائیں۔
۳۔کسی کو کوئی ہرجانہ ادا نہیں کیا جائے گا۔
اس پیشکش کو یہ جانتے ہوئے ٹھکرایا گیا کہ اس کا نتیجہ گیس چیمبرز ہوں گے۔ان خائن صہیونیوں نے اپنے ہی خون کے ساتھ خیانت کی۔
۱۹۴۴ میں ہونے والی ہنگری کی جلاوطنی کے دوران بھی اسی قسم کی پیشکش کی گئی ۔جس کے سبب ہنگری کے یہودیوں کو بچایا جا سکتا تھااور انہی صہیونیوں نے اس پیشکش کو بھی رد کردیا جبکہ گیس چیمبر کے ذریعہ اموات کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔
اسی طرح برطانوی حکومت نے ۳۰۰ راہبوں اور ان کے خاندانوں کو اپنی کالونی موریطانیہ کا ویزہ دیا ،صہیونیوں نے اس منصوبے کو بھی ناکام کر دیا اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ یہ منصوبہ چونکہ فلسطین سے بغاوت ہے اس لیے ان ۳۰۰ راہبوں کو گیس چیمبرز کا لقمہ بن جانا چاہیے۔
۱۷ دسمبر ۱۹۴۲ کو برطانوی پارلیمان کے دونوں ہائوس اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ وہ خطرے میں گھرے خاندانوں کو عارضی پناہ دیں گے ۔برطانوی پارلیمنٹ نے یہ پیشکش کی کہ یورپ میں آباد پانچ لاکھ یہودیوں کو وہ اپنی کالونیوں میں دوبارہ آباد کرے گا، جس کے پس پردہ برطانوی پارلیمنٹ اور جرمن حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت تھی،اس قرارداد کو ایک ہفتے میں ۲۷۷ ممبران پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہو گئی ۔تاہم ۲۷ جنوری کو جب اگلا قدم اٹھانے کا وقت آیا تو صہیونی ترجمان نے یہ اعلان کیا کہ ہم اس قرارداد کی مخالفت کریں گے کیوں کہ اس میں فلسطین کا ذکر نہیں آیا۔
مذاکرات کے دوران صہیونی سیاست دان چیم وائزمین نے کہا :
’’یہودی قوم کا اہم ترین حصہ پہلے ہی فلسطین میں ہے اور وہ یہودی جو فلسطین سے باہر ہیں کوئی اہمیت نہیں رکھتے‘‘
تاریخ کی بدترین حقیقت یہ ہے کہ ان صہیونی سیاست دانوں نے لوگوں کو پناہ گزین کیمپوں میں بلایا اور بھوک اور افلاس کے مارے ان لوگوں کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ فلسطین کے علاوہ کسی اور ملک میں آباد کاری پر آمادہ نہ ہوں تاکہ یہ لوگ وہاں اپنی ریاست قائم کر سکیں۔
جب جرمن حکام نے جنگ کے آخری ادوار میں مغربی ریاستوں کو یہ پیشکش کی کہ وہ پیسے کے بدلے ان یہودیوں کو بچا سکتے ہیں کیوں کہ وہ یہ جانتے تھے کہ مغربی حکومتوں پر یہودی کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں تو کوئی بھی یہ سوال کر سکتا ہے کہ ان خود ساختہ صہیونی راہنمائوں نے اپنے بھائیوں کو بچانے کے لیے کون سے اقدامات کیے۔
۲۳ فروری ۱۹۵۶ کو کینیڈا کے وزیر برائے مہاجرین سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آیا یہودی پناہ گزینوں کے لیے آپ کینیڈاکے دروازے کھولیں گے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہماری حکومت نے اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کی کیوں کہ اسرائیلی حکومت نہیں چاہتی کہ ہم ایسا کریں۔
ان صہیونی سیاستدانوں نے لوگوں کو اس چیز پر ابھارا کہ وہ تورات اور اس کے احکامات کے بجائے اس بدمعاش کی تعظیم کریں جس نے صہیونیت کی بنیاد رکھی۔
مرکزی راہب کونسل برائے امریکا و کینیڈا کی پکار:
جب سے سرزمین مقدس کی ملحد حکومت میں تبدیلیاں کی گئی ہیںاس وقت سے شکوک و شبہات کی ایک فضا قائم ہو گئی ہے۔حتیٰ کہ وہ افراد جنہوں نے مقدس سرزمین میں اور جلاوطنی کے دوران توریت پر ایمان رکھا وہ بھی اس نئے گروہ کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ خدا کی جانب کلمہ کفر کا بہتان کس قدر خوفناک ہے۔
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم آگاہ کریں کہ توریت کے مطابق اس گروہ (صہیونیوں) میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ہم سے تین مرتبہ عہد لیا گیا تھا کہ ہم سرزمین مقدس میں طاقت کے ساتھ داخل نہیں ہوں گے ،اور جن ممالک میں ہم قیام پذیر ہوں گے ان کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے اور اپنے گناہوں کے سبب Moshiach کے ظہور میں تاخیر نہیں کریں گے جیسا کہ’’ تراکتیت کیسووس ۱۱۱‘‘ میں درج ہے۔
انتہائی افسوس کے ساتھ اس حقیقت کا اقرار کیا جاتا ہے کہ ملحد صہیونی نظریات توریت کے ماننے والوں میں سرایت کر رہے ہیں۔ہمارے آباو اجداد اور راہبوں نے صہیونیت کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور اگر ہم اس وقت خاموش رہے تو خدانخواستہ یہ گروہ حقیقی یہودیوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
اے ہمارے بھائیوجو مقدس سر زمین میں رہتے ہو خاموشی اختیار مت کرو۔ان صہیونیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کروتم وہاں سے اور ہم یہاں سے اپنی آواز بلند کریں اور تمام دنیا کو بتا دیں کہ ہم ہر نسل میں روایتی طور پر مقدس زنجیر کے اٹھانے والے ہیں۔ہم اس ملحد صہیونی گروہ جو اسرائیل پر قابض ہے کے ساتھ شامل ہونے کو برا سمجھتے ہیں۔ ہم عوامی سطح پر اپنا موقف جو توریت کا موقف ہے کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ Moshiach کی آمد سے قبل اسرائیل میں کسی قسم کی حکومت توریت کی خلاف ورزی اور اس کے احکام سے بغاوت ہے ۔
(ماخذ: Jewsnotzionist.org)
Leave a Reply