ولادی میر پیوٹن نے بتیس منٹ کی جو دھماکا خیزتقریر حال ہی میں میونخ کی ایک سلامتی کانفرنس میں کی، تاریخ میں بہت معنی خیز سمجھی جائے گی۔ روسی صدر نے کہاکہ ’’بے قابو‘‘ امریکی جارحیت نے ایک ایسی دنیا تشکیل دی ہے جہاں ’’کوئی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا‘‘ اور جہاں دوسری اقوام اپنے دفاع کے لیے ایٹمی ہتھیار بنانے پر اپنے آپ کو مجبور سمجھنے لگی ہیں۔ امریکی سیکرٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے اس بات کو یہ کہہ کر مذاق میں اڑانا چاہا کہ ’’پرانے سرد جنگ کے سپاہی کی حیثیت سے ان کی تقریر نے مجھے پرانی یادوں سے بھر دیا‘‘ اور پھر وہ شراکت اور اچھے تعلقات کے لیے واشنگٹن کی ترجیحات کی دلالی کرنے لگے۔
پیوٹن نے جو پیغام پہنچایا اور وائٹ ہائوس نے اسے بہت واضح طور پر سُنا۔ اسے سمجھنے میں غلطی نہیں کرنی چاہیے وہ پیغام کچھ یوں ہے، ۹۰ کی دہائی میں امریکا نے ہمیں ایک آسان ہدف سمجھا۔ NATO کے پھیلائو کے سلسلے میں ہم نے آپ سے ہمارے قومی مفاد کا دھیان رکھنے کے لیے کہا۔ آپ نے مشرقی یورپ میں موجود سابق روسی ریاستوں میں مزید پیش قدمی کرکے اس کا جواب دیا۔ آپ نے توانائی کی شراکت کی بات کی، تاہم ایسی پائپ لائنیں بچھائیں جو ہماری ریاست کو نظرانداز کرتے ہوئے گزریں۔ ہماری معاشی مشکلات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مغربی کمپنیوں نے ہمارے قدرتی وسائل تک بہت کم شرح پر رسائی حاصل کی۔
ہم نے آپ سے اینٹی بلاسٹک میزائل کے معاہدے کا احترام کرنے کی درخواست کی، آپ نے اسے تباہ کر دیا۔ آپ ہم سے توقع کرتے ہیں کہ ہم خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہیں جبکہ آپ یوکرائن، جارجیا، بیلارس اور وسطی ایشیا میں مشکلات پیدا کریں۔ یہ وہ زمین ہے جو جب سے روسی حلقہ اثر میں ہے جبکہ امریکا کا وجود بھی نہ تھا۔ آپ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری مدد مانگی جبکہ چیچن دہشت گردوں خلاف ہماری لڑائی کی مذمت کی۔ اب آپ وسطی ایشیا میں میزائلوں کادفاعی نظام صف آرا کرنا چاہتے ہیں۔ ہاں! ہم امریکا کے ساتھ دوستی کے خواہش مند ہیں مگر ہمارا روس ایک نیاروس ہے۔ اگر آپ ہمارے ساتھ بدتہذیبی کے ساتھ پیش آئیں گے تو آپ کو پتا چل جائے گا کہ ہمیں بھی ’’نہیں‘‘ کہنا آتاہے۔
یہ تمام جمع شدہ ناراضی پیوٹن کی تقریر سے عیاں تھی۔ تقریباً ایک دہائی پہلے امریکا کے لیے روس کو زیر غور لانا بالکل بھی ضروری نہیں تھا۔ زر کی کمی کا شکار کریملن اس وقت باغی صوبائی گورنروں، لالچی حکومتی ارکان، تلخ اشتراکی ارکان اور چیچن علیحدگی پسندوں میں گھرا ہواہے۔ متلون مزاج اور شرابی بورس یلسن اعتماد اور معاشی استحکام پیدا کرنے میں ناکام ہو گیا تھا۔ آج وہ سب کچھ بدل چکا ہے۔ پیوٹن نے لالچی حکومتی ارکان کی ہمت توڑ دی ہے، سیاسی مخالفین بشمول آزاد ڈوما کے مسئلے پر قابو پا لیا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں ۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۶ء تک تین گنا اضافہ ہوا جس کے سبب روس کا خزانہ نقد سے اور سالانہ ۷ فیصد بڑوھتی کی قوت سے بھر گیا۔ پیوٹن کی پسندیدگی کی شرح ۷۵ فیصد کے قریب ہے۔
اپنی نئی دریافت شدہ طاقت کے مظاہرے پر روس کی آمادگی لوگوں کو یہ اندازہ لگانے پر اکسا رہی ہے کہ ہم ایک نئی سرد جنگ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ یقینا روس امریکا تعلقات روبہ زوال ہیں۔ مگر ایک نئی سرد جنگ؟
تصویر مزید پیچیدہ ہے۔ جی ہاں! سوویت یونین اور اس کے ایٹمی ذخائر کی امریکی تصورات کے خفیہ گوشوں میں خصوصی جگہ ہے۔ مگر اس مرتبہ روس کو مقابلے کی برتری حاصل ہے جوکہ سوویت یونین کے پاس نہیں ہے۔ اس نے اپنی سوویت سیاسی اور معاشی نظام کا چولا اتار پھینکا ہے۔ اس کے اوپر کسی ریاست کا بوجھ نہیں ہے اورپیوٹن کو دوسرے سوویت راہنمائوں کے برخلاف نہ صرف ملک میں بلکہ غیر ممالک میں بھی بڑھتی ہوئی اکثریتی پسندیدگی حاصل ہے۔ اس روسی راہنما کا ان بہت سی جگہوں پر گرم جوشی سے استقبال کیا جارہا ہے جہاں عوامی جذبات امریکا کے خلاف اگر جارحانہ نہیں تو بہرحال ترش ضرور ہیں۔
جرمنی میںاپنی تقریر میں پیوٹن نے سرد جنگ کے حوالے سے کہاکہ ’’وہ ایک نازک امن تھا، ایک پُرخوف امن، مگر دیانتدارانہ طور پر قابلِ اعتماد امن۔ آج یہ کم قابل بھروسہ ہے‘‘ بہت حد تک وہ درست ہیں اور ان کو درست تسلیم کرنے والوں کی تعداد وسیع دائرے میں روز افزوں تر ہے۔ پیوٹن نے کوئی شور شرابہ نہیں کیا اور نہ انہوں نے مشرقی یورپ میں اینٹی میزائل کا دفاعی نظام نصب کرنے کی امریکی چال کے جواب میں کیوبا میں میزائل نصب کرنے کی دھمکی دینے کی سعی کی۔ مگر اگر بش انتظامیہ امید کرتی ہے کہ، مثال کے طور پر وہ ایران پر اپنے ایٹمی عزائم سے دستبردار ہونے کے لیے دبائو ڈالنے میں کامیاب ہوتو اسے روس کی مدد درکار ہوگی اور اس کام میں پیوٹن نے اشارہ دیا ہے کہ کریملن غالباً مزید آگے نہیں جائے گا۔
میونخ میں پیوٹن نے اشارے کنایوں میں امریکی بالادستی کا ناقابل مصالحت جواب دیا۔ ایران ہمیں اس سلسلے میں ایک سراغ دیتاہے۔ یہ منطق اب کوئی خاص منافع بخش نہیں رہی جیسا کہ یہ پہلے کبھی رہی ہوگی۔ کریملن آج کل علاقے میں امریکی اثرات کو کاٹنا چاہتا ہے، پیوٹن میونخ سے خلیج گئے۔ سعودی عرب کو انہوں نے اپنے شہری ایٹمی پروگرام کی ترقی میں مدد دینے کی پیشکش کی۔ قطر میں انہوں نے قدرتی گیس کی کارٹیل (تنظیم) بنانے کی بات کی۔ اردن میں انہوں نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کو انڈیا اور چین کے ہم منصبوں سے ملاقات کرنے کے لیے روانہ کیا۔ بقول پیوٹن، تاکہ وہ اس کثیر القطبی دنیامیں امریکا کی طاقت کا توڑ نکالنے پر ان سے بات چیت کریں۔
روس انتخابی عمل میں داخل ہو رہا ہے اور ابھی کچھ واضح نہیں ہے کہ اگلے سال کے اختتام تک پیوٹن کی جگہ کون لے گا، مگر غور طلب بات یہ ہے کہ کریملن کے اندر پیوٹن کا شمار مغرب کی حمایت کرنے والے روسی راہنمائوں میں ہوتا ہے۔ ان کے ارد گرد دوسرے لوگ امریکاکے شدید مخالف ہیں۔ نہیں! یہ ایک نئی سرد جنگ نہیں ہے۔ یہ اس سے پیچیدہ تر ہے اور یہ کہیں بدتر ثابت ہو سکتی ہے۔
(بحوالہ: ہفت روزہ ’’نیوز ویک‘‘ شمارہ ۲۶ فروری ۲۰۰۷ء۔۔۔ مترجم: فوزیہ بنت سراج الحق)
Leave a Reply