
گزشتہ چار دہائیوں سے قومی مجموعی پیداوار (GDP) کا ۵ فیصد اور سالانہ عمومی بجٹ کا ۲۰ فیصد حصہ تعلیم کی مد میں خرچ کرنے کے باوجود آج بھی دنیائے عرب کی ایک تہائی بالغ آبادی ناخواندہ ہے۔ یہ تعداد تقریباً ۶ کروڑ ہے اور اس میں خواتین کی تعداد ۲ تہائی ہے۔ علاوہ ازیں تقریباً ۹۰ لاکھ بچے جن کی عمر ابتدائی تعلیم کے لائق ہے، اسکول نہیں جاتے۔ مزید یہ ہے کہ ایک بڑی تعداد اسکول کے بعد سلسلہ تعلیم ترک کر دیتی ہے۔ ان وجوہ کے باعث خطہ کی بحیثیت مجموعی ترقی بالخصوص اقتصادی نمو اور پائیدار ترقی متاثر ہو رہی ہے۔ اسی طرح اس خطہ کے چند ہی ممالک اقوامِ متحدہ کے ’سب کو ۲۰۱۵ء تک تعلیم فراہم کرنے کے پروگرام‘ Millennium Development Goals (MDGs) کو حاصل کر پائیں گے۔
مذکورہ بالا تجزیہ عرب دنیا کے بارے میں اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ جسے عرب نالج رپورٹ برائے (The Arab Knowledge Report) ۲۰۰۹ء کہا جاتا ہے، میں پیش کیا گیا ہے۔ عرب دنیا کی تعلیمی اور علمی صورتحال پر یہ مفصل جائزاتی رپورٹ دبئی میں واقع محمد بن رشید المکتوم فائونڈیشن نے اقوامِ متحدہ کے ادارہ ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے تعاون سے تیار کی ہے، جس میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ عرب معاشروں کو علمی اور تعلیمی ترقی کے لیے ادارے قائم کرنا اور سازگار پالیسیاں بنانا ضروری ہے۔
نالج رپورٹ میں عرب دنیا میں تعلیم کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا گیا کہ کئی عرب مملکتوں نے ۱۹۹۰ء کی دہائی سے ’سب کے لیے تعلیم‘ نیز پیشہ ورانہ، تکنیکی اور اعلیٰ تعلیم کو عالمی معیار کے مطابق بنانے کے لیے متعدد اِقدامات کیے ہیں تاہم یہ اقدامات مطلوبہ نتائج فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ علم کی روشنی بالغ افراد میں یکساں اور پوری طرح سے نہیں پہنچی۔
اعلیٰ تعلیم کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے رپورٹ رقمطراز ہے کہ یونیورسٹی سطح کی تعلیم کا معیار ایک مسئلہ بنا ہوا ہے، جس میں تخصیصی سائنسی علوم (Specialized) اور جدید ٹیکنالوجی بشمول جدید ترین مواصلاتی ٹیکنالوجی کا فقدان ہے۔ اسی تعلیمی نصاب کے باعث خطہ میں انتہائی تعلیم یافتہ، جدید ترین علوم و ہنر سے آراستہ اور پیشہ ور ہنر مندوں کی قلت ہے۔ خطہ میں جو تعلیم یافتہ افراد ہیں، وہ کوئی سائنسی ایجاد یا کوئی چیز تخلیق کرنے یا مارکیٹ کے تقاضوں کو پورا کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ عالمِ عرب میں تحقیق اور ایجادات کی صورتحال کا جائزہ پیش کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایجادات کے میدان میں عرب دنیا کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ جدید علومِ آگہی عرب دنیا کا ایک کمزور ترین پہلو ہے۔ خطہ کے سائنسدانوں اور ریسرچ اسکالروں کی کوششوں کے باوجود عرب حکومتوں کی بے اعتنائی کے باعث عرب تحقیق و تخلیق کی کمیت و کیفیت اور معیار پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ یہ حکومتیں اس کام کے لیے انتہائی معمولی رقم فراہم کرتی ہیں۔ سائنٹیفک ریسرچ پر زیادہ تر عرب ممالک اپنے جی ڈی پی کا محض ۳ء۰ فیصد صَرف کرتے ہیں، جبکہ تحقیق کا ۹۷ فیصد دار و مدار حکومتی امداد پر ہوتا ہے۔ عرب دنیا میں تحقیق پر فی کس سالانہ خرچ ۱۰ ڈالر سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس ملیشیا میں فی کس سالانہ ۳۳ ڈالر اور فن لینڈ میں ۳۰۴ ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ صنعت یافتہ ملکوں کے برخلاف عرب دنیا میں سائنٹیفک ریسرچ کے ادارے صنعتی اکائیوں اور سروس سیکٹر سے منسلک نہیں ہیں بلکہ وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے ملحق ہیں۔ اس صورتحال کے باعث رپورٹ کے مطابق ایک طرف تعلیم اور تحقیق کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا ہو رہی ہے، دوسری طرف معاشی اور معاشرتی ضروریات کے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے۔ چنانچہ اس سے تحقیق اور ایجادات کا کام کمزور ہو رہا ہے اور جو ایجادات ہو رہی ہیں، ان کے مصرف کا دائرہ بھی محدود ہو رہا ہے۔
اس میدان میں دہائیوں تک سائنسی موضوعات پر عرب دنیا میں کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی، اس کے باعث آج عرب محقق سائنسدانوں کا سائنسی موضوعات کی کتابوں کی اشاعت میں عالمی سطح پر حصہ محض ۱ء
۱ فیصد ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے بھی ہوتا ہی کہ ایجادات کو پیٹنٹ کرانے کی تعداد برائے نام ہے۔ رپورٹ کے مطابق عرب معاشروں میں کتابیں پڑھنے کا شوق بھی بہت کم ہے۔ دوسرے معاشروں کے مقابلے میں ایک عرب اوسطاً بہت کم مطالعہ کرتا ہے۔ کتب بینی کے تئیں عدم رغبت کی وجہ ناخواندگی کی بلند شرح، کمزور قوتِ خرید، پست معیارِ تعلیم اور ثقافتی فروغ کے لیے منصوبوں کی کمی ہو سکتی ہے۔
ہرچند کہ عرب ملکوں نے ۲۰۰۸ء میں ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بالخصوص چار عرب مملکتیں، کویت، بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارت، دنیا کے ان ۵۰ ملکوں کی فہرست میں شامل ہیں جو سرمایہ کاری کے لیے بالکل تیار ہیں۔ علاوہ ازیں یہ کہ انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ انٹرنیٹ پر استعمال ہونے والی دس بڑی زبانوں میں عربی زبان استعمال کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جن کی تعداد آج ۶ کروڑ ہے۔
انٹرنیٹ کے استعمال میں زبردست اضافہ کے باعث اس بات کے امکانات وسیع تر ہو گئے ہیں کہ مختلف میدانوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ ملے گا، نیز بحیثیتِ مجموعی عرب دنیا میں بھی علم کی ترویج و اشاعت میں اضافہ ہو گا۔ تاہم تشویش کا پہلو یہ ہے کہ سوائے ۴ عرب مملکتوں کے تمام عرب ملکوں میں انٹرنیٹ کا استعمال عالمی معیار سے کم ہے۔ سردست انٹرنیٹ کے استعمال کی عالمی شرح مجموعی آبادی کا ۲۱فیصد ہے۔ اس حوالے سے رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ عربی زبان اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے درمیان رشتوں کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے، تاکہ عربی میں صوتی تخلیقِ نو اور لسانی تبدیلیوں کا جو کام ہو رہا ہے، اس کی قدر ہو۔ رپورٹ میں اس امر کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ عرب دنیا کے لیے انفارمیشن اور کمیونی کیشن ٹیکنالوجی میں ضروری سرمایہ کاری کی جاتی ہے تو یہ وسائل کسی ایک عرب ملک کے وسائل سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ اس کے لیے متعلقہ اداروں کو مضبوط کرنے نیز عرب ملکوں اور بین الاقوامی اداروں کے درمیان اشتراک کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے مرتب عادل عبدالطیف نے جو یو این ڈی پی کے بیورو آف عرب اسٹیٹس کے سربراہ ہیں، نے کہا ہے کہ اس جائزاتی رپورٹ کا مقصد عرب دنیا میں علم اور تعلیم کی حالت کا مختلف زاویوں سے تجزیہ پیش کرنا ہے تاکہ یہ خطہ بھی علم و آگہی کے میدان میں دنیا کی ہمسری کر سکے۔ ان کے مطابق علم اور آزادی ایک دوسرے کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتے۔ علم اپنے دونوں پہلو تعلیم و تربیت اور ترقی سے قطع نظر، بذاتِ خود آزاد منشی کا حامل ہے۔ علم کی ترقی اس صورت میں ممکن ہے جب اظہارِ رائے و خیال کی آزادی اور سیاسی سرگرمیوں کی آزادی ہو۔ یہ چیز علم کے فروغ کے لیے ایک سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔ اس حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عرب دنیا بالخصوص خلیج کی عرب مملکتوں نے اقتصادی آزادی کے معاملہ میں خاصی پیش رفت کی ہے، جس کے نتیجے میں بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے اور خطہ کی صنعتی پیداوار اور بنیادی سہولیات (جیسے مواصلات، سڑکیں وغیرہ) کو جدید ترین بنانے میں نجی شعبہ کا کردار بڑھا ہے۔ تاہم سیاسی میدان میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ بیشتر عرب مملکتوں میں جمہوری اصلاحات کا اثر بھی نچلی سطح تک نہیں پہنچا ہے جس سے کہ ایک اوسط فرد کی زندگی میں تبدیلی نظر آئے۔ ہرچند کہ بعض عرب ملکوں میں جمہوری اور سیاسی تبدیلیوں نیز حقوق انسانی اور اظہار رائے کی آزادی کے معاملہ میں قدرے پیش رفت ہوئی ہے، لیکن دوسرے ملکوں میں اس کے برعکس اقدامات اس کا اثر زائل کر دیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر جو تعلیمی انقلاب آیا ہے اس کے نتیجے میں اس خطہ میں بھی تبدیلی کی ہوائیں چل سکتی ہیں۔
رپورٹ میں ان عوامل سے بھی بحث کی گئی ہے جو عرب دنیا میں ایک علمی معاشرے کی تشکیل میں حائل ہیں۔ نظامِ تعلیم، انفارمیشن اور کمیونی کیشن ٹیکنالوجی، تحقیق و ایجادات کی صورتحال کا جائزہ پیش کرتے ہوئے ایک لائحہ عمل بھی تجویز کیا گیا ہے جو مختصر بھی ہے اور طویل مدتی بھی۔ اس کو عملی جامہ پہنا کر عرب معاشرہ خود کو بڑی تیزی کے ساتھ عالمی نالج سوسائٹی سے ہم آہنگ کر سکتا ہے۔ المکتوم فائونڈیشن کے وائس چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر عادل الشارد کہتے ہیں کہ علم و آگہی پر مبنی معاشرہ کی تشکیل کوئی ناممکن کام نہیں ہے، اس کے لیے ضرورت عزمِ مصمم اور طویل مدتی منصوبہ کی ہے۔ المکتوم فائونڈیشن کا قیام بھی انہی مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے ہوا جو گزشتہ دو برسوں سے اس جہت میں کام کر رہا ہے اور یہ ہدف ان اداروں کے ساتھ مل کر حاصل کیا جاسکتا ہے جو فائونڈیشن کے مقاصد اور وژن سے اتفاق رکھتے ہیں۔ یہ رپورٹ بھی اسی نوع کے ادارہ یعنی UNDP کے ساتھ مشترکہ کاوش کا ثمرہ ہے۔
رپورٹ میں اس حقیقت کو اجاگر کیا گیا ہے کہ خطہ میں غیرمعیاری تعلیمی نظام اور علمی تحقیق و کدو کاوش کے فقدان کا سبب وسائل کی قلت نہیں ہے، بلکہ سیاسی قوتِ ارادی کی کمی ہے۔ عرب حکومتیں اپنے معاشرے کو تعلیم یافتہ بنانے کے بجائے دفاع پر زیادہ توجہ دے رہی ہیں۔ دفاع کی مد میں بجٹ کا ایک بڑا حصہ صَرف ہو رہا ہے۔ اس طرف نشاندہی کرتے ہوئے رپورٹ رقمطراز ہے کہ عمان نے ۰۵۔۲۰۰۲ء تک تعلیم پر اپنی قومی مجموعی پیداوار کا ۲ء۳ فیصد خرچ کیا ہے، جب کہ صرف ۲۰۰۵ء میں دفاع کی مد میں ۹ء۱۱ فیصد رقم خرچ کی گئی۔ اسی طرح سعودی عرب نے اسی عرصہ کے دوران میں تعلیم پر ۸ء۶ فیصد اور دفاع پر ۲ء۸ فیصد رقم خرچ کی ہے۔ تاہم یہ امر باعثِ تعجب ہے کہ جی ڈی پی کا ۵ فیصد اور عام بجٹ کا ۲۰ فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کرنے کے باوجود دنیائے عرب میں ناخواندہ افراد کی اتنی بڑی تعداد ہے نیز علم و تحقیق کے میدان میں وہ ہمعصر دنیا سے بہت پیچھے ہے، جب کہ عمومی طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ جی ڈی پی کا ۶ فیصد حصہ تعلیم کی مدد کے لیے کافی ہوتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک بشمول امریکا و برطانیہ تعلیم پر اپنے جی ڈی پی کا ۶ فیصد سے زیادہ خرچ نہیں کرتے ہیں، جہاں نہ صرف صد فی صد خواندگی ہے، بلکہ وہ علمی دنیا کے امام بنے ہوئے ہیں۔ آج سے ۵ صدیاں قبل یہی مقام و حیثیت عرب دنیا کو حاصل تھی جہاں علم کا کون سا ایسا شعبہ نہیں تھا جس میں عرب مسلمانوں نے کمال نہ حاصل کیا ہو اور کئی علوم کی بنیاد نہ رکھی ہو، مگر آج صورتحال یہ ہے کہ اسی عرب دنیا میں سائنس اور دیگر علوم کے عالمی معیار کے اداروں کا فقدان ہے، جس نے عرب دنیا کو کئی امور میں مغرب کا محتاج بنا رکھا ہے۔ آج ۲۲ عرب ملکوں کی مجموعی آبادی ۵ء۳۱ کروڑ ہے مگر اس میں سے تقریباً ۶ کروڑ بالغ افراد ناخواندہ ہیں، حالانکہ اسلام نے علم کے حصول کو فرض قرار دیا ہے۔
اس علمی خلا کو پُر کرنے کے لیے رپورٹ نے جو ایکشن پلان تجویز کیا ہے، اس کی تینوں بنیادیں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ اور وہ بنیادیں ہیں: خطہ میں اظہارِ خیال و رائے کی آزادی کے دائرہ کو وسیع کرنا، معاشرہ کے جدید تقاضوں کو بہتر طور پر پورا کرنے کی کوشش کرنا اور علمی و تعلیمی انقلاب سے بھرپور استفادہ کرنا۔ رپورٹ کے مرتب عبد الطیف کے الفاظ میں علم و آگہی (نالج) ایک ایسا آلہ اور وسیلہ ہے جو معاشرہ کے تمام شعبوں اور پہلوئوں کو مساوی طور پر متاثر کرتا ہے اس کی زد سے کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا ہے۔ علم ہی خطہ کی نشاۃِ ثانیہ اور انسانی ترقی کا واحد اور اوّلین ذریعہ ہے۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’افکارِ ملّی‘‘ دہلی۔ دسمبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply