’’عالم عرب کو ہندوستان کے حالات سے باخبر رہنا چاہیے!‘‘

ماہ نومبر ۲۰۱۲ء میں جامعۃ الفلاح کے جشن طلائی کے موقع پر المجتمع کے مدیر ڈاکٹر شعبان عبدالرحمن بلریا گنج آئے تھے۔ اس دوران انہوں نے مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند سے انٹرویو کیا تھا، جو المجتمع کی ۹۔۱۵؍فروری ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں شائع ہوا۔ اس کا اردو ترجمہ جناب خالد سیف اللہ اثری نے کیا ہے۔

امیر جماعت اسلامی ہند کے ساتھ یہ بات چیت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس بات چیت سے ہندوستان کی مسلم اقلیت کے حالات و کوائف پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ دنیا میں مسلمانوں کی سب سے بڑی اقلیت سمجھی جاتی ہے، کیونکہ اس کی تعداد عالم عرب کی مجموعی آبادی کے برابر یا اس سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود یہ ایک واقعہ ہے کہ اس کی وسعت و صلاحیت اور اہمیت کے لحاظ سے اس کی طرف توجہ نہیں دی جارہی ہے۔

امیر جماعت اپنے طرزِ لباس میں عام ہندوستانیوں کی طرح بالکل سادہ ہیں، بلکہ اپنے رہن سہن اور جماعت کے افراد کے ساتھ اپنی سرگرمیوں میں بھی وہ سادگی پسند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جماعت اور مسلمانوں کے مسائل سے بخوبی واقف ہیں۔ گزشتہ دنوں ہندوستان کے سفر کے دوران ان سے ملاقات ہوئی اور مختلف میدانوں میں مسلمانوں کے حالات سے متعلق ان سے گفتگو کی۔ یہ گفتگو مسلمانوں کے معاشی، معاشرتی اور تعلیمی حالات، نیز سیاسی حقوق اور ان کے ساتھ ناانصافی اور ان کے اوپر ہونے والے ظلم، ہندو اکثریت کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت اور صورتحال کے علاوہ انڈیا، امریکا اور اسرائیلی تعلقات پر مشتمل تھی۔ ان سے کی گئی گفتگو قارئین کے استفادہ کے لیے پیش خدمت ہے:


سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد ۱۵؍کروڑ کے قریب ہے، لیکن غیر سرکاری اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ اصل تعداد لگ بھگ ۲۰ کروڑ ہے۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ مختلف ریاستوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر آسام میں مسلمانوں کی آبادی ۳۳ فیصد ہے، بنگال اور کیرالہ میں ۲۶؍ اور ۲۵ فیصد ہے جبکہ اڑیسہ میں ان کی آبادی صرف تین فیصد اور پنجاب میں دو فیصد ہے۔ مسلمانوں کی نسبتاً زیادہ آبادی اترپردیش میں ہے جہاں کا تناسب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۸؍ فیصد ہے۔

تعلیم

تعلیمی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو شمالی ہند اہم دینی تعلیمی اداروں کا مرکز ہے۔ جیسے دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء لکھنؤ، جامعۃ الفلاح اور ان سے ملحق ادارے۔ جدید تعلیم کے اداروں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی جیسے بڑے تعلیمی ادارے شمالی ہند میں ہیں، لیکن تقسیم ملک کے بعد عصری علوم کی درس گاہیں زیادہ تر جنوب ہند میں قائم ہوئیں لیکن یہاں غیر مسلموں کے تعلیمی اداروں کے مقابلے میں ان کا تناسب بہت کم ہے۔ یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ جدید تعلیم کے اداروں میں ہندو اور مسلم دونوں اسی ادارے میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔

سیاسی پہلو

سیاسی اعتبار سے مسلمان اب بھی کمزور ہیں وہ اپنے ووٹوں کے زور پر پارلیمان میں اپنے نمائندے نہیں بھیج سکتے۔ چونکہ وہ ملک کے مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے ہیں، اس لیے ان کے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہوتا ہے اور وہ یہ ہندوئوں کی زیر قیادت سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دیں اور اس کے عوض میں ان سے دستوری حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کریں۔ دینی معاملات میں ان سے کسی قسم کی توقع نہیں کی جاسکتی جیسے مدارس یا مساجد کا قیام۔ تعلیمی امداد لینے کے لیے بھی ان کی شرائط ہوتی ہیں جس کی رو سے بعض اوقات وہ نصاب میں ردوبدل کے مجاز ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے حکومت نے اسلامی مدارس کو امداد کی پیشکش کی، لیکن مسلمانوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ کیونکہ اس کے بعد حکومت کی مداخلت کی راہ کھل جاتی ہے۔

معاشی پہلو

معاشی اعتبار سے مسلمان بعض وجوہ کی بنا پر پیچھے ہیں۔ حکومتی اداروں میں ان کا تناسب بہت کم ہے۔ حکومت کی معاشی اسکیموں کا انہیں کم ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ ان کے سامنے سوائے چھوٹے موٹے کاروبار کے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ ان کی معاشی پسماندگی نے بھی ان کی تعلیمی صورتحال کو کافی متاثر کیا۔

جماعت اسلامی کی سرگرمیاں

جماعت اسلامی الحمدللہ ان حالات میں کام کر رہی ہے۔ ہندوستان کی ساری ریاستوں اور صوبوں میں جماعت موجود ہے اور وہ اپنی تمام تر سرگرمیاں بحسن و خوبی انجام دے رہی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارا ایک روزنامہ اخبار ’’مادھیم‘‘ ۱۵؍جگہوں سے شائع ہوتا ہے۔ گلف میں بھی اس کی کئی مقامات سے اشاعت ہے، اس کے ۳؍لاکھ نسخے روزانہ شائع ہوتے ہیں۔

جماعت جن مختلف میدانوں میں کام کرتی ہے، ان میں سب سے اہم غیر مسلم حلقوں میں دعوتی کام ہے۔ خاص طور سے وہ لوگ جن کے ذہن میں اسلام کی غلط تصویر ہے۔ ان کی غلط فہمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان تک اسلام پہنچا ہی نہیں۔

دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی غلط سوچ کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ہندوستان میں مغلوں کا عہد زندہ کرنے کے لیے دوبارہ برسراقتدار آنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ انگریزوں نے ہندوستان پر اپنے دورِ حکومت میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان فتنہ اور نفرت کا بیج بویا تھا۔ انگریزوں کی اس چال نے اس میدان میں بڑا نقصان پہنچایا۔

مسلمانوں پر ظلم کی داستان

اس میں شک نہیں کہ یہاں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہتے ہیں، جن میں مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔ بہت سے معاملات میں ان کے ساتھ تعصب برتا جاتا ہے اور بھی ان کی مشکلات ہیں، لیکن یہ سمجھنا صحیح نہیں ہے کہ یہاں مسلمان بالکل غیر محفوظ ہیں اور وہ ہر طرح کی آزادی سے محروم ہیں۔ بعض اوقات اس معاملے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے۔ یہاں مسلمانوں کے انتظام میں ہزاروں مسجدیں ہیں، سیکڑوں مدارس اور تعلیمی ادارے ہیں۔ ہندوستان پر قانون کی حکمرانی ہے اور اس کی رو سے سب برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔ اگرچہ مسلمان آسانی سے اپنے سارے حقوق حاصل نہیں کر پاتے تو اس کی وجہ دراصل تعصب ہے، جو قانون نافذ کرنے والے یا حکومت کرنے والے افراد کے لحاظ سے کم زیادہ ہوتا رہتا ہے۔

اسی وجہ سے جماعت اسلامی کی ایک کوشش یہ بھی ہے کہ برادرانِ وطن اسلام اور مسلمان کو صاف اور صحیح طورسے سمجھ سکیں۔ ہم اپنی جانب سے یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ مسلمان خود بھی اسلام کو صحیح طور سے سمجھیں کیونکہ وہ غیر مسلموں کے درمیان رہتے ہیں۔

جماعت اسلامی کا سماجی کردار

جماعت سماجی کاموں اور تعلیم و صحت کے میدان میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اسی طرح سے وہ فرقہ وارانہ فسادات وغیرہ کو دبانے اور روکنے میں بھی کردار ادا کرتی ہے۔ اس میں کسی حد تک اسے کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔

سیکڑوں اسکول اور مدارس بھی جماعت کے زیر نگرانی چل رہے ہیں۔ جماعت اپنے افراد کی تربیت اسی بنیاد پر کرتی ہے کہ اسلام ہی ایک مکمل نظام ہے اور غیر مسلموں کے سامنے اسلام کو یہ کہتے ہوئے پیش کرتی ہے کہ جب تم نے دنیا کے سارے نظاموں کا تجربہ کر لیا تو پھر اسلام کا تجربہ کیوں نہیں کرتے؟ لیکن ہمارے سامنے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اب تک صرف اسلام سے متعلق اصولی باتیں ہی کرتے آئے ہیں۔ خالص اسلامی ریاست کا کوئی نمونہ نہیں ہے جسے پیش کیا جاسکے۔

بابری مسجد

بابری مسجد کا کیس اب بھی عدالت عظمیٰ میں زیر غور ہے۔ مسلمانوں کی تمام جماعتوں کا کہنا ہے کہ ہم کورٹ کے فیصلے کا احترام کریں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ حق و انصاف کے مطابق فیصلہ ہو تو مسجد کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوگا۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا چارہ بھی نہیں ہے۔ مسجد کی تعمیر کے لیے ہندو دوسری زمینوں کی پیشکش کر رہے ہیں لیکن ہم اس بات پر مصر ہیں کہ مسجد اپنی ہی جگہ پر تعمیر ہو۔

دوسری جماعتوں کے ساتھ رشتہ

مشترکہ امور میں آپسی میل اور تعاون پایا جاتا ہے۔ جیسے پرسنل لاء، مسلمانوں کی تعلیمی اور سیاسی حالت اور اوقاف۔ لیکن سیاسی معاملات میں ہر جماعت کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے۔ مسلمانوں کی بعض جماعتوں اور ان کے سرکردہ افراد سے جماعت اسلامی کے اچھے روابط ہیں۔ ایک عرصہ پہلے بعض امور میں ان جماعتوں کے درمیان اختلافات تھے، اب ذمہ داروں کے ایک دوسرے سے قریب آنے کے نتیجے میں اختلافات میں کافی کمی آئی ہے۔

انڈیا۔ اسرائیل اتحاد

مسلمان ان دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے بھی ہو رہے ہیں، لیکن ہندوستانی حکومت امریکا کی حمایت اور اس کی شہ پر ہماری مخالفت اور احتجاج کو اہمیت نہیں دے رہی ہے۔ امریکا اور اسرائیل مسلمانوں کی شناخت مٹانا چاہتے ہیں، بلکہ ان کے وجود ہی کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح ان دونوں ملکوں کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ وہ ہندوستان کی پوری معیشت پر قابض ہو جائیں۔ جو کچھ بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے اس مقصد کی حصول یابی میں ہو رہا ہے، اسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کمپنیوں نے تجارت کے بیشتر میدانوں پر اپنا قبضہ جما لیا ہے۔ انہی سب وجوہ کی بنا پر ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ یہ تعلقات ہندوستان کے مفاد میں نہیں ہیں۔

میں المجتمع کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اس کے ذریعے عالم عرب کے مسلمانوں سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہندوستان کے حالات و واقعات پر خاص توجہ دیں۔ عالم عرب میں جو بھی ہوتا ہو ہم یہاں ان کے بارے میں پڑھتے ہیں اور پوری توجہ دیتے ہیں، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے عرب بھائی ہم سے پہلوتہی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ۲۰۰۲ء میں گجرات کے اندر مسلمانوں کا جو قتل عام ہوا، ان پر جو ظلم ہوا، ان سب واقعات پر عرب حکومتوں کی خاموشی حیرت انگیز ہے، اس پر انہیں غور کرنا چاہیے۔

☼☼☼

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*