یونائیٹڈ نیشن ڈیولپمنٹ پروگرام (UNDP) نے اس ہفتہ عرب دنیا پر ہلا دینے والی پانچویں رپورٹ شائع کی ہے۔ اس کا مطالعہ بہت ہی دل شکن ہے۔ عربی لوگ نہایت ہی متحرک اور جدت پسند ہوتے ہیں جن کی طویل اور فخریہ تاریخ میں فنون، ثقافت، سائنس اور خصوصاً اسلام میں حیرت انگیز خدمات شامل ہیں۔ جبکہ دوسری طرف جدید عرب ریاستیں بھی بہت لوگوں کی توجہ کا مرکز رہیں لیکن صرف اپنی مسلسل ناکامیوں کی وجہ سے۔
وہ ابتدا ہی سے ناکام ہو چکے ہیں اپنے لوگوں کو آزادی دینے میں پھر عرب ریاستوں نے سیاسی تنظیموں پر بھی بالکل ہی پابندی عائد کی ہوئی ہے جبکہ دیگر ریاستوں میں تھوڑی بہت آزادی ہے۔ تیل کے ذخائر ہونے کے باوجود وہ اپنے عوام کو امیر اور خوشحال کرنے میں ناکام ہوئے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق عرب ممالک میں پانچ میں سے ہر دو لوگ روزانہ کے حساب سے صرف دو ڈالر پر زندہ ہیں۔ وہ اپنے لوگوں کو تحفظ کا احساس اور اطمینان دینے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ضرورت سے زیادہ سخت سیکورٹی کی وجہ سے اکثر عرب ممالک اپنے ہی عوام کے لیے خوف و خطرہ محسوس ہو رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے نوجوانوں کو مایوس کر رہے ہیں۔ UNDP کے ایک اندازے کے مطابق عرب دنیا کو ۲۰۲۰ء تک ۲۰ ملین نئی نوکریاں پیدا کرنی ہوں گی تاکہ ابھرتی ہوئی نئی نسل کو بہتر انداز میں استعمال کیا جا سکے جو کہ درحقیقت موجود صورتحال کے پیشِ نظر ناممکن ہے۔
عرب ممالک کافی تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں خصوصاً اس وقت انہیں کافی برداشت کرنا پڑا جب بش انتظامیہ کے دورِ حکومت میں امریکی قدامت پسندوں نے عرب ممالک کو غیر جمہوری ہونے کی وجہ سے القاعدہ بننے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ لیکن عرب حکمرانوں کے اس طویل تجربہ نے انہیں اپنی ناکامیوں کی توجیہات دینے کا عادی بنا دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مغربی طرز کی جمہوریت ان کی تہذیب و ثقافت کے مطابق نہیں اور وہ اپنی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جدید دور میں انہوں نے بہت کچھ بہتر کیا ہے، کم از کم وہ ریاستوں کے دراندازی، یہودیوں کی جارحیت اور سرد جنگ سے دور تھے۔
اس حقیقت کا کسی حد تک انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن پھر بھی یہ بات صحیح ہے کہ اسلام جمہوریت کی نفی کرتا ہے۔ تیل، اسرائیل اور امریکا و ایشیا کے درمیان تنازعات نے بھی نو آبادیاتی نظام کے ختم ہونے کے بعد بھی عرب دنیا کو آزادی سے اپنا راستہ نہیں بنانے دیا۔ حال ہی میں عراق پر حملہ اور جارحیت عرب دنیا میں بے جا مداخلت ہے جس کی وجہ سے اب وہ اپنے آپ کو امریکا اور ایران کے درمیان خطے کی نمائندگی کی دوڑ میں پستا ہوا محسوس کرتے ہیں۔
گو کہ پچھلے کئی سال ان تمام تر عذر اور توجیہات پر مبنی ہیں لیکن پھر بھی اسلام ایشیائی مسلم ممالک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہونے میں رکاوٹ نہیں بن سکا۔ یہاں تک کہ ایران میں حال ہی میں ہونے والے غیر شفاف انتخابات جو کہ صرف مذہبی اقتدار سمجھا جاتا ہے وہاں بھی جمہوری جوش و جذبہ دیکھا گیا ہے جو کہ عرب ممالک میں نہیں۔ اب تک عرب ممالک میں غیر ملکی مداخلت کے ہوتے ہوئے مضبوط اور مستحکم انتخابات اسرائیل کی موجودگی میں فلسطینیوں نے کروائے ہیں اور عراق نے امریکی قبضے میں ہوتے ہوئے۔ جب انہیں آزادانہ حقیقی انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیا جاتا ہے جیسا کہ حال ہی میں لبنان میں تو عربوں کو اس بات میں سمجھنے کی کوئی مشکل نہیں کہ کون اہل ہے اور وہ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے نکلتے ہیں۔ حقیقت میں یہ ان کے اپنے ہی حکمران ہیں کہ جو انتخابات کو نظر انداز کرتے ہیں یا پھر دھاندلی پر مبنی انتخابات کرواتے ہیں انہیں اس بات کا اندیشہ اور خوف ہے کہ اگر عوام کو آزادانہ رائے کی اجازت دی گئی تو وہ ان خود غرض حکمرانوں کو باہر کر دیں گے۔
اس وجہ سے آپ وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ نظامِ حکومت برقرار رہا تو عرب عوام کو مواقع نہیں ملیں گے۔ عرب حکمران اپنے خود غرض چال بازیوں سے، جبر اور دہشت سے اور مخصوص انتخابی اتحاد سے برسراقتدار رہیں گے۔ کبھی کبھی وہ کھوکھلی اور کمزور سیاسی جماعتوں کے درمیان بوگس انتخابات کروا دیتے ہیں جو کہ نتیجتاً انہی کو اقتدار میں لے آتے ہیں۔ جہاں بھی حقیقت میں کوئی مضبوط مخالفت ہوتی ہے تو بری طرح سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے ایک طرف اسلامی تحریک اور دوسری طرف سیکولر تنظیمیں جو کہ اسلامی تحریکوں کی اس نظامِ حکومت (جسے وہ خود برا سمجھتے ہیں) سے بھی زیادہ مخالفت کرتے ہیں۔ عرب حکمرانوں کی طرف سے چھوٹی سطح پر لائی گئیں اصلاحات جن کا نفاذ اس وقت ہوا جب صدر بش ناپسندیدہ اتحادیوں پر اپنا آزادی کا لائحہ عمل مسلط کر رہے تھے، اب دوبارہ سے ہٹا دی گئی ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جمہوریت کے اصل مقصد کو صدر کی رفاقت نے گدلا کیا ہے اور عراق پر قبضہ کو بھی زیادہ تر عرب عوام نے حقارت کی نظر سے دیکھا۔
کیا یہ نظامِ حکومت جو کہ اپنے عوام کو ناکام کر رہے ہیں ۳۵۰ ملین لوگوں پر اپنا تسلط برقرار رکھیں گے؟ حسنی مبارک ۲۸ سال سے مصر کے صدر ہیں، معمر قذافی نے ۱۹۶۹ء سے لیبیا پر حکمرانی کی ہے۔ اور جب حافظ اسد تین دہائیوں تک شام کا صدر رہنے کے بعد مر گیا تو اقتدار با آسانی اس کے بیٹے بشارت الاسد کو منتقل کر دیا گیا۔ جمہوریت کو عام کرنے کی خواہش کی ناکامی کے بعد اور عراق میں مکمل ناکامی کو دیکھ کر بارک اوباما نے آزادی کے ایجنڈے کو چھوڑ کر ’’عزت و احترام‘‘ کے ایجنڈے کو مسلم دنیا کے ساتھ روا رکھنے کا اظہار کیا ہے۔ یہ ارادہ سود مند ثابت ہو سکتا ہے اس لیے کہ جب سے اوباما سامنے آئے ہیں امریکا کا موقف اور تاثر مسلم دنیا میں بہتر ہو رہا ہے جبکہ بش کا دوسرے ممالک میں اصلاحات کا نفاذ کرنا ایک جوابی ردعمل تھا۔لیکن یہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر عرب عوام جمہوریت چاہتے ہیں تو انہیں اسے اپنے ہاتھ سے چھیننا ہو گا۔
مغرب کے کچھ طبقے عرب انتخابات کے حوالے سے بہت ہوشیار رہتے ہیں وہ ڈرتے ہیں کہ اسلام پسند کسی بھی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار حاصل کر لیں گے۔ اپنے “One time, One man, One Vote” کے اصول کی بنیاد پر۔ لیکن پھر بھی اسلام پسند انتخابی حلقے کی ۲۰ فیصد سے زائد حمایت حاصل کرنے میں سرگرم نظر آتے ہیں۔ غیر مغرب مسلم ممالک جیسا کہ ترکی اور انڈونیشیا یہ موقف رکھتے ہیں کہ جمہوریت ہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعہ انتہا پسندی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ زبردستی دبانے سے انتہا پسندی مزید بڑھتی ہے۔
جمہوریت صرف انتخابات ہی کے لیے نہیں بلکہ یہ تعلیم صبر و تحمل اور آزاد ادارے مثلاً عدلیہ اور صحافت پیدا کرنے کے لیے بھی ہے۔ مشکل سوال یہ ہے کہ اس کی ضرورت کتنے فیصد عرب عوام محسوس کرتے ہیں۔ تہران جیسے مظاہرے تھوڑے بہت قاہرہ کی سڑکوں پر بھی ہوئے ہیں۔ پھر بھی زیادہ تر عرب تبدیلی لانے کے لیے تیار نظر نہیں آتے یا پھر وہ عراق کو دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ جمود کو انتشار پر ترجیح دیتے ہیں جو کہ کسی بھی تبدیلی کے نتیجے میں ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر مستقل جمود کو مدنظر رکھا جائے تو یہ نظامِ حکومت غیر موثر ہی ہے۔ جیسا کہ UN کی خصوصی رپورٹ میں اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ عرب دنیا میں اس سیاسی جمود کے پیچھے ایک بہت بڑا معاشرتی انقلاب کھڑا ہونے والا ہے جس کے نتائج بہت دور تک جائیں گے۔
تقریباً تمام عرب ممالک میں شرح پیدائش کم ہوتی جا رہی ہے۔ زیادہ تر لوگ خصوصاً خواتین تعلیم یافتہ ہوتی جا رہی ہیں اور تجارت پیشہ لوگ حکومت کی طرف سے زیادہ سے زیادہ تجارت کے طلب گار ہیں۔ ان تمام چیزوں کے تناظر میں سٹیلائیٹ چینل میں انقلاب نے حکومتی میڈیا کے تاثر کو بھی توڑ دیا ہے اور عوام میں ایسے احساس کو پیدا کر دیا ہے جو اپنے حکمرانوں سے چاہتے ہیں کہ وہ اپنی صفائی پیش کریں جو کہ اس سے پہلے انہوں نے کبھی نہیں کیا۔ فی الحال یہ تمام تبدیلیاں ابھی ناکافی ہیں کہ جو ایک انقلاب پیدا کر سکیں لیکن یہ تمام مل کر اندر ہی اندر ایک شورش پیدا کر رہی ہیں۔ عرب حکومتوں کا سابقہ نظام حکومت کرپٹ، غیر شفاف اور آمریت پر مبنی ہے اور ہر سطح پر ناکام ہو چکا ہے۔ لہٰذایہ اس قابل نہیں کہ برقرار رہے۔
(بحوالہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘ لندن۔ ۲۳ جولائی ۲۰۰۹ء۔ ترجمہ: فرقان انصاری)
Leave a Reply