بیس سالہ مریم البدر نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی، قطر میں پڑھتی ہے۔ جب اُس نے صحافت کو مرکزی مضمون کی حیثیت سے اختیار کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کی میدان میں قدم رکھا تھا تب اُس کے ذہن میں یہ بات تھی کہ زیادہ سے زیادہ خود مختاری کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے قابل ہوا جائے، بالخصوص مالیاتی معاملات میں۔
یونیورسٹی میں داخلے کے لیے مریم نے ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک سال تک فاؤنڈیشن کورسز لیے۔ شادی کرکے گھر بسانے اور بچوں کے جھمیلے میں الجھنے کا تصور اُس کے ذہن سے بہت دور تھا۔ آج عرب دنیا میں بہت سی لڑکیاں گھر بسانے سے قبل اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ خود مختاری (بالخصوص مالیاتی معاملات میں) چاہتی ہیں۔ کل تک قطر میں بھی تصور نہیں کیا جاسکتا تھا کہ لڑکیاں جامعات میں پڑھیں مگر اب پوری عرب دنیا میں یہ رجحان عام ہے۔
عرب دنیا میں شرحِ پیدائش کی گراوٹ کے حوالے سے ییل یونیورسٹی (امریکا) کی ۲۰۱۸ء کی رپورٹ کی مصنفہ مارشیا انہارن کہتی ہیں کہ آج بیشتر عرب گھرانے دو یا پھر زیادہ سے زیادہ تین بچوں کے خواہش مند ہیں۔ یہ رجحان اصل میں ۱۹۷۵ء میں شروع ہوا تھا۔ تب سے اب تک عرب دنیا کی بہت سی حکومتوں نے خاندانی منصوبہ بندی یعنی ضبطِ تولید سے متعلق کئی پروگرام متعارف کرائے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ عرب دنیا میں شرحِ پیدائش کا نیچے آنا ان پروگرامات کا مرہون منت نہیں۔ مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ نیا رجحان گھرانوں کی تبدیل ہوتی ہوئی ساخت، مالی حالات اور ضبطِ تولید سے متعلق وسائل کی دستیابی کا نتیجہ ہے۔ مالی حیثیت خواہ کچھ ہو، عرب دنیا میں شرحِ پیدائش گرتی جارہی ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ لڑکیاں پڑھ رہی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیاں گھر بسانے کو اولین ترجیح نہیں دیتیں۔ مارشیا انہارن کہتی ہیں کہ آج کے عرب معاشرے میں بیشتر لڑکیاں پڑھ لکھ کر اپنے لیے کوئی شاندار مستقبل چاہتی ہیں۔ اس کے لیے وہ شادی اور بچوں کو بہت دور کے آپشن کے طور پر لیتی ہیں۔
۱۹۷۵ء سے ۱۹۸۰ء کے دوران عرب دنیا میں فی عورت شرحِ پیدائش ۷ تھی جو عالمی اوسط یعنی ۸۵ء۳ سے کہیں زیادہ تھی۔ آج عرب دنیا میں صرف مصر، اردن اور یمن میں فی عورت شرحِ پیدائش ۳ سے زائد ہے۔ مارشیا انہارن کہتی کہ اس تبدیلی کو ہم خاموش انقلاب قرار دے رہے ہیں کیونکہ کوئی بھی اس اہم تبدیلی کو محسوس کر رہا ہے نہ اس پر بحث ہو رہی ہے۔
ییل یونیورسٹی کی تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ عرب دنیا میں حکومتوں کی طرف سے ضبطِ تولید کے حوالے سے متعارف کرائے جانے والے پروگرامات کے مقابلے میں سوچ اور رویے کی تبدیلی نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
عرب دنیا میں مشترکہ خاندان کا تصور رہا ہے۔ لوگ ساتھ رہیں یا الگ، وہ ایک دوسرے سے جُڑے رہتے ہیں۔ ابھی کل تک معاملہ یہ تھا کہ عورت کو بچوں کی پرورش اور تربیت کے حوالے سے غیر معمولی سہولتیں میسر تھیں۔ پرائیویسی بھی بنی رہتی تھی اور بچوں کو بہتر انداز سے پروان چڑھانے کے لیے جو وسائل درکار ہوا کرتے ہیں اُن کا بھی بہت حد تک اہتمام ہو جایا کرتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ دنیا بھر میں پیدا ہونے معاشی الجھنوں نے عرب دنیا کا بھی رخ کیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بچوں میں کی جانے والی سرمایہ کاری خاصی مشکل ہوگئی ہے۔ مریم البدر کہتی ہے کہ اب ایک بچے کو پروان چڑھانے میں والدین اَدھ مُوئے ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں تین چار بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت حقیقی معنوں میں دردِ سر بن کر رہ گئی ہے۔ یہی سبب ہے کہ بیشتر عرب خواتین اب دو سے زائد بچے نہیں چاہتیں۔ وہ ضبطِ تولید کے طریقے اختیار کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت صرف محنت نہیں بلکہ غیر معمولی وسائل بھی مانگتی ہے۔ یہ بھاری سرمایہ کاری ہے جس کا اہتمام کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ مریم البدر بھی گریجویشن کے بعد شادی کے حوالے سے تھوڑا انتظار کرنا چاہتی ہے تاکہ بہتر مستقبل کے لیے تھوڑی بہت تیاری کرسکے۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں سدرہ میڈیکل اینڈ ریسرچ سینٹر سے اٹینڈنگ فزیشین کی حیثیت سے وابستہ اسپائریڈون کولیارس کا کہنا ہے کہ کم بچوں کا رجحان ضرور موجود ہے مگر زیادہ بچے پیدا کرنے کی خواہش نے ابھی تک دم نہیں توڑا۔ اُن کے خیال میں بنیادی معاملہ یہ ہے کہ لوگ اب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اُن کے سامنے آپشن کیا ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ ضبطِ تولید کے وسائل کہاں دستیاب ہیں مگر اُنہیں بہتر زندگی بسر کرنے کے حوالے سے اور بھی بہت سے آپشنز کا علم ہے۔
مارشیا انہارن کہتی ہیں کہ شرحِ پیدائش کا گھٹ جانا عرب دنیا کے لیے لازمی طور پر مثبت نتائج کا حامل نہیں ہوگا۔ کم بچوں کی پیدائش سے گھرانے مالی طور پر مستحکم رہتے ہیں مگر یہ رجحان برقرار رہا تو عرب دنیا میں آبادی کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ سب سے بڑا خطرہ نوجوانوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کا ہے۔ یعنی چند ہی برسوں میں صورتِ حال یہ ہوگی کہ آبادی کی اکثریت ۱۵ سے ۳۰ سال کی عمر کے درمیان والی ہوگی۔ اس کے نتیجے میں معاشرے کی ساخت ہی تبدیل نہیں ہوگی بلکہ معاشرتی الجھنیں بھی پیدا ہوں گی۔ نئی نسل شادی کے لیے زیادہ انتظار کرے گی۔ یعنی نئی نسل مجموعی طور پر بند گلی میں پھنس جانے والی کیفیت سے دوچار ہوگی۔
مصر، تیونس اور مراکش جیسے عرب ممالک میں ایک بڑا مسئلہ یہ کھڑا ہوا ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت بے روزگار ہے۔ جب کرنے کو کچھ نہ ہو تو جو مسائل پیدا ہوا کرتے ہیں وہی پیدا ہو رہے ہیں۔ مارشیا انہارن کہتی ہیں کہ نوجوانوں کی اکثریت (یوتھ بلج) بالآخر ’’ایلڈر کوئیک‘‘ کو جنم دیتی ہے یعنی معاشرے میں معمر افراد کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ اِس کے غیر معمولی معاشی اور معاشرتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ عرب دنیا میں آج کی اور مستقبل کی اوسط عمر کے حوالے سے اعداد و شمار میں اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ یمن اور سوڈان کے سوا تمام عرب ممالک نے اوسط عمر کی عالمی حد یعنی ۹ء۷۱ سال پار کرلی ہے۔ آج یمن کے سوا تمام ہی عرب ممالک میں اوسط عمر ۸۰ سال ہے۔ مارشیا انہارن کہتی ہیں کہ عرب دنیا میں معمر افراد کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھتی جارہی ہے مگر اُنہیں بہتر انداز سے رکھنے کا کوئی باضابطہ نظام موجود نہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں معمر افراد کے لیے قابلِ رشک سہولتیں میسر ہیں مگر عرب دنیا میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ ایک بڑا معاشرتی مسئلہ ہے جو دھیرے دھیرے خطرناک شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ اس وقت عرب دنیا میں معمر افراد کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی تعداد بڑھتی جائے گی اور اُن کے لیے وسائل فراہم کرنا انتہائی دشوار ہوتا جائے گا۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف باتھ کے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ریسرچ کے محقق احمد عارف کہتے ہیں کہ خلیجی مجلسِ تعاون (جی سی سی) کے ارکان میں گرتی ہوئی شرحِ پیدائش کے منفی اثرات مرتب ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ آبادی کا عدم توازن اور متبادل کا بروقت اہتمام کرنے میں ناکامی سے شدید معاشی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
بیشتر عرب ممالک میں شرحِ پیدائش ۱ء۲ سے نیچے جاچکی ہے۔ ۱ء۲ وہ شرحِ پیدائش ہے جو کسی بھی معاشرے کو متوازن اور مستحکم رکھنے کے لیے لازم ہوا کرتی ہے۔ جب کوئی معاشرہ اِس شرحِ پیدائش کو برقرار رکھنے میں ناکام رہتا ہے تو آبادی کا شدید عدم توازن پیدا ہوتا ہے اور یوں معاشی اور معاشرتی مشکلات جنم لیتی ہیں۔ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو عرب معاشروں میں معمر افراد کی تعداد بڑھتی جائے گی۔ محنت کشوں کی تعداد گھٹتی جائے گی۔ آبادی گھٹے جانے سے شدید نوعیت کی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ مارشیا انہارن کہتی ہیں کہ عرب دنیا میں آبادی کے حوالے سے رونما ہونے والی غیر معمولی تبدیلیاں لازمی طور پر مثبت اثرات کی حامل نہیں۔ بہت سی خرابیاں ایسی ہیں جنہیں ٹالنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ خلیجی ممالک باقی عرب دنیا سے تھوڑے سے مختلف ہیں۔ آبادیاں ہیں بھی کم اور ان میں غیر ملکی ورک فورس غیر معمولی حد تک زیادہ ہے۔ قطری خواتین میں فی کس شرحِ پیدائش اِس وقت ۳ سے زیادہ ہے۔ خلیجی مجلس تعاون کے علاقے میں مجموعی شرحِ پیدائش ۷۵ء۱ فی کس ہے۔ قطر سمیت بیشتر خلیجی ریاستوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ ملک کو جتنے لوگ درکار ہیں اُتنے ہیں نہیں یعنی آبادی ضرورت سے بہت کم ہے۔ غیر ملکی ورک فورس کا گراف خطرناک حد تک بلند ہے۔
مارشیا انہان مزید کہتی ہیں کہ یمن اور شام کے بحران کے باعث تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی کئی عرب ممالک میں آبادی کے توازن پر شدید منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے۔ تارکین وطن کا یہ بحران عرب دنیا میں ناکام انقلابوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The Arab world’s silent reproductive revolution”. (“aljazeera.com”. April 16, 2019)
Leave a Reply