
مصر کے صدر عبدالفتح السیسی کی جانب سے قصرِ صدارت میں گزارا گیا ڈیڑھ برس کا عرصہ اسلام پسندوں کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی کے مرہونِ منت ہے۔ اِس دوران اُن کی قومی ترقیاتی منصوبوں اور رائے عامہ پر گرفت بہت مضبوط رہی ہے۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ عوامی حمایت تبدیل بھی ہو سکتی ہے اور سیسی کے پاس سابق آمر حُسنی مبارک کی طرح کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے، جو اُن کے لیے جدوجہد کرسکے۔ حقیقت میں تو اُن کی پشت پر کوئی باقاعدہ سیاسی ادارہ تک نہیں ہے۔ سیسی یکدم ایک مضبوط فوجی بغاوت کے ذریعے سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے ہیں۔
ملک کی نئی پارلیمان میں سیسی کی حمایت کرنے والے موجود ہیں، یہ زیادہ تر آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے ہیں اور ابھی ایک پائیدار اور دیرپا اتحاد وجود میں آنا ہے۔ بالکل ایک سیاسی جماعت کی طرح، جیسے کہ حُسنی مبارک کی نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی تھی۔ جب حالات تلخ ہونا شروع ہوں گے تو سیسی شاید ہی عوامی حمایت کو اپنے حق میں کرنے کے لیے پارلیمان پر اعتبار کرسکتے ہیں۔ صرف ایک ادارے، یعنی فوج کے پاس اتنی طاقت اور عوامی مقبولیت ہے، جو اُن کے اقتدار کو بچاسکتی ہے۔
قاہرہ یونیورسٹی میں تقابلی سیاست کے اسسٹنٹ پروفیسر احمد عبد ربوع کا کہنا ہے کہ ’’سیاسی طور پر سیسی کو فوج کی ضرورت ہے۔ اُن کے پاس کوئی سیاسی ادارہ نہیں ہے۔ صرف فوج ہی سیاسی عملداری کا ذریعہ ہے اور فوج اپنے آپ میں ایک سیاسی تنظیم بن چکی ہے‘‘۔
اِس مرحلے میں فوج کی یہی ضرورت ہے اور یہ سیسی کا بنیادی حلقہ بھی بن چکا ہے۔ اپنی وفاداریوں کے بدلے میں اُن کی مانگ بالکل واضح ہے۔ مصر کی معیشت پر قبضہ، عوام پر حکومت چلانے کے قوانین کی کوئی روک ٹوک نہیں ہونی چاہیے۔
تحریر انسٹی ٹیوٹ برائے مشرقِ وسطیٰ کی پالیسی اور منصوبہ سازی کے مطابق اقتدار سنبھالنے کے بعد سے سیسی کے ۲۶۳ صدارتی احکامات میں سے ۳۲؍احکامات کا تعلق براہِ راست فوج اور سکیورٹی کے شعبوں سے ہے۔ اِس میں وہ حکم نامہ بھی شامل ہے، جس میں فوجیوں کی پنشن دس فیصد بڑھانے اور وزارتِ دفاع کو منافع کمانے کے لیے سکیورٹی کمپنیاں بنانے کی اجازت دی گئی تھی۔
فوج کی ملکیت میں کمپنیوں کا آغاز ۱۹۸۱ء سے ہوا تھا، جب ایک ادارہ قائم کیا گیا جو فوج کی ملکیت میں غیر ضروری اراضی کو نجی شعبوں کو فروخت کرسکے۔ تاہم سیسی کے حکم نامے نے فوج کو مکمل اختیار دے دیا ہے کہ وہ خود کے لیے تجارتی کاروبار اور منافع کمانے کے لیے اثاثے بنا سکے۔
یہ چھوٹی کمپنیاں وقت کے ساتھ ساتھ فوج کے اثاثوں کو سائبان مہیا کرنے کے لیے تیار کی گئی تھیں، یہ ٹیکس اور سویلین نگرانی سے آزاد ہوتی ہیں۔
لینڈ پروجیکٹ ایجنسی اِن کمپنیوں میں سے ہی ایک ہے۔ یہاں اِس جیسی اور بھی کئی کمپنیاں ہیں، جیسے کہ سمندری ٹرانسپورٹ کی کمپنی، اِس کا آغاز حسنی مبارک کے دور اقتدار میں ہوا تھا اور بعد میں اِس کو مکمل طور پر فوج کے حوالے کردیا گیا تھا۔
یہ کہنا تو مشکل ہے کہ مصر کی کتنی فیصد معیشت پر فوج کا قبضہ ہے۔ یہاں فوجی کمپنیوں کو آمدن ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اِن کی آمدنی کُل شرح نمو میں ۵ سے لے کر ۶۰ فیصد تک اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔
تاہم فوج کی اقتصادی سلطنت کی وسعت اور تنوع کوئی راز نہیں ہے۔ مصری فوج کی نیشنل سروس پروڈکٹس اورگنائزیشن، تیل، سیمنٹ، پاستا سے لے کر پانی کی بوتلیں تک تیار کرتی ہے۔ عرب ادارہ برائے صنعت کاری عوام کے لیے شاندار گاڑیاں، اسمارٹ فون اور سولر پینل تیار کرتا ہے۔ فوجی کمپنیوں کے پاس کافی زیادہ اثاثے ہیں، جس میں وسیع پیمانے پر منافع بخش زمینیں، شہریوں کے لیے کوچ سروس، ذخیرہ کرنے کی سہولیات اور کارگو کے جہاز تک، تمام چیزیں شامل ہیں۔
مبارک کے دورِ اقتدار میں اِن کمپنیوں کو سرکاری اور غیر ملکی معاہدے حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ کمپنیاں جبری مشقت لیتی اور دیگر کمپنیوں سے کم قیمت پر مال فروخت کرتیں۔ یہ بات صدر کے لیے بہت اچھی تھی، جنھیں لگتا تھا کہ فوجی حکام کو اِس طرح کے ٹھیکے دینے سے اُن کی وفاداری قائم رہے گی۔
لیکن اقتدار میں رہنے کے لیے سابق صدر حسنی مبارک اِن افسران کی خیرخواہی پر کم ہی بھروسا کرتے تھے، اِس کام کے لیے اُن کی سیاسی جماعت این ڈی پی موجود تھی۔ اُنھوں نے ایک ایسا نظام وضع کیا تھا، جو فوج کے مفاد میں تھا اور اِسی وجہ سے انتخابات کے دوران فوجی جرنیل اُن کی جانب ہوتے تھے۔
عبد ربوع کا کہنا ہے کہ ’حسنی مبارک فوج کے حوالے سے کافی سمجھدار تھے۔ فوج اُن کے مفاد میں تھی، لیکن وہ سیاست نہیں چلا رہی تھی۔ اُن کے پاس معاشی طاقت تھی، مگر یہ سب پسِ پردہ تھا اور مرکزی سیاسی کردار این ڈی پی ادا کررہی تھی‘۔
پانچ سال قبل حسنی مبارک کے اقتدار چھوڑنے کے بعد سب تبدیل ہوگیا ہے۔ عظیم الشان عوامی جشن کے دوران مسلح افواج کی سپریم کونسل نے آگے بڑھ کر اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا اور ۱۹۵۲ء کے بعد پہلی بار فوج نے ملک کی باگ ڈور چلانے کے لیے مکمل اختیارات کا مزہ لیا۔
سیسی کے دور اقتدار میں فوجی کمپنیوں کے کردار میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ یہ کمپنیاں ٹھیکے حاصل کرنے کے بجائے پورے منصوبوں کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لینے لگی ہیں۔ اصولی طور پر اِس کا مقصد غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ برائے مشرقِ وسطیٰ کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر شانہ مارشل کا کہنا ہے کہ بیانات سے کافی آگے کی بات ہے۔
ایک کہاوت ہے کہ ’’غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے آپ کو بیوروکریسی کے روایتی طریقۂ کار کو ختم کرکے ایک مرکزی نظام بنانا ہوگا۔ عالمی بینک اِس طرز کے کام کو پسند کرتا ہے۔ اسی لیے سیسی کا فوج کو تجارتی معاہدوں میں شامل کرنے کا ظاہری مقصد بیورو کریسی کے نظام کی پیچیدگیوں سے سرمایہ کاروں کو بچانا ہے۔ لیکن عملی طور پر اس عمل سے بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ معمولی منصوبے نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر ۹؍ارب امریکی ڈالر کی مالیت کا سوئز کنال کی توسیع کا منصوبہ، جس کو مکمل طور پر فوج بنارہی ہے۔ سوئز کنال کے منصوبے کی باگ ڈور نیوی کے ایڈمرل کے ہاتھ میں ہے۔ فوج اِس بات کو یقینی بناتی ہے کہ سب سے پہلے ٹھیکے اُن کی کمپنیوں کو دیے جائیں اور اُس کے بعد اُن کے سیاسی اتحادیوں کی کمپنیوں کا نمبر آتا ہے۔
سیسی کا اگلا بڑا پروجیکٹ صحرا میں ۱۵؍لاکھ ایکڑ زمین کو زراعت کے قابل تیار کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اِس حوالے سے ماہرین کو خدشات ہیں کہ آیا صحرا میں کام کرنے کے لیے مزدور دریائے نیل کے ساتھ بنے ہوئے اپنے گھر چھوڑنے کے لیے تیار ہوں گے بھی یا نہیں۔ اور یہ بھی ظاہر نہیں کیا گیا ہے کہ اِس زمین میں نئی زرعی زمین کو کاشت کے قابل رکھنے کے لیے زیر زمین پانی ہے یا نہیں۔ لیکن سیسی اتنا آگے کی نہیں سوچ رہے ہیں۔
اسی لیے وہ اِس طرح کے بڑے بڑے پروجیکٹوں کا اعلان کررہے ہیں، تاکہ وہ اپنے مضبوط حلقے یعنی فوج کو امیر اور خوش رکھ سکیں۔ اِس کے ذریعے سے اِن کو حب الوطنی کی مضبوط تہ سے باندھ دیں اور ساتھ ساتھ اپنی مقبولیت کی شرح میں مزید اضافہ کرسکیں۔
مارشل کا کہنا ہے کہ ’اِن کی سیاسی مہارت کا اصل امتحان تو اُس وقت شروع ہوگا جب پیسہ ختم ہوجائے گا اور اب یہی ہورہا ہے۔ تیل کی قیمتیں دس سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہیں۔ سعودی عرب اپنے داخلی اخراجات کا دوبارہ سے تخمینہ لگانے پر مجبور ہے، اور اُس نے جنوری کے اوائل میں اپنے شہریوں کے لیے تیل کی قیمتوں میں ۵۰ فیصد تک اضافہ کردیا ہے۔ ۲۰۱۳ء سے سرمایہ کاری کی شکل میں مصر کو سعودی عرب کی جانب سے ۱۲؍ارب امریکی ڈالر کی امداد مل رہی ہے اور مزید کے وعدے کیے گئے ہیں۔ لیکن سعودی عرب کی تیل کی آمدن میں زیادہ کمی ہوگی تو یہ وعدے بھی کمزور ہوتے جائیں گے۔ مارشل کا کہنا ہے کہ ’اِس وقت پیسوں پر کوئی لڑائی نہیں ہے لیکن معاملات اُس وقت بگڑیں گے، جب خلیج سے پیسہ آنا بند ہوجائے گا۔ جب یہ دن آئے گا تو سیسی کو یہ حقیقت ماننا پڑے گی کہ اُس کے بڑے بڑے منصوبوں سے عام مصریوں کی زندگیوں میں پائے جانے والے روزہ مرہ کے معاشی مسائل حل نہیں ہوسکے ہیں۔
(ترجمہ: معاذ احمد)
“The Army And Its President”. (“Foreign Policy”. January 28, 2016)
Leave a Reply