مصر میں اچانک سب کچھ بدل گیا ہے۔ آرمی ایک بار پھر تمام معاملات کنٹرول کر رہی ہے۔ آپ چاہیں تو اسے فوجی بغاوت بھی کہہ سکتے ہیں۔ مصر کی فوج دونوں فریقوں سے مل کر بنی ہے اور انہیں الگ رکھنا ہی پڑے گا۔ دونوں ہی فریق مصر کا قومی پرچم لہراسکتے ہیں جو سُرخ، سیاہ اور سفید ہے۔ ہاں، ’’خاکی‘‘ کسی بھی اعتبار سے متبادل رنگ نہیں۔
مصر کی فوج یا مشہور زمانہ ’’سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز‘‘ آج کل مصر کے معاملات کو چلا رہی ہے۔ پہلے تو دھمکیاں دی گئیں اور پھر قاہرہ کی سڑکوں پر آرمرڈ گاڑیاں آگئیں۔ پہلے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، پھر لوہے کے تاروں کی باڑ آگئی۔ اس کے بعد ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن پر قبضہ ہوا۔ محمد مرسی نے، جو اِن سطور کے لکھے جانے تک صدر تھے، اِسے فوجی بغاوت قرار دیا مگر اس سے قبل، بہت پہلے انہوں نے جرنیلوں سے استدعا کی کہ وہ بیرکس میں چلے جائیں۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے۔ محمد مرسی کی انتظامیہ کی گرتی ہوئی ساکھ کو مضبوط کرنے کے لیے جرنیلوں کو بیرکس میں جانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ پہلے مرسی نے کہا کہ ان کا خون بہے گا۔ پھر فوج نے بھی خون بہانے کی بات کہی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک منتخب حکومت ختم کردی گئی اور لوگ تالیاں بجاتے رہے۔ مرسی کے حامی یقینی طور پر اسے منتخب حکومت پر شب خون مارنا ہی قرار دیں گے۔ مگر خیر اب سبھی سپاہیوں کو سیاست دانوں کی جگہ لینے کی تحریک دے رہے ہیں۔
مصر میں جو کچھ ہوا ہے، اس سے اخوان المسلمون ختم نہیں ہوجائے گی۔ محمد مرسی کے ساتھ خواہ کچھ بھی ہوا ہو، اور ان سے روا رکھا جانے والا سلوک انصاف ہو یا نا انصافی، ملک کی سب سے منظم جماعت کے طور پر اخوان المسلمون برقرار رہے گی۔ یہ پارٹی اچھی طرح جانتی ہے کہ کسی بھی مشکل گھڑی میں کس طور زندہ رہنا اور خود کو برقرار رکھنا ہے۔ مصر کی جدید سیاسی تاریخ میں اخوان المسلمون ایسی پارٹی ہے جس کے بارے میں سب سے زیادہ بدگمانیاں روا رکھی گئی ہیں یا ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ اخوان المسلمون کے بارے میں عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ یہ خالص اسلامی پارٹی ہے مگر اس سے کہیں بڑھ کر یہ ابتدا ہی سے دائیں بازو کی جماعت ہے۔ اس نے شاہ فاروق اور جاگیرداروں کو بھی برداشت کرنے کا عندیہ دیا تھا، بہ شرطِ کہ وہ اسلامی تعلیمات اور حدود کا خیال رکھتے ہوئے کام کریں۔
۲۰۱۱ء میں جب انقلاب مصر کی دہلیز تک آچکا تھا اور لوگ حسنی مبارک کا اقتدار کسی بھی طور قبول یا برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے، تب بھی اخوان المسلمون حسنی مبارک سے بات چیت کر رہی تھی تاکہ اقتدار کی میز پر اپنے لیے کچھ بچاکر رکھ سکے۔ مصر میں عوامی انقلاب کے دوران اخوان المسلمون کی قیادت کبھی عوام کے شانہ بہ شانہ کھڑی نہیں ہوئی۔ یہ کام مزدور انجمنوں نے کیا اور خاص طور پر شمالی قاہرہ کے علاقے محلہ کے گارمنٹ ورکروں نے۔
جمال عبدالناصر سے بھی اخوان المسلمون کی لڑائی مذہب سے زیادہ سلامتی کے مسئلے پر تھی۔ فری آفس موومنٹ کی قیادت اچھی طرح جانتی تھی کہ اخوان المسلمون واحد جماعت ہے جو فوج میں سرایت کرسکتی ہے اور تب سے مصر کی فوج نے یہ سبق اچھی طرح یاد کر رکھا ہے۔ جمال عبدالناصر، انور سادات اور حسنی مبارک کے ادوار میں اخوان پر پابندی عائد کی جاتی رہی۔ اب اگر ایک بار پھر اس پر پابندی عائد کی گئی تو فوج میں اس کے اثرات بہرحال کم نہیں ہوں گے۔ انور سادات کا قاتل خالد الاسلام بولی اخوان کا تو نہیں تھا تاہم وہ فوج میں لیفٹیننٹ رہ چکا تھا۔
اخوان المسلمون کے قائد سید قطب نے جمال عبدالناصر پر ملک کو اسلام سے قبل کے زمانے (دورِ جہالت) میں دھکیلنے کا الزام لگایا مگر حقیقت یہ ہے کہ الحاد پرست سابق سوویت یونین سے اخوان المسلمون کے تعلقات اچھے رہے۔ سرکاری سطح پر پابندی اور اذیت کا سامنا کرنے کے بعد اخوان نے اچھی طرح سیکھ لیا کہ سیاسی، سماجی اور عسکری سطح پر کس طور زندہ اور توانا رہنا ہے۔
کہتے ہیں کہ فوج کا تعلق عوام سے ہوتا ہے۔ ۲۰۱۱ء کے انتخابات کے دوران اقوام متحدہ کے سابق ایٹمی اسلحہ انسپکٹر، نوبل انعام یافتہ شخصیت اور اب اپوزیشن لیڈر محمد البرادعی نے کہا تھا ’’فوج کا تعلق عوام سے ہے۔ کوئی فوجی جب وردی اتارتا ہے تو عوام ہی میں آ ملتا ہے، اُنہی جیسے مسائل کا سامنا کرتا ہے۔ ایسے میں یہ بات سوچنا بہت محال ہے کہ فوجی عوام پر گولی چلائیں گے‘‘۔
مگر خیر یہ تو تب کی بات تھی۔ محمد مرسی نے چند دن قبل جو لہجہ اختیار کیا وہ کسی حد تک حسنی مبارک کے لہجے سے ملتا جلتا تھا۔ اس میں مرسی کا قصور کم تھا۔ کیونکہ وہ منتخب تھے اور انہیں اپنی بات زور دے کر منوانے کا حق حاصل تھا۔ دو سال قبل حالت یہ تھی کہ عوام حسنی مبارک کے خلاف تھے۔ اب وہ ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ ایسے میں فوج کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ اسے طے کرنا ہے کہ وہ کس کی طرف ہے اور حقیقت یہ ہے کہ فوج کو منقسم عوام کے ساتھ رہنا ہے۔ وہ کسی ایک فریق کی حمایت یا مخالفت کرکے کام نہیں کرسکتی۔
(“The Army is Built from both Sides of Egypt’s Divide”… “The Independent” July 3, 2013)
Leave a Reply