اسرائیل کے مظالم

دھوپ کی آنچ میں زخم جلتا رہا
درد کی چھائوں میں غم بھی پلتا رہا

اسرائیل نے فلسطینی عوام کے خلاف ظلم ، جبر و استبداد کی انتہا کر دی ، غزہ کی پٹی کے پناہ گزیں کیمپس میں زندگی گزارنے والے نہتے افراد پر راکٹس اور مزائیلز داغتے ہوئے یہ ثبوت فراہم کیا کہ بین الاقوامی قوانین اور اصول اس کے لیے کوئی معنیٰ نہیں رکھتے۔ اپنی ان کارروائیوں کے لیے اسرائیل نے ہمیشہ ہی کچھ نہ کچھ جواز تلاش کیا ہے ، اور اپنے قریبی ساتھی و حلیف امریکہ کی پشت پناہی بھی اسے حوصلہ دیتی رہی۔ ۱۹۴۸ء میں فلسطینی علاقوں پر قبضہ کے بعد سے اسرائیل کا فلسطینی عوام پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے اور اس علاقہ میں امن کی تمام تر کوششیں بے سود ثابت ہوئی ہیں۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ عالمی برادری بالخصوص امریکہ نے کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور جب کبھی مشرق وسطیٰ میں امن بحال کرنے کی بات ہوئی اس نے جانبدارانہ رویہ اختیار کیا۔ اس وقت بھی گزشتہ ایک ہفتہ سے فلسطینی عوام کو حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن امریکہ نے اسرائیل کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا، اس کے برعکس مصالحتی روش اختیار کرتے ہوئے اسے حملوں سے روکنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ۔ اسرائیل کا یہ دعویٰ ہے کہ حماس کے راکٹ حملے روکنے کی غرض سے یہ کارروائی کی جا رہی ہے لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ حماس اپنے جائز مطالبات کے لیے یہ جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہے ۔ امریکہ اور اسرائیل کی نظر میں حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے اسی وجہ سے جب عوام نے حماس کو اقتدار حوالے کیا تب اسے عملاً یکا و تنہا کر دیا گیا تھا۔ فلسطین کو ملنے والی ساری امداد روک دی گئی اور عوام کے اس فیصلہ کو امریکہ نے تسلیم نہیں کیا۔ آخر کار فلسطین میں زبردست معاشی بحران پیدا ہو گیا اور عوام آپس میں ایک دوسرے کے خلاف دست و گر یباںہو گئے ۔ ان حالات میں حماس کو اقتدار سے محروم ہونا پڑاجس کے بعدفلسطینی اتھارٹی کے سر براہ صدر محمود عباس کے فتح گروپ کی حکومت قائم ہو گئی، یہ امریکہ کی نظر میں اعتدال پسند گروپ ہے جس کے ساتھ مذاکرات کیے جا سکتے ہیں چنانچہ اسی کی ایماء پر فلسطین و اسرائیل کے مابین بات چیت سے اتفاق کیا گیاتھا۔ اس کے بعد متواتر ایسے حالات پیش آتے جا رہے ہیں جس سے صدر امریکہ جارج ڈبلیو بش کی بے بسی کا اظہار ہوتا ہے وہ امن مذاکرات کو آگے بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو رہے ہیں۔ حالیہ اسرائیلی حملوں نے صورتحال کو مزید ابتر بنا دیا۔ ان سارے واقعات پر عالمی برادری بالکل خاموش ہے اوراس مجرمانہ غفلت کا خمیازہ فلسطینی عوام بھگت رہے ہیں اور ان کی زندگی کئی مشکلات کا شکار ہے ۔ فلسطین میں عام آدمی کے لیے روزگار اور طبی سہولیات فراہم نہیں، یہاں مسائل دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں اور ایک بہتر مستقبل کی تلاش میں ہرشخص سر گرداں نظر آتا ہے ۔ سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ فلسطینی عوام کی ایک اچھی زندگی گزارنے کی امید پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صرف غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی بیشتر آبادی جھگیوں اور جھونپڑیوں میں زندگی گزارتی ہے۔ یہاں پناہ گزین کیمپس کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ ہے اور عوام میں اسرائیل کے خلاف جذبات انتہائی شدید ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں نہتے عوام کے حقیقی جذبہ کو سمجھنے والا کوئی نہیں۔ ایک طرف اسرائیل کا ان پر ظلم ہو رہا ہے تو دوسری طرف امریکا اور دیگر ہمنوا ممالک انہیں دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ فلسطین اور یہاں کے عوام کا حقیقی مسئلہ سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان کے ساتھ انصاف یقینی بنانے کے لیے مؤثر اقدامات نا گزیر ہیں، ان کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے ایک بہتر مستقبل کو یقینی بنانا ہوگا۔ یہ کام تبھی ممکن ہے جب ایک آزاد فلسطینی مملکت قائم ہو، یہاں یہودی بستیوں کو ختم کیا جائے ، اسرائیل کا وجود خود فلسطین کے لیے ناقابل قبول ہے کیونکہ اس نے ناجائزقبضہ کر رکھا ہے ۔ ایسے میں کم از کم فلسطینی عوام کے حقیقی نقطہ نظر کو سمجھنا ہو گا۔ تازہ ترین حالات میں امن مذاکرات جاری رہنے کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں۔ خود صدر محمود عباس نے یہ کہا ہے کہ مذاکرات جاری نہیں رکھے جا سکتے تاہم امریکہ نے پھر ایک مرتبہ اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ اس کے باوجود کسی مثبت یا خاطر خواہ نتیجہ کی توقع رکھنا فضول ہو گا کیونکہ مسئلہ کو حل کرنے کے لیے غیر جانبدارانہ موقف اختیار کرنا ضروری ہے، اور اس مرتبہ امریکہ پھر اسی غلطی کا اعادہ کر رہاہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے خلاف سخت اقدامات بھی نا گزیر ہیں، جو امریکہ کے بس کی بات نہیں۔ ایسے میں فلسطینی عوام کے ساتھ انصاف اور ان پر ہونے والے ظلم کا خاتمہ کس طرح ممکن ہو سکے گا؟ موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کم از کم عالمی برادری کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا۔ وہ متحد ہو کر اسرائیل کے خلاف سخت مؤقف اپنائے اور فلسطینی عوام کے ساتھ انصاف کو یقینی بنایا جائے ۔ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے اور اس مسئلہ کو غیر جانبداری کے ساتھ حل کرنا ہوگا، ورنہ اسرائیل کے مظالم کے جواب میں فلسطینی عوام خاموش نہیں رہیں گے اور ان کی جدو جہد جاری رہے گی۔

(بحوالہ:اداریہ روزنامہ ’’سیاست‘‘ حیدر آباد دکن)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*