
کمیونزم کے زیرِ اثر روس میں خدا کا تصور کئی دہائیوں تک امکانات سے خارج رہا۔ لیکن اب اس ملک میں مذہبی نَشاَۃِ ثانیہ دیکھنے کو مل رہی ہے، جس میں کچھ روسی باشندے اسلام کو بھی سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
روس میں زیادہ تر باشندے کٹّر روسی عیسائیت (Russian Orthodox Christian faith) پر یقین رکھتے ہیں، لیکن مسلمانوں کو بھی اجنبی یا پردیسی نہیں سمجھا جاتا۔ یورپی اقوام کے برعکس، جہاں اسلام مہاجرین کے ذریعے پہنچا، روس میں بہت سے مقامی باشندوں نے اسلام قبول کیا اور عیسائیوں کے ساتھ کئی صدیوں تک رہتے رہے۔ ہاں البتہ سوویت دَور میں تمام مذاہب ہی شجرِ ممنوعہ بنے رہے، اور کمیونزم کے زوال کے بعد راسخ العقیدہ عیسائیت اور اسلام کو دوبارہ تیزی سے پَنپنے کا موقع ملا۔
آج روس میں مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں قابلِ بھروسا اعداد و شمار میسر نہیں، کیونکہ حالیہ مردم شماری کے سوالنامے میں شہریوں سے اُن کے مذہب کی بابت نہیں پوچھا گیا۔ روسی مسلمانوں کی تعداد کا تعیُّن اُن تمام نسلی گروہوں کی آبادی کو جمع کرکے کیا جاتا ہے، جو روایتاً مسلمان ہیں، مثلاً تاتار، باشکیر اور چیچن۔ لہٰذا ان ’’نسلی مسلمانوں‘‘ کی تازہ ترین دستیاب تعداد ایک کروڑ ۶۰ لاکھ سے ۲ کروڑ کے درمیان بنتی ہے جو روسی آبادی کا بارہ سے پندرہ فیصد ہے۔
یہاں کچھ ’’نئے مسلمان‘‘ بھی ہیں جو ابتداً مسلمان نہیں تھے اور دیگر مذاہب چھوڑ کر دائرئہ اسلام میں داخل ہوئے۔ مرکز برائے علاقائی سلامتی و مطالعۂ قفقاز (Centre for the regional security and Caucasus studies) کے سینئر فیلو نیکولے سیلائیو کہتے ہیں کہ ’’ایسے واقعات شاذ ہیں لیکن روس میں اسلام چھوڑ کر سِکّہ بند عیسائیت قبول کرنے والوں کے مقابلے میں ان کو شہرت زیادہ مل جاتی ہے‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ روس میں تبدیلیٔ مذہب کے حوالے سے دستیاب حقائق اس طرح کے رجحانات کو پوری طرح واضح نہیں کرتے۔
ہم نے اسلام قبول کرنے والی تین روسی خواتین سے بات چیت کی:
۲۲ سالہ ولیریا (Valeria) پانچ سال قبل مسلمان ہوئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میں ایک عیسائی گھرانے میں پلی بڑھی اور میرے مسلمان ہونے کے فیصلے سے میرے گھر والوں کو شدید دھچکا لگا۔ سب سے پہلے ان کا ذہن بدترین سَمت میں گیا اور وہ سمجھے کہ میں اب مستقبل قریب میں مسافر بسوں کو دھماکے سے اڑاؤں گی۔ لیکن بہرحال انہوں نے میری خواہش کا احترام کیا، جس کے لیے میں ان کی شکرگزار ہوں۔ خاص طور پر اپنی ماں کی، جنہوں نے نسبتاً کم وقت میں میرے فیصلے کو قبول کیا اور پھر خاندان اور قریبی دوستوں میں اس کا دفاع بھی کیا۔
اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے اس کا مطالعہ شروع کیا اور تین ماہ میں نماز بھی ادا کرنے لگی۔ اس کے دو ماہ بعد میں حجاب پہننے لگی۔ پھر میری ملاقات اپنے ہونے والے شوہر سے ہوئی۔ وہ نسلاً تاتار ہیں مگر ان کے گھرانے نے اسلام قبول نہیں کیا۔ بالآخر ایک ساتھ رہتے رہتے ہم اپنے اپنے مذہب پر قائم رہنا سیکھ گئے‘‘۔
۳۰ سالہ اُلیانہ سات سال قبل مسلمان ہوئیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’’میں بچپن ہی سے اسلام میں دلچسپی رکھتی تھی۔ یونیورسٹی کے دور میں، مَیں نے بنیادی عقائد اور عربی سیکھی۔ میرے بہت سے مسلمان دوست تھے جن کا رویہ اس سے یکسر مختلف تھا جسے ہمارے معاشرے میں ’نارمل‘ سمجھا جاتا تھا۔ اسی لیے میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔ میرے والدین اور قریبی دوستوں نے میرے فیصلے کو قبول کرلیا کیونکہ انہیں اس کا اندازہ تھا۔
میں حجاب نہیں اوڑھتی، اور صرف نماز کے دوران ہی خود کو پورا ڈھانکتی ہوں۔ شروع شروع میں میرے لیے روزہ رکھنا بھی مشکل تھا لیکن پھر تین سال میں اس کی عادی ہوگئی۔ اسلام سے متعلق لوگوں میں پھیلی غلط فہمیوں سے لڑنا بھی بہت مشکل ہے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام بے حسی پر مبنی مذہب ہے۔ میں مکمل طور پر ان خیالات کو رد کرتی ہوں۔ ساری الہامی تعلیمات محبت کے عظیم جذبے کے تحت وجود میں آئی ہیں۔
اسلام کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں ہیں۔ مثلاً یہ کہ مسلمان بے زبان جانوروں کو ذبح کردیتے ہیں، اپنی بیویوں کو مارتے ہیں اور اسلام کو نہ ماننے والوں کو برداشت نہیں کرتے‘۔ اس رویے کی وجہ لاعلمی ہے۔ اگر آپ کسی چیز کے بارے میں جانتے نہیں یا اس سے ڈرتے ہیں تو آپ کو پتا لگانا چاہیے کہ آپ کے خدشات درست بھی ہیں یا نہیں۔ بہت سے خدشات اس وقت دور ہوجاتے ہیں جب آگہی بڑھتی ہے اور مذہب پر صحیح معنوں میں عمل پیرا افراد سے گفتگو کا موقع ملتا ہے‘‘۔
۵۵ سالہ زینب دس سال قبل اسلام لائیں۔ ان کے بقول ’’یہ ۱۹۹۰ء کی دہائی کے اواخر میں ہوا، جب میں اپنے شوہر کے ساتھ پہلی مرتبہ کسی مسلمان ملک یعنی مصر گئی۔ میں نے دیکھا کہ زندگی کے بارے میں ان کی ذہنیت اور رویہ بالکل بدلا ہوا ہے۔ اس ماحول سے متاثر ہونے کے بعد مجھے عرب دنیا سے دلچسپی پیدا ہوگئی اور میں نے قرآن پڑھنا شروع کردیا۔
جب میری عمر ۴۰ سال ہوئی تو میں نے اپنے شوہر کو بتایا کہ میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں۔ میرے شوہر اور بچوں نے اس بات کو سمجھا اور متوازن ردعمل کا اظہار کیا۔ لیکن میری والدہ کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ بنیادی مسئلہ حجاب لینے کا تھا، لیکن اب یہ مسئلہ حل ہوچکا ہے۔ اب میری والدہ خود میرے لیے حلال غذا خریدتی ہیں۔ چار سال کے اندر میری بڑی بیٹی بھی مسلمان ہوگئی۔
اسلام قبول کرتے ہی مجھے احساس ہوا کہ میں خاصی بدل چکی ہوں اور پرانی والی لینا (Lena) نہیں ہوں۔ پھر میں نے اسلامی نام رکھنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے انگریزی اور جرمن مترجم کے طور پر کام کیا۔ جب میں نے حجاب لینا شروع کیا تو میرے ساتھی ملازمین کا رویہ خراب ہوگیا اور مجھے ایک بہت معمولی بات پر برخاست کردیا گیا۔ میں بہت پریشان ہوئی مگر دو ماہ بعد مجھے ایک اور ادارے سے اسی قسم کی پیشکش ہوئی جس میں تنخواہ زیادہ تھی۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں حجاب لیتی ہوں مگر انہوں نے کہا کہ انہیں میرے پہننے اوڑھنے سے کچھ نہیں لینا دینا، انہیں صرف میری صلاحیتیوں سے غرض ہے۔
میں ایک مثال بن کر اسلام کے بارے میں معاشرتی رویہ تبدیل کرنا چاہتی ہوں۔ لوگ اسلام کے بارے میں لمبی تقریریں سننا نہیں چاہتے۔ وہ آپ کے اعمال کو دیکھتے ہیں۔ ایک سچا مسلمان صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں بلکہ ہر ایک کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہے‘‘۔
(ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)
“The attraction of Islam for some Russian women”. (“in.rbth.com”. Jan.29, 2016)
Leave a Reply