
اجتماعی اظہارِ غضب
یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس ایلگر کی شدید ضرورت ہے۔ اس مستقل اجتماعی مزاحمتی اظہارِ ناراضی کی۔ براہمنیت کے خلاف، سرمایہ داری کے خلاف، اسلاموفوبیا کے خلاف، پدرسریت کے خلاف۔ پدرسریت جو ان سب کے اندر موجود ہے کیونکہ اگر مرد خواتین کو کنٹرول نہیں کرتے یا نہیں کر سکتے، تو انہیں معلوم ہے کہ وہ کچھ بھی کنٹرول نہیں کر سکتے۔ جبکہ وبا پھیل رہی ہے، کسان سڑکوں پر ہیں۔ بی جے پی کے زیرانتظام صوبوں میں تبدیلیٔ مذہب مخالف قوانین پھرتی سے منظور کیے جا رہے ہیں۔ میں ان کے متعلق کچھ بات کرنا چاہتی ہوں کیونکہ یہ اس تشویش کے سمجھنے میں بہت مددگار ہیں جو اس حکومت کو ذات پات کے متعلق، مردانگی کے متعلق، مسلمانوں اور عیسائیوں کے متعلق، محبت، خواتین، ڈیموگرافی اور تاریخ کے متعلق لاحق ہے۔
یوپی کا انسدادِ غیر قانونی تبدیلیٔ مذہب آرڈیننس ۲۰۲۰ء (جسے عرفِ عام میں لَوجہاد مخالف قانون کہا جاتا ہے) بمشکل ایک مہینہ پرانا ہے۔ محض اتنے عرصے میں ہی کئی شادیاں برباد کی جاچکی ہیں، خاندانوں کے خلاف مقدمات درج کیے جا چکے ہیں، اور درجنوں مسلم مَرد جیلوں میں ہیں۔ لہٰذا اب سے، بڑا گوشت کھانے پر ’’ہجومی موت‘‘ کا نشانہ بننے کے ساتھ ساتھ جو انہوں نے نہیں کھایا، گائے کشی پر جو انہوں نے ذبح نہیں کی، جرائم پر جو انہوں نے نہیں کیے(اگرچہ مسلمانوں کا قتل اب بتدریج ایک مجرمانہ فعل تصور کیا جانے لگا ہے)، ان لطیفوں پر جیل جانے کے ساتھ ساتھ جو انہوں نے نہیں بنائے (ملاحظہ ہو نوجوان کامیڈین منور فاروقی کیس) اب مسلمانوں کو محبت میں مبتلا ہونے اور شادی کرنے کے جرم میں بھی جیل جانا پڑا کرے گا۔
اس آرڈیننس کے متعلق اپنی رائے کو میں کچھ سوالات کی صورت میں سامنے لانا چاہتی ہوں مثلاً یہ کہ آپ ’’مذہب‘‘ کی تعریف کس طرح کریں گے؟ کیا وہ شخص جس نے کسی مذہبی آدمی کو ملحد بننے پر آمادہ کیا، وہ بھی مقدمے کا سزاوار ٹھہرے گا؟
یوپی کے آرڈیننس ۲۰۲۰ء میں لکھا ہے کہ ’’برائے انسدادِ غیر قانونی تبدیلیٔ مذہب بذریعہ گمراہ کن ترجمانی، طاقت، نامناسب دباؤ، زبردستی، لالچ یا دھوکا دہی یا بذریعہ شادی۔۔ ‘‘ لالچ کی تعریف میں تحائف، خوشیاں، اچھی شہرت کے اسکولوں میں مفت تعلیم، یا پھر ایک بہتر زندگی کے وعدے شامل ہیں (جبکہ یہ قریباً وہی باتیں ہیں جو بھارت میں قریباً ہر ارینج شادی میں ملحوظِ خاطر رکھی جاتی ہیں)۔
ملزم (وہ شخص جو تبدیلیٔ مذہب کا باعث بنتا ہے) کو ایک سے پانچ سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ الزام لگانے والا کوئی بھی رکنِ خاندان حتیٰ کہ دور کا رشتے دار بھی ہو سکتا ہے۔ بارِ ثبوت ملزم کے سَر ہو گا۔ عدالت ازالے کے طور پہ ملزم کے اثاثوں سے ’’متاثرہ ‘‘ شخص کو پانچ لاکھ روپے تک دِلوا سکتی ہے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس سارے نظام سے بھتے اور بلیک میل کے لامحدود امکانات پیدا ہو ں گے۔
سب سے دلچسپ حصہ تو یہ ہے کہ اگر متاثرہ شخص ایک نابالغ، خاتون، شیڈیولڈ ذات کا رکن، یا شیڈیولڈ قبیلے کا رکن ہے تو ملزم کو ملنے والی سزا دوگنا ہو جائے گی، یعنی دو سے دس سال تک کی قید۔ دوسرے لفظوں میں یہ آرڈیننس خواتین، دَلِتوں اور آدیواسیوں کو ایک نابالغ کے مساوی سمجھتا ہے۔ یہ ہم سب کو نابالغ باور کرتا ہے، ہمیں ہمارے فیصلوں کے لیے ذمے دار بالغ نہیں سمجھتا۔ یوپی حکومت کی نظر میں صرف اونچی ذات کا ہندو مَرد ہی صحیح معنوں میں بااختیار قرار پاتا ہے۔
یہ وہی جذبہ ہے جس کے تحت بھارتی چیف جسٹس نے پوچھا تھا کہ خواتین (جو کئی حوالوں سے بھارتی زراعت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں) کو کسان احتجاجوں میں کیوں ’’رکھا‘‘ گیا ہے۔ اور مدھیہ پردیش کی حکومت نے تجویز پیش کی کہ وہ ملازم پیشہ خواتین جو اپنے خاندانوں کے ساتھ نہیں رہتیں خود کو تھانوں میں رجسٹر ڈ کروا لیں تاکہ پولیس انہیں ان کی حفاظت کے واسطے زیرِ نگرانی رکھ سکے۔
ذات پات سے متعلق تشویش
اگر مدر ٹریسا زندہ ہوتیں تو اس آرڈیننس کے تحت انہیں ضرور جیل کی ہوا کھانی پڑتی۔ میرا اندازہ ہے کہ دس سال قید اور عمر بھر کا جرمانہ۔اگر ان لوگوں کی تعداد دیکھی جائے جنھیں انہوں نے عیسائی کیا۔ یہ سزا غریب بھارت میں کام کرنے والے ہر عیسائی پادری کا مقدر ہو تی۔اور اس شخص کو بھی ملتی جس نے کہا تھا کہ:
’’چونکہ ہم بدقسمتی سے خود کو ہندو کہتے ہیں لہٰذا ہمارے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے۔ اگر ہم کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے ہوتے تو کوئی ہمارے ساتھ یہ سلوک کرنے کی جرأت نہ کرتا۔ کوئی بھی ایسا مذہب اختیار کر لیجیے جو آپ کو برابری کا مقام اور سلوک مہیا کرے۔ اب ہم اپنی غلطی کو سدھاریں گے‘‘۔
آپ میں سے بہت سے جانتے ہوں گے کہ یہ بابا صاحب امبیڈکر کے الفاظ ہیں۔ اس میں صریح لفظوں میں بڑے پیمانے پر ایسی تبدیلیٔ مذہب کی دعوت دی گئی ہے کہ جس میں ایک بہتر طرزِ زندگی کا وعدہ کیا گیا ہو۔ اس آرڈیننس کے تحت، جس میں ’’بڑے پیمانے کی تبدیلیٔ مذہب‘‘ کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے ’’جب دو یا دو سے زیادہ لوگوں کا مذہب تبدیل کروایا جائے‘‘، امبیڈکر کے الفاظ انہیں مجرم بنا ڈالیں گے۔ غالباً مہاتما پھولے کو بھی سزا ملے گی کیونکہ انہوں نے اِن الفاظ کی صورت میں بڑے پیمانے کی تبدیلیٔ مذہب کی کھلی حمایت کی تھی:
’’ مسلمانوں نے، مکار آریا بھٹوں کی کندہ حجری مورتیوں کو تباہ کرتے ہوئے انہیں زبردستی غلام بنا لیا اور ان کے پنجوں سے بڑی تعداد میں شودروں اور اَتی شودروں کو چھڑا یا اور انہیں مسلمان بنایا، انہیں مسلم مذہب میں شامل کیا۔ نہ صرف یہ، بلکہ ان کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پہ طَعام کو فروغ دیا اور ان کے ساتھ باہمی شادیاں کیں اور انہیں برابری کے تمام حقوق دیے۔۔‘‘
برصغیر کی آبادی میں موجود کروڑوں سکھ، مسلمان، عیسائی، اور بدھوں کی اکثریت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ایک تاریخی تبدیلی اور بڑے پیمانے کی مذہب بدلی ہوئی تھی۔ ’’ہندو آبادی‘‘ میں تیز رفتار کمی ہی وہ امر تھا جس کے نتیجے میں اونچی ذات کے ہاں ڈیموگرافی کے بارے میں تشویش پیدا ہوئی اور اس نے اس سیاست کو جنم دیا جسے آج ہندوتوا کہا جاتا ہے۔
تاہم آج، جبکہ آر ایس ایس طاقت میں ہے، یہ لہر پلٹ گئی ہے۔ اب بڑے پیمانے پر صرف وہی تبدیلیٔ مذہب ہو رہی ہے، جسے وِشوا ہندو پریشد منعقد کروا رہی ہے (اس عمل کو ’’گھر واپسی‘‘ کا نام دیا گیا ہے) اور جسے انیسویں صدی کے اواخر میں اصلاح پسند ہندو گروہوں نے شروع کیا تھا۔ گھر واپسی میں جنگل میں رہنے والے قبیلہ باسیوں کو ہندو دھرم میں ’’لوٹانا‘‘ بھی شامل ہے۔ لیکن یہ عمل شدھی (تطہیر) کی رسم سے پیشتر انجام نہیں دیا جائے گا تاکہ ’’گھر‘‘ سے بھٹکے رہنے کے دوران چمٹ جانے والی آلائشوں کو دھویا جا سکے۔
یوپی کا آرڈیننس اس تبدیلیٔ مذہب سے کیسے معاملہ کرے گا کیونکہ منطق کے حساب سے تو یہ عمل بھی مجرمانہ قرار پائے گا؟ اس میں ایک شق شامل کی گئی ہے جس کے مطابق: ’’ اگر بالفرض، کوئی مرد/عورت ایک ایسا مذہب قبول کرتی/کرتا ہے، جس پہ وہ موجودہ مذہب سے قبل ایمان رکھتا تھا تو اس کی مذہب بدلی اس آرڈیننس کے تحت مذہب بدلی قرار نہیں پائے گی‘‘۔
اس طرح یہ آرڈیننس اس اسطور ے کو جاری رکھتا ہے نیز اسے قانونی بناتا ہے کہ ہندوازم ایک قدیم مقامی مذہب ہے، جو برصغیر کے سیکڑوں مقامی قبائل اور دَلِتوں اور دراوڑوں کے مذاہب سے قبل موجود تھا اور وہ اسی سے نکلے ہیں۔ یہ بات غلط اور غیر تاریخی ہے۔
اساطیر بطور تاریخ
بھارت میں، یہ وہ طریقے ہیں جن کے ذریعے اساطیر کو تاریخ اور تاریخ کو اساطیر بنایا جانتا ہے۔ اونچی ذات کے تذکرہ نگاروں کو ا س میں کچھ تضاد دکھائی نہیں دیتا کہ وہ بیک وقت مقامی ہونے اور ساتھ ہی ساتھ آریا فاتحین کی نسل سے ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور اس کا انحصا ر اس بات پر ہوتا ہے کہ کس موقع پر کون سا موقف ان کے لیے فائدہ مند ہے۔ جنوبی افریقا میں اپنے کیریئر کے آغاز میں گاندھی نے، جبکہ وہ ڈربن ڈاکخانے میں ہندوستانیوں کے لیے الگ دروازہ چاہتے تھے تاکہ انہیں کالے افریقیوں والے دروازے سے داخل نہ ہونا پڑے جنھیں وہ اکثر ’’کافر‘‘ اور ’’وحشی‘‘ قرار دیتے تھے، یہ کہا کہ ہندوستانیوں اور گوروں کا آغاز ’’ ایک ہی مشترک منبع، جسے ہند آریائی کہا جاتا ہے‘‘ سے ہوا۔ انہوں نے اس امر کو یقینی بنایا کہ اونچی ذات کے ’’ مسافر ہندوستانیوں‘‘ کو مظلوم ذات کے معاہد مزدوروں سے الگ شمار کیا جائے۔ یہ ۱۸۹۳ء کی بات ہے۔ لیکن یہ سرکس ابھی تک رک نہیں سکا۔
آج یہاں موجود مقررین کا تنوع ایلگر پریشاد کی دانشورانہ صلاحیت کا غماز ہے، جو یہ دیکھ سکتی ہے کہ ہم سب پر ہونے والا حملہ ہمہ جہت ہے اور اِس طرف یا اُس طرف تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس حکومت کو کوئی شے اس سے زیادہ باعثِ مسرت نہیں ہوتی جیسا کہ اس وقت ہوتی ہے جب ہم خود کو ہوا بند خانوں میں بند کر لیتے ہیں، چھوٹی چھوٹی حوضیوں میں مقید ہو کر کے پانی میں اِدھر اُدھر غصے سے چھپاکے مارتے ہیں اور ہم میں سے ہر ایک اپنی ذات یا پھر اپنی کمیونٹی کے لیے کام کر رہا ہوتا ہے۔ ہم بڑا منظر نامہ کبھی نہیں دیکھ پاتے اور ہمارا غصہ اکثر ایک دوسرے پر ہی صَرف ہو جاتا ہے۔
اپنے متعین تالابوں کے کناروں کو توڑنے کے بعد ہی ہم ایک دریا میں ڈھل پاتے ہیں۔ اور ایک ناقابلِ بند دھارا بن کر بہہ سکتے ہیں۔اس کام کے لیے ہمیں اپنی بندشوں سے باہر نکلنا ہو گا، ہمیں روہت ویمولا کی طرح خواب دیکھنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا۔ وہ آج یہاں ہمارے ساتھ ہے، ہمارے درمیان، ایک پوری نئی نسل کے لیے روشن مثال، موت کے باوجود کیونکہ وہ خواب دیکھتے مرا۔ وہ اس امر پہ اصرار کرتے مرا کہ وہ اپنی انسانیت، اپنی آرزوؤں اور اپنی دانشورانہ جستجو کو بھرپور طریقے سے شرمندۂ تعبیر کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اس نے نچڑنے سے، سکڑنے سے، اور اپنے لیے تیار کیے گئے سانچے میں ڈھلنے سے انکار کر دیا۔ اس نے ان القابات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جو حقیقی دنیا اس پر تھوپنا چاہتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ خاکِ ستارہ سے کم کسی شے سے نہیں بنا۔ وہ ایک ستارہ بن چکا ہے۔
اپنی شناختوں سے ماورا
ہمیں ان پھندوں سے محتاط رہنا ہو گا، جو ہمیں محدود کرتے اور ہماری پرواز میں کوتاہی لاتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی محض اپنی شناختوں کا مجموع نہیں ہے۔ ہم وہ بھی ہیں مگر ہم اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ جب ہم اپنے دشمنوں کے خلاف مجتمع ہو رہے ہوں، تو ہمیں اپنے دوستوں کی پہچان بھی ہونی چاہیے۔ ہمیں اپنے حامی ضرور تلاش کرنے چاہییں کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی یہ جنگ اکیلے نہیں لڑ سکتا۔ پچھلے سال شہریت قانون کے خلاف ہونے والے جرأت مندانہ احتجاج اور اب عظیم الشان کسان احتجاج نے یہ بات ثابت کر دی ہے۔ بہت سی کسان تنظیمیں جو اکٹھی ہوئی ہیں مختلف نظریاتی عقائد اور مختلف تواریخ رکھنے والے لوگوں کی نمائندہ ہیں۔ بڑے اور چھوٹے کسانوں میں، زمین دار اور بے زمیں زرعی کارکنوں میں، جٹ سکھوں اور مذہبی سکھوں میں، بائیں بازوں کی تنظیموں اور مرکز پسند تنظیموں میں گہرے تضادات ہیں۔
ذات پات کے تضادات بھی ہیں اور ذات پات پہ مبنی خوفناک تشدد بھی، جیسا کہ کل بنت سنگھ نے بتایا جس کے دونوں بازو اور ٹانگ ۲۰۰۶ء میں کاٹ ڈالے گئے تھے۔ یہ سارے اختلافات دفن نہیں ہوئے۔ ان پر بات کی گئی ہے-جیسا کہ رندیپ مڈوکے نے، جنھیں آج یہاں ہونا تھا، اپنی جرأت مندانہ دستاویزی فلم ’’بے زمین‘‘ بنائی۔ لیکن اس سب کے باوجود، وہ سب مل کر اس صورتحال سے لڑنے آئے ہیں جس کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ ایک وجودی جنگ ہے۔
شاید اس شہر میں، جہاں امبیڈکر کو حرفاً بلیک میل کیا گیا کہ وہ پونا ایکٹ پر دستخط کر دیں، اور جہاں جوتیبا اور ساویتری بائی پھولے نے اپنا اپنا انقلابی کام کیا تھا، ہم اپنی جدوجہد کو ایک نام دے سکتے ہیں۔ شاید اس کا نام ستیہ شودھک ریزسٹنس یعنی ایس ایس آر (بمقابلہ آر ایس ایس) ہونا چاہیے۔
نفرت کے خلاف محبت کی جنگ! محبت کے لیے ایک معرکہ! یہ ضرور سرفروشی کے جذبے سے لڑا اور خوبصورتی سے جیتا جانا چاہیے۔
(بحوالہ: ’’جائزہ ڈاٹ پی کے‘‘۔ ترجمہ: کبیر علی)
Leave a Reply