
۳۰ جنوری ۲۰۲۱ء کو معروف ناول نگار اور دانشور ارون دھتی رائے نے ایلگر پریشاد کے اسٹیج پر ایک تقریر کی۔ انگریزی میں لکھی گئی اس تقریر کا متن انھوں نے شائع کروا دیا البتہ اسٹیج پر سامعین کی سہولت کے لیے اس کا ہندی ترجمہ کروا کر پڑھا جو بہت کچھ ٹوٹا پھوٹا تھا۔ بھارت میں جاری کسان احتجاج کو ایک وسیع تر منظرنامے میں سمجھنے کے لیے یہ گفتگو نہایت سودمند ہو سکتی ہے۔ (مترجم)
میں ایلگر پریشاد ۲۰۲۱ء کے منتظمین کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انھوں نے مجھے اس فورم پہ گفتگو کے لیے مدعو کیا کہ جس روز روہت ویمولا کی بتیسویں سالگرہ ہونا تھی اور فتح معرکۂ بھیما کوریگاؤں ۱۸۱۸ء کا دن بھی۔ وہ جگہ یہاں سے زیادہ دور نہیں جہاں برطانوی فوج کے تحت لڑنے والے مہار دستوں نے پیشوا سلطان باجی راؤ دوم کو شکست دی تھی جس کی رعیت میں مہار اور دلت ذاتیں بے رحمانہ ظلم کا شکار تھیں اور ایک مذہبی فریضہ سمجھ کر ناقابلِ بیان طریقوں سے ان کی تحقیر کی جاتی تھی۔
مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس مقام سے دیگر مقررین کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کر کسان احتجاج کی حمایت کر سکوں جو ان تین کسان قوانین کی فوری تنسیخ کا مطالبہ کر رہا ہے، جو کروڑوں کسانوں اور زراعت سے منسلک مزدوروں کے گلے میں گھسیڑے گئے ہیں اور انھیں سڑکوں پر لے آئے ہیں۔ آج ہم دورانِ احتجاج ہونے والی اموات پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے کو جمع ہوئے ہیں۔ دہلی کی سرحدوں پر صورتحال، جہاں دو ماہ سے کسان پرامن دھرنا دیے ہوئے ہیں، تناؤ اور خطرے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تحریک میں پھوٹ ڈالنے اور اس کی ساکھ خراب کرنے کے لیے ہر ممکن چال اور اشتعال انگیزی استعمال کی جا رہی ہے۔ اب ہمیں، پہلے سے بھی زیادہ، کسانوں کے ساتھ کھڑے ہونا ہو گا۔ ہم یہاں ان درجنوں سیاسی قیدیوں (بشمول ان کے جنھیں بھیما کوریگاؤں ۱۶ کہہ کر پکارا جا رہا ہے) کی رہائی کے مطالبے کے لیے بھی جمع ہوئے ہیں جنھیں مضحکہ خیز الزامات لگا کرسفاک انسدادِ دہشت گردی قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں سے بہت سے محض کامریڈ نہیں ہیں بلکہ میرے ذاتی دوست بھی ہیں جن کے ساتھ میں نے قہقہے لگائے ہیں، چہل قدمی کی ہے اور اکٹھے کھانے کھائے ہیں۔ کوئی آدمی، حتیٰ کہ شاید خود گرفتار کرنے والے بھی، یہ یقین نہیں رکھتا کہ یہ لوگ ان فرسودہ جرائم میں ملوث ہیں جن کا ان پر الزام ہے یعنی وزیرِاعظم کے قتل کی منصوبہ سازی۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ لوگ اپنی دانشورانہ صراحت اور اخلاقی جرأت کی وجہ سے جیل میں ہیں اور ان دونوں خواص کو یہ حکومت ایک نمایاں خطرہ تصور کرتی ہے۔ ناموجود ثبوتوں کی خانہ پُری کے لیے بعض ملزموں کے خلاف فردِ جرم کئی ہزار صفحات پہ پھیلائی گئی ہے۔ کسی بھی منصف کے لیے انھیں پڑھنے کے لیے ہی کئی سال کا وقت درکار ہو گا، ان پر کوئی فیصلہ سنانا تو بعد کی بات ہے۔
ایک خطروں بھری تجویز
ان تھوپے گئے الزامات کے خلاف اپنا دفاع اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ ایک ایسے شخص کو جگانا جو سونے کا ناٹک کر رہا ہو۔ ہم سیکھ گئے ہیں کہ ہندوستان میں عدالتی ازالہ جوئی پر تکیہ کرنا ایک خطرناک تجویز ہے۔ خیر یہ کب اور کہاں ہوا ہے کہ عدالتوں نے ایک بار بھی فسطائیت کی لہر کو پلٹایا ہو؟ ہمارے ملک میں قوانین کا نفاذ من بھاتا ہوتا ہے اور جس کا انحصار آپ کی کلاس، ذات، لسانی شناخت، مذہب، جنس اور سیاسی نظریات پر ہوتا ہے۔ لہٰذا جب ایک طرف شعرا، پادری، طلبہ، سماجی کارکن، اساتذہ اور وکلا جیل میں ہیں تو دوسری طرف ہزاروں لوگوں کے قاتل، عادی ہتیارے، دن دھاڑے ہجوم گردی کرنے والے غنڈے، بدنام جج، زہریلے ٹی وی میزبان نہایت معقول معاوضہ پاتے ہیں اور اونچے مناصب کی آرزو رکھ سکتے ہیں، حتیٰ کہ سب سے اونچے منصب کی بھی! (اشارہ وزارتِ عظمیٰ کی طرف ہے۔ مترجم)
کوئی اوسط ذہن کا آدمی بھی اس پیٹرن کو دیکھے بغیر نہیں رہ سکتا جو دلال اشتعالیوں نے ۲۰۱۸ء کی بھیما کوریگاؤں ریلی اور ۲۰۲۰ء کے شہریت (مخالف) ترمیمی قانون اور اب کسانوں کے احتجاج کی ساکھ خراب کرنے اور اسے سبوتاژ کرنے کے لیے مستقل استعمال کیا۔ انھیں حاصل تحفظ چیخ چیخ کر یہ بتا رہا ہے کہ موجودہ دورِ حکومت میں یہ کس حمایت کے مزے لوٹتے ہیں۔ میں آپ کو دکھاؤں گی کہ کس طرح یہ پیٹرن عشروں تک دہرائے جانے کے نتیجے میں یہ لوگ طاقت میں آئے ہیں۔ اب جبکہ صوبائی انتخابات سر پر ہیں، ہم خوف سے منتظر ہیں کہ مغربی بنگال کے لوگوں کے مقدر میں کیا لکھا ہے۔ پچھلے دو برسوں میں کارپوریٹ میڈ یا کی جانب سے ایلگر پریشاد کو بہ طور ایونٹ اور بہ طور ادارہ بے پناہ بدنامی اور شیطان سازی کا سامنا ہے۔ ایلگر پریشاد: بہت سے عام لوگوں کے ذہن میں ان دو لفظوں کو سن کر مشکوک انقلابیوں۔دہشت گردوں، جہادیوں، شہری نکسل باڑیوں، دلت سیاہ چیتوں کی تصویر ابھرتی ہے، جو بھارت کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس بد القابی، خطرے، خوف اور پریشانی کے ماحول میں اس نشست کا محض انعقاد ہی بہت حوصلے اور جرأت کا کام ہے جسے سلام پیش کیا جانا چاہیے۔ یہاں تقریب میں موجود ہم تمام لوگوں پر لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہم بے باکی سے بات کریں۔
قریباً تین ہفتے قبل ۶ جنوری کو ہم نے دیکھا کہ ایک بڑا ہجوم کنفیڈریٹ جھنڈے، ہتھیار، سُولیاں، صلیبیں اٹھائے اور اونی کپڑے و شاخدار سینگ پہنے امریکی دارالحکومت پر پِل پڑا، میرے ذہن میں یہی خیال آیا کہ، ’’دھت تیرے کی، ہمارے ملک میں تو ہم پہلے ہی اس ہجوم کے بھائی بندوں کی رعایا ہیں جنھیں نے ہمارا کیپیٹول ہل ہتھیا لیا ہے۔ وہ جیت گئے ہیں‘‘۔ وہ ہمارے اداروں پہ چڑھ دوڑے ہیں۔ ہمارے حکمران روز ہمارے سامنے نئے نئے اونی لباس اور شاخدار سینگ پہنے ظاہر ہوتے ہیں۔ ہمارا پسندیدہ امرت گائے کا پیشاب ہے۔ وہ ہمارے ملک کے تمام جمہوری اداروں کو کامیابی سے تباہ کرتے جارہے ہیں۔ امریکا تو شاید کنارے سے پلٹ کر ایک سامراجی ’معمولہ‘ نما قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ لیکن یہاں بھارت میں ہم صدیوں پرانے ماضی میں دھکیلے جا رہے ہیں جس سے چھٹکارے کے لیے ہم نے اتنی جدوجہد کی تھی۔
یہ ہم نہیں ہیں، یہاں ایلگر پریشاد میں اکٹھے ہونے والے متشدد یا انتہا پسند نہیں ہیں۔ یہ ہم نہیں ہیں، جو غیرقانونی اور غیرآئینی طریقے سے عمل کر رہے ہیں۔ یہ ہم نہیں ہیں جنھوں نے ان قتلِ عام سے صَرفِ نظر کیا یا کھلم کھلا حمایت کی، جن میں ہزاروں مسلمان مارے گئے۔ یہ ہم نہیں ہیں جو چپ چاپ تماشا دیکھتے رہے جبکہ شہر کی گلیوں میں دلتوں کو کھلے عام مارا جا رہا تھا۔ یہ ہم نہیں ہیں جو لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا رہے ہیں اور نفرت و تقسیم کے ذریعے حکومت کر رہے ہیں۔ یہ کام وہ لوگ کر رہے ہیں جنھیں ہم نے اپنی حکومت کے طور پہ منتخب کیا ہے اور ان کی پروپیگنڈہ مشین کر رہی ہے جو خود کو میڈیا کہتی ہے۔
بھیما کوریگاؤں کے معرکے کو دو سو سال ہو گئے۔ انگریز چلے گئے، مگر استعمار کی ایک شکل جو ان سے صدیوں پرانی ہے ابھی تک باقی ہے۔ پیشوا چلے گئے مگر پیشوائی-براہمنیت- نہیں گئی۔ براہمنیت، یہاں کے سامعین کو تو وضاحت کی ضرورت نہیں لیکن دوسرے ناواقف لوگوں کو بتاتی چلوں کہ براہمنیت وہ اصطلاح ہے جسے ذات۔ مخالف تحریک جاتی- ویوستا (ذات پات کا نظام) کے لیے تاریخی طور پہ استعمال کرتی آئی ہے۔ اس سے مراد صرف براہمن نہیں ہوتے۔ براہمنیت گویا ایک مرمت کدے میں رہی ہے، اور ایک جدید جمہوری نما لفظیات کا جامہ پہنے برآمد ہوئی ہے اور ذات پات کے نئے تنظیمی مینویل اور پروگرام (نیا نہیں، بلکہ مرمت شدہ) لائی ہے جس نے ان دلت-بہوجن لوگوں کی سرکردگی میں چلنے والی سیاسی جماعتوں کے لیے وجودی چنوتی پیدا کر دی ہے جو کبھی کچھ امید کا باعث ہوا کرتی تھیں۔
اور اس وقت، اکیسویں صدی کی براہمنیت کے لیے منتخب واہن (گاڑی) شدید دائیں بازو کی براہمن کنٹرولڈ راشٹریہ سیوک سنگھ ہے، جس نے ایک صدی کی انتھک محنت کے بعد اپنے معروف ترین رکن نریندر مودی کی صورت میں دہلی میں حکومت سنبھالی ہے۔
کارپوریٹ طبقہ
بہت سے لوگ، جن میں خود کارل مارکس بھی شامل تھا، یہ یقین رکھتے تھے کہ جدید سرمایہ داری ہندوستان میں ذات پات کے نظام کو ختم یا کم ازکم کمزور کر دے گی۔ کیا اس نے کیا؟ دنیا بھر میں سرمایہ داری نے اس امر کو یقینی بنایا ہے کہ دولت کم سے کم ہاتھوں میں مرتکز رہے۔ بھارت میں ۶۳؍امیر ترین لوگ ۱۳۰؍کروڑ سے زائد لوگوں کے لیے پیش کیے گئے، جو ۱۹۔۲۰۱۸ء کے یونین بجٹ سے زیادہ دولت رکھتے ہیں۔ ایک حالیہ آکسفام تحقیق سے معلوم ہوا کہ بھارت میں کورونا وبا کے دوران جبکہ لاک ڈاؤن کے دوران کروڑوں لوگ روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ( اپریل ۲۰۲۰ء میں ہر گھنٹے ایک لاکھ ستر ہزار لوگ بے روزگار ہو رہے تھے) بھارت کے ارب پتیوں کی دولت میں ۳۵ فیصد اضافہ ہوا۔ ایک سو امیر ترین لوگوں ( ہم انھیں کارپوریٹ طبقہ کہہ لیتے ہیں) نے اتنی دولت کمائی کہ، اگر وہ چاہتے تو، بھارت کے پونے چودہ کروڑ غریب ترین لوگوں میں سے ہر فرد کو ایک لاکھ روپے دیے جاسکتے تھے۔ ایک مرکزی اخبار کی شہ سرخی میں اس خبر کو یوں بیان کیا گیا: ’’کورونا سے گہری ہوتی ہوئی عدم مساوات: دولت، تعلیم، جنس‘‘۔ اس رپورٹ اور اس شہ سرخی میں ایک لفظ کم ہے یعنی ذات پات۔
سوال یہ ہے کہ یہ چھوٹا سا کارپوریٹ طبقہ۔جو بندرگاہوں، کانوں، گیس کے کنووں، ریفائنریوں، ٹیلی کمیونی کیشن، تیز رفتار ڈیٹا اور سیل فون کے نیٹ ورکس، جامعات، پیٹرو کیمیکل پلانٹس، ہوٹلوں، اسپتالوں، کھانے کے مراکز اور ٹیلی ویژن کیبل نیٹ ورکس کا مالک ہے، کیا یہ طبقہ بھی، جو واقعتاً بھارت کا مالک و منتظم ہے، کسی ذات کا حامل ہے؟
بہت حد تک اس کا جواب ’ہاں‘ میں ہے۔ بھارت کی بہت سی بڑی کارپوریشنیں خاندانی ملکیت ہیں۔کچھ کے نام ہم یہاں بیان کرتے ہیں: ریلائنس انڈسٹریز (مکیش امبانی)، اڈانی گروپ (گوتم اڈانی)، آرسیلر متل (لکشمی متل)، او پی جندل گروپ (ساوِتری دیوی جندل)، بِرلا گروپ (کے ایم برلا)۔ یہ سب لوگ خود کو ویش یعنی تاجر ذات سے بتاتے ہیں۔ یہ محض خدائی عائد کردہ فرض ادا کر رہے ہیں یعنی دولت کما رہے ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا کی ملکیت اور ان کے مدیروں، کالم نگاروں اور سینئر صحافیوں کی ذات کے بارے میں ہونے والے تجرباتی مطالعات بتاتے ہیں کہ کس طرح مراعات یافتہ ذاتیں ( زیادہ تر براہمن اور بنیے) خبروں (حقیقی اور جعلی ہر دو قسم ) کی تشکیل اور ترسیل کے کام پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔ دلت، آدیواسی اور اب تیزرفتاری سے مسلمان بھی اس سارے منظر نامے سے تقریباً غائب ہیں۔ بڑی اور چھوٹی عدالتوں، سول سروسز کے اونچے عہدوں، فارن سروسز، چارٹرڈ اکاؤنٹوں کی دنیا، یا پھر تعلیم، صحت، صحافت میں پُر کشش نوکریوں، یا سرکاری حلقوں میں کہیں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں ہے۔ جبکہ براہمنوں اور ویشوں کی تعداد آبادی کے دس فیصد سے بھی کم ہے۔ ذات پات اور سرمایہ داری نے باہمی عمل سے ایک نہایت تباہ کن اور خصوصی بھارتی خواص کا حامل مرکب تیار کیا ہے۔
وزیراعظم مودی، جو کانگریس جماعت کی موروثی سیاست پہ حملے کرتے نہیں تھکتے، ان کارپوریٹ خاندانی بادشاہتوں کی حمایت و بڑھوتری میں پوری طرح سے یکسو ہیں۔وہ پالکی بھی جس کی چلمن کے پیچھے مودی براجمان ہیں، اچھے بُرے سے قطع نظر، بہرحال ویش و براہمن کی خاندانی ملکیتوں میں چلنے والی کارپوریٹ میڈیا سلطنتوں کے کندھوں ہی پر ٹکی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پہ دی ٹائمز آف انڈیا، ہندوستان ٹائمز، انڈین ایکسپریس، دی ہندو، انڈیا ٹوڈے، دانِک بھاسکر، دانِک جاگران وغیرہ۔ ریلائنس انڈسٹریز کے پاس ۲۷ چینلوں کے منتظمانہ حصص ہیں۔ میں نے ’’چلمن کے پیچھے بیٹھنے‘‘ کا لفظ اس لیے استعمال کیا کیونکہ مودی نے اپنے قریباً سات سالہ دور میں کبھی پریس سے براہِ راست خطاب نہیں کیا۔ ایک بار بھی نہیں۔
جب ایک طرف ہم عوام کے ذاتی ڈیٹا کی مائننگ اور ہماری پتلیوں کی اسکیننگ ہو رہی ہے، کارپوریٹ دنیا کے لیے ایک چشم بند نظام لایا گیا ہے تاکہ اسے موعودہ کامل وفاداری پیش کی جائے۔ ۲۰۱۸ء میں ایک انتخابی بانڈ منصوبہ متعارف کروایا گیا تھا، جس میں یہ اجازت دی گئی تھی کہ نامعلوم لوگ سیاسی جماعتوں کو رقوم بھیج سکتے ہیں۔ پس اب ہمارے پاس ایک حقیقی، ادارہ جاتی، سختی سے ہوا بند پائپ لائن موجود ہے جس میں دولت اور طاقت کارپوریٹ اور سیاسی اشرافیہ کے مابین گردش کرتی رہتی ہے۔ پھر ہمیں اس پر زیادہ حیران نہیں ہونا چاہیے کہ بھارتی جنتا پارٹی دنیا کی امیر ترین سیاسی جماعت ہے۔ اور اس سے بھی کم حیرانی اس بات پر ہونی چاہیے کہ جبکہ ایک طرف یہ چھوٹا سا طبقہ ذات، اشرافیہ، عوام کے نام پر اور ہندو قوم پرستی کے نام پر اس ملک پر اپنی گرفت مضبوط تر کرتا جاتا ہے، تو دوسری طرف اس نے لوگوں کے ساتھ، بشمول اپنے ووٹروں کے، ایک دشمن طاقت کا سا سلوک شروع کر دیا ہے کہ جس سے معاملہ کرنے، چالبازی سے قابو کرنے، گرفت میں لانے، اچانک جاپکڑنے، سختی سے حملہ کرنے اور آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں گھاتی اعلانات اور غیرقانونی قوانین کی قوم بنا دیا گیا ہے۔
گھاتی اعلانات
نوٹ بندی نے راتوں رات معیشت کی ریڑھ مار دی۔
جموں و کشمیر میں آرٹیکل ۳۷۰ کی تنسیخ ستر لاکھ لوگوں کے لیے مہینوں پہ مشتمل ناگہانی عسکری و ڈیجیٹل محاصرے پہ منتج ہوئی (انسانیت کے خلاف ایک ایسا جرم جو ہمارے نام پر کیا گیا) اور پوری دنیا نے یہ عمل دیکھا۔ ایک سال بعد، غیرمعمولی عزیمت کے حامل لوگ آزادی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں باوجود یہ کہ کشمیر کے جسمِ اجتماعی کی ہر ہڈی پے بہ پے سرکاری ظلم کے نتیجے میں ٹوٹ چکی ہے۔
صریحاً مسلم دشمن ترمیمی قانون برائے شہریت اور شہریوں کے قومی کھاتے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم خواتین مہینوں تک احتجاج کرتی رہیں۔اس کا خاتمہ شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے مسلم قتلِ عام پر ہوا، جس میں خدائی فوجداروں نے جلتی پہ تیل ڈالا اور جسے پولیس دیکھتی رہی اور جس کا الزام مسلمانوں پر ڈال دیا گیا۔ سیکڑوں نوجوان مسلمان مرد، طلبہ اور کارکن بشمول عمر خالد، خالد سیفی، شرجیل امام، میران حیدر، نتاشا نروال اور دیونگنا کالیتا جیل میں ہیں۔ احتجاجوں کو یوں پیش کیا جاتا ہے گویا یہ اسلامی جہادی منصوبے ہوں۔
جو خواتین شاہین باغ کے شاندار دھرنے، جو ملک بھر میں ہونے والی مزاحمت کی ریڑھ کی ہڈی تھا، کا ہراول دستہ تھیں، ان کے بارے میں ہمیں بتایا گیا کہ وہ تو ’’صنفی آڑ‘‘ کے طور پہ استعمال ہو رہی تھیں، اور آئین سے کیے جانے والے عوامی مطالبات،جو قریبا ًہر احتجاجی مقام پر کیے گئے تھے، یہ کہہ کر رَد کر دیے گئے کہ یہ تو ’’سیکولر آڑ‘‘ ہیں۔ نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مسلمانوں سے متعلق ہر شے ایک خود کار طرز پہ ’’جہادی‘‘ (یہ اصطلاح غلط طور پہ دہشت گردی کے کنائے کے طور پہ استعمال ہوتی ہے) ہے اور یہ کہ اس کے علاوہ ہر شے محض تفصیلات ہے۔
جن پولیس والوں نے شدید زخمی مسلم مردوں کو قومی ترانہ گانے پہ مجبور کیا، جبکہ وہ سڑک پر ایک دوسرے پہ اٹے پڑے تھے، ان پہ مقدمہ کرنا تو دور کی بات ان کی شناخت تک نہیں ہوئی۔ زخمیوں میں سے ایک بعد ازاں چل بسا، جس کے گلے میں ایک محبِ وطن پولیس لاٹھی گھسیڑی گئی تھی۔ اِس ماہ وزیرِ داخلہ نے دہلی پولیس کو ’’دنگوں‘‘ سے نبرد آزما ہونے پر مبارکباد دی۔
اور اب قتلِ عام کے ایک سال بعد، جبکہ مجروح کمیونٹی سنبھلنے کی کوشش کر رہی ہے، بجرنگ دَل اور وشوا ہندو پریشاد اعلان کر رہے ہیں کہ وہ ایودھیا میں، انھی گلیوں میں جہاں قتلِ عام ہوا، رام مندر کی تعمیر کے لیے راتھ یاترا اور موٹرسائیکل پریڈ کر کے چندہ جمع کریں گے۔
ہمیں گھاتی لاک ڈاؤن کا بھی سامنا کرنا پڑا یعنی جب محض چار گھنٹے کے نوٹس پہ ۱۳۰؍کروڑ سے زائد عوام کو محصور کر دیا گیا۔ لاکھوں شہری مزدوروں کو گھر جانے کے لیے ہزاروں کلومیٹر پیدل چلنے پر مجبور کیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ انھیں مجرموں کی طرح پیٹا بھی گیا۔
ایک طرف وبا بڑھ رہی تھی تو دوسری طرف، ریاست جموں و کشمیر میں سٹیٹس تبدیلی کے ردِ عمل کے طور پہ، چین نے لداخ میں بھارتی علاقے کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا۔ ہماری بیچاری حکومت کو یہ ظاہر کرنے پر مجبور کیا گیا گویا یہ قبضہ ہوا ہی نہیں۔ کوئی جنگ ہوتی ہے یا نہیں، منفی نمو کی حامل معیشت اپنے ہزاروں سپاہیوں کو مسلح اور جنگ کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے کے لیے پیسہ صرف کرتی رہے گی۔ منفی درجہ حرارت میں بہت سے سپاہیوں کی جانیں تو محض موسم ہی کی نذر ہو جائیں گی۔
ان تھوپے گئے مصائب کے بعد اب ہمیں تین کسان قوانین کا بھی سامنا ہے جو بھارتی زراعت کی کمر توڑدیں گے، سارا کنٹرول کارپوریشنوں کے ہاتھ میں دے دیں گے اور کسانوں کو کسی بھی قانونی چارہ جوئی سے صاف روک دیں گے، ان کے آئینی حقوق کا تو ذکر ہی کیا۔
یہ سب کچھ دیکھنا ایسا ہی ہے جیسے ہم ایک گاڑی کو پرزے پرزے ہوتے دیکھیں، اس کا انجن ٹوٹتے، اس کے پہیے الگ ہوتے، اس کی نشستیں بکھرتے، اور اس کا ڈھانچہ ہائی وے پہ پڑا دیکھیں جبکہ دوسری گاڑیاں، جن کے ڈرائیوروں نے اونی لباس اور شاخدار سینگ نہیں پہنے ہوئے، قریب سے گزرتی جائیں۔
(۔۔۔جاری ہے!)
(بحوالہ: ’’جائزہ ڈاٹ پی کے‘‘۔ ترجمہ: کبیر علی)
Leave a Reply