ساحل دور ہے اور خطرہ قریب

راوی صادق البیان کہتا ہے کہ ایک بار چند طلباء تفریح کے لئے ایک کشتی پر سوار ہوئے طبیعت موج پر تھی‘ وقت سہانا تھا‘ ہوا نشآط انگیز اور کیف آور تھی ‘ اور کلام کچھ نہ تھا‘ یہ نو عمر طلباء خاموش کیسے بیٹھ سکتے تھے‘ جاہل ملاح دلچسپی کا اچھا ذریعہ اور فقرہ بازی مذاق و تفریح طبع کے لئے بے حد موزوں تھا‘ چنانچہ ایک تیز وطرار صاحبزادے نے اس سے مخاطب ہوکر کہا‘ چچا میاں! آپ نے کون سے علوم پڑھے ہیں؟

ملاح نے جواب دیا ’’میاں میں نے کچھ پڑھا لکھا نہیں۔‘‘

صاحبزادے نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا ’’ارے آپ نے سائنس نہیں پڑھی‘‘ ملاح نے کہا ’’میں نے تو اس کا نام بھی نہیں سنا۔‘‘

دوسرے صاحبزادہ بولے ’’جیومٹری اور الجبرا تو آپ ضرور جانتے ہوں گے‘‘؟ ملاح نے کہا ’’حضور! یہ نام میرے لئے بالکل نئے ہیں۔‘‘

اب تیسرے صاحبزادے نے شوشہ چھوڑا ’’مگر آپ نے جغرافیہ (Geography) اور ہسٹری (History) تو پڑھی ہی ہوگی‘‘؟

ملاح نے جواب دیا’’سرکار یہ شہر کے نام ہیں یا آدمی کے‘‘؟ ملاح کے اس جواب پر لڑکے اپنے ہنسی نہ ضبط کرسکے اور انہوں نے قہقہہ لگایا‘ پھر انہوں نے پوچھا ’’چچا میاں تمہاری عمر کیا ہوگی‘‘؟ یہی چالیس سال ’’لڑکوں نے کہا ’’آپ نے اپنی آدھی عمر برباد کی اور کچھ پڑھا لکھا نہیں۔‘‘

ملاح بے چارہ خفیف ہوکر رہ گیا ‘ چپ سادھ لی‘ قدرت کا تماشہ دیکھئے کہ کشی کچھ ہی دور گئی تھی کہ دریا میںطوفان آگیا‘ موجیں منھ پھیلائے ہوئے بڑھ رہی تھیں اور کشتی ہچکولے لے رہی تھی‘ معلوم ہوتا تھا کہ اب ڈوبی تب ڈوبی۔ دریا کے سفر کا لڑکوں کا پہلا تجربہ تھا‘ ان کے اوسان خطا ہوگئے‘ چہرے پر ہوائیاں ارنے لگیں‘ اب جاہل ملاح کی باری آئی اس نے بڑی سنجیدگی سے منھ بنا کر پوچھا ’’بھیا تم نے کون کون سے علم پڑھے ہیں‘‘؟

لڑکے اس بھولے بھالے جاہل کا مقصد نہیں سمجھ سکے اور کالج یا مدرسہ میں پڑھے ہوئے علوم کی لمبی فہرست گنوانی شروع کردی ‘ اور جب وہ یہ بھاری بھرکم مرعوب کن نام گنا چکے تو اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا: یہ سب تو پڑھا لیکن کیا تیراکی بھی سیکھی ہے؟ اگر خدانخواستہ کشتی الٹ جائے تو کنارے کیسے پہنچ سکو گے؟ لڑکوں میں کوئی بھی تیرنا نہیں جانتا تھا ۔ انہوں نے بہت افسوس کے ساتھ جواب دیا ’’چچا جان ! یہی ایک علم ہم سے رہ گیا ہے‘ ہم اسے نہیں دیکھ سکے۔‘‘ لڑکوں کا جواب سن کر ملاح زور سے ہنسا اور کہا ’’میاں میں نے تو اپنی آدھی عمر کھوئی مگر تم نے پوری عمر ڈبوئی۔ اس لئے کہ اس طوفان میں تمہارا پڑھا لکھا کام نہ آئے گا۔ آج تیراکی ہی تمہاری جان بچاسکتی ہے ‘ اور وہ تم جانتے ہی نہیں۔‘‘

آج بھی دنیا کے بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں میں جو بظاہر دنیا کی قسمت کے مالک بنے ہوئے ہیں‘ صورت حال یہی ہے کہ زندگی کا سفینہ گرداب میں ہے‘ دریا کی موجیں خونخوار نہنگوںکی طرح منھ پھیلائے ہوئے بڑھ رہی ہیں‘ ساحل دور ہے اور خطرہ قریب ‘ لیکن کشتی کے معزز و لائق سواریوں کو سب کچھ آتا ہے‘ مگر ملاحی کا فن اور تیراکی کا علم نہیں آتا‘ دوسرے الفاظ میں انہوں نے سب کچھ دیکھا ہے‘ لیکن بھلے مانسوں‘ شریف ‘ خدا شناس اور انسانیت دوست انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کا فن نہیں سیکھا اقبال نے اپنے ان اشعار میں اسی نازک صورتحال اور اس عجیب و غریب ’’تضاد‘‘ کی تصویر کھینچی ہے‘ جس کا اس بیسیویں صدی کا مہذب اور تعلیم یافتہ فرد بلکہ معاشرہ کا معاشرہ شکار ہے۔

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنے حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا

شریفانہ انسانی زندگی گزارنے کا بنیادی فن‘ خدا ترسی‘ انسان دوستی‘ ضبط نفس کی ہمت و صلاحیت ذاتی مفاد پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دینے کی عادت‘ انسانیت کا احترام انسانی جان و مال‘ عزت و آبرو کے تحفظ کا جذبہ‘ حقوق کے مطالبہ پر ادائے فرض کو ترجیح‘ مظلوموں اور کمزوروں کی حمایت و حفاظت اور ظالموں و طاقتوروں سے پنجہ آزمائی کا حوصلہ ‘ ان انسانوں سے جو دولت و وجاہت کے سوا کوئی جوہر نہیں رکھتے‘ عدم مرعوبیت و بے خوفی‘ ہر موقع پر اور خود اپنی قوم اپنی جماعت کے مقابلے میں کلمۂ حق کہنے کی جرأت ‘ اپنے اور پرائے کے معاملے میں انصاف اور ترازو کی تول‘ کسی دانا و بینا‘ طاقت کی نگرانی کا یقین اور اس کے سامنے جواب دہی اور حساب کا کھٹکا‘ یہی صحیح خوشگوار و بے خطر اور کامیاب زندگی گزارنے کی بنیادی شرطیں ‘ اور ایک اچھے و خوش اسلوب معاشرہ اور ایک طاقتور و محفوظ و باعزت ملک کی حقیقی ضرورتیں اور اس کے تحفظ کی ضمانتیں ہیں‘ اس کی تعلیم اور اس کے لئے مناسب ماحول مہیا کرنا دانشگاہوں کا اولین فرض اور اس کا حصول تعلیم یافتہ اور نسل کے دانشوروں کی پہلی ذمہ داری ہے اور ہم کو اس جیسے تمام مواقع پر دیکھنا چاہئے کہ اس کام کی تکمیل میں ہماری دانش گاہیں کتنی کامیاب اور ان کے سند یافتہ افراد و فضلاء کتنے قابل مبارکباد ہیں اور آئندہ ان مقاصد کے حصول اور تکمیل کے لئے ہم کیا عزائم رکھتے ہیں اور ہم نے کیا انتظامات سوچے ہیں۔

(بحوالہ :کتاب ’’علم کا مقام اور ہماری ذمہ داریاں‘‘)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*