کورونا وائرس کے ہاتھوں رونما ہونے والی تبدیلیاں پریشان کن تو ہیں ہی مگر اِس سے زیادہ حیران کن بھی ہیں۔ بہت کچھ اِتنے بڑے پیمانے پر رونما ہو رہا ہے کہ لگتا ہے ایک دور ختم ہو رہا ہے اور دوسرا شروع ہو رہا ہے۔ لوگ اب تک بہت سے مفروضوں کی بنیاد پر سوچ رہے ہیں۔ چند ماہ بعد جب معاملات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا تب بہت کچھ واضح ہوگا اور بہت کچھ نیا سُوجھے گا۔ معاشی اور معاشرتی بحران کی شدت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ اِس وقت بہت سوں کو نہیں۔ عالمی نظام یہ سب کچھ کس حد تک جھیل سکے گا فی الحال پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
کورونا وائرس کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی، اِس حوالے سے پورے تیقّن سے کوئی پیش گوئی کرنا تو بہت مشکل ہے مگر ہاں چند ایک عوامل کو بنیاد بناکر اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے۔ چند ایک منظر نامے ضرور تیار ہیں۔ غیر معمولی معاشی جھٹکا لگا ہے، مگر امید ہے کہ موجودہ معاشی و مالیاتی نظام بہت سی خرابیوں اور خامیوں کے باوجود یہ سب کچھ جھیل لے گا۔ جو معاشی آلات اور ہتھیار اس وقت موجود ہیں اُن کی مدد سے یہ جنگ جیت لی جائے گی۔ معاشی میدان میں ایسی خرابیاں رونما ہوئی ہیں جن کے لیے نئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اصلاحات متعارف کرانا ہوں گی۔ بہت سے معاملات کی ساخت کچھ کی کچھ ہوکر رہ گئی ہے۔ کورونا وائرس کے ہاتھوں بہت سے ممالک کی معاشی بساط پلٹ جانے کو ہے۔ اب نیا عالمی نظام لانا لازم ہوگیا ہے۔ اب ابھرنے والی دنیا ایسی ہوگی جس میں جُڑنے کے بجائے دور رہنے کی اہمیت ہوگی۔ اشتراکِ عمل اب بھی لازم ہوگا مگر دور دور رہ کر۔
ابھی کہا جارہا ہے کہ کورونا وائرس اور ایسی ہی دوسری بہت سی وباؤں کا ڈٹ کر سامنا کرنے کے لیے لازم ہوگا کہ ہم ایک نئی دنیا میں جینا سیکھیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر دوسرے بہت سے معاملات کی طرح چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انشیئٹیو (بی آر آئی) کا حال بھی تبدیل ہوکر رہے گا۔ کورونا وائرس کی وبا نے رابطوں اور وابستگی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ایسے میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ بھی متاثر ہوگا۔ ابھی پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ مجموعی طور پر کس قدر نقصان پہنچے گا۔ ابتدائی اندازے عموماً غلط ثابت ہوا کرتے ہیں۔ کورونا وائرس کے ہاتھوں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر کتنے منفی اثرات مرتب ہوں گے فی الحال پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس عظیم منصوبے کے حوالے سے ذہنوں میں سوالات ابھر رہے ہیں، خدشات پنپ رہے ہیں۔
فنڈنگ میں ابھی سے شارٹ فال کے آثار ہیں۔ یہ چینی صدر شی جن پنگ کا سگنیچر منصوبہ ہے۔ ان کی شناخت کا مدار اِس ایک منصوبے کی بھرپور کامیابی پر ہے۔ مشکل یہ ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے نمودار ہونے سے قبل ہی چین کی شرحِ نمو گرنے لگی تھی۔ مشکلات بڑھتی جارہی تھیں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے لیے بھی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ اب معیشتی ساخت میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔
کورونا کی وبا تین ماہ قبل چین میں نمودار ہوئی تھی۔ چین نے اِسے کنٹرول تو کرلیا ہے مگر ابھی پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ مکمل فتح حاصل ہوئی ہے یا نہیں۔ چین کے لیے حقیقی فاتح بن کر ابھرنا مسئلہ ہے۔ ماہرین کو پیش گوئیوں میں ترامیم کرنا پڑی ہیں۔ امریکا اور یورپ کے لیے شدید مشکلات نے سَر اٹھایا ہے مگر خیر، چین کے لیے مشکلات کم نہیں ہیں۔ اُس کی برآمدات شدید متاثر ہوئی ہیں۔ فروری میں پورے چین میں شہری سطح پر بے روزگاری ۲ء۶ فیصد کی حد تک پہنچ گئی تھی جو پریشان کن ہے کیونکہ چین کئی عشروں تک بے روزگاری کو اطمینان بخش حد تک کم رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بے روزگاری اُس سے زیادہ ہو جو حکومت کے اعداد و شمار بیان کر رہے ہیں۔ ایک طرف تو بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف صاف محسوس ہو رہا ہے کہ شرحِ نمو کو دگنا کرنے کا ہدف حاصل نہ ہوسکے گا۔
معاشرتی استحکام برقرار رکھنا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ چینیوں کی غالب اکثریت اس رائے کے حق میں ہے کہ بیرون ملک بہت زیادہ فنڈ ضائع نہ کیے جائیں۔ داخلی سطح پر بھی مسائل شدت اختیار کر رہے ہیں۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور پھر فوڈ سیکیورٹی کا معاملہ بھی تو ہے۔ پالیسی ساز کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ داخلی سلامتی یقینی بنائے رکھنے پر غیر معمولی توجہ دیں۔ ترقی کی رفتار برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی متوجہ رہنا ہے کہ ترقی اور فی کس آمدن کے درمیان خلا زیادہ وسعت اختیار نہ کرے۔ ملک سے باہر سپر پاور بھی نظر آنا ہے۔ یہ دو کشتیوں کا سفر ہے، جو ظاہر ہے بہت دشوار ہے اور احتیاط کا طالب ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی رفتار بھی برقرار رکھنی ہے۔ اس منصوبے کو چین میں لوگوں نے آسانی سے قبول کیا ہے نہ ہضم۔
چین کو وصولی ہوسکے گی؟
بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر غیر معمولی فنڈنگ کی گئی ہے۔ اس روٹ پر واقع تمام معیشتیں مشکلات میں گِھری ہوئی ہیں۔ یوریشیا اور افریقا کے خطے میں بنیادی ڈھانچا مضبوط بنانے پر چین غیر معمولی توجہ دے رہا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا سب سے بڑا جُز چین پاک اقتصادی راہداری یعنی سی پیک ہے۔ پاکستان کو اس وقت کم و بیش ۸؍ارب ۲۰ کروڑ ڈالر خسارے کا سامنا ہے۔ یہ ابتدائی تخمینہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے لگایا ہے۔ بنگلادیش کا خسارہ ۳؍ارب ڈالر تک ہے۔ تھائی لینڈ کو امید تھی کہ وہ شرحِ نمو کو کم و بیش ۸ء۲ فیصد کی شرح پر رکھنے میں کامیاب ہو جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ کساد بازاری آیا چاہتی ہے۔ کورونا وائرس کے لیے اب افریقا بھی ہدف پذیر ہے۔ چین کے لیے افریقا قدرتی وسائل کی منڈی ہے۔ اور افریقی ریاستوں کو صنعتیں چلانے کے لیے جو کچھ درکار ہے وہ چین دے رہا ہے۔ اشیائے صرف بھی چین سے آرہی ہیں۔ اس حوالے سے افریقی ریاستوں کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ افریقا بھی کچھ ہی دنوں میں کورونا وائرس کے حوالے سے سنگین صورتِ حال کا سامنا کر رہا ہوگا۔ صحتِ عامہ کا بحران پیدا ہوگا تو معاشی خرابی بھی لازمی طور پر در آئے گی۔
کورونا وائرس کے ہاتھوں ترقی پذیر ممالک کے لیے اب ترسیلاتِ زر میں کمی کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوگا۔ ترقی یافتہ دنیا میں بے روزگاری پھیلے گی تو وہاں سے ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کے بہت سے لوگ واپس جانے پر مجبور ہوں گے۔ جو ممالک چین سے مزید سرمایہ کاری کے طالب ہیں اُن پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ بہت سے ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کے لیے معاشی اور مالیاتی مشکلات پیدا ہوں گی۔ یہ سب کچھ کئی ماہ تک چلے گا۔ چینی کمپنیوں کے لیے بیرون ملک کام کرنا مشکل ہوجائے گا۔ چائنا ڈیویلپمنٹ بینک آسان شرائط کے قرضے بڑے پیمانے پر جاری کرتے رہنے کی پوزیشن میں نہ رہے گا۔ اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہے تب بھی عام چینی کمرشل بینک بیرون ملک زیادہ فنڈنگ کے قابل نہ رہیں گے۔ اور پھر ایسے منصوبوں کے لیے فنڈنگ کیوں کی جائے جن میں خسارے ہی خسارے کا امکان ہو؟
شو جاری رہنا چاہیے
چینی صدر شی جن پنگ نے جو ۱۰ ترجیحات متعین کی ہیں، اُن میں سلک روڈ اکنامک بیلٹ آٹھویں اور میری ٹائم سلک روڈ نویں نمبر پر ہے۔ پہلا نمبر پارٹی کے اقتدار کا ہے۔ دوسرا نمبر قومی یکجہتی کا ہے۔ تیسرا نمبر ہے معیشت کی توسیع کا۔ اگر معاملات تیزی سے درست نہ ہوئے تو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ زیادہ دیر تک قابلِ ترجیح نہ رہے گا۔ دو سال سے چینی کمیونسٹ پارٹی کی پوزیشن زیادہ قابلِ رشک نہیں رہی۔ امریکا سے تجارتی جنگ نے بھی خاصی پیچیدگیاں پیدا کی ہیں۔
ہانگ کانگ میں مظاہروں اور ہنگاموں نے بھی مسائل کھڑے کیے۔ تائیوان کے انتخابات بھی دردِ سر بن کر ابھرے۔ اور اب کورونا وائرس کا المیہ!
ایسا نہیں ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ دم توڑ گیا ہے۔ ایسا سمجھنا حماقت کے مترادف ہوگا۔ ہاں، اِس حوالے سے الجھنیں بڑھ گئی ہیں۔ یہ منصوبہ عالمی طاقت کے طور پر چین کے لیے شناخت کا معاملہ ہے۔ یہ چین کی طاقت کا مظہر ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اِسے چینی کمیونسٹ پارٹی کے آئین کا حصہ نہ بنایا گیا ہوتا۔ چین کی طرف سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ زیادہ متاثر نہ ہوگا۔ اب ہیلتھ سلک روڈ کی بات ہو رہی ہے۔ ماسک ڈپلومیسی کا بھی غلغلہ ہے۔ چینی قیادت کو اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں اُس کے حوالے سے بدگمانی پائی بھی جاتی ہے اور مزید پھیلائی بھی جارہی ہے۔
خیر، بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ خطرے میں ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے دنیا بھر میں جمود پیدا کیا ہے۔ اِس کے نتیجے میں اب چین کے اس عظیم منصوبے سے جُڑے ہوئے ذیلی منصوبوں پر بھی کام کی رفتار تھمی ہوئی ہے۔ سری لنکا، بنگلادیش، انڈونیشیا اور نیپال میں بیلٹ اینڈ روڈ انشئیٹیو سے وابستہ متعدد منصوبے سست رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
مختلف شکل کا بی آر آئی
چینی قیادت خواہ کچھ کہے، بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں اب بہت سے تبدیلیاں کرنا ہی پڑیں گی۔ منصوبے کا رنگ ڈھنگ بدل سکتا ہے۔ حالات کی مناسبت سے چند ایک تبدیلیاں یوں بھی ناگزیر ہیں۔ کورونا کی وبا کے پھیلنے سے قبل بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں تھوڑی بہت تبدیلی کی گئی تھی۔ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ اس منصوبے کی باضابطہ تعریف اب تک متعین نہیں کی جاسکی ہے۔
بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے حوالے سے چین نے دو طرفہ معاملات کیے ہیں۔ ہر ملک سے معاملات الگ طے کیے گئے ہیں۔ اس منصوبے کو شروع کیے سات سال گزر چکے ہیں مگر اب تک اس کے فریم ورک کا پتا نہیں چل رہا۔ عالمی معیارات کو نظر انداز کرنے کی شکایات بھی عام ہیں۔ مختلف تنازعات نے بھی جنم لیا ہے۔ اس منصوبے کے حوالے سے کئی ممالک میں شدید ردِعمل بھی سامنے آیا ہے۔ اپریل ۲۰۱۹ء میں شی جن پنگ نے دوسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں کہا کہ بعض معاملات پر نئے سِرے سے غور کرنے کی ضرورت ہے اور چند تبدیلیاں بھی خارج از امکان نہیں۔
بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا آغاز ۲۰۱۳ء میں ہوا تھا۔ تب چین کی شرح نمو ۸ فیصد تھی۔ زر مبادلہ کے ذخائر ۴ ہزار ارب ڈالر کی سطح پر تھے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کم و بیش ۸ ہزار ارب ڈالر کا ہے۔ بعد میں نظرِ ثانی کے بعد اِس کی لاگت کا تخمینہ ۴ ہزار ارب ڈالر کردیا گیا۔ ۲۰۱۸ء میں مورگن اسٹینلے نے اندازہ لگایا کہ ۲۰۲۷ء تک اس منصوبے پر زیادہ سے زیادہ ۱۳۰۰؍ ارب ڈالر خرچ ہوسکیں گے۔ چین کی دو تہائی سرمایہ کاری توانائی کے شعبے میں ہے۔ ٹرانسپورٹ پر ۵۰؍ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ اس وقت ترقی پذیر دنیا میں کیش کی کمی ہے۔ بہت سے منصوبے رک جائیں گے۔ چین کو اندرونی دباؤ کا سامنا ہے۔ چینی قیادت بیرون ملک بڑے پیمانے پر ڈالر برسانے کی پوزیشن میں نہیں۔ ریلوے میں ریلوے منصوبہ، مونٹی نیگرو میں ہائی وے ٹو نو ویئر کا منصوبہ اور ایسے ہی کئی منصوبے ہیں جن پر زیادہ فنڈنگ نہیں کی جاسکتی۔ اب چین کو بہت محتاط ہوکر چلنا پڑے گا۔ اسے ایک بار پھر انتخاب کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا۔ طے کرنا پڑے گا کہ کہاں کتنا خرچ کرنا ہے۔ بہت سے منصوبوں کو ترجیحات کی فہرست سے نکالنا پڑے گا۔
چین گلوبل نیٹ ورک آف اکنامک کوریڈور قائم کرنا چاہتا ہے۔ لاجسٹک زون قائم کیے جانے ہیں۔ مالیاتی مراکز بنانے ہیں۔ سی پورٹس اور اُن سے ملحق علاقوں پر اُس کی خاص نظر ہے۔ سوئز کینال اکنامک زون اور سری لنکا کی ہمنبنٹوٹا پورٹ اس کی واضح ترین مثالی ہیں۔ عمان میں بھی چین نے ایک انڈسٹریل سٹی قائم کرنے کی تیاری کر رکھی ہے۔
بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کسی نہ کسی طور بچانے کے لیے اب چین کو ترجیحات تبدیل کرنا پڑیں گی۔ اندرونی استحکام بھی لازم ہے۔ چین کے لیے یہ منصوبہ سوفٹ پاور کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ چین کو اب عسکری سطح پر بھی تھوڑی بہت جارحانہ سوچ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ لازم نہیں کہ دنیا ترمیم شدہ منصوبہ آسانی سے قبول کرلے۔ تصادم کا بھی امکان ہے، تنازعات جنم لیں گے۔ امریکا پر بھی دنیا کا اعتماد گھٹا ہے اور یورپ پر بھی زیادہ بھروسا نہیں کیا جاسکتا مگر خیر، چین پر بھی بھروسا کرنے والوں کی کمی ہے۔ کورونا بحران نے پوری دنیا میں محتاط رہنے کی فضا پیدا کردی ہے۔ اس وبا نے لوگوں کو شدید خوفزدہ کردیا ہے۔ ایسے میں بی آر آئی کا متاثر ہونا بھی فطری امر ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The belt and road after COVID-19”. (“thediplomat.com”. April 07, 2020)
Leave a Reply