
برطانوی مؤرخ ’’ایرک ہابز بام‘‘ نے جسے ’’طویل انیسویں صدی‘‘ قرار دیا تھا، وہ ۱۰۰ برس قبل ۱۹۱۴ء میں سرائیوو میں اُس وقت ختم ہوگئی تھی جب پستول کے دو شاٹس پہلی جنگ عظیم کا پیش خیمہ بنے۔ ایک اور مؤرخ ’’فرٹز اسٹرن‘‘ نے اس جنگ کو اس طرح بیان کیا: ’’بیسویں صدی کی پہلی آفت۔۔۔ وہ آفت جس سے دیگر تمام آفتوں نے جنم لیا‘‘۔ ان تباہیوں کے مشمولات میں ایک تو خود جنگِ عظیم تھی جس میں ترکی میں ہونے والی نئی صدی کی پہلی نسل کشی کے متاثرین سمیت ۲ کروڑ افراد لقمۂ اجل بنے، پھر سینٹ پیٹرز برگ کا انقلابِ اکتوبر تھا جس کے بطن سے ایک نظریاتی سلطنت نے جنم لیا، اس انقلاب نے کروڑوں جانیں لیں اور ان سے کہیں زیادہ افراد کو پابندِ سلاسل کیا۔ جرمنی کی شکست سے فروغ پانے والا نازی ازم دوسری عالمی جنگ جس میں عدیم المثال نسل کشی سمیت مزید چھ کروڑ جانیں گئیں، یورپی سرحدوں سے باہر برپا ہونے والی شورشیں اور جنگیں جن کے نتیجے میں نوآبادیاتی نظام ختم ہوا اور جنگ کے بعد دنیا کو تقسیم کرنے والے جوہری ہتھیاروں سے لیس دو کیمپ، جنہوں نے نوآبادیاتی تسلط سے آزاد ہونے والے خطوں میں مفادات کی بالواسطہ جنگیں لڑیں، یہ سب جنگِ عظیم اول کی تباہیوں کے مشمولات تھیں۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ بیسویں صدی کب ختم ہوئی۔ کچھ مؤرخین کے نزدیک یہ ایک مختصر صدی تھی جو ۱۹۸۹ء یا ۱۹۹۱ء میں ہی ختم ہوگئی تھی، جب سوویت یونین اور کمیونزم کا پُرامن زوال ہوا۔ اس واقعہ کو تو ماہرِ سیاسیات فرانسس فوکویاما نے خود تاریخ کا ہی خاتمہ قرار دیا تھا۔ بعد کے برسوں کا خاصہ مواصلات، ٹیکنالوجی، سرمائے اور انسانی نقل مکانی سے منسلک تیزی سے پھیلتی عالمگیریت تھی۔ عالمی منڈیاں، ادارے اور جنگیں، سب ایک ہی سپر پاور امریکا کے زیرنگیں تھے۔ یہ نئے ورلڈ آرڈر کا زمانہ تھا۔ کچھ زاویوں سے یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی دہائیوں کا تسلسل تھا، جن میں امریکی طاقت اگر غیر متنازعہ نہیں تو بالادست ضرور تھی۔ لیکن یہ ایک تغیریاتی مرحلہ بھی تھا اور حال کی سبقتی تشریح کی رُو سے اب کافی واضح ہے کہ یہ تغیر اختتام پذیر ہوچکا ہے۔
اکیسویں صدی کب شروع ہوئی؟ ہابز بام کے اس مؤقف کے حق میں مضبوط مقدمہ قائم کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسا اُس سال ہوا، جب سرائیوو واقعے کو ایک صدی مکمل ہوئی۔ اگر ہلاکتوں کی تعداد دیکھی جائے تو ۲۰۱۴ء کے سانحات گزشتہ ۱۰۰ برسوں کے کسی بھی سال سے زیادہ سنگین نہیں تھے بلکہ کچھ حوالوں سے ان کی سنگینی بہت کم ہی رہی۔ سخت پیمانے پر پرکھا جائے تو اس برس کی خوفناکیاں بھی کچھ نئی نہیں، ہم نے فرقہ وارانہ قتل و غارت، روس کی ولولہ انگیزی اور کسی وبائی مرض کی تباہ کاریاں پہلے بھی دیکھ رکھی ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ۲۰۱۴ء میں کوئی سرائیوو واقعہ نہیں ہوا، تبدیلی کا کوئی مرکزی نقطۂ آغاز ظاہر نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی غیر متوقع وقوعہ پیش آیا۔ تاہم اس کے باوجود یہ ایک دھچکے پہنچانے والا سال رہا۔ یہ دھچکے اُن غیر متوازن خطوں سے پہنچے جو سلامتی، آرام اور آزادی کے پرکشش دائروں سے باہر تھے، مگر ان کے گہرے اثرات مغرب میں محسوس کیے گئے جہاں ایسے انتشار پر قابو پانے کی غرض سے قائم طاقت اور اصولوں کا نظام اب معدوم نظر آرہا ہے۔ مغربی باشندوں کے لیے یہ معدومیت ہی سب سے بڑا دھچکا ہے۔
روسی صدر ولادی میر پوٹن کی جانب سے کرائمیا کے الحاق اور یوکرین کی سرحدی خلاف ورزی نے یورپ اور بالخصوص جرمنوں کو دھچکا پہنچایا جو یہ سمجھتے تھے کہ وہ امن، یگانگت اور محفوظ سرحدوں کے حامل براعظم کے باشندے ہیں، جس نے ان مسائل سے سبق حاصل کرلیا ہے جو کبھی انہوں نے اس براعظم پر مسلط کیے تھے۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن ایک پرانی جانی پہچانی قسم کے جابر حکمران ہیں۔ ایک مغرور قوم پرست، جو امیر ساتھیوں اور نظریاتی مہم جوؤں میں گِھرا ہوا ہے۔ اپنے لوگوں کو قوم پرستانہ پروپیگنڈے سے زیرِ بار کرکے ان میں تاریخی استحصال کے احساس کو ابھارنے والا حکمران، جو چاہتا ہے کہ دنیا اس سے مقابلہ کرے۔ کوئی تعجب نہیں اگر بلغراد میں لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔ ایسے شخص کو ایک ازسرِنو بیدار ہوتی طاقت کے سربراہ کے طور پر جنگیں چھیڑتا دیکھنا، ۲۰۱۴ء میں یورپ کے نقشے پر بہت حیران کن روشنی ڈالتا ہے۔ جولائی میں سیکڑوں لاشیں، جو زیادہ تر ڈچ باشندوں کی تھیں، جنگجوؤں کے میدان میں جاگریں جب ایک مسافر طیارے کو روسی مسلح علیحدگی پسندوں نے مار گرایا۔ درحقیقت اس کے بعد یوکرین کا دھچکا صحیح معنی میں مغرب کی توجہ حاصل کرسکا۔
دوسرا اور نہایت عجیب دھچکا داعش کا تھا، کیونکہ اس نے تقریباً ایک تہائی عراق پر قبضہ کرلیا، شام میں زمین اور وسائل پر گرفت مضبوط کی، پہلی عالمی جنگ کے دوران اور اس کے بعد یورپی سامراجوں کی جانب سے طے کردہ سرحدوں کو روند ڈالا اور اپنے زیرِ انتظام علاقوں سے قدیم اقلیتوں کو، یا تو نکال باہر کیا یا پھر معدوم کرنے کی کوشش کی۔ داعش کی بربریت سے ابتدا کریں تو کچھ بھی نیا سامنے نہیں آیا۔ شہریوں کے سر قلم کیے جانے کے وقت ویڈیو بنانے کے ڈانڈے ۲۰۰۲ء میں پاکستان میں ڈینیل پرل اور ۲۰۰۴ء میں عراق میں نِک بَرگ سے جا ملتے ہیں۔ پھر بھی ان واقعات نے داعش کے پہلے سے معلوم، دھندلے صحراؤں میں ڈرامائی انداز میں گردنیں اڑانے (جس کا آگے بھی جاری رہنے کا امکان ہے) کو یورپ کے سامنے اس متشدد حقیقت کے طور پر پیش کیا، جس کا شامی اور عراقی باشندے پہلے سے ہی سامنا کررہے تھے۔ اس گروہ کا نظریہ، نعرے اور عزائم، اس کی ماضی میں امداد کرنے والی القاعدہ سے ملتے جلتے ہیں (داعش کے ’’خلیفہ‘‘ ابوبکر البغدادی کبھی میسوپوٹیمیا میں القاعدہ کے اصل رہنما ابو مصعب الزرقاوی کے نائب ہوا کرتے تھے)۔ داعش کے بارے میں نئی اور دہشت انگیز بات ایک نیم مستقل حقیقت کو زمین پر مسلط کردینا ہے۔ یعنی ایک خود پسند خلافت کا چونکا دینے کی حد تک تیزی سے ظہور، جس نے اُردن کے دو گنا سے زائد رقبے، لاکھوں افراد، تیل اور پانی کے ذخیروں اور ایک بڑی اور بہترین مسلح فوج کو اپنے زیرِ انتظام کرلیا۔
داعش مشرقِ وسطیٰ میں پیش آنے والے دو اہم واقعات کی ناگوار پیداوار ہے، ایک واقعہ بیرونی طور پر اور ایک اندرونی طور پر پیش آیا۔ یعنی ۲۰۰۳ء میں امریکا کا عراق پر حملہ اور ۲۰۱۱ء میں عرب بہار کی عوامی بغاوتیں۔ دونوں واقعات کی ابتدا آمریت کو جمہوریت سے بدلنے کے وعدوں کے ساتھ ہوئی، مگر دونوں کا نتیجہ ہولناک انتشار اور سانحات کی صورت میں نکلا (عرب بہارِ کے تناظر میں تیونس کسی حد تک مستثنیٰ ہے)۔ زیادہ تر ذمہ داری امریکا پر آتی ہے جس نے کئی دہائیوں تک خطے میں مداخلت کی، تیل سے مالا مال بدعنوان حکومتوں کی حمایت کی، شرپسندوں کو مسلح کیا، ایک غیر دانشمندانہ جنگ کا آغاز کیا اور زخم کو اس حال پر لا چھوڑا جہاں وہ مندمل ہونے کے قابل نہیں۔ لیکن یہ کہہ کر کہ امریکا دنیا میں تمام بیماریوں کی جڑ یا ان کا علاج ہے، مشرقِ وسطیٰ کی بیچارگی ظاہر کرنے کے لیے امریکی نرگسیت کو اہمیت دینا غلط ہے۔ شیعہ، سُنی تنازع، جہاد کے نام پر دہشت گردی اور خلافت کے قیامِ نو کا خواب، عورتوں کو دبائے رکھنے والا سماجی نظام، محروم اقلیتیں اور مذہب کو روزمرہ زندگی میں زبردستی داخل کرنا، خطے کے اندرونی مسائل ہیں۔ دوسری طرح سے سوچنے کا مطلب خطے کے لوگوں کو استحقاق سے محروم رکھنا ہے۔ مجھے بغداد کے شہری نے ایک مرتبہ بتایا کہ عراقیوں نے امریکیوں کی مدد سے امریکیوں کی ناک کے نیچے خود اپنے ملک کو تباہ کیا ہے۔
اسی دوران ایبولا نے مغربی افریقا میں اس سال ہزاروں جانیں لے لیں اور مزید بہت سوں کا جانا ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔ انسانوں میں ایبولا ۴۰ برس سے تشخیص کیا جارہا ہے۔ یہ وائرس نہ تو نیا ہے اور نہ ہی تیزی سے پھیلنے والی انتہائی مہلک وبا ہے، اس کے باوجود یہ اس سال کے بڑے دھچکوں میں سے ایک ہے۔ ایبولا نے بہت سے ملکوں کی خستہ سامانی کو بے نقاب کیا، جہاں معاشی سرگرمیاں منجمد ہیں اور سماجی استحکام خطرے میں ہے۔ اس نے دنیا کے خوش نصیبوں اور اُن بدنصیبوں کے مابین حائل وسیع خلیج کو بھی واضح کردیا ہے جنہیں یہ وبا کبھی بھی لگ سکتی ہے۔
دھچکوں سے بھرپور اس سال نے انتشار کا غیر مبہم پیغام دیا ہے۔ جو کچھ گزرا، اسے امن اور استحکام نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ان کا دورانیہ ہمیشہ مختصر ہوتا ہے، لیکن ان کی بحالی کے لیے کوئی تصوراتی خاکہ، کوئی لائحہ عمل، کوئی نظام بھی سامنے نہیں آیا۔ اقوام متحدہ اپنے جاتے ہوئے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے ساتھ بمشکل ایک دیر میں یاد آنے والی چیز رہ گئی ہے۔ سلامتی کونسل امریکی کانگریس کی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جہاں روس اور چین ریپبلکن ارکان کی طرح استحصالی کردار ادا کرتے ہیں۔ نیٹو، ہنری ٹرومین کے زمانے کی یادگار دکھائی دیتی ہے جس کے پاس اپنی سرحدوں تک استحکام برقرار رکھنے کے لیے بصیرت ہے اور نہ خواہش۔ یوکرین کے علاوہ تمام بالٹک ریاستیں جو اس اتحاد کا مکمل طور سے حصہ ہیں، پُراعتماد نہیں دکھائی دیتیں کہ اگر روسی جارحیت ایسٹونیا تک آپہنچی تو ان کے یورپی اتحادی آرٹیکل ۵ کے تحت ان کی مدد کو آئیں گے اور درحقیقت ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ پوٹن نیٹو کی سالمیت کا امتحان لیں، اس امید کو حقیقت کے طور پر سامنے پانے کے لیے کہ نیٹو اب محض کاغذوں تک محدود رہ گئی ہے۔
عالمی اداروں کے اس انہدام نے دنیا بھر کی منتخب اور غیر منتخب حکومتوں کے لیے بُرا طرزِ عمل اختیار کرنے کی راہ ہموار کردی ہے۔ صدر رجب طیب ایردوان نے ترکی کو ان علاقائی طاقتوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے جو مغربی اثر و رسوخ کو گہناتی ہوئی طلوع ہورہی ہیں۔ ان کے طرزِ حکمرانی میں شخصی آمریت، تنگ نظری اور خود پسندی بڑھتی جارہی ہے۔ وہ نام نہاد امریکا مخالف جذبات کو اندرونی ناقدین کو چپ کرانے اور بدعنوانی کے الزامات سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کررہے ہیں، جبکہ خود وہ شام کے چند انتہائی سفّاک باغی گروہوں کی حمایت کے جواز پیش کرتے ہیں۔ جب ترکی اور شام کی سرحد پر واقع شامی کُردوں کا شہر ’’کوبانے‘‘ داعش کے ہاتھوں میں جاتا دکھائی دینے لگا اور قتلِ عام کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا تو شام کے لیے اقوامِ متحدہ کے نمائندئہ خصوصی اسٹافن دے مِستورا نے ساری دنیا، خصوصاً ترکی سے مدد کی اپیل کی، جس نے محصور کُردوں کے لیے اپنی سرحد بند کردی تھی۔ دے مِستورا نے ۱۹۹۵ء میں بوسنیا میں ۸۰۰۰ مَردوں اور لڑکوں کی نسل کشی کا حوالہ دیتے ہوئے ایک نیوز کانفرنس میں پوچھا کہ ’’آپ کو سریبرینیکا یاد ہے؟ ہم اسے کبھی نہیں بھولے، اور شاید اس کے لیے خود کو کبھی معاف بھی نہیں کرپائیں گے‘‘۔
لیکن ترکی سریبرینیکا کو یاد کرنا نہیں چاہتا تھا۔ حتیٰ کہ جب اس نے سلامتی کونسل میں غیر مستقل نشست کے لیے کوشش کی، تب بھی اقوامِ متحدہ کے نمائندے کی التجا سنی اَن سنی کردی۔ اس نے ایک شامی کُرد گروہ پیپلز پروٹیکشن یونٹس کو داعش کے ہاتھوں کچلا ہوا دیکھنا چاہا کیونکہ وہ اسے ترکی سے آزادی کی خواہاں کُرد پارٹی کا حلیف سمجھتا تھا۔ ترکی کے افعال نے نیٹو کے اِس رکن کو حقیقت میں داعش کا حامی بنا دیا ہے جس نے نیٹو اتحاد میں شامل دیگر تمام ارکان کے شہریوں کے خلاف اپنے قاتلانہ عزائم ظاہر کر رکھے ہیں۔ ایردوان پوٹن کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ پوٹن کی جو حیثیت عظیم تر روس کے لیے ہے، ایردوان اخوان المسلمون کے لیے وہی بننے کی امید رکھتے ہیں۔ یہ ایک حیرت انگیز اور ممکنہ طور پر خود انہدامی موڑ ہے، ایک ایسے غیر عرب اور تاریخی طور پر لادین ملک کے لیے، جسے پہلی عالمی جنگ کے بعد اس خلافت کے کھنڈرات پر تعمیر کیا گیا جس کی بحالی کا آج داعش دعویٰ لے کر اٹھی ہے۔ لیکن ابھی تک حالات کی کنجی ترکی کے پاس ہے، بالکل روس اور چین کی طرح۔
یورپ کے روسی نژاد حصوں پر قبضہ جماتے ہوئے پوٹن نے بھی عالمی نظام کی اسی ٹوٹ پھوٹ کو مدِّنظر رکھا ہے۔ وہ اقوامِ متحدہ کو مضبوط نہیں بنانا چاہتے، ان کا خواب ایک ایسے ’’یوریشیا‘‘ (Eurasia) کا ہے جس پر روس کی بالادستی ہو۔ مغرب کے دلائل واپس اس کے منہ پر مارتے ہوئے، انہوں نے کرائمیا کے الحاق کو امریکا اور نیٹو پر یہ الزام لگاکر جائز قرار دیا کہ ان دونوں نے ۱۹۹۹ء میں کوسوو میں سلامتی کونسل کی آشیرباد کے بغیر فضائی جنگ چھیڑ کر یہ نظیر قائم کی تھی۔ حالانکہ یہ کارروائی کوسوو کے البانی باشندوں کی سربیا کے ہاتھوں نسل کشی کے تناظر میں کی گئی تھی، یوکرین میں پوٹن کے پِٹھو وکٹر یانوکووِچ جیسے کسی بدعنوان رہنما کے خلاف عوامی احتجاج کو دبانے کے لیے نہیں۔ پوٹن اشارے دے رہے ہیں کہ وہ سلامتی کے اُس سانچے کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے جسے ان کے بقول امریکا نے پندرہ برس قبل تباہ کرنا شروع کردیا تھا۔ یہ بے حسی اور لاتعلقی کا ایک کھیل ہے جس کی بابت وہ جانتے ہیں کہ یہ دنیا کو ٹھگوں کے لیے محفوظ بنادے گا، مگر بہرحال یہ بات اس حد تک تو حقیقت بن چکی ہے کہ یورپ کو مسلسل غیر متوازن رکھ سکے۔
مغرب، روس کے خلاف پابندیوں کے نئے سلسلے پر راضی ہوچکا ہے جو مخصوص اشخاص سے لے کر معاشی و دیگر اداروں تک دراز ہوگا۔ یورپی یونین کے ۲۸؍ارکان کے مابین اور خود یورپ اور امریکا کے درمیان اتحاد بہت سوں کی پیشگوئیوں سے زیادہ بہتر ظاہر ہوا ہے، لیکن اس کی بنیاد ایک ایسے کلیے پر ہے جس نے اب تک پوٹن کو کہیں زیادہ فائدہ پہنچایا ہے، یعنی نیٹو کی براہِ راست مداخلت خارج از امکان ہے۔ جبکہ روس بار بار، کھلے بندوں مداخلت کرتاہے اور وہ بھی بھاری ہتھیاروں، اسلحہ بردار گاڑیوں اور بے نشان فوجیوں کے ساتھ۔
یورپی یونین ایک اور ضعیف ادارہ ہے۔ زیادہ تر منجمد معیشتوں کا مجموعہ، جس پر کمزور پڑتی کرنسی اور سیاسی ابتری مستزاد ہیں۔ برسلز میں قائم یورپی پارلیمان کے مئی میں ہونے والے انتخابات میں دائیں اور بائیں بازو کی ان جماعتوں کو سبقت حاصل ہوئی جو یورپی یونین کو لاتعلقی کی حد تک کمزور دیکھنا چاہتی ہیں۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ متذکرہ سال کی خستہ سامانیوں نے واقعات پر قابو رکھنے کی کمزور ہوتی امریکی صلاحیت کو آشکارا کردیا ہے۔ نہ صرف اس کی طاقت استعمال کرنے کی صلاحیت و خواہش کو، بلکہ مطلق العنانیت اور شدت پسندی کا ابطال کرنے والی آزاد خیال جمہوریت کی پرکشش قوت کو بھی۔ صدر براک اوباما اور یورپ کے متعدد سربراہانِ حکومت اندرونِ ملک کم ہوتی مقبولیت اور بین الاقوامی تذبذب کا شکار ہیں، جبکہ پوٹن، ایردوان، چین کے ژی جن پنگ، بھارت کے نریندر مودی، اور دیگر مغرب مخالف قوم پرست رہنما حلقۂ اثر بڑھاتے جارہے ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں امریکی حدود جانچنے کے لیے ’’ہماری بچیوں کو واپس لاؤ‘‘ مہم کا تصور کیجیے، جسے دہشت گرد گروپ بوکو حرام (جس کے نام کا ترجمہ ’’مغربی تعلیم حرام ہے‘‘ بنتا ہے) کی جانب سے ۲۰۰ نائجیرین بچیوں کے اغوا کے بعد، متعدد معززین اور معروف ہستیوں کے ساتھ ساتھ وائٹ ہاؤس میں خود مِشل اوباما نے پروان چڑھایا۔ یہ اپریل میں ہوا تھا اور بچیاں اب تک بازیاب نہیں ہوسکیں، جبکہ ہیش ٹیگ کی مقبولیت غزہ اور آٹزم کے موضوعات کو اپنا چکی ہے۔
اوباما کی خارجہ پالیسی ان کے دوسرے دور میں محتاط، متضاد اور کبھی کبھی بے جان سی رہی ہے۔ اور امریکی عقاب مذکورہ سال کے تشدد کا الزام انہی پر ڈالتے ہیں کہ انہوں نے کمزوریوں کا مظاہرہ کرکے دنیا کے پوٹنز اور بغدادیوں کی جرأتوں میں اضافہ کیا ہے۔ مگر جیسا کہ مائیکل اگناٹیف نے حال ہی میں لکھا ہے کہ اس سے یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ ایک سمجھدار امریکی انتظامیہ، تشدد اور نفرت کے آتش فشانی دباؤ کی وجہ سے سرکتے ورلڈ آرڈر کی زیرِ زمین تہوں کو ایک دوسرے سے پیوست رکھ سکتی تھی۔ ہوسکتا ہے داعش نے ۲۰۱۱ء کے بعد عراق سے امریکی انخلا کا فائدہ اٹھایا ہو، لیکن اس کی طاقت کا محور عراق اور شام میں بدتر طرزِ حکمرانی اور انتشار اور اس کے ساتھ ساتھ ہر دکھ کے مداوے کے طور پر جہاد ازم کا ناقابلِ تسخیر مسلم نظریہ ہے۔ اوباما کے لیے پوٹن کی ظاہری حقارت نے ممکن ہے کرائمیا کے الحاق میں کوئی کردار ادا کیا ہو، لیکن ۲۰۰۸ء میں جارجیا میں لڑی جانے والی ان کی پہلی الحاقی جنگ جارج ڈبلیو بُش کے دورِ صدارت میں چھیڑی گئی تھی۔ اس وقت کوئی یہ سنجیدگی سے باور نہیں کر سکتا تھا کہ بُش کی قوم پرستی، جس میں امریکی سرمائے، وقار اور جانوں کا ضیاع ہوا، تنگ نظر حکومتوں، فرقہ وارانہ تشدد اور شدت پسندی کو روکنے کے لیے اتنا بھی کر پارہی تھی، جتنا اوباما نے اس کے نتیجے میں پیدا ہوانے والے انحطاط کو روکنے کے لیے کیا۔ ایک صدی کا خاتمہ، جس میں امریکی صدی بھی شامل ہے، بہت عرصے سے متوقع تھا۔
عالمی جنگوں کے بعد کا بین الاقوامی نظام امریکی جمہوریت کی مدد سے فعال اداروں، مشترکہ خوشحالی اور عوامی امید پرستی کے دور میں تشکیل پایا۔ اس نئی صدی کی عالمی ابتری میں امریکا کے اندرونی انتزاع نے مدد بھی کی اور ساتھ بھی دیا۔ امریکی معیشت، چاہے خوشحال ہو یا بد حال، مراعات کی زیادہ سے زیادہ غیر منصفانہ تقسیم پر انحصار کرتی ہے۔ امریکیوں کی بڑی تعداد اپنے بچوں کے مستقبل پر اعتماد کھو چکی ہے۔ امریکا اب اس حالت میں نہیں رہا کہ اپنی اقدار ظاہر کرکے یا کسی پر تھوپ کر اپنی بات منوا سکے۔ وہ دن، جوکہ پہلے بھی مسائل سے پُر تھے، اب جاچکے ہیں۔ لیکن آزاد خیالی کے وہ تصورات جنہوں نے گزشتہ صدی میں لاکھوں لوگوں کو دنیا بھر میں آزادی، تحفظ اور امید عطا کی، وہ اس صدی میں بھی ناگزیر ہیں۔ امریکا ان تصورات کا بہترین پرچار کرسکتا ہے، اگر وہ اپنی جمہوریت کو لاحق بیماریاں دور کرلے۔
(مترجم: حارث بن عزیز)
“The birth of a new century”.
(“Foreign Policy”. Nov-Dec. 2014)
Leave a Reply