
پانی پت کی تیسری جنگ کے ہیرو، ہندوستان میں امیر الامراء کے منصبِ جلیلہ پر فائز رہ کر تقریباً دس سال تک سلطنتِ دہلی کا کاروبار چلانے والے روہیلہ نواب نجیب الدولہ کا شہر نجیب آباد جہاں اپنے قلب میں روہیلوں کے عروج و زوال کی داستان چھپائے ہوئے ہے، وہیں جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء میں آزادی کا عَلم بلند کرنے والے مجاہدین آزادی کی رزم گاہ کے طور پر بھی اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اسی تاریخی شہر نجیب آباد کے آسمانِ علم و ادب پر ایک ایسا روشن ستارہ بیسویں صدی کے نصف اوّل میں نمودار ہوا جس کی ضیا باریوں سے آسمانِ اردو کا تاریخی ادب آج بھی مزیّن ہے۔ مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی کا نام یوں تو کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے اس لیے کہ ان کی ’’تاریخِ اسلام‘‘ اپنے زمانۂ تصنیف سے لے کر آج تک اسی طرح کے دور میں رہی ہو گی لیکن مولانا موصوف نے علم و ادب اور تاریخ نگاری میں جس بے بہا خزانے کا اضافہ کیا اور جو اعلیٰ خدمات انجام دیں، موجودہ نسل اُن سے ناواقف ہے۔ اس لیے خیال پیدا ہوا کہ مولانا مرحوم کی مشہور تصانیف کا ایک اجمالی تعارف ان کے ہم عصر اخبارات و جرائد کے تبصروں کی روشنی میں عوام کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ موجودہ نسل کو اس عظیم مورخ اور صاحبِ قلم کے علمی کارناموں سے واقفیت حاصل ہونے کے ساتھ اس زمانے کی اردو صحافت کا بھی تعارف حاصل ہو سکے۔
اکبر نجیب آبادی نے اپنی تصانیف کی اشاعت کے لیے ایک مکتبہ ’’عبرت‘‘ کے نام سے نجیب آباد میں قائم کیا تھا جس کے منیجر مولانا کے شاگرد محمد ایوب خاں تھے۔ محمد ایوب خاں مکتبہ کے اغراض و مقاصد کا تذکرہ کچھ یوں کرتے ہیں: ’’مکتبہ عبرت‘‘ ایک دینی و تبلیغی کتب خانہ کا نام ہے۔ اس کے تمام کاروبار میں تجارتی اصولوں کو نہیں بلکہ تبلیغی اور اصلاحی ضرورتوں کو ہر حالت میں مقدم رکھا جاتا ہے۔۔۔ مولانا ممدوح نے اپنی زندگی صرف انہی کتابوں کی تصنیف و تالیف کے لیے وقف کر دی ہے جو مسلمانوں کی قوم کو نفع پہنچانے والی ہوں اور جن کا مطالعہ قوم میں زندگی اور روح پیدا کر سکے‘‘۔
اس تبلیغی اور اصلاحی مشن میں مولانا کو کبھی کبھی مالی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا تھا۔ اس بارے میں محمد ایوب خاں کہتے ہیں: ’’ہر نئی کتاب کی اشاعت کے وقت مصارف کے لیے مولانا ممدوح کو قرض لینا پڑتا تھا۔ کبھی کبھی گھر کا نہایت ضروری سامان بھی فروخت کرنے کی نوبت آجاتی تھی۔ پھر کتاب فروخت پر قرض بھی ادا ہو جاتا اور سامان بھی خرید لیا جاتا تھا۔ مکتبہ میں کتابوں کی قیمتیں بھی عام بازاری نرخ سے گراں نہیں بلکہ ارزاں رکھی گئی ہیں۔ فروخت شدہ کتابوں پر مصارفِ ضروریہ منہا کر کے منافع کی قیمت کے برابر کتابیں ہمیشہ مستحق لوگوں کو مفت پہنچا دی جاتی ہیں‘‘۔
مذکورہ بالا بیانات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا موصوف نے اشاعتِ دین اور اصلاحِ قوم کی خاطر ایک مشن کے طور پر یہ مکتبہ قائم کیا تھا۔ آیئے اب مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی کی اہم تصانیف کا تعارف ان کے ہم عصر اخبارات اور جرائد کے تبصروں کی روشنی میں حاصل کریں۔
’’آئینۂ حقیقت نما‘‘: یہ کتاب اوّل اوّل ۱۹۲۶ء میں شائع ہوئی اور بہت جلد نایاب ہو گئی۔ ۱۹۲۷ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔ اس کتاب پر ’’اخبار تنظیم‘‘ امرتسر (ایڈیٹر ڈاکٹر کچلو اور مولانا قریشی) نے اپنی ۲۸ اگست ۱۹۲۶ء کی اشاعت میں اس طرح تبصرہ کیا۔۔۔ ’’آپ نے حال ہی میں ’آئینہ حقیقت نما‘ کے نام سے ایک مبسوط تاریخی کتاب شائع فرمائی ہے جس میں حضرت محمد بن قاسمؒ سے لے کر خلجی بادشاہوں تک کے حالات رقم فرمائے ہیں اور یہ امر مخصوص طور پر واضح کیا ہے کہ ان سلاطین نے اپنے زمانے میں ہندوئوں کے ساتھ کیسے انصاف، عدل، مساوات اور رواداری کا سلوک کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے ان اعتراضات کا جواب بھی دیا ہے جو ہندوئوں کی طرف سے ہر ایک مسلمان بادشاہ پر کیے گئے ہیں‘‘۔
اخبار روزنامہ ’’زمیندار‘‘ لاہور اپنی ۲۸ ستمبر ۱۹۲۶ء کی اشاعت میں لکھتا ہے: ’’موجودہ دور میں مشہور مؤرخ مولانا اکبر شاہ بطور خاص مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ہندوئوں اور مسلمانوں کے تعلقات کے متعلق ایک مستقل کتاب مرتب فرما دی جو ۷۰۰ء سے ۱۸۰۰ء تک کے حالات پر مشتمل ہے۔۔۔ جس میں محمد بن قاسمؒ، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور خاندانِ غلامان کے ماتحت ہندوئوں کے ساتھ مسلمانوں کے حسنِ سلوک کے اہم واقعات یکجا کر دیے گئے ہیں۔۔۔ جس کے مطالعے سے تمام تاریخی غلط فہمیوں اور غلط بیانیوں کا قطعی طور پر اِزالہ ہو جاتا ہے۔ ہندو بھائی اگر اس کتاب کو ملاحظہ فرمائیں اور انصاف سے کام لیں تو وہ لایعنی الزام تراشیوں سے کنارہ کش ہو کر مسلمانوں کی طرف حقیقی دوستی کا ہاتھ بڑھانے میں اپنے آپ کو مجبور پائیں گے‘‘۔
اسی تصنیف پر اسی طرح کے تبصرے اور ریویو اخبار ’’مدینہ‘‘ بجنور نے ۱۳ اگست ۱۹۲۶ء اور ’’ترجمان سرحد‘‘ راولپنڈی نے ۱۴ اگست ۱۹۲۶ء کی اشاعت میں کیے۔ اس کے علاوہ اخبار ’’الخلیل‘‘ بجنور، اخبار ’’انیس‘‘ لدھیانہ، ماہنامہ رسالہ ’’نگار‘‘ بھوپال، اخبار ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی، جریدہ ’’امارتِ شرعیہ‘‘ پھلواری شریف بہار، اخبار ’’نصرت‘‘ فیروز پور پنجاب، اخبار روزنامہ ’’سیاست‘‘ لاہور، روزنامہ ’’انقلاب‘‘ لاہور، روزنامہ ’’ہمدرد‘‘ دہلی وغیرہ نے ’’آئینہ حقیقت نما‘‘ پر ریویو شائع کیے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا اکبر شاہ خاں کی یہ تصنیف کس اہمیت کی حامل تھی۔
’’قولِ حق‘‘ جس کو اکبر نجیب آبادی نے تصنیف کیا۔ اس کی اشاعت کے موقع پر اخبار ’’مدینہ‘‘ بجنور نے اپنی ۲۸ جنوری ۱۹۳۰ء کی اشاعت میں اس طرح اظہارِ خیال کیا: ’’مسلمانانِ عہدِ حاضر سے ہر اچھی چیز کیوں رخصت ہو رہی ہے ؟ اور ہر برا وصف ان میں کیوں ترقی کر رہا ہے؟ اکبر نجیب آبادی نے اس سوال کا صحیح اور سچا جواب دیا ہے۔ اس سے تو کسی شخص کو انکار نہیں کہ مسلمان کتاب و سنت سے بہت دور جا پڑے ہیں لیکن بعد و ہجر کس طرح عمل میں آیا؟ وہ کون سے عناصر تھے جن کی سازش سے مسلمانوں پر یہ آفت نازل ہوئی؟ اس کا جواب ایک مؤرخ ہی دے سکتا ہے اور مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی نے قولِ حق میں اس کا نہایت عبرت انگیز، سبق آموز اور بصیرت افروز جواب دیا ہے‘‘۔
قولِ حق پر اسی طرح کے تبصرے اور ریویو روزنامہ ’’زمیندار‘‘ لاہور، ’’سیاست‘‘ لاہور، ’’انصاف‘‘ لاہور، روزنامہ ’’اخبار‘‘ بریلی، روزنامہ ’’رہبر‘‘ دکن، ’’الجمعیۃ‘‘، ’’نظام المشائخ‘‘ دہلی، ’’پیشوا‘‘ دہلی، ’’نگار‘‘ لکھنؤ اور رسالہ ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ نے بھی شائع کیے۔
’’وید اور اس کی قدامت‘‘: اور گائے اور اس کی تاریخی عظمت کے عنوان پر بھی مولانا نے دو مشہور کتابیں تصنیف فرمائیں اور تاریخی دلائل کے ساتھ دونوں موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ان دونوں کتابوں پر بھی اس زمانے کے مشہور اخبارات نے اپنے تبصرے شائع کیے۔
’’حجۃ الاسلام‘‘ ۱۹۲۵ء میں مولانا اکبر نجیب آبادی کی معرکۃ الآرا تصنیف منظرِ عام پر آئی۔ روزنامہ ’’انقلاب‘‘ لاہور نے یکم مئی ۱۹۲۷ء کی اشاعت میں اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’کتاب کا مقدمہ جو چالیس صفحات پر مشتمل ہے، دہریت کے عقائد کے لیے وقف ہے‘‘۔ روزنامہ ’’زمیندار‘‘ لاہور ۲۸ فروری ۱۹۲۵ء کی اشاعت میں کتاب کی افادیت کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہے: ’’یہ کتاب انسدادِ ارتداد اور تبلیغِ اسلام کا ایک باقاعدہ نصاب ہے جس کے اسباق اس قابل ہیں کہ تمام مسلمان انھیں پڑھیں، یاد رکھیں اور اغیار تک پہنچائیں‘‘۔ اخبار ’’تنظیم‘‘ امرتسر اپنے ۲۹ مئی ۱۹۲۷ء کے شمارے میں کالج کے اساتذہ، پرنسل اور پروفیسر صاحبان سے اپیل کرتا ہے کہ وہ حجۃ الاسلام کو اسلامیہ مکاتب و مدارس کے نصابِ دینیات میں شامل کرنے کے سوال پر غور فرمائیں۔ مذکورہ تصنیف کے متعلق ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ شاعرِ مشرق نے کچھ اس طرح اظہارِ خیال فرمایا تھا: ’’حجۃ الاسلام کا میں نے ابھی مطالعہ کیا ہے۔ عام پڑھنے والوں کے لیے اس سے بہتر کتاب شاید لکھی گئی ہو، طرزِ بیان نہایت ہی دلکش اور سادہ ہے۔ میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اس زمانے میں بہت ضروری ہے کہ مسلمانانِ ہند حقائقِ اسلام کو عام فہم پیرائے میں اقوامِ ہند کے سامنے پیش کریں۔ بحث و تحقیق کا جو انداز آپ نے اختیار کیا ہے، نہایت ہی عمدہ نتائج پیدا کرے گا۔ تبلیغ و تحقیق کا گُر یہی ہے کہ عام انسانوں کی فہم اور حِسیاتِ قلبی کو ملحوظ رکھا جائے۔ ہندی بھاشا میں بھی اس کی اشاعت ہو تو خوب ہے‘‘۔
تذکرۂ تصنیف مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی نامکمل ہی نہیں بے معنی ہو گا اگر آپ کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’تاریخِ اسلام‘‘ کا ذکر نہ کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا موصوف کی تاریخِ اسلام فنِ تاریخ کا ایک ایسا شاہکار ہے جس میں دورِ جدید کی تاریخ نگاری کے تمام اصولوں کو مدِنظر رکھ کر اہلِ عرب کی قبل از اسلام حالت سے لے کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ، خلفاے راشدینؓ کی تاریخ نہایت سلیس اور صاف پیرائے میں بیان کی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ اسلامی حکومت کے مسئلے پر بھی اظہارِ خیال کیا گیا۔ مولانا نے اپنے طرزِ نگارش سے تاریخ جیسے خشک مضمون کو واقعات کے موازنے، عبارت کے تسلسل، اسباب اور ان کے نتائج پر بحث کے ذریعے انتہائی صاف اور سلیس پیرائے میں بیان کر کے دلچسپ بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی کی ’’تاریخِ اسلام‘‘ آج بھی اتنی ہی مقبول اور مشہور ہے جتنی ان کی حیات میں رہی ہو گی۔ اس تصنیف کے متعلق اخبار ’’مدینہ‘‘ بجنور نے اپنی جولائی ۱۹۲۵ء کی اشاعت میں ایک تاریخی جملہ لکھا: ’’شاید اردو کے دامن میں کوئی پونجی ہے تو وہ صرف ’’تاریخِ اسلام‘‘ ہے۔ اسی طرح ’’تاریخِ اسلام‘‘ جلد اوّل پر تبصرہ کرتے وقت اخبار ’’زمیندار‘‘ نے اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیا تھا: ’’اگر مولانا نے اس سلسلے کو مکمل کر دیا تو زبان اردو میں تاریخِ اسلام پر یہ کتاب ایک نعمتِ عظمیٰ ہو گی‘‘۔
ان مذکورہ کتب کے علاوہ مکتبہ عبرت نجیب آباد نے مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی کی اور بھی بہت سی کتابیں شائع کیں جن کے نام اس طرح ہیں: ’’سپاہیانہ زندگی‘‘، ’’اکابرِ قوم‘‘، ’’خواص خاں ولی‘‘، ’’خاں جہاں لودھی‘‘، ’’جنگ الگورہ‘‘، ’’نواب امیر خاں‘‘، ’’مسلمانان اندلس‘‘، ’’تاریخ مراہٹہ‘‘، ’’ورزشِ جسمانی‘‘ اور ’’تاریخ نجیب آباد‘‘۔ منیجر مکتبہ عبرت نجیب آباد نے اس مکتبہ سے شائع ہونے والی کتب کی ایک فہرست دعوت الی الخیر کے نام سے شائع کی تھی۔ اس مضمون کے تمام حوالے اسی فہرست سے ماخوذ ہیں۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: ۲۸ فروری ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply