بہت سے مبصرین کے نزدیک مصر میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیاں ۱۹۵۴ء کے واقعات سے ملتی جلتی ہیں۔ تب سیاسی عوامل بھی یہی تھے اور ایشوز بھی ایسے ہی تھے۔
تب بھی فوجی بغاوت کے سرغنہ میجر جنرل نجیب اور انقلابی کمانڈ کونسل (آر سی سی) میں اس کے ساتھی کرنل جمال عبدالناصر کے درمیان رَسّا کشی تھی۔ یہ تنازع ۲۵ فروری ۱۹۵۴ء کو اس وقت منظرِ عام پر آیا جب آر سی سی نے میجر جنرل نجیب کے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ راتوں رات ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ ملک میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ مظاہرین کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ صدر کو غیر مشروط طور پر بحال کرکے اختیارات سونپے جائیں اور ساتھ ہی پارلیمان کو بھی بحال کرکے سیاسی عمل میں بالا دست کیا جائے۔
احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو پھر کسی کے روکے نہ رک سکا۔ میجر جنرل نجیب کو بحال کرنے سے بھی بات نہ بن سکی۔ اس نے ابدان محل کے جھروکے سے اپیل کی کہ لوگ گھروں کو چلے جائیں مگر وہ نہ گئے۔ آخرکار اخوان المسلمون کے مقبول رہنما عبد القادر عودہ سے درخواست کی گئی کہ وہ مظاہرین کو گھروں میں جانے کے لیے کہیں۔ ان کی شخصیت خاصی متاثر کن تھی۔ ان کے کہنے پر لوگ گھروں کو چلے تو گئے مگر جو لوگ عوام کو سڑکوں پر لائے تھے، انہیں یہ بات بھائی نہیں۔ انہوں نے بالآخر ایسے حالات پیدا کیے کہ عبدالقادر عودہ کو سزائے موت کا سامنا کرنا پڑتا۔ جو لوگ تمام حالات اور واقعات کو جانتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ عبدالقادر عودہ کو آخری لمحے تک یقین تھا کہ اُنہیں سزائے موت نہیں دی جاسکے گی۔ اب مصر ایک بار پھر مظاہروں کی زَد میں ہے۔ احتجاج کا سلسلہ شروع کرایا گیا ہے۔ جو لوگ اس تماشے کے پیچھے ہیں، وہ کسی بھی حالت میں نہیں چاہتے کہ احتجاج کرنے والے گھروں کو واپس جائیں۔ وہ اس صورتِ حال کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اب کوئی بھی احتجاجی تحریک کو روکنے کے لیے میدان میں آنے کو بظاہر تیار نہیں۔ ۳ جولائی کو محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے اب تک مصر میں مظاہروں کا زور نہیں ٹوٹا ہے۔ ہزاروں افراد اب بھی کسی نہ کسی شکل میں سڑکوں پر ہیں۔ پورے ملک کو احتجاجی مُوڈ نے جکڑ رکھا ہے۔
جن قوتوں نے جمہوریت کی بساط لپیٹی ہے، وہ اب اخوان المسلمون کو سبق سکھانے میں دشواری محسوس کر رہے ہیں۔ ۱۹۵۴ء میں اخوان المسلمون معاملات کو زیادہ لچک کے ساتھ لیتی تھی اور مصلحت کو سمجھتے ہوئے نرمی اختیار کرنے میں دلچسپی لیتی تھی۔ اب اخوان کا مزاج بدل چکا ہے۔ آج اخوان کے کارکن اور رہنما ہر معاملے میں سمجھوتہ کرنے کے موڈ میں نہیں۔ جنرل عبدالفتاح السیسی اور اس کے ساتھیوں کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ اخوان المسلمون اور دیگر سیاسی قوتوں کی طرف سے اس نوعیت کی مزاحمت کا سامنا ہوگا۔
ایک مصری فوج پر کیا موقوف ہے، علاقے میں طاقت کا کھیل کھیلنے اور کھلانے والے اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی بساط کے مہروں کو بدلنے والے بھی حیران ہیں کہ اس بار اخوان المسلمون کی طرف سے غیر معمولی مزاحمت کا سامنا ہے۔ اب تک تو یہ ہوتا آیا ہے کہ کوئی بھی مصیبت پڑتی تھی اور اخوان ہتھیار ڈال کر ہر سزا قبول کرلیتی تھی۔ اس کی طرف سے مزاحمت کم کم ہی ہوتی تھی۔
اخوان المسلمون نے بالآخر پالیسی بدل لی ہے۔ اس کے ڈپٹی سپریم لیڈر خیراۃ الشاطر نے جیل میں امریکی سربراہی میں آنے والے بین الاقوامی وفد سے ملاقات سے انکار کردیا۔ یہ بڑی تبدیلی ہے۔ صدر محمد مرسی نے جسے وزیر دفاع مقرر کیا تھا اسی کے باغیانہ اقدام کو قبول کرنے سے انکار کرکے یہ اشارہ دیا کہ اخوان اب اپنی پالیسی تبدیل کرچکی ہے۔
بہت سے عوامل ہیں جنہوں نے مل کر اخوان المسلمون کو پالیسی بدلنے کی تحریک دی ہے۔ اخوان کو اندازہ ہے کہ اب اسے عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اس نے ۲۰۱۱ء سے اب تک مجموعی طور پر پانچ انتخابات جیتے ہیں۔ اس کی لیڈر شپ کو اندازہ ہے کہ ملک میں اس کے حق میں بولنے والوں کی تعداد بڑھی ہے۔ یہ ایسی سچائی ہے جو اخوان المسلمون کے مخالفین قبول اور ہضم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اخوان کی صفوں میں بھی یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اس مرحلے پر اگر اصولوں پر کوئی سمجھوتہ کرلیا گیا تو اس سے صرف مصر میں نہیں بلکہ پورے خطے میں اسلامی تحاریک کو شدید دھچکا لگے گا۔ متحدہ عرب امارات اور دیگر علاقائی ممالک میں اسلام پسند عناصر کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ اسلام پسندوں کو جیل بھیجا جارہا ہے اور مختلف پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔ تیونس میں بھی سابق اسٹیبلشمنٹ واپسی کے لیے پر تول رہی ہے۔ غزہ کی پٹی میں حماس کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسے میں لچک کا مظاہرہ اسلامی تحاریک کو غیر معمولی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اخوان المسلمون کا موقف یہ ہے کہ وہ صرف مصر میں اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کا سامان نہیں کر رہی بلکہ پورے خطے میں اسلامی تحاریک کے فروغ کی گنجائش پیدا کرنا چاہتی ہے۔ اگر غیر ضروری لچک دکھائی گئی تو صرف خرابی پیدا ہوگی۔ اگر اس مرحلے پر خوف کا مظاہرہ کیا گیا تو مخالفین (جہادی تنظیموں) کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ جمہوریت میں کچھ نہیں رکھا، جو کچھ بھی حاصل کرنا ہے، وہ طاقت ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں جہادی تنظیموں کو یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقع بھی ملے گا کہ عرب دنیا میں بیداری کی لہر لاحاصل رہی ہے کیونکہ جس جمہوریت کے کاندھے پر سوار ہوکر حقیقی نمائندگی کی منزل تک پہنچنے کی بات کی جارہی تھی وہ جمہوریت اب تک کمزور ہی ثابت ہوتی آئی ہے۔
آج اخوان المسلمون اور دیگر اسلامی تحاریک نازک موڑ پر کھڑی ہیں۔ یہ بقا کی جنگ نہیں کیونکہ نظریات مرتے نہیں۔ سوال یہ ہے کہ بدلتی ہوئی صورتِ حال میں اخوان اور دیگر اسلام پسند تنظیمیں کیا کریں گی۔ مصر میں منتخب حکومت کا تختہ الٹنے والے اگر کسی سمجھوتے تک پہنچنے پر آمادہ نہ ہوئے تو مصر میں طویل خون خرابے کی راہ ہموار ہوگی۔ ملک مزید عدم استحکام سے دوچار ہوگا۔ ایران میں بھی ۱۹۷۷ء میں معمولی سے مظاہروں سے سب کچھ شروع ہوا۔ ۱۹۷۹ء تک عوام کو کنٹرول کرنا حکومت کے بس کی بات نہ رہی۔
اگر مصر میں فوجی بغاوت برپا کرنے والوں نے حالات سے سبق نہ سیکھا اور نوشتۂ دیوار نہ پڑھا تو یہاں بھی ایران جیسے ہی حالات پیدا ہوں گے۔ جنرل السیسی کی برطرفی پر معاملہ نہیں ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا کہ امریکا اور اسرائیل کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے اور ملک چلانے کا چلن دم توڑ دے اور ایران کی طرح مصر کے عوام بھی کسی بھی بات کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوں۔ اخوان المسلمون کے پاس اب ڈٹے رہنے کے سوا آپشن نہیں۔ اگر اس نے غیر ضروری لچک دکھائی تو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
(“The Brotherhood’s Change of Strategy could be the best Yet”… “Middle East Monitor”. August 6, 2013)
Leave a Reply